Dec 28, 2011

پیار سے ڈر لگتا ہے

سننے میں اچھا لگتا ہے یا شائد کسی کو برا لگتا ہے ۔ معصومیت بھرا لفظ ہے پھر اس سے کیوں ڈر لگتا ہے ۔ ڈھو نڈنے پیار کو یہاں آ گئے ۔ الفاظ کڑوی گولی کی طرح مفہوم مسیحائی میں سما گئے ۔
بیماری پنپتی جزبات میں گھائل روح تمازت سے ہے ۔ کھلی آنکھوں سے نظر میں سمائے تو بند آنکھوں سے دل میں اتر جائے ۔ پھر ڈرنے کی وجہ سمجھ سے باہر ہے ۔ اگر سمجھنا یہ ہے تو ایک جملے کو اتنی پزیرائی کیوں ۔ تپھڑ سے ڈر نہیں لگتا پیار سے لگتا ہے ۔ تپھڑ سے آنکھوں میں اندھیرا چھا جاتا ہے تو پیار سے عقل پہ پردہ ۔
نفرت آگ کی حدت ہے جو جلا نہ پائے تو پھگلا ضرور دیتی ہے ۔ مگر پیار ڈوری کی مانند دوسِروں کو باہم باندھ دیتا ہے ۔
ایک ایسی روشنی جو آفتاب کی مہتاب پر پڑیں تو چاہے پہلی کا چاند بنا دیں یا چودھویں رات کی چاندنی ۔ مہتاب کرنوں کی محبت سے محروم ایک پل کے لئے بھی نہیں رہتا ۔
مگر دل ایسی زمین ہے جو حالات و موسمی اثرات کے زیر اثر سچی روشنی کی نعمت سے بھی کبھی کبھار محروم رہ جاتا ہے ۔ نفرت ، ہوس و حرص کے بادل تہہ آب سے جزبات کی بلندی کو چھو کر برس جاتے ہیں ۔ آسمان سے برسیں تو گرد و غبار کی کثافت چھٹ جاتی ہیں ۔ آنکھوں سے برس کر دل کے غبار کو نکال باہر کرتی ہیں ۔
ان باتوں سے تو پیار سے ڈر کا تعلق واضح نہیں ہوتا ۔کیا ایسا سوچتے ہیں ہم ۔
زمین کی محبت میں گرفتاری کا خوف کبھی پاس سے بھی نہیں گزرتا ۔ مگر یہی زمین زلزلہ ، سونامی ، ہریکین سے اپنا وجود سمجھائے تو خوف میں جکڑے جاتے ہیں ۔ ہماری سوچ ، ہماری زندگی حالات کے رحم و کرم پر بند بادبان کی کشتی جیسی ہے جو ہوا کے دباؤ کو برداشت کرنے سے قاصر ہے ۔
جو زندگی سے پیار کرتے ہیں وہ فنا ہونے سے ڈرتے ہیں ۔ مگر فنائی صفت پر جان نچھاور کرتے ہیں ۔ دن رات ہوس و حرص کی روشنی سمیٹتے ہیں ۔ جو پیدا اس پانی سے ہوتی ہے جس کی قدر نخلستان میں بھٹکے مسافر سے زیادہ کس کو ہو گی ۔
اللہ تبارک تعالی کی نعمتیں ہزارہا ہیں ۔ انسان گنتا وہی ہے جو مادیت پر ہوں ۔ بدن میں حرارت 98.6 سینٹی گریڈ تک کسی شمار میں نہیں ۔ حلق کے نوالے گنتی میں ہیں مگر سانس کی آمدورفت صرف علامت ہے ۔ تیز رفتاری میں قابل توجہ ہوتی ہے ۔
محبت کی تاریخ کو افکار کے آئنے میں تلاش کریں تو عکس لگن سے ملن ، قربت سے محبت تک بنتا ہے ۔ اگر نظریات سے کھوج کریں تو شکوہ سے شکایت ، حقیقت میں روایت کا عکس بنتا ہے ۔ حال کی جوانی کو ماضی کے بچپن سے کشیدہ نہیں کیا جاتا ۔ محبت کو نفرت سے رنجیدہ نہیں کیا جاتا ۔ خوشی کو غم سے بینا و دیدہ نہیں کیا جاتا ۔ اوصاف کو وصف سے حمیدہ نہیں کیا جاتا ۔ جسے بھول جانے کا خوف ہو وہ عشق نہیں جسے سنبھال نہ سکو وہ بھی عشق نہیں ۔ جو خود میں سمو لے ۔ جو خود کو کھو دے وہ عشق ہے ۔
جو  فریاد سے نہ ہو اعتماد سے ہو ۔ارمان سے نہ ہو ایمان سے ہو ۔ طلب سے نہ ہو قلب سے ہو ۔ چھپ کر نہ ہو مگر چپ سے ہو ۔ انگاروں جیسا نہ ہو مگر ستاروں جیسا ہو ۔
ڈھونڈو ایسی محبت کو جو روٹھتی نہیں ۔ جس کی چاہ سے چاشنی نہیں جو عقیدت کے جنون سے لبریز ہے ۔ جو افتراء سے نہیں اقراء سے ہے ۔ جو زنگار سے نہیں ابرار سے ہے ۔ جو اسرار سے نہیں اقرار سے ہے ۔ جو عبد سے نہیں عابد سے ہے ۔ جو ابد سے نہیں احد سے ہے ۔ واحد کی محبت زاہد کا مقام ہے ۔ بیان میں جو نہ آئے وہی انعام ہے ۔


 تحریر !  محمودالحق

1 تبصرے:

کائناتِ تخیل said...


کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ پیار سے ڈر نہیں لگتا لیکن پیار کے اظہار سے اپنے آپ کے سامنے ہار جانے سے ڈر لگتا ہے،اپنی کمزوری کے اعلان سے ڈر لگتا ہے، سچ کہا جناب محمودالحق صاحب کہ عشق وہی ہے "جو فریاد سے نہ ہو اعتماد سے ہو ۔ارمان سے نہ ہو ایمان سے ہو ۔ طلب سے نہ ہو قلب سے ہو ۔ چھپ کر نہ ہو مگر چپ سے ہو ۔ انگاروں جیسا نہ ہو مگر ستاروں جیسا ہو"۔
ایسا عشق "عشق حقیقی کی لذت کا امین ہوتا ہے"۔

Post a Comment

سوشل نیٹ ورک

Flag Counter