May 31, 2010

اندھیروں میں روشنی سے اجالا

تحریر : محمودالحق

ہر نئے سفر میں منظر آنکھوں میں سماتا ہے تو خیال ذہن میں کھلبلی مچاتا ہے ۔اور قلم کاغذ پہ لفظوں سے پھولوں کی ردا بچھاتا ہے ۔سوچ کے نت نئے باب وا ہوتے ہیں ۔جو نہیں کھل پاتے وہ تجسس میں جستجو کی آمیزش رنگ سے امتزاج سے نکھار پاتے ہیں ۔ حیات جاودانی کے جادو تو صدیوں سے چلتے آرہے ہیں ۔ کرشمہ سازی سے شعبدہ بازی تک کے مراحل بآ سانی عبور کر لئے گئے ۔جو ان سے بچ گئے وہ ملمع سازی کی بھینٹ چڑھ گئے ۔فطرت آدمیت تغیر و تبدل کے فطری عوامل سے جلا پانے کی کوشش میں بہک کر بھٹکنے کی صلاحیت سے مالامال ہو گئی ۔لفظوں کی بساط میں ہر لفظ اپنے گھر میں پیادہ سے وزیر تک کے اختیار کے استعمال میں رکاوٹ و بندش تحفظ کا پابند رہتا ہے ۔جانثار تنہا آگے نہیں بڑھتے ۔بلکہ ایک کے بعد ایک راستہ کھلنے کا انتظار کرتے ہیں ۔کہ کہیں منزل تک پہنچنے کی جلدی میں اپنا گھر ہی نہ چھوٹ جائے ۔
در دستک >>

May 30, 2010

جینا جان سے زندگی

تحریر ! محمودالحق

جب میں نے لکھنا شروع نہیں کیا تھا تب کسی اردو ویب سائٹ سے شناسائی بھی نہیں تھی ۔صرف معاشرے میں ایک فرد کی حیثیت سے تماشائی کا روپ دھارے ہوئے تھے ۔وقت نے اس بات کا احساس دلایا کہ ہم تو صرف تماشا تھے ۔تھپکیوں سے ہی خوشی میں لوٹ پوٹ ہو جاتے ۔
اپنی ذمہ داریوں سے روگردانی کرنے والے تحسین کی سولی پہ چڑھاتے رہے ۔ جسے حسن اخلاق سمجھتے رہے وہ دراصل حالات کی نزاکت میں فرار کا محفوظ راستہ تھا ۔ان کے جانے کی قدموں کی چاپ تھپکیوں کی تھپ تھپ میں سنائی ہی نہ دے پائی ۔
در دستک >>

May 28, 2010

دغا انسان سے اٹھ میرا وفا ایماں گیا

دغا انسان سے اٹھ میرا وفا ایماں گیا
ظاہر سیرت فرشتہ اندر دیکھا ہو حیراں گیا

نام خدا سے ہے جنکو ملتا مقام عزت جہاں
قلب سیاہ سے جلتا دیا خود اپنے پہ قرباں گیا
در دستک >>

May 27, 2010

یادداشت کھو جانے والی بیماری الزائیمر کی علامات

آج سے چند سال پیشتر پاکستان میں بہت کم لوگ الزائیمر کے متعلق جانتے تھے۔سیمینار منعقد کئے جاتے رہے تاکہ عوام میں بیماری کے بارے شعور بیدار ہو ۔ یادداشت کھونے والی بیماری جو رفتہ رفتہ انسان کو اپنے بس سے باہر کر دیتی ہے ۔ غیر محسوس طریقے سے دماغ کے خلئے آہستہ آہستہ جسم کے اعضاء کو آزاد ی کے پروانے تھماتے چلے جاتے ہیں ۔اورصرف وہی اعضاء کام سرانجام دیتے رہتے ہیں ۔ جو دماغ کے تابع نہیں ہوتے ۔ورنہ تو ایک کے بعد ایک بغاوت کرتا چلا جاتا ہے ۔خودمختاری کے اعلان کے بعد وجود کو زندہ جسم کی بجائے گوشت کا لوتھڑا بنا دیتا ہے ۔
در دستک >>

فنا و بقا

تحریر : محمودالحق
زندگی سانس سے زندہ ہے اور پل سے رواں رہتی ہے ۔سانس تبھی محسوس کئے جاتے ہیں ۔جب پل اپنی روانی چھوڑ دیں ۔دیکھنے میں جو زندگی ہے وہ اس کی وجہ سے ہے جو اصل ہے ۔ وہ ساتھ ہوتے ہوئے بھی محسوس نہیں کیا جاتا ۔ سانس کے گننے اور انتظار میں شائد روانی رک جائے ۔اپنی دھڑکنیں دوسروں کو تو سنائی دیتی ہیں ۔اگر خود کا وجود سنائی دے جائے تو برداشت نہ کر پائیں ۔لہو رگوں میں دوڑتا رہے ۔ طعام سے انہظام تک ، خون کے بہاؤ سے اخراج تناؤ تک ۔کوئی بھی احساس بھاری پن کا احساس نہیں دلاتا ۔اور یہ سانس کی وجہ سے ہے ۔جو ہمیں ہر بوجھ کی اذیت سے بچا کر رکھتا ہے ۔جس کے اپنے احساس سے ہم بھاری پن کا شکار نہیں ہوتے ۔زندگی کے پل جسم سے تو جدا رہتے ہیں ۔مگر
در دستک >>

May 25, 2010

انٹر نیٹ کی دنیا آہنگ انگیز

عجب آہنگ تھا جس نے جگایا بھی سلایا بھی
کہ دل تو جاگ اٹھا آنکھوں میں غفلت نیند کی چھائی

کچھ عجب نہیں کہ لکھنا چاہیں اور کاغذ قلم سیاہی سے سیاہ بھی ہو ۔ مگر دیکھنے میں سفید ہی رہ جائے اگرپڑھنے والے کو تحریر کم غصہ زیادہ محسوس ہو ۔ لفظوں میں طنز کے نشتر نظروں میں چبھنے لگیں ۔کہیں کسی خیال میں دوسرے کی ہتک یا ذاتی عناد کی رنجش کا گمان ہو ۔ بندے تو اللہ کے ہیں مگر باشندےاس معاشرے کے ہیں جہاں زورآور کی زورآوری سے بچنے میں کمال مہارت حاصل کرنے میں زندگی کا ایک حصہ تجربات کی نظر ہو جاتا ہے ۔ جہاں کبھی خود میں ٹھیک ہوتے ہیں تو کبھی دوسرے غلط ہوتے ہیں ۔خود کا غلطی
در دستک >>

May 24, 2010

پھولوں سے ہی تم نے اتنے درد سہہ لئے

عرقِ عبادات سے گناہوں کو اپنے تم دھویا کرو
نازاں جو مقامِ دھن اپنے حال اُن کے تم رویا کرو


جل جل کر خاک پھونکوں سے بجھتے چراغ
مخمل شان میں عاجزی فقیری کو تم پرویا کرو
در دستک >>

May 20, 2010

بلیک اینڈ وائٹ

بچپن کی یادیں ذہن کےسینما پربلیک اینڈ وائٹ فلم کی طرح چلتی ہیں ۔جو کبھی بہ حالت مجبوری تو کبھی تفریح طبع کے لئے دیکھنے کا سبب ہوتی ہیں ۔ ایک زمانہ تھا ریڈیو پاکستان مقبول عام حصول معلومات کا زریعہ ہوتا تھا ۔ جب بوڑھے ریڈیو پر حکمرانوں کے عوام سے کئے گئے وعدوں پر عملدرآمد کا مژدہ سنتے ۔ اور ان کی طرف سے دئے گئے بیانات کو عوامی بھلائی کے منصوبوں کا نقطہ آغاز سمجھا جاتا ۔
نوجوان گلی محلے میں منڈلی جماتے اور منچلے اونچی آواز
در دستک >>

May 16, 2010

حدود و قیود

تحریر : محمودالحق
بدن پسینے سے شرابور ہو جاتا ہے اور زمین پاؤں سے کھسکتی ہوئی محسوس ہوتی ہے ۔ جب قدم ایک دوسرے سے آگے بڑھنے میں مقابلے پر اتر آتے ہیں ۔ پہلی بار جب سائیکل کے پیڈل پر پاؤں رکھ کر توازن قائم کیا تو دو پہیے دو پاؤں سے بہت زور آور محسوس ہوئے۔ مگر رفتہ رفتہ وہ بھی ایک رفتار کے بعد میری ہی توانائی کے استعمال پر اُتر آئے ۔گاڑی چلانے کے شوق سے زمین پاؤں تلے نکلنے کے نئے فن سے آشنا ہوئے ۔ نت نئے تجربات کے شوق میں ٹرین اور پھر جہاز تک کے سفر سے زمین پاؤں کے نیچے سے نکلنے میں جسمانی توانائی کے ضیائع سے آزاد ہو گئی ۔ ہاتھوں کے بل رینگنے
در دستک >>

May 14, 2010

زنجیرِ عدل کی گونج سوزِ گدا میں ہوں

زنجیرِ عدل کی گونج سوزِ گدا میں ہوں
رک جا تو سمے دردِ پکار کی صدا میں ہوں
در دستک >>

رات کی تنہائی سے بھٹکتا رہے

دن کے اجالوں میں رات کی تنہائی سے بھٹکتا رہے
ابرِ رحمت بنے برسات قطرہ قطرہ ٹپکتا رہے
در دستک >>

May 11, 2010

میرے گھر کے بادل گرج کر گزر گئے

میرے گھر کے بادل گرج کر گزر گئے
تیرے گھر کے بادل برس کر بکھر گئے

میری شاخِ شجر کے پتے اتر گئے
تیرے پھول بھی کھل کر نکھر گئے
در دستک >>

May 7, 2010

سبب کیا ہے

تحریر : محمودالحق
دیکھنے میں جو ایک رنگ نظر آتے ہیں۔ اپنی الگ الگ فطرت رکھتے ہیں۔ کوئی اگر سرد موسم کا عادی ، تو کسی کو گرم مرطوب ہوا مطلوب ہے۔ کوئی نرم مٹی میں سینچنا پسند کرتا ہے۔ تو کبھی کسی کو سنگلاخ چٹانوں کے سینے میں جم جانا فخر کا باعث ہو تا ہے ۔ہر بڑھتی شاخ میں جو نشہ ہے۔ وہ جڑ کی بدولت ہے۔ جو خاموشی سے سخت زمین ہو یا پتھر انہیں چیر کو رکھ دیتی ہے۔ ٹکر لینے کی اس کی وہی فطرت شاخوں اور ان پر لگے پتوں کو زندگی کی خوشیاں خوشبو سے بھری دیتے ہیں ۔ ہر آنکھ پھول پسند کرتی ہے۔ پنکھڑی کی نازکی پہ
در دستک >>

May 6, 2010

گر تو برا نہ مانے


محبت اور جنگ میں سب جائز ہے کا فارمولا دیکھتی آنکھوں اور سنتے کانوں سے ہمیشہ ہی سچائی کا منہ بولتا ثبوت رہا ہے ۔ لیکن جدید دنیا نے ان دو میں ایک تیسرا عنصر بھی شامل کر دیا ہے ۔جسے سیاست کے نام سے جانا جاتا ہے ۔جہاں یونین کونسل کی سیاست سے لیکر بین الاقوامی تعلقات میں سب جائز ہے کی طرز پر کہیں جمہوریت تو کہیں ڈکٹیٹر شپ کی شکل میں عوام الناس پر رقابت اور دشمنی کا لیبل چسپاں کر دیا گیا ہے ۔
محبت اور جنگ میں سب جائز تبھی ہوتا ہے جب وہ کسی
در دستک >>

May 5, 2010

تنہا رہتا میں خلق جہان تو اچھا تھا

تنہا رہتا میں خلق جہان تو اچھا تھا
رکھتا ان سے میں تعلق زبان تو اچھا تھا

میرا گھر مجھ کو پہلے ہی بیگانہ کر چکا
آباد رہو میرا آشیانہ ویران تو اچھا تھا


باد اُمنگ
در دستک >>

رہتی دنیا تک ہیں آباد پیغام حی علی الصلواۃ

رہتی دنیا تک ہیں آباد پیغام حی علی الصلواۃ
گونج کون و مَکاں بالِیدَگی حی علی الفلاح

قوم وطن سے تو ملت اسلامیہ سے علم بلند
وعدہ اس کا سچا إذا جاء نصر الله والفتح
در دستک >>

May 4, 2010

آسمان اس کا انوار اس کا نظارہ کس لئے

آسمان اس کا انوار اس کا نظارہ کس لئے
لہر اس کی طوفان اس کا کنارہ کس لئے

محبت میں ہو کینہ سنگ ہو سینہ تو زمانہ کس کا
کم ہو جینا سنگدار ہو مینہ الفتِ انگارہ کس لئے
در دستک >>

سوشل نیٹ ورک

Flag Counter