tag:blogger.com,1999:blog-90935835120830349372024-03-17T20:04:49.481-07:00در ِ دستک تحریریں اتنا گہرا اثر نہیں چھوڑتیں جتنا تخلیق گہرے نقوش چھوڑ جاتی ہےMahmood ul Haqhttp://www.blogger.com/profile/15663500585866206295noreply@blogger.comBlogger306125tag:blogger.com,1999:blog-9093583512083034937.post-4259784520803051002024-03-14T19:42:00.000-07:002024-03-14T19:44:52.740-07:00جستجوئے مقام<div dir="rtl" style="text-align: right;"><div style="text-align: justify;"><span style="font-size: medium;">موسم کی سختیوں سے بچتے بچاتے دنوں کو پھلانگتے سوچوں کے بستر بچھاتے زندگی کی تلخیوں سے نبردآزماہوتے دھیرے دھیرے آگے سرکتے ہیں ۔ذمہ داریاں آڑے ہاتھوں لیتی ہیں ارمان تجوریوں میں بند جواہرات کی طرح قید بےبسی میں اندھیروں سے اُلجھتے ہیں ۔زندگی مصور کی تخلیق ہوتی یا شاعر کی معشوق ،قلم سے رنگ بھر دیتے ۔بھیانک خواب کی تعبیر خوبصورت خیال میں نہیں ڈھل پاتی ۔</span></div><span style="font-size: medium;"><div style="text-align: justify;">سالوں بعد بھی درخت چند فٹ اونچائی اختیار کرتے ہیں اور خیال صدیوں کی مسافت طے کر کے بھی حقیقت نہیں بن پاتا۔آسمان نے تو زمین کو آزادی نہ دینے کی قسم کھا رکھی ہے ،انسان اس قید میں کتنا سرشار ہے کہ آسمان پر توجہ نہیں کرتا جو رات میں خواب دکھاتا ہے اور دن میں پریشان حقیقت کے تارے ۔زمین کی سختی سزا سے منسوب ہے جہاں پڑاؤ تفریح و طبع کے لئے نہیں بلکہ حکم عدولی کی سزا ہے۔</div></span><span style="font-size: medium;"><div style="text-align: justify;">پیدائش آدمیت کے لئے پیدائش انسانی نے نقل مکانی کی ،دانش و حکمت کے لئے ظہور عقل کا امتحان لیا ۔جن کے پاس جواب نہیں تھے وہ جھک گئے جس نے عبادت کو علم سے جدا جانا ،تکبر نے اسے نافرمانی کی سولی پرچڑھایا ۔حروف آسان ہوتے تو حروف تہجی امر ہو جاتے، علم ماخذ ہے تو حروف مقدس ۔علم وہ سمندر ہے جو شور میں آگے نہیں بڑھتا بلکہ خاموش رہ کر زمین کی تہہ میں اُبلتے آتش فشاں ٹھنڈے رکھتا ہے۔ جب جینا راستے میں آ جائے تو جان ہلکان ہو جاتی ہے، یہ زندگی ہے جس کا منصب ٹیڑھا ترچھا نہیں صراط مستقیم ہے۔ راستے گر کھلتے نہیں ،تو کیا حالات کا تقاضا ہیں یا سیدھے راستہ پر چلانے کی مشق۔</div></span><span style="font-size: medium;"><div style="text-align: justify;">آج سوال کیے تھے آج ہی جواب دے دئیے ،بچپن سے کہانی شروع کرنی تھی ،انجام کی اطلاع کر دی ۔انسان نے روبوٹ میں آرٹیفیشل انٹیلیجنس کا قصہ شروع کیا جو خود کی کاپی ہے۔ نیا تو وہ تھا جس نے ممنوعہ شجر تک پہنچنے کی سعی کی ۔معافی سزا سے مشروط ہے ،دوسروں کی دنیا اور اپنی زندگی کا مقابلہ اختیار آدمیت کا محتاج ہے ۔بنانے والے نے کیا کوئی کسر چھوڑی جو نئے رنگوں کی آرائش میں سلیقہ بھول بیٹھے۔ آگے بڑھنے کا حکم ہو تو بیٹھ رہنے میں کیا مصلحت ہے ۔خاموش رہنے میں عافیت ہے اگر آواز ارتعاش میں زرہ برابر اضافہ کر لے تو کانوں کے پردے اس فریکوئنسی کو برداشت کرنے کے قابل نہیں۔ ایک دنیا میں الگ الگ باسی اور تمام جہانوں کا صرف ایک جو آگے بڑھنے پر تھام لیتا ہے اور پیچھے ہٹنے پر جھنجھوڑ دیتا ہے ،چھوڑتا اسے ہے جسے بناتا نہیں جو ڈھل گیا وہ شکنجے میں کس گیا۔</div></span><span style="font-size: medium;"><div style="text-align: justify;">چلنا دستور سے ہے، ملنا مقام سے ہے ،رہنا جواز سے ہے ،جانا حکم سے ہے، آنا مقدر سے ہے ،جینا رضا سے ہے ۔جب اپنا کچھ نہیں تو حساب کیسا ۔ لوٹنا خالی ہاتھ ہو تو چلنے میں سر پر بھاری گٹھڑی کیسی۔</div></span><span style="font-size: medium;"><div style="text-align: justify;">امانت دار جن کی زمین ہے اسے اوپر لے جانا کیسا !انعامات کی دنیا کرامات کی دنیا سے الگ ہےجو نہ مانگے سے ملتی ہے نہ دینے سے ختم ہوتی ہے ۔شروع ہونے میں تاخیر کہاں ،دیکھنے والی نظر چاہئیے جو ایک پل میں یہاں سے وہاں پہنچا دے۔آنے والے سنبھل کر آتے ہیں ،پانے میں پھر بھی مشکل ہے ۔وقت طے کرنے سےمنزل تک مسافت پہنچاتی ہے ،پانے کی جستجو مقام کو سامنے لا کھڑا کرتی ہے ۔پہلادن کوئی نہیں ہوتا ،ہر دن نیا دن ہوتا ہے کیونکہ ایک پیچھے رہ جاتا ہے۔</div><div style="text-align: justify;"><br /></div></span><span style="font-size: medium;"><div style="text-align: justify;">تحریر! محمودالحق </div></span><span style="font-size: medium;"><div style="text-align: justify;"> </div></span></div>Mahmood ul Haqhttp://www.blogger.com/profile/15663500585866206295noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-9093583512083034937.post-90806225593240910582023-10-23T21:15:00.001-07:002023-10-23T21:15:45.225-07:00اجنبی خیال<div dir="rtl" style="text-align: justify; unicode-bidi: embed;"><div dir="rtl" style="unicode-bidi: embed;"><span style="font-family: Jameel Noori Nastaleeq; font-size: large;">راتوں کی طوالت نے دن کے اجالوں کو گھٹا دیا ہے۔ غموں نے خوشیوں کو جا لیا ہے۔ زندگی چلتی کم ہے سستاتی زیادہ ہے۔خوشیوں بھرا بچپن مست جوانی میں ڈھل جاتا ہے۔آنکھ میں نشہ بھر جائے تو قدموں میں اُٹھان اور گردن میں اکڑاؤ آ جاتا ہے۔</span></div><div dir="rtl" style="unicode-bidi: embed;"><span style="font-family: Jameel Noori Nastaleeq; font-size: large;">ایک عمر پانے کی آرزو میں گزر جاتی ہے۔ملنے پر پلکیں گر جاتی ہیں۔ تلاش کے سفر میں ہم سفر نظروں سے اوجھل رہتے ہیں۔ منزل سامنے پا کر بھی پہنچ نہیں پاتے کیونکہ گمان یہ رہتا ہے کہ منزل ہمیں پانے کے لئے آگے بڑھے گی۔ طوفان میں گھری ہچکولے کھاتی ناؤ لہروں سے پوچھے تباہی تو ہمارے اوپر آئی آپ کیوں ہم سے لپٹ لپٹ کر روئے۔</span></div><div dir="rtl" style="unicode-bidi: embed;"><span style="font-family: Jameel Noori Nastaleeq; font-size: large;">زندگی کو جاننا جتنا آسان ہے اسے پرکھنا اتنا ہی مشکل۔ پتھروں سے جمے پہاڑ صرف زلزلوں سے تھرکتے ہیں، بارش کے قطروں سے گرتے پڑتے مٹی کے تودوں جیسے نہیں۔ ماں کی محبت کا انداز الگ، باپ کی شفقت کا احساس سایہ جیسا۔</span></div><div dir="rtl" style="unicode-bidi: embed;"><span style="font-family: Jameel Noori Nastaleeq; font-size: large;">کامیابیوں اور خوشیوں کے حصول کے لئے دعاؤں پر انحصار کیا جاتا ہے۔ جب اپنی دعا پر یقین کم پڑ جائے تو نیک انسانوں سے دعاؤں کے لئے التجا ءو التماس کی جاتی ہے۔ دعاؤں کی قبولیت کا ایک وقت مقرر ہے۔ کامیابی محنت کا ثمر ہے تو ناکامی غلطیوں کا خمیازہ۔</span></div><div dir="rtl" style="unicode-bidi: embed;"><span style="font-family: Jameel Noori Nastaleeq; font-size: large;"> حالانکہ اچھی یا بری حکمت عملی اور اس کے نتائج احساس و تخیل سے بہت دور ہوتے ہیں۔ جسے جو حاصل ہو جاتا ہے وہ فوری طور پر مارکیٹ میں آنے کے لئے بیتاب ہو جاتا ہے۔خزانوں کے متلاشی دکھاوے اور شہرتِ تمنا سے بچ نہیں پاتے۔ تسکین انا کے لئے جام تحسین و تعریف ساقی سے بھر بھر لیتے ہیں۔طوفان جتنی تیزی سے اُٹھتے ہیں ویسے ہی گزر جاتے ہیں۔جو سنبھال لیتے ہیں وہ پا لیتے ہیں۔ جو خوشبو محسوس کر لیتے ہیں وہ رنگ چھوڑ دیتے ہیں۔</span></div><div dir="rtl" style="unicode-bidi: embed;"><span style="font-family: Jameel Noori Nastaleeq; font-size: large;"> جو لفظ تراشے جاتے ہیں وہ احساس سے کٹ جاتے ہیں۔اندر کی کیفیت ظاہری خدو خال سے آشنائی پیدا کر لیتی ہے۔لفظ آنکھوں میں جگہ پا لیتے ہیں۔ دل میں اُترنے سے پہلے اجنبی ہو جاتے ہیں۔</span></div><div dir="rtl" style="unicode-bidi: embed;"><span style="font-family: Jameel Noori Nastaleeq; font-size: large;"> گل گلستان میں دیر تک کھلتا اور مہکتا رہتا ہے۔ گلدستہ میں ڈھل کر رسم بن کر جلد مرجھا جاتا ہے۔</span></div><div dir="rtl" style="unicode-bidi: embed;"><span style="font-family: Jameel Noori Nastaleeq; font-size: large;"><br /></span></div><div dir="rtl" style="unicode-bidi: embed;"><span style="font-family: Jameel Noori Nastaleeq; font-size: large;">تحریر: محمودالحق</span></div><div><br /></div></div><p>
</p>Mahmood ul Haqhttp://www.blogger.com/profile/15663500585866206295noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-9093583512083034937.post-87802163182433198622023-08-20T23:08:00.000-07:002023-08-20T23:08:07.036-07:00 دانش کی روشنی، علم کا سمندر<p dir="rtl" style="text-align: right; unicode-bidi: embed;"><span style="font-family: Jameel Noori Nastaleeq;">حکمت و دانائی ایک ایسی روشنی ہے جس کا پھیلاؤ وسیع ہے اور رکاوٹ ہونے سے وہیں جمع نہیں ہوتی بلکہ منعکس ہو کر راستہ بدل لیتی ہے جبکہ علم سیکھنا پڑھنے لکھنے سننے سے جڑا ہے جو پانی کے بہاؤ کی مانند ایک محدود راستہ میں سفر پر گامزن رہتا ہے جہاں رکاوٹ ہو تو اپنی طاقت کو وہیں پر جمع کر کے زور میں اسی مقام کو تختہ مشق بناتا ہے۔ <br /></span><span style="font-family: Jameel Noori Nastaleeq;">آج کا موضوع بہت خاص ہے کیونکہ یہ کتابوں سے حاصل مواد پر مبنی نہیں بلکہ حقیقت شناسی کے علم لا محدود سے اخذ خزینہ نور ایمان میں یقین پختہ پر انحصار کا نتیجہ ہے۔ سیاہی میں ڈھل کر کاغذ پر ڈھلنے والے الفاظ پانی کی فطرت میں بہتے ہیں جو لہروں کی مانند زورو شور سے ریت کے زروں پر ڈھیر ہو جاتے ہیں۔ پانی اپنی منزل کی سمت کاتعین رکھتے ہیں اور اپنی حدود بھی پہچانتے ہیں۔ اونچائی سے کنارہ کرتے ڈھلوانوں میں راستہ بناتے ، تباہی مچاتے آگے بڑھتے ،بخارات کی صورت زمین میں جزب ہوتے ہوئے کہیں ختم ہو جاتے ہیں۔<br /></span><span style="font-family: Jameel Noori Nastaleeq;">روشنی اپنی راہ میں آنے والوں پر زور زبردستی نہیں کرتی بلکہ منعکس ہو کر اپنا راستہ بدل لیتی ہے اور اپنے سفر کو آگے بڑھانے کے عمل کی راہ میں رکاوٹ نہیں آنے دیتی۔بند کواڑ کے پیچھے دروازوں کھڑکیوں کے معمولی سوراخوں سے اندر جھانک لیتی ہے لیکن طاقت کے استعمال سے اجتناب برتتی ہے دروازہ کھلنے پر اودھم نہیں مچاتی بلکہ اتنی ہی روشنی پھیلاتی ہے جتنی اردگرد کھلی جگہوں کو دیتی ہے۔<br /></span><span style="font-family: Jameel Noori Nastaleeq;">علم سمندر ہے جو لفظوں کی سیاہی میں لکھا جاتا ہے پڑھنے والے کے اندر بھی پانی کی مانند سیاہی بن اترتا ہے۔کبھی ہیجان پیدا کرتا ہے کبھی اضطراب کبھی سراسیمگی تو کبھی اکتاہٹ۔ لہروں کی مانند پانی کی فطرت سے استفادہ کرتا ہے۔ الفاظ کا زخیرہ بڑھ جائے تو تکبر کا مادہ پیدا کرتا ہے۔ بند کواڑوں پر زور زور سے دستک دے کر اپنی موجودگی کا احساس دلاتا ہے۔ دروازہ کھلنے پر باہر جمع طوفان کو اندر دھکیل دیتا ہے چاہے اندر والوں کا سانس ہی کیوں نہ رک جائے۔ الفاظ کا چناؤ ابتدائیہ میں بلند لہروں کی مانند دھکیلتا ریت کے زروں تک اختتام پزیر ہو جاتا ہے۔ <br /></span><span style="font-family: Jameel Noori Nastaleeq;">حکمت و دانائی حسنِ فطرت ہے جو روشنی کی محتاج ہے۔ ایسی روشنی جو اپنی طاقت کو یکجا نہیں کرتی ۔ آگے بڑھتے راستہ کٹنے پر پانی کی طرح زور زبردستی نہیں کرتی بلکہ خاموشی سے ادھر ادھر سمٹ جاتی ہے جتنا کھلا راستہ ملتا جاتا ہے اتنا ہی آگے بڑھ جاتی ہے۔ اپنی حدود کو پھیلاتی آگے بڑھنے کے عمل میں ہر رکاوٹ سے نبردآزما نہیں ہوتی بلکہ برابر بانٹنے کے عمل سے راستے ہموار کرتی ہے اور روشنی پھیلاتی ہے۔ جبکہ دوسری طرف اس قدر طاقتور ہے کہ ایک محدب عدسے میں سے اسی روشنی کو گزارا جائے تو آگ لگا کر جلا دینے کی اہلیت رکھتی ہے۔ <br /></span><span style="font-family: Jameel Noori Nastaleeq;">دنیاوی علوم پانی سے بنی سیاہی کی تاثیر سے بھرپور علمیت کی معراج رکھتے ہیں۔ جہاں جس نے جتنا چاہا اتنا اپنے کلر میں رنگ لیا۔ یہی وجہ ہے کہ کتابیں اپنے اندر طرز تحریر کے بہاؤ میں جگہ جگہ رکاوٹیں عبور کرتی نظر آتی ہیں۔ کتابوں کا حجم اتنا ہوتا ہے کہ بوجھ بن جاتا ہے۔ چونکہ لکھنے والے بھی لفظوں کا زخیرہ حروف تہجی کی پہچان کے ساتھ اپنے وجود میں سموئے ہوئے ہوتے ہیں۔ اس لئے تحاریر اپنے مالک کی ملکیت کا پردہ چاک کرتی دکھائی دیتی ہیں۔ <br /></span><span style="font-family: Jameel Noori Nastaleeq;">جبکہ حکمت و دانائی کا علم سیاہی سے کوئی واسطہ نہیں۔ یہ روشنی کی مانند اترتی ہے نور کی مانند پھیلتی ہے۔ یہ علم نہیں جو وسیلہ کا محتاج ہو ، یہ قلم نہیں جو سیاہی کا محتاج ہو، یہ کاغذ نہیں جو حروف تہجی سے آراستہ ہو۔یہ ایسی روشنی ہے جو چاند پر پڑتی ہے تو اسے چاندنی بنا دیتی ہے۔زمین پر پڑتی ہے تو اسے سرسبز بنا دیتی ہے اور خوشبو سے مہکا دیتی ہے۔ یہ پانی کی طرح راستہ بناتی نہیں روشنی کی مانند راستہ دکھاتی ہے۔ جہاں ہونے کا احساس نہیں ہوتا ، نہ ہونے کا احساس جاگزیں ہوتا ہے۔ جہاں علم سے بہرہ مند ہونے کی بجائے بےعلم ہونے کا احساس پیدا ہوتا ہے۔ بہت کچھ جاننے کے علم تکبر کی بجائے کچھ نہ جاننے کا احساس بڑھ جاتا ہے۔<br /></span><span style="font-family: Jameel Noori Nastaleeq;">انسان سینکڑوں ہزاروں کتابیں پڑھ کر اپنی ذات کو پہچاننے کے عمل سے علمی استعداد بڑھاتا ہے۔ جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہوتی ہے، وہ کھونے کے سفر پر گامزن ہو جاتا ہے۔ جاننا یہ نہیں کہ میرے اندر کیا ہے، کتنا علم ہے، کتنی طاقت ہے، کتنا حسن ہے بلکہ یہ ماننا ہے کہ یادداشت کے بھروسے پر لفظوں کی پہچان نے کتنا سفر طے کروایا جو لحد پر پہنچا تو ختم ہو گیا۔<br /></span><span style="font-family: Jameel Noori Nastaleeq;">جب تک علمی برتری کا بھوت سر پر سوار رہتا ہے، حکمت و دانائی کی رنگین خوبصورت تتلیاں قریب نہیں آتیں۔ مَیں کی پوشاک پہنی رہے تو روشنی کی کرنیں انتظار میں ٹھہر جاتی ہیں۔ ذات کے اندر مَیں کی تلاش میں غوطہ زن ہوتے ہیں۔ جو علم کی سیاہی سے الفاظ کے ترازو میں تولی جاتی ہے۔<br /></span><span style="font-family: Jameel Noori Nastaleeq;">کتابوں میں فاصلے ماپ کر لکھے جاتے ہیں درحقیقت انہیں پہلے پاؤں سے تراشا گیا ہوتا ہے پھر نقطوں کو ملا کر ایک نقشہ ترتیب پاتا ہے۔جنہیں یہاں تک پہنچ کر ہونے یا نہ ہونے کے فرق کو تلاش کرنے میں کچھ دقت ہے تو انہیں ایک قدم آگے بڑھاتے ہیں اور ایک مثال سے یہ ثابت کرتے ہیں کہ انسانی دماغ بھی کمپیوٹر اور مختلف اپلیکیشن کی طرح ہی ایک مشین کی مانند کام کرتا ہے۔ جتنا اسے دیا گیا وہ سب فولڈر بن کر اپنی اپنی جگہ پر محفوظ ہے۔<br /></span><span style="font-family: Jameel Noori Nastaleeq;">گلاب کے سرخ پھول کا تصور کریں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔آنکھیں بند کر لیں<br /></span><span style="font-family: Jameel Noori Nastaleeq;">اپنے پسندیدہ کھلاڑی کا تصور کریں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آنکھیں بند کر لیں<br /></span><span style="font-family: Jameel Noori Nastaleeq;">اپنے پسندیدہ فلمی ہیرو کا تصور کریں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔آنکھیں بند کر لیں<br /></span><span style="font-family: Jameel Noori Nastaleeq;">کسی اداکار کو ذہن میں لائیں جو ولن کا کردار نبھاتا ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آنکھیں بند کر لیں<br /></span><span style="font-family: Jameel Noori Nastaleeq;">کسی ایک سیاستدان کا خاکہ ذہن میں لائیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آنکھیں بند کر لیں<br /></span><span style="font-family: Jameel Noori Nastaleeq;">یہ رہا انسانی دماغ کا حساب و شمار Algorithm<br /></span><span style="font-family: Jameel Noori Nastaleeq;">جب پھول کو سوچا تو کئی طرح کے پھول ذہن میں ابھر کر آئے ہوں گے۔<br /></span><span style="font-family: Jameel Noori Nastaleeq;">کھلاڑی کا تصور کرتے ہی دماغ نے بے شمار کھلاڑیوں کا خاکہ سا بنا دیا ہو گا۔<br /></span><span style="font-family: Jameel Noori Nastaleeq;">اسی طرح ہیرو کے ساتھ کئی دوسرے ہیروز اور ولن کے تصور کے ساتھ کئی اور ولن بھی دماغ نے روشن کر دئیے اور آخر میں سیاستدانوں کا ڈھیر دماغ میں گھوم گیا ہو گا۔دماغ نے کہیں بھی دو متضاد کو اکٹھا نہیں کیا ہو گا۔ ہیرو کے ساتھ ولن اور پھول کے ساتھ کانٹے نہیں دکھائے ہوں گے۔انسانی برین نے کچھ نیا نہیں دکھایا جو اس میں محفوظ ہے اس نے اسی فولڈر کو کھول دیا۔<br /></span><span style="font-family: Jameel Noori Nastaleeq;">جو برین میں نہیں ہوتا اس پر وہ خاموش ہو جاتا ہے۔ دنیا بھر میں لاکھوں لائیبریریاں کتابوں سے بھری پڑی ہیں۔ جن کے لکھنے میں قلم کاغذ کا استعمال کثیرہ ہوا ہے۔<br /></span><span style="font-family: Jameel Noori Nastaleeq;">اور ایک کتاب ہم سب کے گھروں میں ہے جو قلب پہ اتری ہے جو علمیت پر انحصار نہیں کرتی بلکہ روح پر نور کی صورت روشنی بن اتری اور جن پر نازل ہوئی وہ لکھنا پڑھنا نہیں جانتے تھے۔ وہ مقدس کتاب قرآن مجید ہے جو پاک پروردگار کے خاص محبوب نبی محمد مصطفے ﷺ (جن پر ہماری جان و مال قربان )پر وحی کی صورت نازل ہوئی۔ قرآن ہمارے لئے راہ ہدایت ہے ،مشعل راہ ہے،تکریم سبز گنبد کے محبت کے متوالوں کے لئے ایک انعام ہے۔ </span></p><p dir="rtl" style="text-align: right; unicode-bidi: embed;"><span style="font-family: Jameel Noori Nastaleeq;"><br /></span><span style="font-family: Jameel Noori Nastaleeq;">تحریر! محمودالحق</span></p><p class="MsoNormal" dir="rtl" style="text-align: right; unicode-bidi: embed;"><br /></p>Mahmood ul Haqhttp://www.blogger.com/profile/15663500585866206295noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-9093583512083034937.post-2466801300810728122023-03-14T00:07:00.004-07:002023-03-26T04:46:13.667-07:00سفر در سفر کہانی<div dir="rtl" style="text-align: right; unicode-bidi: embed;"><div style="margin-bottom: 0in; text-align: right; unicode-bidi: embed;"><span lang="AR-SA" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq";">آج
پھر ایک سفر پر گامزن ہوں۔ زندگی کبھی رکتی تو کبھی چلتی ہے،خیالات سستانے کے لئے
بے اعتنائی کی دوا چاہتے ہیں۔حالات جستجو و تمنا کی تحریک میں مبتلائے عشق ہوتے ہیں۔زندگی
ایک عجب تماشا ہے جنہیں ڈھونڈتے ہیں انہیں دیکھتے نہیں ،جنہیں ملتےہیں انہیں جانتے
نہیں۔<br /></span><span lang="AR-SA" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq";">امرود
کے باغات زیادہ توجہ مانگتے ہیں۔عدم توجہ سے کیڑے اپنا راستہ اختیار کر لیتے ہیں۔قلب
احساس کی جگہ ہے،آنکھیں تلاش گمشدہ کےپیچھے لگی رہتی ہے۔باڑیں لگا دینے سے فصل
محفوظ ہو جاتی ہےلیکن پھل پانے کے لئے جڑوں میں پانی دینا ہوتا ہے۔پودوں کے قریب
رہ کرپھول سے پھل بننے تک کے عمل کی نگرانی کی جاتی ہے، تب کہیں جا کرذائقہ و رنگ
حاصل ہوتا ہے۔<br /></span><span lang="AR-SA" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq";">جب
دستک دے دی جاتی ہے تو قفل لگے دروازے کھل جاتے ہیں۔اندر داخل نہ بھی ہوں ملاقات
سے شرف یاب ہو جاتے ہیں۔مشکل باتیں سمجھناآسان نہیں ہو سکتا۔زندگی مٹی کی مانند تو
نہیں جسے گوندھ کربھٹی میں اینٹ بنا لیا جائے، یہ پہاڑ کا پتھر ہے جسے تراشا جاتا
ہےپھر کہیں مورت بنتی ہے۔قدم جب آگے بڑھتے ہیں تو نئی زمین پر پاؤںرکھتے ہیں،پیچھے
رہ جانے والی زمین آگے نہیں بڑھتی۔<br /></span><span lang="AR-SA" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq";">کھونٹے
پہ بندھے جانور چارہ شوق سے کھاتے ہیں لیکن انسان قید میں بہترین کھانے کے شوق سے محروم رہتا ہے۔<br /></span><span lang="AR-SA" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq";">درخت
کا سایہ کتنا ہی گھنا کیوں نہ ہو بانسوں پر چھپر ڈال کر ہی بارش سےبچا جا سکتا
ہے۔پکی سڑک پر تیز رفتار سوار جلد منزل تک پہنچ جاتے ہیں۔پگڈنڈیوں سے راہ پانے
والے قدموں کے بل پر گھر سےکھیتوں تک ہی پہنچ پاتے ہیں۔<br /></span><span lang="AR-SA" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq";">درخت
اپنی نظر نہیں اتارتے پھر بھی پھل دیتے ہیں کیونکہ نگران کی نظر نہیں چوکتی۔پھل
دار نئے پودے اپنے چاروں اطراف مخصوص فاصلے اور ترتیب کو ملحوظ خاطر رکھتے ہیں۔<br /></span><span lang="AR-SA" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq";">آج
کا بیان پیچیدگی سے بھرا ہے لیکن معنوی
لحاظ سے ہدف آسان ہے۔کہنے سننے کا دور گزر جائے عمل پیرا ہونے کا وقت دامان ہے۔<br /></span><span lang="AR-SA" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq";">جنہوں
نے چلنا ہے وہ کمر کس لیں، سوچنے کا وقت نہیں،سنبھل کررہنے کا مقام ہے۔ڈاکٹر جب دل
کا آپریشن شروع کر دے تو مکمل کئے بنانہیں
چھوڑتا۔<br /></span><span dir="LTR" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq";"><o:p> <br /></o:p></span><span lang="AR-SA" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq";"> تحریر! محمودالحق</span></div><p class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; margin-bottom: 0in; unicode-bidi: embed;">
</p><p class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; margin-bottom: 0in; unicode-bidi: embed;"><span dir="RTL"></span></p></div>Mahmood ul Haqhttp://www.blogger.com/profile/15663500585866206295noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-9093583512083034937.post-38909242589072038382021-10-31T12:58:00.000-07:002021-10-31T12:58:02.363-07:00ادھوری عشق کہانی<div dir="rtl" style="margin-bottom: 0in; text-align: justify; unicode-bidi: embed;"><span lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 107%; mso-bidi-language: ER;">دل
تو ہمیشہ چاہا کہ وہ بات کروں جو دل پہ اثر رکھے ، دل سے نکلے لفظ روح تک پہنچیں۔
آج صرف اپنے لئے لکھ رہا ہوں کیونکہ جو
سفر اکیلے طے کیا ہو اس کی داستان سناتے سناتے ایک دہائی سے اوپر ہو گیا اور مسافر کی عمر پانچ دہائیوں سے اوپر۔سولہ
سائز کے کالر میں تیرہ سائز پہن کر بدن و گردن پر ایک مضبوط گرفت کے احساس سے
نکلنے میں ایک لمحہ درکار ہوتا ہے۔ کہنے سننے کا وقت گزر جائے تو تلاش رک جاتی ہے ۔ جاننے کی جستجو نہ رہے تو
منزل رک جاتی ہے۔<br /></span><span lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 107%; mso-bidi-language: ER;">جنہیں
زندگی سے عشق ہوتا ہے وہ آسائش و آرام کی
گنتی کرتے ہیں ۔ آزمائشوں کے ذکر صبر و
تحمل سے بیگانہ ہوتے ہیں۔ چھوٹی گاڑیوں
میں اپناسر چھت سے لگےتو پچھلی سواری کے گھٹنے کے لئے جگہ تنگ ہو جاتی ہے۔
کیونکہ آگے پھیلتے ہیں اور پیچھے سکڑتے
ہیں۔ زندگی اپنے چاہنے والوں کو مایوس نہیں کرتی، گنجائش پیدا کر دیتی ہے۔ انسان
جب پھیلتا ہے تو دوسروں کو سکڑنے اور پیچھے ہٹنے پر مجبور کر دیتا ہے۔ چاہ کر بھی
سیکھنے والے نہیں ملتے، صرف وہ ملتے ہیں جو صرف پانے کی چاہت رکھتے ہیں اور
وہ بھی اتنا کہ چند لمحات میں وہ اپنا اثر
زائل کر دے ۔ زندگی جتنی مختصر ہے خواہشات کی زندگی بھی اتنی ہی محدود۔<br /> </span><span lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 107%; mso-bidi-language: ER;">گردش
خون کی نالیاں جلد پر ابھر جاتی ہیں ،سخت زمین پر سونے سے بھی دل تک خون پہنچنے کی
راہ میں رکاوٹ نہیں بن سکتیں کیونکہ قلب صرف اپنا خیال نہیں رکھتا بلکہ پورے وجود کو فعال رکھنے کے لئے متحرک رہتا ہے۔ جس کا کہا مانا جاتا ہے وہ دو
تہائی مشقت سے چور ہو جاتا ہے اور ایک
تہائی وقت زندگی بھر استعمال کرتا ہے۔ پھر بھی تکبر کا مادہ پیدا کرنے سے باز نہیں
رہتا۔ انسان اس کے زیر اثر اپنے زندگی بھر
کے تجربات کی روشنی میں اندھیروں کی گہرائیوں میں جا اترتا ہے۔<br /></span><span lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 107%; mso-bidi-language: ER;">فن
پارہ ہو یا بت عاشق نامراد اپنے تخیل سے کینوس پر رنگ بکھیر دیتا ہے لیکن اس میں احساس کی خوشبو سے محروم رکھتا ہے۔
خالق اپنی مخلوق کو تخلیق کے حسن سے احساس کی دعوت دیتا ہے۔لیکن انسان چولہے پر
جلے اور مشین پر ڈھلے لباس سے اپنی بقائے
حیات کی جنگ لڑتا ہے۔ وہیں رہ کر دستارِ وفا کی منزلت و کبریائی چاہتا ہے۔<br /></span><span lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 107%; mso-bidi-language: ER;">بوڑھے
کی لاٹھی مضبوط ہو تو بڑھاپے سنبھل جاتے ہیں۔ کمر پر بوجھ بڑھ بھی جائے تو کمزور
رگوں سے قلب خون کھینچ لیتا ہے ۔ بڑھاپے سپردِ لحد ہونے پر لاٹھی ٹوٹ نہیں جاتی
بلکہ زمین پر ڈال دینے سے ہر مشکل اور کڑی آزمائش میں رکنے، ٹوٹنے، جھکنے اور گرنے
سے بچائے رکھتی ہے۔ اپنے اپنے سفر کی کہانی ہے ، اپنی اپنی منزل کی راہ ہے، اپنے
اپنے عمل کی جزاہے، جسے جو جاننا ہے وہ خود کو کریدے ، جسے جو پانا ہے وہ خود سے
چاہے۔ جب سفر ایک نہیں تو نتیجہ ایک کیسے ہو گا۔ اپنی اپنی راہ ہے اپنا اپنا سفر۔
سوچ کے دھارے میں نفع و نقصان تولے جاتے ہیں۔ قلب کے استعارے خالق و مخلوق کے
درمیان جزا و رضا سے جڑے ہیں۔ راہوں سے
راہیں جدا ہیں، سوچ سے سوچ بیگانہ ہے، خواہش
کے انتخاب سے آزمائش کی برداشت
حاصل اور لا حاصل کی جنگ ِافکار
ہے۔<br /> </span><span lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 107%; mso-bidi-language: ER;">پانے
کے لئے بھاگ دوڑ ہے جینے کے لئے عیش و آرام ہے۔ کمپیوٹر کی یاد داشت کروڑوں اربوں
انسانوں سے بڑھ کر ہے لیکن ایک مچھر کے پر کے برابر اس میں احساس نہیں ہے۔ ایک سبق ہے زندگی کی دوڑ میں آگے
بڑھنے کا جب دوسرے پیچھے رہ جاتے ہیں۔ کامیابی و کامرانی کے لئے ایک نسل دوسری نسل
سے بہتر پلاننگ کر کے آگے بڑھ جاتی ہے۔ کامیابی و ترقی کا یہ سفر زمین کے لپیٹ
دئیے جانے تک جاری رہے گا۔ اور انسان کفن میں لپٹے خالی ہاتھوں کو سپردِ لحد کرتے
رہیں گے کیونکہ زندگی کی اصل حقیقت یہی ہے۔<br /> </span><span lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 107%; mso-bidi-language: ER;">تخلیق
اپنے راستے خود اختیار کرتی ہے مخلوق سے اجازت کی طالب نہیں ہوتی۔ خشکی، تری اور
ہوا میں رہنے والے اپنی جنس کا توازن برقرار رکھتے ہیں۔ رہتے ہیں ملتے ہیں پالتے
ہیں پھر رخت سفر باندھ کر آنے والوں کو یہی موقع فراہم کرتے ہیں۔ انسان اپنے ہاں اولاد پیدا کرنے ، لڑکا یا لڑکی
کی صورت بنانے کی اہلیت و اختیار سے محروم ہے۔ پھر دعوی ترقی و عروج کا کیا رہ
جاتا ہے۔ پیچھے بچ جانے والے کس نئے نظام
کی اصلاح و فلاح کے لئے کمربستہ رہتے ہیں؟<br /></span><span lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 107%; mso-bidi-language: ER;">نیا
نظام کچھ نہیں ، صرف ایک نظام ہے خالق کا تخلیق کردہ ، جس کی حقانیت قرآن سے ثابت
ہے، جو سچ ہے، حقیقتِ عالم ہےجو وجود کائنات کے دائرہ اختیار پر مکمل کنٹرول رکھتا
ہے۔ یقین کے ساتھ جینے میں صبر و تحمل اور
سیر و شکر کی جو رضا ہے وہ مٹی سے پیدا ہوئی ہر شے کو خون میں ڈھالنے جیسی
ہے۔ کیونکہ زمین میں خون نہیں بنتا اور بدن میں خوشبو نہیں پیدا ہوتی۔ جس ہستی کے
بدن کے بہتے پسینے میں خوشبو و مہک کا جلوہ تھا وہ خالقِ کائنات ربِ زوالجلال مالکِ
دو جہان نے اپنے محبوب رسول مقبول محمد مصطفی ؑ رحمتہ للعالین کی صورت میں اس زمین
پر پھیلایا۔ جن کی بدولت آج ہم اللہ سبحان و تعالی کے فرمان کی حکم عدولی اور نافرمانی کے باوجود اس امید کے ساتھ زندہ رہتے ہیں کہ ہم امت محمد
صلی اللہ علیہ والیہ وسلم ہیں جو ہماری بخشش کے لیے ایک زریعہ ہے۔<br /></span><span lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 107%; mso-bidi-language: ER;">ارشاد
باری تعالی ہے<br /></span><span lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 107%; mso-bidi-language: ER;">ترجمہ:<br /></span><span lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 107%; mso-bidi-language: ER;">"آسمانوں
اور زمین اور ان کے درمیان سلطنت اللہ کی
ہے"۔ سورۃ المائدہ ۔آیت 18<br /></span><span lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 107%; mso-bidi-language: ER;">"اور
اس سے بہتر کس کا قول جو بلائے اللہ کی طرف اور اچھے عمل کرے اور وہ کہے بیشک میں
مسلمانوں میں سے ہوں"۔ سورۃ فصلت ۔آیت 33<br /></span><span lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 107%; mso-bidi-language: ER;"> <br /></span><span lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 107%; mso-bidi-language: ER;">تحریر:
محمودالحق</span></div><p dir="rtl" style="text-align: right;">
</p>Mahmood ul Haqhttp://www.blogger.com/profile/15663500585866206295noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-9093583512083034937.post-65508095123531709702021-04-30T05:29:00.002-07:002021-05-18T09:19:17.250-07:00ذات کا بلیک ہول<p dir="rtl" style="text-align: justify;"> روح روحانیت کے زیر اثر بدنی ضرورتوں سے بے خبری کی کیفیت میں ایک سسٹم کے تابع ہوتی چلی جاتی ہے۔ جسے سمجھنا انتہائی مشکل صورتحال سے دوچار کر دیتا ہے۔ انسان حالات کی گتھیاں سلجھانے کی فکر میں اپنی ذات کے اندر گھٹا گھوپ اندھیروں میں روشنی کی تلاش میں ایسی گہرائیوں میں جا اترتا ہے جہاں سے نکلنے میں زندگی بھر کی جمع توانائی صرف ہو جاتی ہے لیکن دلدل سےنکلنا نا ممکن ہو جاتا ہے۔ ٹوٹے وجود میں ایک ایسا بلیک ہول تشکیل پا جاتا ہے جو ادھوری خواہشات ، ناکام محبت، احساس محرومی اور وقت سے پہلے ہاتھوں سے پھسلتے رشتوں کے درد سے اتنا بڑا ہو جاتا ہے کہ بڑی سے بڑی خوشی اور کامیابی حاصل ہونے کے بعد چند لمحوں میں وجود میں بلیک ہول کے اندر غرق ہو جاتی ہے۔ انسان چند لمحوں کی تسکین کے بعد پھر اسی درد میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ یہ جان ہی نہیں پاتا کہ زندگی بھر کی خواہشیں اور کامیابیاں لمحوں میں اپنا اثر کیوں کھو دیتی ہیں۔ کیونکہ بلیک ہول کے بننے کا عمل سوچ، غور و فکر کی ارتقائی صورت انتہائی پوشیدہ اور سست رو ہوتی ہے۔ یہ ایک سفر کی داستان ہے جہاں منزل نہیں ہوتی راستہ ہوتا ہے ،مسافر ہوتے ہیں اورایک قطب ستارہ ہوتا ہے جو اس راستے کی نشاندہی کرنے کے لئے اسی سمت میں موجود ہوتا ہے۔ انسان حالات کی ستم ظریفی کی شکایات سے خوشیوں کی تلاش میں سرگرداں رہتا ہے لیکن وہ سمجھ ہی نہیں پاتا کہ وہ دوسرے انسانوں کے ساتھ ساتھ چلتے ہوئے جن راستوں پر چلنے کو منزل سمجھ بیٹھا ہے وہ تو ان راستوں کا مسافر ہی نہیں ہوتا۔اللہ سبحان و تعالی کے نزدیک وہ خاص ہوتے ہیں اور جو اللہ کی محبت کا رس رکھنے والےانسانوں تک پہنچ کر محبت سے محبت کا غلاف عشق بناتے ہیں۔جنہوں نے اللہ کےعشق کی چوٹ نہ سہی ہو ، آزمائشوں کی چکی میں پسنے کے عمل سے نہ گزرے ہوں، ان کے لئے زندگی تندرستی اور بیماری سے بڑھ کر کچھ نہیں۔ کامیابی عقل و سمجھ کی معراج مانتے ہیں وہ اور ناکامی قسمت و تقدیر کا کھیل۔ لیکن یہ سفر ہے ،روح کا سفر ،روحانیت کا سفر اور انسان کے مقصد حیات کا سفر جس کے لئے اللہ سبحان و تعالی بار بار قرآن مجید میں فرماتے کہ تم غور کیوں نہیں کرتے۔ ہواہیں بادلوں کو کیسے لے کر وہاں پہنچتی ہیں جہاں مردہ بنجر زمین کو بارش سے زندہ کیا جاتا ہے اور زندہ سے مردہ اور مردہ سے زندہ پیدا کیا جاتا ہے۔ یہ صدیوں کی کہانی نہیں جوآثارقدیمہ سے بیان ہو، یہ حال کی کہانی ہے جو حال دل سے بیان ہوتی ہے۔ جوسر اور بلینڈر کی کہانی جیسی، ایک میں پھل سے جوس نکلتا ہے اور ایک میں ملک شیک بنتا ہے۔ دو اور دو چار ہوتے ہیں گناہوں سے دوزخ اور نیکیوں سے جنت واجب ہوتی ہے لیکن الگ الگ اپنے اپنے دائرے میں رخت سفر باندھ کر چلنے والوں کے لئے۔ جن کے اندر بلیک ہول موجود نہیں وہ اپنے سفر پرگامزن رہتے ہیں اور جو ہر خوشی اور کامیابی پانے کے لمحوں بعد درد کی ٹیس محسوس کریں ان کے سفر روشنیوں کی طرف بڑھنے کےسفر ہیں کیونکہ وجود کا بلیک ہول صرف انہیں ختم کرتا ہے جو اس وجود کے لئے اہم نہیں ہوتے اور پاک پروردگار کی طرف جانےوالے راستوں کی راہ میں رکاوٹ بنتے ہیں۔ بلانے کا سفر صدیوں سے جاری و ساری ہے لیکن سننے ماننے اور چلنے میں میَں، تکبر اورضد آڑے آ جاتی ہے۔ بلانے والے بلاتے رہیں گے کیونکہ وہ گونگے نہیں، سننے والے نہیں آتے کیونکہ وہ بہرے ہیں۔ ذات کابلیک ہول اللہ سبحان و تعالی کے حضور رات رات بھر گڑگڑانے کے بعد کہیں روشنیوں سے منور ہوتا ہے۔ </p><p dir="rtl" style="text-align: justify;">اوکھے پینڈے لمیاں نیں راہواں عشق دیاں</p><p dir="rtl" style="text-align: justify;">حق اللہ ہو اللہ ہو اللہ اللہ ہو اللہ </p><p dir="rtl" style="text-align: justify;">تحریر: محمودالحق</p>Mahmood ul Haqhttp://www.blogger.com/profile/15663500585866206295noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-9093583512083034937.post-64593750388636856042021-04-23T11:17:00.003-07:002021-05-18T09:26:15.425-07:00سراب<p class="p1" dir="rtl" style="-webkit-text-size-adjust: auto; font-stretch: normal; line-height: normal; margin: 0px 0px 3px; text-align: justify; text-size-adjust: auto;"><span>دنیا ایک ایسی آماجگاہ ہے جہاں غرض و مفاد کی خاطر نفرتیں پالی جاتی ہیں اور محبتیں دکھاوے سے زیادہ کچھ نہیں۔جینا آسان ہونا چاہئیے تھا جسےمشکل بنا دیا جاتا ہے۔ ایک ایسے معاشرے میں ہم زندہ ہیں جہاںمشینوں سے سانس لیا جاتا ہے اور مسکرانے کے لئے انسان ڈھونڈنےپڑتے ہیں۔کبھی کبھار احساس ہوتا ہے کہ ہم ایک ایسی بستی میں رہائش پزیر ہیں جہاں صرف دروازے ہیں داخل ہونے کے لئے ، کوئی کھڑکی نہیں باہر جھانکنے کے لئے۔ سیارچوں کی طرح انسان اپنے اپنے مدار میں گردش کر رہے ہیں جہاں پانا ہی زندگی کا مقصد ہے، اپنی خوشی سے بڑھکر کچھ نہیں۔ دوسروں کی تکلیف اور دکھ عارضی ہیں۔ جن کے بارے میں سوچنا اور ذکر کرنا بے فائدہ ہے۔ آگے بڑھنے کے راستے میں جو رکاوٹیں آئیں انہیں ہٹایا نہیں جاتا روندا جاتا ہے۔ ہر حال میں حالت جنگ میں رہتے ہیں لفظوں کے گولوں سے رشتوں پر حملہ آور ہوتے ہیں۔زندگی کوجیتے نہیں ہیں صرف گزارتے ہیں۔رشتوں سے نبھا نہیں کرتے صرف تعلق بناتے ہیں جنہیں جب چاہیں جہاں چاہیں چھوڑ کر آگے بڑھ جائیں،پھر سے نئے تعلق بنانے کے لئے جن میں غمگساری نہیں ہوتی، درد کےاحساس کارشتہ نہیں ہوتا۔ بس ایک ایسی راہگزر پر چلتے رہنے کا سفر جوریگستان کے نشیب و فراز میں دور سے پیاسوں کے لئے سراب دکھائی دینے کی مانند ہوتی ہے۔ </span></p><p class="p1" dir="rtl" style="-webkit-text-size-adjust: auto; font-stretch: normal; line-height: normal; margin: 0px 0px 3px; text-align: justify; text-size-adjust: auto;"><span><br /></span></p><p class="p1" dir="rtl" style="-webkit-text-size-adjust: auto; font-stretch: normal; line-height: normal; margin: 0px 0px 3px; text-align: justify; text-size-adjust: auto;"><span>محمودالحق</span></p>Mahmood ul Haqhttp://www.blogger.com/profile/15663500585866206295noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-9093583512083034937.post-47426753050641822792021-02-27T23:52:00.001-08:002021-02-28T04:34:44.739-08:00قوس و قزح<p dir="rtl" style="text-align: right;"></p><p class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: justify; unicode-bidi: embed;"><span lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; line-height: 107%;">قوس و قزح<o:p></o:p></span></p><p class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: justify; unicode-bidi: embed;"><span lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; line-height: 107%;">سورج کی شعائیں جب آسمان پر موجود پانی کے قطروں سے گزرتی
ہیں تو منعکس ہو کر ست رنگی رنگوں میں ڈھل جاتی ہیں۔ ایسا ہونا تبھی ممکن ہوتا ہے
اگر بادل برس کر جا چکے ہوں یا سورج کی شعاؤں کو اند ر آنے کا راستہ دے چکے ہوں۔
ریاضی دانوں نے </span><span dir="LTR" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; line-height: 107%;">Mathematical derivation</span><span lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; line-height: 107%;">سے اس کی حقیقت بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔</span><span dir="LTR"></span><span dir="LTR"></span><span dir="LTR" lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; line-height: 107%;"><span dir="LTR"></span><span dir="LTR"></span> </span><span dir="RTL"></span><span dir="RTL"></span><span lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; line-height: 107%;"><span dir="RTL"></span><span dir="RTL"></span> جس میں روشنی ،پانی کے
قطروں میں ایک مخصوص </span><span dir="LTR" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; line-height: 107%;">angle </span><span dir="RTL"></span><span dir="RTL"></span><span lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; line-height: 107%;"><span dir="RTL"></span><span dir="RTL"></span> سے
گزر کر شعاؤں کے منعکس ہونے کے عمل سے دھنک کے رنگ تشکیل پاتے ہیں۔<o:p></o:p></span></p><p class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: justify; unicode-bidi: embed;"><span lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; line-height: 107%;">نظام کائنات کی یہی خوبی ہے کہ اس میں داخل ہونے والی روشنی
اور خارج ہونے والی انرجی اپنا توازن برقرار رکھتی ہے۔ آکسیجن اگر جانداروں کی
زندگی کی علامت ہے تو کاربن ڈائی اکسائیڈ درختوں کی خوراک۔ توازن بگڑ جائے تو او
۔زون میں سوراخ پیدا ہو جانے سے گرمی کی شدت میں اضافہ اور گلیشئیرز کے پگھلنے سے
زمین کا درجہ حرارت بڑھنے کے امکانات روشن
دکھائی دیتے ہیں۔<o:p></o:p></span></p><p class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: justify; unicode-bidi: embed;"><span lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; line-height: 107%;">یہ باتیں چار انچ کے سیل فون کی سکرین پر قوس و قزح لکھنے
سے ہی حاصل ہو جاتے ہیں۔ تو اس کی تحقیق و جستجو سے لا حاصل بحث سے
اصلاح معاشرہ یا فلاح آدمیت کے لئے کچھ
نیا جاننے کا عمل رک بھی جائے تو کوئی فرق
نہیں پڑنے والا۔ ہماری زندگیوں میں لفظ مقرر مقرر کے نعرہ مستانہء سے ایسے آشنا ہو جاتے ہیں کہ رنگوں کی برسات
اپنی تجوریوں اور قلعوں میں محفوظ دکھائی دیتی ہیں۔ زندگی کو سمجھنے کے لئے جتنا
دنیا کی ہستی میں بے حال ہوتے رہیں گے، حالات کی رسی میں جکڑے رہنے کے امکانات بھی
بڑھتے رہیں گے۔انسان دنیا میں پیدا ہونے کے لئے اپنی مرضی و اختیار کا مالک نہیں
ہوتا۔ نہ ہی زبان و بیان پر عبور عطائے رب العزت کی بدولت ہوتی ہے۔ زمانہ کا عجب
دستور ہے کہ ترقی کی رفتار سے حدود وقیود
کی حدیں بھی پار کرنے کی ایسی لت کا شکار ہونے میں فکر حیات سے بیگانہ ہو چلے تھے،
تب ہی ایک وائرس نے انسانی زندگیوں کو ایسے
جکڑ بند لگایا کہ ہاتھ منہ لپیٹ کر کھانسنے سے ڈر میں مبتلا ہو گئے۔ انسانی
بستیوں میں داخل ہونے والا ایک وائرس دنیا
کی تاریخ سے نکل نہیں پاتا۔ صدیوں بعد بھی اس سے لڑنے اور شکست دینے کے بلند و
بانگ دعوے دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں۔<o:p></o:p></span></p><p class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: justify; unicode-bidi: embed;"><span lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; line-height: 107%;">روزگار میں کمی کا رونا دھونا زیادہ سننے میں رہتا ہے۔اللہ
سبحان تعالی اپنے بندوں کو فلاح کی طرف بلاتا ہے پانچ وقت روزانہ۔ نماز کے ساتھ
صبر کی تلقین کرتا ہے۔ مدد کرتا ہے اپنی رحمت اور فضل سے۔ لیکن شکر نظر آنا
انتہائی دشوار گزار پہاڑی سلسلوں میں راستہ تلاش کرنے جیسا ہوتا ہے۔ اللہ سبحان
تعالی سےمحبت و عقیدت کا تقاضا یہ ہے کہ
آزمائش آنے پر امتحان کے پر خطر راستے پر چلنے سے صبر و شکر کا دامن ہاتھ سے نہ چھوٹنے پائے۔
اللہ سبحان تعالی فرماتے ہیں کہ <o:p></o:p></span></p><p class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;"><span lang="AR-SA" style="background: white; color: darkgreen; font-family: "Arabic Typesetting"; line-height: 107%;">ذٰلِكَ الْكِتَابُ لَا رَيْبَ ۖ فِيْهِ ۚ هُدًى لِّلْمُتَّقِيْنَ <o:p></o:p></span></p><p class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: justify; unicode-bidi: embed;"><span lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; line-height: 107%;">"یہ وہ کتاب ہے جس میں کوئی بھی شک نہیں، پرہیز گارو ں
کے لیے ہدایت ہے"۔<o:p></o:p></span></p><p class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: justify; unicode-bidi: embed;"><span lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; line-height: 107%;">جس میں پرہیز گاروں کے لئے ہدایت ہے تو گناہگاروں کے قلب پر قفل لگ جاتے ہیں۔ قفل
بند قلب ہماری زندگیوں کے فیصلے صادر کرتے ہیں۔ انہیں اپنے راہنما بناتے ہیں۔ انہی
کے نقش قدم پر چلنے کو باعث فخر سمجھتے ہیں۔ قرآن ہماری زندگیوں کے لئے راہ ہدایت
ہے۔ حکم رب العزت مالک دوجہاں خالق کل
کائنات عظیم المرتبت ارض وسماں نے بار بار کہا کہ میں ہوں اور میں ہی ہوں جو
فریاد سننے والا ہے ، رزق دینے والا ہے، عزت دینے والا ہے، گناہوں کو معاف کرنے
والا ہے، زندگی کی حفاظت کرنے والا ہے، موت دینے والا ہے۔ کسی بشر کے لئےممکن نہیں کہ وہ اللہ سبحان تعالی کے حکم کے
بغیر مر جائے۔ <o:p></o:p></span></p><p class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;"><span lang="AR-SA" style="color: #419423; font-family: "Arabic Typesetting"; line-height: 107%;">وَ لِلّٰہِ مُلۡکُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ
ۚ وَ اِلَی اللّٰہِ الۡمَصِیۡرُ﴿</span><span lang="FA" style="color: #419423; font-family: "Arabic Typesetting"; line-height: 107%;">۴۲</span><span lang="AR-SA" style="color: #419423; font-family: "Arabic Typesetting"; line-height: 107%;">﴾</span><span lang="AR-SA" style="font-family: "Arabic Typesetting"; line-height: 107%;"> </span><span lang="ER" style="font-family: "Arabic Typesetting"; line-height: 107%;"><o:p></o:p></span></p><p class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: justify; unicode-bidi: embed;"><strong><span lang="AR-SA" style="color: #212224; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-weight: normal; line-height: 107%;">"اور
آسمانوں اور زمین کی بادشاہی اللہ ہی کے لیے ہے اور اللہ ہی کی طرف پلٹ کر جانا ہے"۔<o:p></o:p></span></strong></p><p class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: justify; unicode-bidi: embed;"><strong><span lang="AR-SA" style="color: #212224; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-weight: normal; line-height: 107%;">انسان
بنیادی طور پر خسارے میں رہنے والا ہے۔ اپنے لئے انہیں منزل راہ بناتا ہے جن کی
منزل دنیا کی زندگی میں ہر آسائش و آرام کےمقصود تک ہو۔
لیکن اللہ سبحان تعالی سورۃ
المائدہ میں فرماتے ہیں!<o:p></o:p></span></strong></p><p class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;"><span lang="AR-SA" style="background: white; color: darkgreen; font-family: "Arabic Typesetting"; line-height: 107%;">يَـهْدِىْ بِهِ اللّـٰهُ
مَنِ اتَّبَعَ رِضْوَانَهٝ سُبُلَ السَّلَامِ وَيُخْرِجُهُـمْ مِّنَ الظُّلُمَاتِ
اِلَى النُّوْرِ بِاِذْنِهٖ وَيَـهْدِيْـهِـمْ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيْـمٍ</span><span dir="LTR"></span><span dir="LTR"></span><span dir="LTR" style="background: white; color: darkgreen; font-family: "Arabic Typesetting"; line-height: 107%;"><span dir="LTR"></span><span dir="LTR"></span> </span><span dir="LTR" style="color: darkgreen; font-family: "Arabic Typesetting"; line-height: 107%;">(16)</span><span lang="AR-SA" style="color: darkgreen; font-family: "Arabic Typesetting"; line-height: 107%;"><o:p></o:p></span></p><p class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: justify; unicode-bidi: embed;"><strong><span lang="AR-SA" style="color: #212224; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-weight: normal; line-height: 107%;">"اللہ
سلامتی کی راہیں دکھاتا ہے اسے جو اس کی رضا کا تابع ہو، اور ایسے لوگوں کو اپنے
حکم سے اندھیروں سے روشنی کی طرف نکالتا ہے، اور انہیں سیدھی راہ پر چلاتا ہے"۔<o:p></o:p></span></strong></p><p class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: justify; unicode-bidi: embed;"><strong><span lang="AR-SA" style="color: #212224; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-weight: normal; line-height: 107%;">اندھیروں
سے روشنی کی طرف نکالنے کا اختیار صرف پاک پروردگار کو ہے جو اس کی رضا کے طالب
ہوتے ہیں اور زندگیاں ان کی حکم اللہ کے سامنے سجدہ ریز ہوتی ہیں۔ اس آیت میں ہمارے لئے روشنی کی راہیں تلاش کرنے
کا راستہ بتایا گیا ہے۔ لیکن اس کے لئے دیکھنے والی آنکھ چاہیئے اور وہ آنکھ اس روشنی کی طالب ہو اور رضا کی
تابع ہو۔<o:p></o:p></span></strong></p><p class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: justify; unicode-bidi: embed;"><strong><span lang="AR-SA" style="color: #212224; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-weight: normal; line-height: 107%;">قوس و
قزح کو انسانی آنکھ صدیوں سے دیکھتی آ رہی ہے اور صدیاں دیکھتی رہے گی۔ اگر روشنی
پانی کو آسمان پر اپنا عکس دیتی ہے تو انسان زمین پر رہ کر مٹی کی محبت سے روشنی کی
طلب رکھنے کی جستجوئے تلاش میں مٹی کے
کھلونوں سے کھیلنا اور اس کے کاروبار سے
منافع حاصل کرنے کی روش شتر بے مہار کا
شکار رہتا ہے۔<o:p></o:p></span></strong></p><p class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: justify; unicode-bidi: embed;"><strong><span lang="AR-SA" style="color: #212224; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-weight: normal; line-height: 107%;">رات سونے
سے پہلے قرآنی آیات کا ورد اور آیت الکرسی کے پڑھنے سے اپنی خواب آور زندگی کو
اللہ شان زوالجلال کی رحمتوں کے سائے میں دیا جائے تو دنیا اور آخرت میں اپنے لئے
بخشش کی راہیں کھولنے کے اسباب پیدا ہوتے ہیں۔ لیکن دن کی روشنی میں گرد و غبار بن
کر شعاؤں سے مڑ بھیڑ کر کے قوس و قزح کے
رنگ نہیں پائے جا سکتے۔ قوس و قزح کے رنگ پانے کے لئے بادل بن کر ایک سفر طے کر
کے زمین کی پیاس بجھا کر بچے کچھے قطروں
سے رنگ جمائے جاتے ہیں۔ جس کے لئے رضا کی طلب اور تابع ہونا ضروری ہوتا ہے۔ قلب پر
ہاتھ رکھ کر قرآن کھول کر جس آیت پر بھی انگلی رکھیں گے وہ اللہ سبحان تعالی کی
حاکمیت اور بادشاہت کے اعلان میں اپنے قاری کو سجدہ ریزی کا حکم دیتی محسوس ہو گی۔
اللہ سبحان تعالی کا فرمان قرآن ہے جو ضابطہ حیات ہے جس میں دائرہ کار سے دائرہ
اختیار تک ہر موضوع پر تفصیل سے روشنی
ڈالی گئی ہے۔ <o:p></o:p></span></strong></p><p class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: justify; unicode-bidi: embed;"><strong><span lang="AR-SA" style="color: #212224; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-weight: normal; line-height: 107%;">قرآن
کھلے گا تو کائنات بھی کھلے گی کیونکہ اللہ سبحان تعالی سورۃ الطلاق میں فرماتے
ہیں !<o:p></o:p></span></strong></p><p class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;"><span lang="AR-SA" style="background: white; color: darkgreen; font-family: "Arabic Typesetting"; line-height: 107%;">اَللَّـهُ الَّـذِىْ
خَلَقَ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ وَّّمِنَ الْاَرْضِ مِثْلَـهُنَّۖ يَتَنَزَّلُ الْاَمْرُ
بَيْنَـهُنَّ لِتَعْلَمُوٓا اَنَّ اللّـٰهَ عَلٰى كُلِّ شَىْءٍ قَدِيْرٌۙ وَّاَنَّ
اللّـٰهَ قَدْ اَحَاطَ بِكُلِّ شَىْءٍ عِلْمًا</span><span dir="LTR"></span><span dir="LTR"></span><span dir="LTR" style="background: white; color: darkgreen; font-family: "Arabic Typesetting"; line-height: 107%;"><span dir="LTR"></span><span dir="LTR"></span> </span><span dir="LTR" style="color: darkgreen; font-family: "Arabic Typesetting"; line-height: 107%;">(12)</span><span lang="AR-SA" style="color: darkgreen; font-family: "Arabic Typesetting"; line-height: 107%;"><o:p></o:p></span></p><p class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: justify; unicode-bidi: embed;"><strong><span lang="AR-SA" style="color: #212224; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-weight: normal; line-height: 107%;">اللہ ہی
ہے جس نے سات آسمان پیدا کیے اور زمینیں بھی اتنی ہی، ان میں حکم نازل ہوا کرتا ہے
تاکہ تم جان لو کہ اللہ ہر چیز پر قادر ہے، اور اللہ نے ہر چیز کو علم سے احاطہ کر
رکھا ہے۔<o:p></o:p></span></strong></p><p class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: justify; unicode-bidi: embed;"><b><span lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; line-height: 107%;"> </span></b></p><p class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: justify; unicode-bidi: embed;">
</p><p class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: justify; unicode-bidi: embed;"><span lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; line-height: 107%;">محمودالحق<span style="font-size: 12pt;"><o:p></o:p></span></span></p><p></p>Mahmood ul Haqhttp://www.blogger.com/profile/15663500585866206295noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-9093583512083034937.post-18192859855272566172021-02-13T10:43:00.002-08:002021-02-13T10:58:47.336-08:00روح کی آبیاری<p class="p1" dir="rtl" style="-webkit-text-size-adjust: auto; font-stretch: normal; line-height: normal; margin: 0px; text-align: right; text-size-adjust: auto;"><span style="font-size: 17px;">زندگی جسم اور روح کا مرکب ہے۔ زمین پر ان دونوں کی موجودگی اسباب سے منسلک ہے ۔ جو کہ ہوا پانی روشنی سے وابستہ ہےجس کے لئے صبح اٹھتے ہیں اور رات گئے سوتے ہیں۔ روح جب تک جسم سے تشنگی لیتی ہے تو زمین سے جڑی رہتی ہے۔ جب وہ اسے قید محسوس کرے تو پھر وہ پرواز کرتی ہے۔ اس کی پرواز ہے کیا۔ سوچنے سمجھنے کے لئے وہ علم کے روائتی فلسفہ کی بجائےحقیقت شناسی کے راستے پر گامزن ہو جاتی ہے۔ سائنس کہتی ہے کہ زمین سورج کے گرد 365.25 دنوں میں چکر مکمل کرتی ہے۔ چارموسم ہیں، ہر موسم کا الگ الگ پھل ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ آم گرمیوں میں صرف تیار نہیں ہوتا بلکہ سورج کے ایک مخصوص حصے میں پہنچنے پر پکتا ہے اور یہی حال دوسرے پھلوں اور چاول گندم کا بھی ہے۔ صرف سوچنے کا انداز تبدیل ہوتا ہےکیونکہ ہم اس جگہ موجود تو نہیں ہوتے ۔ لیکن ہم احساس سے جڑ جاتے ہیں۔ جب روح فطرت سے جڑ نے لگتی ہے تو زمین سےوابستگی کمزور پڑنے لگتی ہے۔ معجزات اور کرامات اسی وابستگی سے وقوع پزیر ہوتے ہیں۔ اگر آسان انداز میں زمین پر رہتے ہوئےتجربہ کرنا چاہئیں تو بھی ممکن ہے۔ کسی بھی پھل کی دوکان سے سیب، آم، کیلا،امرود، ناشپاتی، انگور وغیرہ پانچ دس کلو خرید کرگھر میں چھری کانٹے سے پلیٹ میں کاٹ کر کھائیں۔ پھر ان پھلوں کو باغات میں توڑ کر کھائیں۔ درخت سے توڑ کر کھایا جانے والاایک سیب دوکان سے ٹوکری بھرے سیب سے مختلف کیوں محسوس ہوتا ہے۔ صرف اس وجہ سے کہ باغات میں لٹکے پھل ہمیں فطرت کے قریب لے کر جاتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں یوں کہا جا سکتا ہے کہ روح کی تشنگی فطرت سے مٹتی ہے۔ اور فطرت ایک سسٹم کا نام ہے۔ اللہ سبحان تعالی فرماتے ہیں کہ تم دیکھتے نہیں کہ بادل کیسے ہوائیں لے کرجاتی ہیں اور مردہ زمین کو زندگی عطاکرتی ہیں۔ وہی بارش کا پانی ایک مخصوص درجہ حرارت پر برف باری میں بدل جاتا ہے۔ لیکن سورج کے ایک مخصوص حصہ میں زمین کے پہنچنے پر ایسا ہونا ممکن ہوتا ہے۔ روح جب دنیاوی بدنی ضرورتوں سے بے پرواہ ہو جائے، نظام حیات سے نظام کائنات سے منسلک ہو جائے تو خالق سے ایک رشتے میں جڑ جاتی ہے۔ اسی ناطے سے اللہ سبحان تعالی فرماتے ہیں کہ اس کا کان بن جاتاہوں جس سے وہ سنتاہے اور میں اس کی آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے اور اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے اورقدم بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے ۔</span></p><p class="p1" dir="rtl" style="-webkit-text-size-adjust: auto; font-stretch: normal; line-height: normal; margin: 0px; text-align: right; text-size-adjust: auto;"><span style="font-size: 17px;">دنیا بھر میں ایک ہی دن پیدا ہونے والے ہر رنگ و نسل کے بچوں کو ایک ہی چھت تلے اکٹھا کریں تو ان سب میں کوئی فرق نہیں ہو گا۔ ان کے مسکرانے میں چہرے پر معصومیت ایک جیسی ہو گی۔جوں جوں بڑے ہوتے ہیں شعور، تربیت اور راہنمائی سےپروان چڑھتا ہے۔ اس وقت جو ہم سب ایک ہی رنگ و نسل سے موجود ہیں ہمارے مزاج، رویے ، افکار وسوچ ایک جیسے نہیں رہے۔ تو اس میں روح کا کیاعمل دخل ہے ۔ ہماری سوچ میں نظریات اور فلسفہء حیات کا بہت عمل دخل ہوتا ہے کیونکہ معاشرت ہمیں گائیڈ کرتی ہے۔</span></p><p class="p1" dir="rtl" style="-webkit-text-size-adjust: auto; font-stretch: normal; line-height: normal; margin: 0px; text-align: right; text-size-adjust: auto;"><span style="font-size: 17px;">مذہب ہمیں نفس کے متعلق آگاہی دیتا ہے کہ اس سے جنگ کرو کیونکہ یہ ہمارے سسٹم میں بلٹ ان نہیں ہوتا۔ بلکہ اسے ہم ڈاؤن لوڈ کرتے ہیں اپنے ارد گرد سے جس کے نتیجے میں ہمارے اندر وائرس بھی داخل ہو جاتے ہیں۔ دین بنیادی طور پر ہمارےوجود میں اینٹی وائرس کا کردار ادا کرتا ہے جو کسی بھی غیر متعلقہ خیال اور فکر کواندر گھس کر بیٹھنے کی اجازت نہیں دیتا۔</span></p><p class="p1" dir="rtl" style="-webkit-text-size-adjust: auto; font-stretch: normal; line-height: normal; margin: 0px; text-align: right; text-size-adjust: auto;"><span style="font-size: 17px;">روح کو سمجھنے کے لئے ہمیں سب سے پہلے اپنے نظام کو سمجھنا پڑے گا جو ہمیں درست سمت میں سفر کرنے کا پابند بناتا ہے۔چھوٹی سی مثال ہے کہ ہمارے گھروں اور کھیتوں میں سبزی پھل پھول اگائے جاتے ہیں اور کھیت ، کیاریوں میں گھاس پھونس تلف کی جاتی ہے جڑی بوٹیاں ختم کی جاتی ہیں۔ خالص روح پانے کے لئے سب سے پہلے اپنے وجود کو خیال کی ان جنگلی جڑی بوٹیوں سے محفوظ کرنا پڑے گا۔خیالات کی پنیری بار بار اگنے کی اہلیت رکھتی ہے کیونکہ اس کی جڑیں بہت اوپر یعنی سوچ تک محدود ہوتی ہیں اور چھوٹی چھوٹی جڑ کرتنآور ہو جاتی ہیں۔ </span></p><p class="p1" dir="rtl" style="-webkit-text-size-adjust: auto; font-stretch: normal; line-height: normal; margin: 0px; text-align: right; text-size-adjust: auto;"><span style="font-size: 17px;"><br /></span></p><p class="p1" dir="rtl" style="-webkit-text-size-adjust: auto; font-stretch: normal; line-height: normal; margin: 0px; text-align: right; text-size-adjust: auto;"><span style="font-size: 17px;">تحریر: محمودالحق</span></p>Mahmood ul Haqhttp://www.blogger.com/profile/15663500585866206295noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-9093583512083034937.post-20090526593368595372021-02-07T11:35:00.000-08:002021-02-07T11:35:57.915-08:00رانجھا رانجھا کر دی میں آپے رانجھا ہوئی<p class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;"><span style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq";"><span style="font-size: large;">قرآن میرا مرشد اور قرآن ہی میری رہنمائی ۔ قرآن ہی میرا راستہ اور قرآن ہی بخشش کا ذریعہ۔ قرآن ہی میرا مقصد اور قرآن ہی میرا مطلوب۔قرآن ہی میری نظر اور قرآن ہی میری عنایت۔ قرآن ہی میری دنیا اور قرآن ہی میری آخرت۔قرآن ہی میری رضا اور قرآن ہی میری جزا۔</span></span></p><p class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;"><span style="font-family: Jameel Noori Nastaleeq; font-size: large;">جب آنکھیں بند کر کے سر جھکا دیا مالک کے حکم پر تو زندگی سے کیا اب بھیک مانگیں۔دنیا کے پاس دینے کے لئے کیا،کتابوں سے اُٹھتا ہوا دُھواں جو خواہشات سے جلتا ہے۔ آنکھیں بند کر کے دل کی طرف رجوع کر کے اللہ کو پکاریں تودل ذکر سے منور ہو۔ جنہوں نے عمل سے رضا پائی ہو، وہ رجوع سے طالب دعائے مرشد رہتے ہیں۔تلوار کمر پہ باندھنے سے جنگ جیتی نہیں جا سکتی۔ جنگ کے بھی دستور و روایت اور کچھ اصول و ضوابط ہیں۔حیرانگی کی انتہا ہے جب فجر سے عشاء تک پانچ بار دنیا کے کونے کونے سے حی الصلاح حی الفلاح پکارا جاتا ہے۔ تو آٹے میں نمک کے برابر مسلمان اپنی صفیں درست رکھتے ہیں اورقیام کرتے ہیں۔معاشرے میں پائے جانے والے عیبوں کی فہرست اتنی طویل ہے کہ اللہ سے مدد کے طلبگار ہیں۔ اللہ سبحان و تعالی سیدھے راستہ پر چلنے کے لئے انعام و اکرام کی خوش خبری دیتا ہے۔ لیکن ایک شرط ہے کہ اپنے عمل سےاس انعام کے لئے طالبِ سفر ہوں۔</span></p><p class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;"><span style="font-family: Jameel Noori Nastaleeq; font-size: large;">اپنا راستہ سیدھا رکھنے کی بجائے اپنی خواہشیں پوری کرتے ہیں۔ بے ایمانی اور دھوکہ سے رزق کے حصول کی کوشش میں اگر کوئی اللہ کے حکم سے روگردانی کرے۔ اسے ہنس کر بڑا سمارٹ ہے کہہ کر سزا و جزا سے بری الذمہ قرار دے دیا جاتا ہے۔قرآن میں کافر اور منافقین سے مسلمانوں کو خود کومحفوظ رکھنے اور ایمان پر قائم رہنے پر زور دیا گیا ہے۔ نیند کی گہری آغوش میں جانے اور بیدار ہونے کے درمیان بستر پر پڑے رہنے کے ہم مسلمان ہیں۔ کیونکہ جاگنے کے بعد صرف انسان رہ جاتے ہیں۔عدل و انصاف کے بغیر کوئی بھی معاشرہ مساوی حقوق کا علمبردار نہیں ہو سکتا۔ جس معاشرے میں طاقتور مافیا کہلائے ، پیسہ بٹورنا پیسہ کمانے سے زیادہ معتبر ہو جائے تو وہاں انسان عمل سے نہیں اپنے علم سے جانے جاتے ہیں، کردار سے نہیں گفتار سے پہچانے جاتے ہیں۔ ہزاروں لاکھوں میں پیسہ بنانے والے قابل تقلید مانے جاتے ہیں لیکن اس کے مقابلے میں کروڑوں کو دھتکار کر اللہ کے حضور شرمندگی سے بچنے کے لئے ایک مثال بننے کی بجائے بیوقوف و احمق ٹھہرائے جاتے ہیں۔ </span></p><p class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;"><span style="font-family: Jameel Noori Nastaleeq; font-size: large;">جب قرآن ہاتھوں میں کھلنے کی بجائے صرف چوم کر غلاف میں محفوظ رکھنے اور ثواب کی نیت مقصود ہو تو انسان کی تربیت کے عمل سے پہلو تہی کا جواز فراہم کرنے کا سبب ہو جاتا ہے۔قرآن کو پاک غلاف میں لپیٹ کر رکھنا جنت میں اعلی مقام کے حصول کی گارنٹی نہیں دیتا۔ جنت کے دروازہ سے گزرنے کے لئے عمل کی کنجی سے تالہ کو کھولنا پڑتا ہے اور اس کے لئے ایمان کو فرمان کے ترازو میں گناہوں کے پلڑے کے مقابلے میں بھاری کرنے کی ضرورت پیش آتی ہے۔قرآن کی ابتدائی آیت میں اللہ فرماتے ہیں :</span></p><p class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;"><span style="font-family: Jameel Noori Nastaleeq; font-size: large;"> ذٰلِكَ الْكِتَابُ لَا رَيْبَ فِيْهِ هُدًى لِّلْمُتَّقِيْنَ ( یہ کتاب ہے جس میں کوئی بھی شک نہیں، پرہیز گاروں کے لئے ہدایت ہے) </span></p><p class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;"><span style="font-family: Jameel Noori Nastaleeq; font-size: large;">جنہوں نے گناہوں کو زندگی کا اوڑھنا بچھونا بنایا ، ان کے لئے تو کھلی چھوٹ ہے کہ وہ اپنے کئے کے جواب دہ ہوں گے قیامت کے دن۔قرآن ہدایت ہے جو پرہیز گار ہیں اور اپنے عمل و کردار سے صراط مستقیم پر چلنے والے ہیں۔ وہ جو حکم رب ذوالجلال پر اپنا سر خم تسلیم کر دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم حاضر ہیں اے اللہ ہم حاضر ہیں۔ اللہ انہیں اپنی رحمت کے سائے میں گھیر لیتا ہے۔ پھر ان کی زبان سے نکلے حرفِ دعا کو قبولیت کے شرف سے سرفراز کر دیتا ہے۔ انسان گھاٹے کا سودا کر کے نقصان اٹھانے والا ہے۔ اللہ کی رحمت کو کسی ترازو میں تولا نہیں جا سکتا اور نہ ہی وہ کسی گنتی میں آتی ہے۔ اللہ سبحان و تعالی کی رحمتیں بخشش اور عنایات کے سمندر میں طلب کی کشتی پر سوار رہتی ہیں۔ اللہ سے مانگنے کا طریقہ اس کے حکم پر سر جھکانے سے سیکھا جا سکتا ہے۔ </span></p><p class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;"><span style="font-family: Jameel Noori Nastaleeq; font-size: large;">جب قرآن پر ہمارا یقین کامل ایسا ہو کہ اللہ ہے اور صرف اللہ ہی ہے ۔ زرہ کائنات سے لے کر سات آسمانوں تک ہر شے اسی کی تخلیق ہے اور اسی کی ثناء بیان کرتی ہے تو یہ یقین کامل اس راستے پہ انسان کو ڈال دیتا ہے جہاں کن فیکون کے دائرے میں انسان داخل ہو جاتا ہے۔ اللہ کی رحمت میں پناہ پانے کے لئے عمل کارگر ہونا ضروری ہے اور عمل کی راست روی کے لئے قرآن کو ہدایت اور سیدھا راستہ دکھانے والا ماننا ضروری ہے اور اس پر علمدرآمد ایسے کرنا ضروری ہے کہ اللہ ہر عمل سے ایسے آگاہ ہو کہ وہ اپنے بندے کی نیت کو شرف قبولیت بخشنے کے لئے فرشتوں کے پروں کا سایہ کر دے۔ </span></p><p class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;"><span style="font-family: Jameel Noori Nastaleeq; font-size: large;">اللہ سبحان وتعالی اپنی تلاش میں آنے والوں کو ایسے خوش آمدید کہتا ہے کہ عقل دنگ ہی نہیں رہ جاتی بلکہ غفور و رحیم کی اپنے بندے پر رحمت نزول کی کہکشاہوں کی برسات کا منظر دلکشا ہوتا ہے۔ اوکلوہاما امریکہ کے ایک چھوٹے سے شہر کویٹا میں ایک عیسائی نوجوان جب اللہ سبحان و تعالی کی سچی کتاب کی تلاش میں میرے پاس آیا تو اس کی تلاش کے اس سفر میں میرا ایمان پہلے سے زیادہ مستحکم ہوا اور اللہ کے نام نے جس طرح اس گورے کو اپنی طرف رجوع کیا کسی طلسماتی کہانی سے کم نہیں۔</span></p><p class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;"><span style="font-family: Jameel Noori Nastaleeq; font-size: large;"> (<a href="https://mahmoodulhaq.blogspot.com/2020/02/blog-post.html" target="_blank">سچے کلام کی شدتِ چاہ</a> میں ایک منظر جو میری آنکھوں نے قلبِ کیفیت میں دیکھا دانستہ بیان کرنے سے رہ گیا تھا، <a href="https://www.facebook.com/Noor.sadia777" target="_blank">نور ایمان</a> کی گورے نوجوان کی قلبی کیفیت کو مزید جاننے کی خواہش پر اس تحریر میں قلمبند کر رہا ہوں) </span></p><p class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;"><span style="font-family: Jameel Noori Nastaleeq; font-size: large;">اللہ کی سچی ذات اور اس کے سچے کلام کی تلاش میں مارا مارا پھرنے والا عیسائی گورا نوجوان پادریوں سے چرچ میں سوال کرتا کہ خدا کا سچا کلام کون سا ہے کیونکہ بقول اس کے بائبل بارہ کی تعداد میں ہیں اور ان میں سے اصل کون سی ہے۔ پادری اس نوجوان کو اس سوال کا جواب دینے سے قاصر تھے۔ قرآن کے بارے میں جب اس نے مجھ سےجانا کہ وہ اپنی اصل حالت میں آج تک محفوظ ہے اور اس کی حفاظت کی ذمہ داری اللہ سبحان و تعالی نے خود اٹھا رکھی ہے۔ اس کے لئے اتنا معلوم ہو جانا کافی تھی۔ مجھے اس کی بے چینی اور بیتابی پر بہت ملال ہوا کہ جو اللہ کے اصل پیغام تک پہنچنا چاہتا ہے اور اسے کہیں سے جواب نہیں مل رہا۔ وہ بار بار اپنے سینے پر ہاتھ رکھتا تو مجھے اس کے قلب کے اندر بے چین روح کی تڑپ کا اندازہ ہوا۔میں نے دل ہی دل میں اپنے پاک پروردگار کو پکارا اور اللہ ۔۔۔اللہ۔۔۔ اللہ کہتے ہوئے اس کے دل پر ہاتھ رکھ دیا۔ بس یہ ہی وہ گھڑی تھی جس کا اسے انتظار تھا۔ وہ تڑپ اٹھا دونوں بازو میرے سامنے پھیلا کر کہنے لگا کہ میرے بدن میں خون کے ساتھ رگوں میں کچھ دوڑ رہا ہے۔ مجھے بہت اچھا لگ رہا ہے اور سکون محسوس ہو رہا ہے۔ وہ ایسا نشہ تھا کہ جسے لفظوں میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔ اسے اللہ کی پہچان مل رہی تھی اور مجھے ایمان کی طاقت۔ ایک ہی وقت اللہ سبحان و تعالی اپنے دو بندوں کو جو دو طرح سے اللہ سبحان و تعالی تک پہنچنے کی تگ و دو میں مصروف عمل تھے، اپنی کرامت سے مختار کل ہونے کے اپنے مقام رب العالمین کا مفہوم سمجھا رہا تھا۔ یہ وہ لمحہ تھا جب ایک انسان اللہ کی ایک کتاب بائبل سے قرآن تک آنے کے سفر سے گزر رہا تھا اور دوسرا مسلمان سے ایمان کی طاقت سے نئے سفر پر روانہ ہوا۔ اس دن کے بعد زمین پر بسنے والے زورآور اور طاقتور نہایت حقیر اور خاک کے زرے محسوس ہونے لگے۔ اللہ کا کلام صرف ہدایت نہیں زندگیوں پر نافذ فرمان ہے جس کو مضبوطی سے پکڑ لینے سے انسان دنیاوی خواہشات و آرزوؤں کی گرفت سے آزادی پا لیتا ہے۔ اللہ سبحان و تعالی جب یہ جان لیتا ہے کہ میرا بندہ جھکنے کے لئے صرف میرا در چاہتا ہے اور عمل کے لئے میری ہدایت تو وہ ہدایت دے دیتا ہے اور عمل کی توفیق بھی دیتا ہے۔ اللہ جنہیں محبوب بنا لیتا ہے انہیں مشعل راہ بنا دیتا ہے۔ </span></p><p class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;"><span style="font-family: Jameel Noori Nastaleeq; font-size: large;">تحریر: محمودالحق</span></p><div style="text-align: right;"><br /></div>Mahmood ul Haqhttp://www.blogger.com/profile/15663500585866206295noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-9093583512083034937.post-10064104777238368022020-12-15T11:52:00.001-08:002021-01-24T18:41:06.031-08:00تصویر کائنات میں رنگ ( کائنات کے سر بستہ راز )<div style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;"><span lang="ER">(</span><span lang="AR-SA">یہ تحریر الفاظ سے زیادہ رنگوں کی زبان میں ہے جو
کہ نیچے تصاویر کی شکل میں اپنا مدعا بیان کریں گی</span>)<br />کائنات کی خوبصورتی میں رنگوں کو بنیادی اہمیت حاصل ہے کیونکہ رنگوں کی
ترتیب و تشکیل نے بنی آدم کے ارد گرد ایک
ایسا ہالہ تشکیل دے رکھا ہے کہ انسان ان کی جاذبیت سے سحرزدہ دکھائی دیتا ہے۔لباس
کی تراش خراش میں رنگوں کو بنیادی اہمیت حاصل ہے ۔ڈریسنگ ٹیبل سے لے کر ڈرائنگ روم
تک اور گھر کی کیاری سے باغات تک رنگوں کے خوبصورت امتزاج نے انسانوں کو اپنے سحر
میں گرفتار کر رکھا ہے۔خوبصورت چیزیں اسی وقت خوبصورت دکھائی دیتی ہیں جب ان میں
ترتیب کا خیال رکھا گیا ہو۔رنگ اسی وقت اپنا حسن ظاہر کرتے ہیں جب ان میں توازن
موجود ہو۔ اعداد کے تواز ن کے ساتھ ساتھ حروف کے توازن میں رنگ کس خوبصورتی سے
اپنا حسن ظاہر کرتے ہیں۔انہیں یہاں پیش
کیا جا رہا ہے۔اعداد اور حروف کو اپنی سادہ شکل میں دیکھنے سے کوئی خاص تاثر پیدا
نہیں ہو گا لیکن جیسے ہی ان میں رنگ بھر دئیے جائیں تو کہکشائیں ابھر کر نظروں میں
سما جاتی ہیں۔<br /><span lang="ER" style="mso-bidi-language: ER;">کائنات کے سربستہ راز کے نام
سے جس سلسلے کو اس تحریر کے زریعے پیش کرنے جا رہا ہوں وہ تسلسل ہے میری اس جستجو
و تلاش کا ، جہاں ایک کچھوے کی پشت پر بنے ڈاٹس کی منفرد ترتیب و تشکیل نے اپنے
سحر میں ایسے گرفتار کیا کہ بڑے سے بڑے اعداد اور <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>حروف میرے ذہن کے کسی گمشدہ حصے سے باہر نکلنے
کے لئے مچلتے رہتے ہیں۔<br /></span><span lang="ER" style="mso-bidi-language: ER;">اعداد کے لئے یہاں تفصیل دینا
ناممکن ہے اس لئے اس کے دو لنک نیچے پیش کر رہا ہوں جو پی ڈی ایف میں سکرپڈ میں
اپلوڈ ہیں۔یہ </span><span dir="LTR"></span><span dir="LTR"></span><span dir="LTR" style="mso-bidi-language: ER;"><span dir="LTR"></span><span dir="LTR"></span>100x100 </span><span dir="RTL"></span><span dir="RTL"></span><span lang="ER" style="mso-bidi-language: ER;"><span dir="RTL"></span><span dir="RTL"></span><span style="mso-spacerun: yes;"> </span>اور </span><span dir="LTR"></span><span dir="LTR"></span><span dir="LTR" style="mso-bidi-language: ER;"><span dir="LTR"></span><span dir="LTR"></span><span style="mso-spacerun: yes;"> </span>300x300 </span><span dir="RTL"></span><span dir="RTL"></span><span lang="ER" style="mso-bidi-language: ER;"><span dir="RTL"></span><span dir="RTL"></span><span style="mso-spacerun: yes;"> </span>کے </span><span dir="LTR"></span><span dir="LTR"></span><span dir="LTR" style="mso-bidi-language: ER;"><span dir="LTR"></span><span dir="LTR"></span><span style="mso-spacerun: yes;"> </span>Math Magic </span><span dir="RTL"></span><span dir="RTL"></span><span lang="ER" style="mso-bidi-language: ER;"><span dir="RTL"></span><span dir="RTL"></span><span style="mso-spacerun: yes;"> </span>ہیں۔<span style="mso-spacerun: yes;">
</span>میرے کمپیوٹر میں </span><span dir="LTR"></span><span dir="LTR"></span><span dir="LTR" style="mso-bidi-language: ER;"><span dir="LTR"></span><span dir="LTR"></span>1000x1000
</span><span dir="RTL"></span><span dir="RTL"></span><span lang="ER" style="mso-bidi-language: ER;"><span dir="RTL"></span><span dir="RTL"></span><span style="mso-spacerun: yes;"> </span>کا جو </span><span dir="LTR"></span><span dir="LTR"></span><span dir="LTR" style="mso-bidi-language: ER;"><span dir="LTR"></span><span dir="LTR"></span><span style="mso-spacerun: yes;"> </span>Math Magic</span><span lang="ER" style="mso-bidi-language: ER;">ہے اسے <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>پھر کبھی شئیر کروں گا۔درج بالا دونوں کو دیکھنے
کے بعد اسے سمجھنا اتنا مشکل نہیں رہے گا۔ جس میں اعداد<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>ایک (1) تا دس لاکھ (1000000) <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>ایسے استعمال ہوئے ہیں کہ دس لاکھ خانوں میں ایک
بھی نمبر دو بار استعمال نہیں ہوا۔ میرا یقین نہیں بلکہ دعوی ہے دنیا میں آج تک
اتنا <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>بڑا مکمل اور جامع اعداد کا کھیل
کبھی پیش نہیں کیا گیا <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>اور یہ صرف اور صرف
اللہ سبحان تعالی کی خاص عنایت اور کرم نوازی کی وجہ سے ہے۔ اسے آئندہ کسی وقت کے
لئے چھوڑ رکھتا ہوں۔</span></div><div style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;"><span lang="ER" style="mso-bidi-language: ER;"><br /></span><span lang="ER" style="mso-bidi-language: ER;"><span style="color: red; font-size: large;"><a href="https://www.scribd.com/document/483631263/100x100-Mahmood-s-Most-Perfect-Math-Magic" target="_blank">scribd/100x100-Mahmood-s-Most-Perfect-Math-Magic<br /></a></span></span><a href="https://www.scribd.com/document/487580725/300x300-Mahmood-s-Most-Perfect-Math-Magic-SL1-1" target="_blank"><span style="color: red; font-size: large;">scribd /300x300-Mahmood-s-Most-Perfect-Math-Magic<br /></span></a><span lang="ER" style="mso-bidi-language: ER;"><br /></span></div><div style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;"><span lang="ER" style="mso-bidi-language: ER;">ہر بار کچھ نیا کرنے کی لگن مجھے<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>نئے راستہ پر ڈال دیتی ہے جہاں پھر کچھ نیا
تشکیل پا جاتا ہے۔جیسا کہ درج ذیل میں پیش کی گئی تصاویر میں میں نے انگلش حروف سے </span><span dir="LTR" style="mso-bidi-language: ER;">Magic Square </span><span dir="RTL"></span><span dir="RTL"></span><span style="mso-bidi-language: ER;"><span dir="RTL"></span><span dir="RTL"></span><span style="mso-spacerun: yes;"> </span><span lang="ER">تشکیل دئیے ہیں۔جس کی ہر </span></span><span dir="LTR" style="mso-bidi-language: ER;">Row </span><span dir="RTL"></span><span dir="RTL"></span><span lang="ER" style="mso-bidi-language: ER;"><span dir="RTL"></span><span dir="RTL"></span><span style="mso-spacerun: yes;"> </span>میں حروف <span style="mso-spacerun: yes;"> </span></span><span dir="LTR"></span><span dir="LTR"></span><span dir="LTR" style="mso-bidi-language: ER;"><span dir="LTR"></span><span dir="LTR"></span><span style="mso-spacerun: yes;"> </span>A </span><span dir="RTL"></span><span dir="RTL"></span><span lang="ER" style="mso-bidi-language: ER;"><span dir="RTL"></span><span dir="RTL"></span><span style="mso-spacerun: yes;"> </span>سے </span><span dir="LTR"></span><span dir="LTR"></span><span dir="LTR" style="mso-bidi-language: ER;"><span dir="LTR"></span><span dir="LTR"></span><span style="mso-spacerun: yes;"> </span>Z </span><span dir="RTL"></span><span dir="RTL"></span><span lang="ER" style="mso-bidi-language: ER;"><span dir="RTL"></span><span dir="RTL"></span><span style="mso-spacerun: yes;"> </span>تک موجود ہیں لیکن مختلف ترتیب میں۔ اسی طرح ہر </span><span dir="LTR"></span><span dir="LTR"></span><span dir="LTR" style="mso-bidi-language: ER;"><span dir="LTR"></span><span dir="LTR"></span><span style="mso-spacerun: yes;"> </span>Column </span><span dir="RTL"></span><span dir="RTL"></span><span lang="ER" style="mso-bidi-language: ER;"><span dir="RTL"></span><span dir="RTL"></span><span style="mso-spacerun: yes;"> </span>میں حروف </span><span dir="LTR"></span><span dir="LTR"></span><span dir="LTR" style="mso-bidi-language: ER;"><span dir="LTR"></span><span dir="LTR"></span><span style="mso-spacerun: yes;"> </span>A </span><span dir="RTL"></span><span dir="RTL"></span><span lang="ER" style="mso-bidi-language: ER;"><span dir="RTL"></span><span dir="RTL"></span><span style="mso-spacerun: yes;"> </span>سے </span><span dir="LTR"></span><span dir="LTR"></span><span dir="LTR" style="mso-bidi-language: ER;"><span dir="LTR"></span><span dir="LTR"></span><span style="mso-spacerun: yes;"> </span>Z </span><span dir="RTL"></span><span dir="RTL"></span><span lang="ER" style="mso-bidi-language: ER;"><span dir="RTL"></span><span dir="RTL"></span><span style="mso-spacerun: yes;"> </span>تک موجود ہیں <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>جو چھبیس کی تعداد میں ہیں ۔<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>اس کے علاوہ </span><span dir="LTR" style="mso-bidi-language: ER;">Diagonal </span><span dir="RTL"></span><span dir="RTL"></span><span lang="ER" style="mso-bidi-language: ER;"><span dir="RTL"></span><span dir="RTL"></span><span style="mso-spacerun: yes;"> </span>میں بھی </span><span dir="LTR"></span><span dir="LTR"></span><span dir="LTR" style="mso-bidi-language: ER;"><span dir="LTR"></span><span dir="LTR"></span><span style="mso-spacerun: yes;"> </span>A </span><span lang="ER" style="mso-bidi-language: ER;">سے </span><span dir="LTR"></span><span dir="LTR"></span><span dir="LTR" style="mso-bidi-language: ER;"><span dir="LTR"></span><span dir="LTR"></span><span style="mso-spacerun: yes;"> </span>Z<span style="mso-spacerun: yes;"> </span></span><span lang="ER" style="mso-bidi-language: ER;">تک حروف<span style="mso-spacerun: yes;">
</span>دو رنگوں میں دکھائے گئے ہیں۔<br /><o:p></o:p></span><span lang="ER" style="mso-bidi-language: ER;">پہلی تصویر میں حروف کس طرح
مکمل جامعیت اختیار کئے ہوئے ہیں انہیں دوسری تصویر میں دیکھا جا سکتا ہے۔انہی
حروف کو رنگوں سے ایسے مزین کیا گیا ہے کہ ایک ہی رنگ میں </span><span dir="LTR" style="mso-bidi-language: ER;">A </span><span dir="RTL"></span><span dir="RTL"></span><span lang="ER" style="mso-bidi-language: ER;"><span dir="RTL"></span><span dir="RTL"></span><span style="mso-spacerun: yes;"> </span>سے </span><span dir="LTR" style="mso-bidi-language: ER;">Z </span><span lang="ER" style="mso-bidi-language: ER;">تک تمام حروف موجود ہیں۔
رنگوں کا یہ حسین امتزاج حروف کی جامع ترتیب کی وجہ سے ہے۔ کیونکہ ہر رنگ میں پوری
اے بی سی موجود ہے۔<br /><o:p></o:p></span><span lang="ER" style="mso-bidi-language: ER;">صرف اتنا نہیں کہ ان میں صرف
حروف کی ترتیب و تشکیل بہت شاندار اور جاندار ہے بلکہ اس میں </span><span dir="LTR"></span><span dir="LTR"></span><span dir="LTR" style="mso-bidi-language: ER;"><span dir="LTR"></span><span dir="LTR"></span><span style="mso-spacerun: yes;"> </span>PUNJAB </span><span lang="ER" style="mso-bidi-language: ER;">لکھا ہوا جگہ جگہ ملے گا اور اس کے علاوہ </span><span dir="LTR" style="mso-bidi-language: ER;">ROSE </span><span lang="ER" style="mso-bidi-language: ER;">اور </span><span dir="LTR" style="mso-bidi-language: ER;">SKY </span><span dir="RTL"></span><span dir="RTL"></span><span style="mso-bidi-language: ER;"><span dir="RTL"></span><span dir="RTL"></span><span style="mso-spacerun: yes;"> </span><span lang="ER">کے الفاظ میں جگہ جگہ پائے جاتے ہیں۔ لیکن ان سب کے باجود تمام حروف کا
توازن اور ترتیب بہت جامع ہے۔<br /><o:p></o:p></span></span><span lang="ER" style="mso-bidi-language: ER;"><o:p> <br /></o:p></span><span lang="ER" style="mso-bidi-language: ER;"><o:p> <br /><div class="separator" style="clear: both; text-align: center;"><span style="font-size: x-large; margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" data-original-height="1681" data-original-width="1709" height="394" src="https://1.bp.blogspot.com/-pdDGPIEEOvQ/X9kFQfbxpaI/AAAAAAAAK0I/vnOhM3CBOJYrw3HL5bWCkMJLRcLxz4n8wCLcBGAsYHQ/w400-h394/Punjab%2B1.jpg" width="400" /></span></div><div style="text-align: center;"></div></o:p></span><div class="separator" style="clear: both; text-align: center;"><span style="font-size: x-large; margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" data-original-height="1681" data-original-width="1709" height="394" src="https://1.bp.blogspot.com/-KzbRyZU692Y/X9kFVeTJClI/AAAAAAAAK0M/sgUxDnlVcQIKqcT08WfeCh5Z2KbF1PvsQCLcBGAsYHQ/w400-h394/Punjab%2B1a.jpg" width="400" /></span></div><div style="margin-left: 1em; margin-right: 1em; text-align: center;"></div><p class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; unicode-bidi: embed;"><span lang="ER">نیچے دی گئی تصاویر میں حروف </span><span dir="LTR"></span><span dir="LTR"></span><span dir="LTR" lang="ER"><span dir="LTR"></span><span dir="LTR"></span> </span><span lang="ER">ایک مختلف روپ اختیار کئے ہوئے ہیں ۔اس میں بھی انہی
حروف کو رنگوں سے ایسے مزین کیا گیا ہے کہ ایک ہی رنگ میں </span><span dir="LTR">A </span><span dir="RTL"></span><span dir="RTL"></span><span lang="ER"><span dir="RTL"></span><span dir="RTL"></span> سے </span><span dir="LTR">Z </span><span lang="ER">تک تمام حروف موجود ہیں۔یہاں
بھی رنگوں کا یہ حسین امتزاج حروف کی جامع
ترتیب کی وجہ سے ہے۔ کیونکہ ہر رنگ میں مکمل </span><span dir="LTR">ABC</span><span dir="RTL"></span><span dir="RTL"></span><span lang="ER"><span dir="RTL"></span><span dir="RTL"></span>
موجود ہے۔صرف اتنا نہیں کہ ان میں صرف حروف کی ترتیب و تشکیل بہت شاندار اور
جاندار ہے بلکہ اس میں </span><span dir="LTR"></span><span dir="LTR"></span><span dir="LTR" lang="ER"><span dir="LTR"></span><span dir="LTR"></span> </span><span dir="LTR">LAHORE </span><span lang="ER">لکھا ہوا جگہ جگہ ملے گا اور اس کے علاوہ لاہور کی نسبت سے فضا میں موجود </span><span dir="LTR">FOG </span><span dir="RTL"></span><span dir="RTL"></span><span dir="RTL"></span><span dir="RTL"></span> <span lang="ER">کے ساتھ
ساتھ </span><span dir="LTR">SKY </span><span lang="ER">اور </span><span dir="LTR">COW </span><span lang="ER">کے الفاظ جگہ جگہ ملیں
گے لیکن ان سب کے باجود تمام حروف کا توازن اور ترتیب بہت جامع ہے۔<o:p></o:p></span></p></div><div style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;"><br /></div><div style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;"><div class="separator" style="clear: both; text-align: center;"><span style="font-size: x-large; margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" data-original-height="1681" data-original-width="1709" height="394" src="https://1.bp.blogspot.com/-psqrMHK-uig/X9kO5V0-tpI/AAAAAAAAK0c/i1lJOeguPj4O5u5QRK6f2bi4nKA59ehDgCLcBGAsYHQ/w400-h394/Lahore%2B1.jpg" width="400" /></span></div><div style="text-align: center;"></div><div class="separator" style="clear: both; text-align: center;"><span style="font-size: x-large; margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" data-original-height="1681" data-original-width="1709" height="394" src="https://1.bp.blogspot.com/-Qaw2d7N2as0/X9kO-s-QEAI/AAAAAAAAK0g/YkbONOGQp-0AbXgUNRZfepAZnX-ygEzvgCLcBGAsYHQ/w400-h394/Lahore%2B1a.jpg" width="400" /></span></div><div style="margin-left: 1em; margin-right: 1em; text-align: center;"></div><br /><span lang="ER"><o:p><br /></o:p></span><br /><br /></div><p class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;"><span dir="RTL"></span></p><p class="MsoNormal" dir="rtl" style="text-align: right;"></p><div style="text-align: right; unicode-bidi: embed;"><span lang="ER" style="mso-bidi-language: ER;"><o:p></o:p></span></div><p></p><p class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;"><span lang="ER"><o:p></o:p></span></p>Mahmood ul Haqhttp://www.blogger.com/profile/15663500585866206295noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-9093583512083034937.post-59836313676459821392020-11-28T12:51:00.000-08:002020-11-28T12:51:52.454-08:00غبارِ عشق<div style="text-align: right;">زندگی جینے کے ڈھنگ نرالے ہیں کسی کو کہیں کہ آ لوٹ چلیں تو کہتے کہ بیٹھ جاؤ اتنی بھی کیا جلدی کچھ دیر تو ٹھہرو۔ اگر بیٹھ جائیں تو کہتے کہ جانے کا وقت نہیں ہوا ، وقت بھی کبھی کسی کا ہوا ہے۔ جو پوچھ لے اسے پتہ چل جاتا ہے جو نہ سمجھے تو گزر جاتا ہے۔قلب بس سے باہر ، دل میں ایک پیاس جو بہاؤ کی طالب ہے۔ایک جنگ میں مبتلا ہیں جہاں دشمن کوئی نہیں ۔ بس روح کے لئے بدن تنگ ہوجاتا ہے۔ جیسے بچہ بڑا ہوتا ہے تو پرانے کپڑے اسے تنگ ہوتے جاتے ہیں۔ بڑھتے جسم نئے کپڑے میں سماتے ہیں۔
جسم کپڑوں کی مانند چھوٹا ہو جاتا ہے، روح پھیل جاتی ہے۔ قلب اسمیں ایک ایسے پمپ کا کام کر تاہے جو پریشر بڑھاتا ہے۔خود تو ایڈجسٹ کر تا ہے مگر بدن کو سہولت دینے پر راضی نہیں ہوتا۔ اس جنگ کا انجام کیا ہوتا ہے،نہیں جانتے لیکن اتنا ضرور جانتے ہیں کہ اس میں جسم ہارے گا،روح جیتے گی۔جسم ازل سے ہارتا آرہا ہے ابد تک ہارتا رہے گا۔ بہت سالوں تک جنگ لڑتے ہیں رشتوں کی قلبی یا ازلی۔ بہت انتظار کرتے ہیں کہ سفر لمبا ہے مسافت ہمسفروں کی ہمرکابی میں آسانی سے طے ہو گی لیکن آخر اس مقام تک آ پہنچتے ہیں کہ اکیلے چلنے کا وقت ہونے کا احساس پروان چڑھتا جا تا ہے۔ ذات کی نفی کا عمل شروع ہو چکا ہوتومیَں نظر نہیں آتی، انا شکست خوردہ ہو جاتی ہے۔بدن بنجر ایسا ہوتا ہے کہ سمندر بھی ایک بدن کی تشنگی ختم کرنے کے قابل نہیں رہتا۔
قرآن بلا تا ہے تو اللہ اپنی محبت کو سمو دیتاہے۔ ایک ایک آیت اپنی طرف کھینچتی ہے۔ دنیا مجذوب مانگتی ہے ،اللہ مومن چاہتا ہے جو اس کےکلام کو جزب کر کے پھول کی طرح کھل کر ایک وقت کے لئے ہر سو پھیل جائے۔ زندگی سے محبت میں کمی پر شک میں نہیں پڑنا چاہیئے۔اپنی ذات میں جب نہ ہونے کا احساس بڑھ جائے تو ہونے سے کیا تعلق باقی رہ جاتا ہے۔زندگی پانے اور کھونے کے درمیان معلق رہتی ہے۔
خالی غبارے زمین پر پڑے پڑےبے کار ربڑ کی صورت رہتے ہیں۔اگر ان میں ہوا بھرتے جائیں تو وہ اپنے ہم جولیوں میں ایک معمولی اشارے پر اچھلتے کودتے پائے جاتے ہیں۔خالی اور ہوا بھرے غبارے میں صرف ایک ہی فرق ہے۔ خالی غبارے دھول میں ایسے رہتے ہیں کہ پاؤں سے مسلے جاتے ہیں اور پھونکوں سے اپنی جگہ سے ہلتے بھی نہیں ۔ اس کے مقابلے میں ہوا بھرے غبارے اپنی ہمجولی ہوا کے اشارے پر بھاگتے ناچتے نظر آتے ہیں۔بعض روحوں کے لئے وجود بس ایک غبارے کی مانند ہے، اس میں اتنی توانائی پیدا ہو جاتی ہے کہ وہ ایک معمولی اشارے پر اپنی منزل کی طرف محو پرواز ہو جاتی ہے۔جب دنیا کی محبت کے غبارے بڑے ہو جاتے ہیں تو روح میں اتنی طاقت نہیں ہوتی کہ وہ اس میں اتنی ہوا بھر سکے کہ وہ وجود ایک ہلکے اشارے یا حرکت سے روحوں کے اس گھیراؤ میں بلند ہونے لگے۔ غباروں سے آزادی کی جنگ میں روح ہوا کی مانند اتنی ہوا اپنے اندر بھر لیتی ہے ایمان کے پریشر سے کہ وہ اپنے اردگرد اپنے سے زیادہ طاقتور اور بڑی قوت کے مقابلے میں پرواز کر جاتی ہے۔
جو بچھڑ جاتے ہیں انہیں رک کر تلاش نہیں کیا جاتا اور نہ ہی انہیں ساتھ چلنے کا کہا جاتا ہے کیونکہ سورج کا کام ہے روشنی دینا ، فیصلہ زمین نے کرنا ہوتا ہے کہ کس کو کتنی روشنی درکار ہے اور کس کو اندھیرا۔انسان کتابوں سے گائیڈ لائن لینے کے پابند ہیں لیکن جنہوں نے جنگ سے زندگی کا آغاز کیا ہو وہ حرب و ضرب کے قائل ہوتے ہیں کتب کے نہیں۔جب جانے کا وقت ہوتا ہے تو نقارے پر بلاوہ نہیں آتا،پیغام رساں نہیں آتے،احساس آتے ہیں خیال آتے ہیں۔درخت جب پھیلنے پر آتا ہے تو اسے گھاس سے اجازت کی ضرورت نہیں ہوتی۔کیونکہ اس نے پھیلنے پر انہیں سایہ دینا ہوتا ہے جو باہر کی دنیا کی تپش برداشت نہیں کر سکتے۔ قریب رہنے والے دور کب ہوتے ہیں، بس اس درخت کے سائے سے زرا پرے ہٹ جاتے ہیں۔ کیونکہ انہیں روشنی اپنے قریب ہی رکھتی ہے ۔ مغز بھری عقل جب اپنی مرضی کر لیتی ہےتو اس کی چلنے کی معیاد پوری ہو جاتی ہے۔اس کے ہتھیار پھینکنے کا وقت ہو چکا ہو توسوچ فیصلہ کرنے کا اختیار کھو دیتی ہے۔ یہ چاہت میں کھونے پانے کی جنگ نہیں۔ جینا ہے تو جی جان سے جینا ہو گا۔پلٹنے، لوٹنے ، سوچنے اور سمجھنے کا پل نہیں جو کسی مشورے کا پابند ہو گا۔ پابندی نہیں رضامندی ہے جو رضا سے ہے ۔
کوئی پیر نہیں جو ہدایت کا مرشد ہو، کوئی مرید نہیں جو آستانہ کا مجاور ہو۔یہ عشق کی جنگ ہے جو قرآن کے لفظوں سے شروع ہوتی ہے اور اس کے مفہوم پر ختم ہوتی ہے۔جو قیام سے شروع ہو کر قیامت پر ختم ہو گی۔اب فیصلے کا اختیار کسی کے پاس نہیں۔ جس کو جانتے ہو وہ تمہیں جانتا ہے۔ جس کو پڑھتے ہو وہ تمہیں پڑھاتا ہے،سمجھنا چاہتے ہو تو سمجھاتا ہے۔ لفظ نہیں تلوار کی دھار ہیں،عرض نہیں حکم ہے۔کچھ دیکھ چکے باقی دیکھ لیا جائے گا۔ وہ دل نہیں جو خواب سجاتے رہے۔ ترازو ہاتھ میں دیا تو وزن پورا کرنے کے لئے۔حروف تول کر ملے تاکہ وہ گندم کے دانوں کی طرح چکی میں برابر پس سکیں۔ چکی کے دو پانسوں میں رکھنے کو نہیں تھا وہ دانے بن کر رہیں۔پسنے کا وقت دور نہیں ۔ دنیا کے لئے فقط لفظ ہیں جو سیاہی بن کر کاغذ پر چپک جاتے ہیں۔ لیکن لفظ بونے ، اُگانے ، کاٹنے اورسنبھالنے تک دانے ہیں لیکن چکی میں گزر کر اپنااصل ظاہر کرتے ہیں۔ دیکھنے والی اور پڑھنے والی آنکھیں الگ الگ ہوتی ہیں۔ پڑھنے والی آنکھیں خود ہی آ جاتی ہیں اور دیکھنے والی آنکھیں ایک طرف سے نظر ہٹنے پر کسی اور طرف متوجہ ہو جاتی ہیں۔بتانے اور سمجھانے کی منزلیں تمام ہو جائیں توجسم کا روح کے سامنےسرنڈر کرنے کا منظر طلوع آفتاب جیسا ہوتاہے ۔ دن کی روشنی پھیلنے کا آغاز ، جس کی شام نہیں ہوتی۔وجود کہنے سننے کی مشقت سے آزاد ہو چکا ہو تونعمتیں لذت پر انحصار نہیں رکھتیں۔ مسافر منزل نہیں دیکھتے اور نہ سفر کی صعوبت، بس ارادہ کرتے ہیں قوت ارادی وہاں تک خود ہی چھوڑ آتے ہیں۔ بہت ایسے جو افسوس میں ہاتھ ملتے رہ گئے۔ کچھ ایسے جو سمجھنے سے قاصر رہے۔کئی ایسے جو راستوں میں انتظار کے دیپ جلائے بیٹھے رہے۔ہارن بجا بجا کر متوجہ کرنے کا سفر نہیں کہ مسافر سر پر بار اٹھائے کھڑے ہوں گے۔ خالی ہاتھ آئے ہیں تو خالی ہاتھ ہی جانا ہے۔ پھرسفر نعمت ہے لذت نہیں۔ کھلے سمندر میں تیراکی سیکھنے کے لئے نہیں اترا جاتا بلکہ تیراک بن کر اترا جاتا ہے۔جس کے لئے جو حکم ہے اسے پورا کرنا ہے۔نہ مرضی ہے اور نہ ہی اختیار کہ انکار ہو۔انکار صرف ان کا جن کی ڈور ڈھیلی ہو۔ جن کی ڈور پہلے سے کھینچی ہوئی ہوان کا بس ان کے بس میں نہیں،ان میں میَں نہیں۔ ضد انا کے دریا کی کشتی ہے، جسے ڈوبنا ہوتاہے۔سہارے چپوؤں کی آس پر نہیں رکھے جا سکتے۔ لہریں بادبانوں کو ہوا ؤں کی سمت سمجھاتی ہیں۔جلد سمجھ جائیں تو جنگ کا فیصلہ فوری ہو جاتا ہے اگر نہ سمجھیں تو لہریں کشتی کو اپنی مرضی نہیں کرنے دیتیں۔ کسی نے عقیدت میں آنا ہوتاہے اور کسی نے چاہت میں، کسی نے پانے کی لگن میں توکسی نے منزل کی تلاش میں، کسی نے حق کو پانے میں توکسی نے راز کو جاننے میں،کسی نے خوشبو پانے میں تو کسی نے مہکانے میں ،کسی نے دل کے اطمینان میں تو کسی نے سوچ کے غبار میں ۔ زندگی بھی امانت ہے ، بنانے میں نبھانے میں سمجھانے میں ، بس ایک خامی بے اختیاری کے ساتھ۔ یہ کوئی بارات نہیں جو دلہن لینے جائے ڈھول کی تھاپ پہ، یہ فوج ہے جو فتح کے لئے نکلتی ہے۔</div><div style="text-align: right;"><br /></div><div style="text-align: right;"> تحریر: محمودالحق</div>Mahmood ul Haqhttp://www.blogger.com/profile/15663500585866206295noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-9093583512083034937.post-54261231514446057962020-11-14T12:36:00.000-08:002020-11-14T12:36:50.719-08:00کانٹےکون کہتا ہے مجھے محبت نہیں ہوتی ۔۔۔۔ عشق تو رگ و جاں میں ہے میرے ۔۔۔۔ پھول سمجھتا
ہے کہ اس کا حسن مجھے دیوانہ کئے جا رہا ہے ۔۔۔۔ پتے پھول کے کملانے پر اور پھیل جاتے
ہیں۔ مگر! وہ نہیں جانتے کہ شاخ سے ٹوٹنے سے پہلے حسن اپنی انتہا تک پہنچتا ہے۔۔۔۔
کانٹے ! جو کسی نظر التفات کا شکار نہیں ہوتے اور انہیں نظر بھر دیکھنا بھی نصیب
نہیں ہوتا ۔۔۔۔ پھول اور پتے شاخ سے دور ہوتے ہوئے حسن ، رعنائی و
دلربائی کی مثل لگتے ہیں۔۔۔۔ لیکن! شاخ سے بے وفائی میں کمزور پڑتے ہیں اور بالآخر
جھڑتے ہیں۔Mahmood ul Haqhttp://www.blogger.com/profile/15663500585866206295noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-9093583512083034937.post-37758730129539677772020-10-07T20:30:00.005-07:002020-10-07T20:30:53.567-07:00ذکرالانفال<iframe allowfullscreen="" frameborder="0" height="300" src="https://www.youtube.com/embed/Q3n84RhhXs4" width="400"></iframe>Mahmood ul Haqhttp://www.blogger.com/profile/15663500585866206295noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-9093583512083034937.post-68608174984354293222020-09-28T13:17:00.000-07:002020-09-28T13:17:53.936-07:00The Force of Seclusion and Congregation / قوتِ خلوت و جلوت<iframe allowfullscreen="" frameborder="0" height="270" src="https://www.youtube.com/embed/4fE0JxaHwf0" width="400"></iframe>Mahmood ul Haqhttp://www.blogger.com/profile/15663500585866206295noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-9093583512083034937.post-88293326713600059872020-07-30T16:13:00.000-07:002020-07-30T16:13:14.286-07:00جوہر افشانی (PDF) اب پڑھنا بہت آسان<div style="text-align: right;"><div>الحمداللہ ایک سنگ میل عبور ہوا۔ در دستک بلاگ سے69 منتخب مضامین کو میں نے پی ڈی ایف کتاب کی شکل میں اس طرح ترتیب دیا ہے کہ اب پڑھنا بہت آسان ہو گیا ہے۔ فہرست مضامین میں کسی بھی عنوان پر کلک کر نے سےہم تحریرکےصفحہ پر چلے جائیں گے اور مضمون کے آخر میں "واپس اوپر جائیں" پر کلک کرنے سے دوبارہ فہرست مضامین پر آجائیں گے۔ حروف کے سائز کو اتنا رکھا گیا ہے کہ سیل فون پر ڈاؤن لوڈ کر کے بھی آسانی سے پڑھا جا سکتا ہے ۔ مضامین کو تسلسل سے 1 تا 405 صفحات کی پوری کتاب پڑھنے کی بجائے کسی بھی عنوان کو کلک کر کے صرف وہی تحریر پڑھی جا سکتی ہے۔</div><div><br /></div><div><div style="text-align: center;"> </div><div><div style="text-align: center;"><a href="https://www.scribd.com/document/470778851/%D8%AC%D9%88%DB%81%D8%B1-%D8%A7%D9%81%D8%B4%D8%A7%D9%86%DB%8C-%D9%85%D8%AD%D9%85%D9%88%D8%AF%D8%A7%D9%84%D8%AD%D9%82-Mahmood-ul-Haq-Articles-Johar-Afshani">Download Link . جوہر افشانی</a><br /></div></div><div style="text-align: center;"><span style="color: #cc0000;"><br /></span></div><div style="text-align: center;"><a href="https://www.scribd.com/document/470778851/%D8%AC%D9%88%DB%81%D8%B1-%D8%A7%D9%81%D8%B4%D8%A7%D9%86%DB%8C-%D9%85%D8%AD%D9%85%D9%88%D8%AF%D8%A7%D9%84%D8%AD%D9%82-Mahmood-ul-Haq-Articles-Johar-Afshani">Scribd Download </a></div><div style="text-align: center;"><br /></div><div style="text-align: center;"><a href="https://www.mediafire.com/file/ps8ne05uewcm5by/%D8%AC%D9%88%DB%81%D8%B1+%D8%A7%D9%81%D8%B4%D8%A7%D9%86%DB%8C+_+%D9%85%D8%AD%D9%85%D9%88%D8%AF%D8%A7%D9%84%D8%AD%D9%82.pdf/file">MediaFire Download </a></div></div><div><br /></div><div> سوشل میڈیا نے مضبوطی سے عوام الناس کو اپنے سحر میں گرفتار کر لیا ہے۔ جہاں کے معیارات مختلف ہیں اور خاص طور پر نوجوان نسل کی ترجیحات اور دلچسپی کا بہت سامان سوشل میڈیا فراہم کر رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پڑھنے کا رحجان کم پڑ رہا ہے اور دیکھنے اور سننے کا رواج بڑھ رہا ہے۔ ان حالات میں بہت سے لکھنے والے بلاگستان سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔ ہم سیکھ سیکھ کر یہاں پہنچے ہیں۔ بلاگرز نے بلاگز بنانے کے لئے دوسروں کے لئے راہیں ہموار کی ہیں۔ جس سے میں نے بہت سیکھا۔ بلاگستان سے میرا تعلق 25 مئی 2009 سے ہے۔ نئی نسل کے وہ لوگ جو کچھ پڑھنا چاہتے ہیں ، سمجھنا چاہتے ہیں۔ ان کے لئے ہمیں کچھ بچا کر رکھنا چاہیئے۔ آنے والے وقت میں صرف <span style="color: #cc0000;">فیس</span> رہ جائیں اور <span style="color: #cc0000;">بک</span> ختم نہ ہو جائیں۔اسی بات مد نظر رکھتے ہوئے میں نے اپنے چیدہ چیدہ مضامین کو پی ڈی ایف میں محفوظ رکھنے کی ایک کوشش کی ہے تاکہ پڑھنے والے کی چوائس بڑھ جائے اور وقت کی بچت بھی ہو۔ </div><div> </div><div style="text-align: center;"><br /></div></div>Mahmood ul Haqhttp://www.blogger.com/profile/15663500585866206295noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-9093583512083034937.post-4538359358993108132020-06-24T13:48:00.000-07:002020-06-24T13:48:19.254-07:00کبھی آہ دل سے گزرے<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<br />
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
</div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; line-height: normal; margin-bottom: .0001pt; margin-bottom: 0in; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<span lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq";"><span style="font-size: large;"><br />(<span style="color: red;">یہ ایک کہانی نہیں ایک سچائی ہے۔</span></span></span><span style="color: red; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: large;">چھبیس سال کی عمر میں تین کمسن بچوں کی ماں جب بیوہ ہو نے پر ایمان و توکل کا تاج پہن لیتی ہے اور اپنے ارد گرد سے نظریں چرا کر نگاہیں آسمان کی طرف کر لیتی ہے تو</span><span style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: large;"><span style="color: red;"> آہ عرش تک کا سفر لمحوں میں کرتی ہے</span>)</span></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; line-height: normal; margin-bottom: .0001pt; margin-bottom: 0in; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<span style="font-size: large;"><span lang="ER" style="color: black; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq";">انسان مستقبل میں جینا چاہتا ہے اور ماضی سے جان چھڑوانا لیکن
معمولات زندگی اسے باندھ کر رکھتے ہیں۔</span><span dir="LTR"></span><span dir="LTR"></span><span dir="LTR" style="color: black; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq";"><span dir="LTR"></span><span dir="LTR"></span> </span><span lang="ER" style="color: black; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq";">پیچھے جا نہیں سکتا آگے
بڑھنے میں مصلحت تو کبھی خوف آڑے آ جاتا ہے۔جینے کے لئے کسی نئے ڈھنگ کی ضرورت
نہیں ہوتی ، بس لسی میں پانی بڑھاتے جاؤ تاوقتکہ چٹیائی ختم نہ ہو جائے۔انسان
بستیوں میں رہتے تھے مگر معاشرتی بد اعمالیوں کے ساتھ۔ جس نے صحیح راستہ دکھایا
اسی کے درپے ہو گئے ، آباؤاجداد کے رسم ورواج اور دین سے ہٹنے والے
نہیں تھے۔ گروہ در گروہ جہالت اور گمراہی کے اندھیروں میں غرق تھے۔نیکی اور اچھائی
کی بات نہ سننے اور نہ ہی ماننے کی روش پر قائم معاشرتی اقدار پر جمے ہوئے
تھے۔وعدوں اور عہدوں سے مکر جانا جن کا معمول تھا۔ یقین سے خالی اور شکوک سے بھرے
ہوئے تھے۔ اپنے مفاد کے لئے دوسروں کا نقصان کر دینے سے بھی گریز نہ کرتے۔ یقین
تھا تو صرف اسی بات کا کہ جو ہے جتنا ہے فقط انہی کا ہے۔ اللہ اپنی راہ میں خرچ
کرنے کی تلقین بھی کرتا ہے اور حکم بھی دیتا ہے۔پھر اس کے بدلے سات سو گنا لوٹائے
جانے کی نوید بھی دیتا ہے۔لیکن انسان نے کبھی اسے سنجیدہ نہیں لیا۔ کیونکہ وہ تو
خسارے میں رہنے والا ہے۔</span><span dir="LTR" style="color: black; font-family: "Times New Roman", serif;"><o:p></o:p></span></span></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; line-height: normal; margin-bottom: .0001pt; margin-bottom: 0in; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<span style="font-size: large;"><span lang="ER" style="color: black; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq";">زندگی
جنگل کے اندر صدیوں جیسی مسافت کی مانند ہے جہاں راستہ بناتی
پگڈنڈیوں پر چلنا پڑتا ہے۔ بوقت ضرورت راستے سے ہٹ کر کہیں سستا لینے
کے لئے پڑاؤ کرنا پڑتا ہے۔ درختوں سے پھل اور میوہ سے بھوک مٹا کر اور بہتے چشمے
سے پانی سے سیر ہونے کے بعد پھر سے سفر کے راستہ پر نکلنا پڑتا ہے۔ آہ دل سے اور
چشم تر کیسے گزرتی ہے ، صرف وہی جان سکتے ہیں جو اس سفر سے
گزرے ہوں۔</span><span lang="AR-SA" style="color: black; font-family: "Times New Roman", serif;"><o:p></o:p></span></span></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; line-height: normal; margin-bottom: .0001pt; margin-bottom: 0in; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<span style="font-size: large;"><span lang="ER" style="color: black; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq";">یہ
ایک کہانی نہیں ایک سچائی ہے۔ جب آہ عرش تک کا سفر لمحوں میں کرتی
ہے اور آنسو پلکوں سے بہنے سے پہلے حکم ربی کے سامنے سر نگوں کرنے والا
بے آب ماہی کی طرح تڑپنے پر اپنی ہتھیلیوں پر آنسوؤں کی شدت تڑپ کو محسوس کر لیتا
ہے۔</span><span lang="AR-SA" style="color: black; font-family: "Times New Roman", serif;"><o:p></o:p></span></span></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; line-height: normal; margin-bottom: .0001pt; margin-bottom: 0in; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<span style="font-size: large;"><span lang="ER" style="color: black; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq";">چھبیس
سال کی عمر میں تین کمسن بچوں کی ماں جب بیوہ ہو نے پر ایمان و توکل کا تاج پہن
لیتی ہے اور اپنے ارد گرد سے نظریں چرا کر نگاہیں آسمان کی طرف کر لیتی ہے تو رب
جلیل کے حکم پر زمین پر چلتا ایک بدکے ہوئے گھوڑے جیسا
انسان چیونٹی کی مانند بے بسی کی تصویر بن جاتا ہے۔</span><span lang="AR-SA" style="color: black; font-family: "Times New Roman", serif;"><o:p></o:p></span></span></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; line-height: normal; margin-bottom: .0001pt; margin-bottom: 0in; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<span style="font-size: large;"><span lang="ER" style="color: black; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq";">وہ !</span><span lang="AR-SA" style="color: black; font-family: "Times New Roman", serif;"><o:p></o:p></span></span></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; line-height: normal; margin-bottom: .0001pt; margin-bottom: 0in; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<span style="font-size: large;"><span lang="ER" style="color: black; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq";">اپنے
بچوں کے عید کے نئے کپڑوں کی خریداری کے لئے رقم ان کے ماں کے حوالے کر
کے گاڑی میں مسحور کرنے والے گانوں کے بول سنتا اپنی زمینوں
کی طرف رواں دواں تھا کہ کچھ عرصہ قبل اس فانی دنیا سے کوچ کر جانے
والا اس کا ہمسایہ اور دوست اس کی آنکھوں کے سامنے اپنی شکل کا تصور
چھوڑ جاتا۔ اچھے انسان کا یاد آنا کوئی نئی بات نہیں تھی۔ وہ اکثر
مرحوم کا ذکر اچھے الفاظ میں کرتا۔ لیکن آج تصور ایسا تھا جیسے کوئی بے چینی میں
اسے جھنجھوڑ رہا ہو۔سارا دن وہ زمینوں میں اِدھر سے اُدھر بلا وجہ چلتا
رہا ۔ بے سکونی نے اسے بری طرح نڈھال کر دیا ۔ ایک ہی چہرہ مسلسل کئی گھنٹوں سے اسے
پریشانی کے عالم میں جہاں جہاں اس کی نظر پڑتی محسوس ہوتا۔</span><span lang="AR-SA" style="color: black; font-family: "Times New Roman", serif;"><o:p></o:p></span></span></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; line-height: normal; margin-bottom: .0001pt; margin-bottom: 0in; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<span style="font-size: large;"><span lang="ER" style="color: black; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq";"> ایک
خیال نے اسے رنجیدہ کر دیا کہ میں نے اپنے بچوں کے لئے عید کے نئے
کپڑوں کا اہتمام کیا اور اس کے ہمسائے میں تین معصوم بچے عید کے دن کیا
نئے کپڑے پہن پائیں گے۔ شام کو گھر واپس لوٹتے ہی اس نے اپنی بیگم کے ہاتھ میں کچھ
رقم دے کر کہا کہ ان کے گھر جاؤ اور انہیں کہو کہ وہ بچوں کے
لئے کپڑے خرید لیں۔</span><span lang="AR-SA" style="color: black; font-family: "Times New Roman", serif;"><o:p></o:p></span></span></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; line-height: normal; margin-bottom: .0001pt; margin-bottom: 0in; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<span style="font-size: large;"><span lang="ER" style="color: black; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq";">جس
وقت ایک چہرہ جہاں جہاں وہ رخ کرتا اس کے سامنے اپنے ہونے کا احساس دلا رہا تھا۔
اسی دن مرحوم کی معصوم سی بڑی بیٹی بازار میں اپنی ماں سے ایک سوٹ
خریدنے کی فرمائش کر رہی تھی۔ جسے خریدنے کی ایک بیوہ ماں کی سکت نہیں تھی۔</span><span lang="AR-SA" style="color: black; font-family: "Times New Roman", serif;"><o:p></o:p></span></span></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; line-height: normal; margin-bottom: .0001pt; margin-bottom: 0in; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<span style="font-size: large;"><span lang="ER" style="color: black; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq";"> معصوم
بچی رونے لگی اور ماں دل گرفتہ ہوئی ۔ اپنی مخلوق سے ستر ماؤں سے زیادہ محبت کرنے
والےخالق کائنات نےعرش سے ایک خیال کے ذریعے ذمہ
داری کا احساس پیدا کیا۔ بظاہر بچے ننھیال
ددھیال کی آنکھ کا تارا تھے اور حقیقت تو تب آشکار ہوتی اگر اس پر سے پردہ کبھی
اٹھا ہوتا۔ چھبیس برس کی عمر میں بیوگی کا لبادہ اوڑھنے والی ایک باوقار ، با حیا
اور باکردار عورت نے اپنا حال اللہ کے علاوہ کبھی کسی کو نہ دکھایا۔</span><span lang="AR-SA" style="color: black; font-family: "Times New Roman", serif;"><o:p></o:p></span></span></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; line-height: normal; margin-bottom: .0001pt; margin-bottom: 0in; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<span style="font-size: large;"><span lang="ER" style="color: black; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq";">اللہ
تبارک تعالی نے ایک ایسے انسان کو ان کے لئے بے چین کر دیا جو فالج اور
الزائمر کی بیماری میں مبتلا اپنے بوڑھے باپ کی خدمت میں
ایسے مگن تھا کہ اسے دنیا میں کوئی خاص رغبت نہیں تھی۔ وہ روح اور جسم کے باہمی
تعلق کی گتھیاں سلجھانے میں مصروف عمل تھا۔ اپنی ناک کو خاک آلود ہونے سے بچانے کے
لئے اور فرمان رب کریم کی طرف سے والدین کی خدمت
میں کسی کمی،کوتاہی سے بچنے کی تگ و
دو میں مصروف عمل تھا۔</span><span lang="AR-SA" style="color: black; font-family: "Times New Roman", serif;"><o:p></o:p></span></span></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; line-height: normal; margin-bottom: .0001pt; margin-bottom: 0in; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<span style="font-size: large;"><span lang="ER" style="color: black; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq";"> تب اسے
اس احساس نے آ گھیرا کہ گھر کی دیوار کے دوسری طرف یتیم بچوں کے آنسوؤں
کا بوجھ وہ روز قیامت کیسے اٹھائے گا۔ تین بچوں کی بیوہ
ماں صرف اللہ تبارک تعالی سے مدد کی طلبگار تھی۔</span><span lang="AR-SA" style="color: black; font-family: "Times New Roman", serif;"><o:p></o:p></span></span></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; line-height: normal; margin-bottom: .0001pt; margin-bottom: 0in; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<span style="font-size: large;"><span lang="ER" style="color: black; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq";"> نہ
جانے اس کی دعا میں کتنا درد تھا کہ وہ ہمیشہ بے چین ہو جاتا ،
زندگی جینا مشکل ہو جاتا ۔ اپنی شریک حیات سے کہتا کہ
انہیں پوچھو مسئلہ کیا ہے۔ ہمیشہ سب
اچھا کہہ کر بات ٹالنے کی کوشش ہوتی لیکن اللہ تبارک تعالی اپنے نیک
بندوں کی مدد میں کبھی تاخیر نہیں کرتا۔ سکون کھو جانے اور بے چینی بڑھ جانے پر
وہ کہتا کہ اگر سب اچھا ہے تو اسے سکون کیوں میسر نہیں۔ آخر
کار وہ مسئلہ حل ہونے کے بعد اسے سکون میسر آتا۔</span><span lang="AR-SA" style="color: black; font-family: "Times New Roman", serif;"><o:p></o:p></span></span></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; line-height: normal; margin-bottom: .0001pt; margin-bottom: 0in; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<span style="font-size: large;"><span lang="ER" style="color: black; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq";">اللہ
تبارک تعالی کی طرف سے ملنے والی مدد کو ایک بیوہ ماں احسان سمجھ کر انا و خودداری
کی چادر کو اور مضبوطی سے اوڑھ لیتی۔ زندگی کے شب و روز گزرتے گزرتے بچے جوانی کی
دہلیز تک آ پہنچے۔ بچوں کی شادیوں کے موقع پر انتہائی
پریشانی کے عالم میں ایک ماں کی اللہ سے نہ جانے کیسے التجائے دعا ہوتی کہ
اُس پر چھائےبے سکونی اور بے چینی کے بادل چھٹنے کا نام ہی نہ لیتے
تھے۔ بار بار پوچھنے پر سب اچھا ہے ، شادی کی
تیاری بھی ٹھیک ہے کہہ کر بات ختم کرنے کی کوشش کی جاتی
لیکن اللہ تو سب جانتا ہے جو ظاہر ہے اور جو دلوں میں ہے۔ نہ چین تھا
اور نہ ہی سکون اُسے، وہی "سب اچھا ہے" کا جواب اسے مطمئن نہ
کرپاتا جب تک کہ پریشانی کا موجب مسئلہ حل نہ ہو جاتا۔
پریشانیاں باقاعدگی سےآتی رہیں اور اللہ تبارک تعالی کے حکم سے دور
ہوتی رہیں۔ وقت کی بے رحم موجوں سے لڑتے لڑتے آج اس گھر میں خوشیوں سے
بھرپور زندگی ہے۔ لیکن اللہ تبارک تعالی سے ان کا تعلق آج
بھی ویسا ہی ہے۔ جب بھی انہیں کوئی مسئلہ درپیش ہوتا ہے تو اللہ تبارک تعالی کی
طرف سے مدد پہنچ جاتی ہے۔ چند دن سے زیادہ پریشانی میں اللہ کی پاک ذات
مبتلا نہیں ہونے دیتی۔</span><span lang="AR-SA" style="color: black; font-family: "Times New Roman", serif;"><o:p></o:p></span></span></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; line-height: normal; margin-bottom: .0001pt; margin-bottom: 0in; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<span style="font-size: large;"><span lang="ER" style="color: black; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq";">بظاہر
یہ ایک تخیل سے بُنی گئی کہانی کا سکرپٹ دکھائی دے گا۔ لیکن اللہ تبارک تعالی اپنے
نیک بندوں کا خیال کیسے کرتا ہے اور اُن کی مدد کے لئے کسی انسان کو چن لیتا ہے
اور اسے اس کام پر ایسے لگا دیتا ہے کہ وہ خود حیران رہ جاتے ہیں۔ عام
لوگ قصے کہانیوں کو حقیقت کا رنگ دینے کے اتنے عادی ہوتے ہیں کہ
اللہ تبارک تعالی کے قائم کردہ خودکار نظام کی
حقیقت کو تسلیم کرنے میں حیل و حجت اور شک و شبہ کے درمیان
کہیں اٹک جاتے ہیں۔ وہ ہر بات کا عقلی جواز تلاش کرتے ہیں۔ اس سچی کہانی کو جانچنے
اور ماننے کے لئے عقل سے زیادہ توکل کی ضرورت ہے۔ عقل کے بھروسے پر
زندگی جینے والے اور توکل پا کر زندگی جینے والے الگ الگ ہوتے ہیں۔ عقل کے ترازو
پر ہر بات رکھنے والوں کے لئے اس تحریر میں کچھ نہیں ہے
کیونکہ یہ کوئی منطق اور جواز فراہم نہیں کرتی۔ بلکہ یقین محکم ہے
ایمان والوں کے لئے۔</span><span lang="AR-SA" style="color: black; font-family: "Times New Roman", serif;"><o:p></o:p></span></span></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; line-height: normal; margin-bottom: .0001pt; margin-bottom: 0in; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<br /></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; line-height: normal; margin-bottom: .0001pt; margin-bottom: 0in; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<span style="font-size: large;"><span lang="ER" style="color: black; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq";">تحریر:
محمودالحق</span><span lang="AR-SA" style="color: black; font-family: "Times New Roman", serif;"><o:p></o:p></span></span></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; line-height: normal; margin-bottom: .0001pt; margin-bottom: 0in; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<br /></div>
<div class="MsoNormal">
<br /></div>
<br /><br />
</div>
Mahmood ul Haqhttp://www.blogger.com/profile/15663500585866206295noreply@blogger.com1tag:blogger.com,1999:blog-9093583512083034937.post-73201572995325533482020-06-15T14:23:00.000-07:002020-06-15T14:23:26.523-07:00اب اگر راستہ چھوٹ جائے تو شکوہ کیا<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div style="text-align: center;">
</div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: center; unicode-bidi: embed;">
<span style="font-size: large;"><span lang="ER" style="mso-bidi-language: ER;">اب اگر راستہ چھوٹ جائے تو
شکوہ کیا</span><span dir="LTR" style="mso-bidi-language: ER;"><o:p></o:p></span></span></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: center; unicode-bidi: embed;">
<span style="font-size: large;"><span lang="ER" style="mso-bidi-language: ER;">دنیا سے گر رشتہ ٹوٹ جائے تو
شکوہ کیا</span><span dir="LTR" style="mso-bidi-language: ER;"><o:p></o:p></span></span></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: center; unicode-bidi: embed;">
<br /></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: center; unicode-bidi: embed;">
<span style="font-size: large;"><span lang="ER" style="mso-bidi-language: ER;">آستین میں چھپے ہاتھ کی آگہی
بھی بیزاری ہے</span><span dir="LTR" style="mso-bidi-language: ER;"><o:p></o:p></span></span></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: center; unicode-bidi: embed;">
<span style="font-size: large;"><span lang="ER" style="mso-bidi-language: ER;">دوچار قدم چل کے لوٹ جائے تو
شکوہ کیا</span><span dir="LTR" style="mso-bidi-language: ER;"><o:p></o:p></span></span></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: center; unicode-bidi: embed;">
<br /></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: center; unicode-bidi: embed;">
<span style="font-size: large;"><span lang="ER" style="mso-bidi-language: ER;">جالے بنتی مکڑی کا ہے فریبِ
مکاں</span><span dir="LTR" style="mso-bidi-language: ER;"><o:p></o:p></span></span></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: center; unicode-bidi: embed;">
<span style="font-size: large;"><span lang="ER" style="mso-bidi-language: ER;">قلبِ نور سے نظر عقل مٹ جائے
تو شکوہ کیا</span><span dir="LTR" style="mso-bidi-language: ER;"><o:p></o:p></span></span></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: center; unicode-bidi: embed;">
<br /></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: center; unicode-bidi: embed;">
<span style="font-size: large;"><span lang="ER" style="mso-bidi-language: ER;">شمع خود بھی ہے بجھتی پروانہ
بھی جلاتی</span><span dir="LTR" style="mso-bidi-language: ER;"><o:p></o:p></span></span></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: center; unicode-bidi: embed;">
<span style="font-size: large;"><span lang="ER" style="mso-bidi-language: ER;">مہک گل سے خود لپٹ جائے تو
شکوہ کیا</span><span dir="LTR" style="mso-bidi-language: ER;"><o:p></o:p></span></span></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: center; unicode-bidi: embed;">
<br /></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: center; unicode-bidi: embed;">
<span style="font-size: large;"><span lang="ER" style="mso-bidi-language: ER;">دامنِ آرزو میں رہتی ہوا تو
گرد و غبار ہے</span><span dir="LTR" style="mso-bidi-language: ER;"><o:p></o:p></span></span></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: center; unicode-bidi: embed;">
<span style="font-size: large;"><span lang="ER" style="mso-bidi-language: ER;">حسرتوں سے غمِ بادل چھٹ جائے
تو شکوہ کیا</span><span dir="LTR" style="mso-bidi-language: ER;"><o:p></o:p></span></span></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: center; unicode-bidi: embed;">
<br /></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: center; unicode-bidi: embed;">
<span style="font-size: large;"><span lang="ER" style="mso-bidi-language: ER;">بے بس دست و پا بے راہ مشکل
التجا</span><span dir="LTR" style="mso-bidi-language: ER;"><o:p></o:p></span></span></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: center; unicode-bidi: embed;">
<span style="font-size: large;"><span lang="ER" style="mso-bidi-language: ER;">احسان سے گر مقامِ اَنا مٹ
جائے تو شکوہ کیا</span><span dir="LTR" style="mso-bidi-language: ER;"><o:p></o:p></span></span></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: center; unicode-bidi: embed;">
<br /></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: center; unicode-bidi: embed;">
<span style="font-size: large;"><span lang="ER" style="mso-bidi-language: ER;">تلاش میں ہے جن کی رزقِ اجرِ
حنا</span><span dir="LTR" style="mso-bidi-language: ER;"><o:p></o:p></span></span></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: center; unicode-bidi: embed;">
<span style="font-size: large;"><span lang="ER" style="mso-bidi-language: ER;">جسم روح سے الگ الگ بٹ جائے تو
شکوہ کیا</span><span dir="LTR" style="mso-bidi-language: ER;"><o:p></o:p></span></span></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: center; unicode-bidi: embed;">
<br /></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: center; unicode-bidi: embed;">
<span style="font-size: large;"><span lang="ER" style="mso-bidi-language: ER;">ولی صوفی قلندر کیا نہیں ہیں
انساں</span><span dir="LTR" style="mso-bidi-language: ER;"><o:p></o:p></span></span></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: center; unicode-bidi: embed;">
<span style="font-size: large;"><span lang="ER" style="mso-bidi-language: ER;">متاعِ دنیا راستے سے خود ہٹ
جائے تو شکوہ کیا</span><span dir="LTR" style="mso-bidi-language: ER;"><o:p></o:p></span></span></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: center; unicode-bidi: embed;">
<br /></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: center; unicode-bidi: embed;">
<span style="font-size: large;"><span lang="ER" style="mso-bidi-language: ER;">راستے جدا جدا پہنچے منزل ایک
مقام</span><span dir="LTR" style="mso-bidi-language: ER;"><o:p></o:p></span></span></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: center; unicode-bidi: embed;">
<span style="font-size: large;"><span lang="ER" style="mso-bidi-language: ER;">راستہ ہی میں سارا سفر کٹ جائے
تو شکوہ کیا</span><span dir="LTR" style="mso-bidi-language: ER;"><o:p></o:p></span></span></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: center; unicode-bidi: embed;">
<br /></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: center; unicode-bidi: embed;">
<span style="font-size: large;"><span lang="ER" style="mso-bidi-language: ER;">آسان جن کو نظر آئیں منزلیں
دشوار گزار</span><span dir="LTR" style="mso-bidi-language: ER;"><o:p></o:p></span></span></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: center; unicode-bidi: embed;">
<span style="font-size: large;"><span lang="ER" style="mso-bidi-language: ER;">قدم پڑتے ہی گر نہ پلٹ جائے تو
شکوہ کیا</span><span dir="LTR" style="mso-bidi-language: ER;"><o:p></o:p></span></span></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: center; unicode-bidi: embed;">
<br /></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: center; unicode-bidi: embed;">
<span style="font-size: large;"><span lang="ER" style="mso-bidi-language: ER;">بیتابیء قلب میں سماتی جسم و
جان جائے</span><span dir="LTR" style="mso-bidi-language: ER;"><o:p></o:p></span></span></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: center; unicode-bidi: embed;">
<span style="font-size: large;"><span lang="ER" style="mso-bidi-language: ER;">تہہء عملِ جہاں سے جو سلوٹ
جائے تو شکوہ کیا</span><span dir="LTR" style="mso-bidi-language: ER;"><o:p></o:p></span></span></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: center; unicode-bidi: embed;">
<br /></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: center; unicode-bidi: embed;">
<span style="font-size: large;"><span lang="ER" style="mso-bidi-language: ER;">اب بھی ہے کوئی شکوہ ذاتِ منان
سے</span><span dir="LTR" style="mso-bidi-language: ER;"><o:p></o:p></span></span></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: center; unicode-bidi: embed;">
<span style="font-size: large;"><span lang="ER" style="mso-bidi-language: ER;">غفلت شب میں نیند سے کروٹ جائے
تو شکوہ کیا</span><span dir="LTR" style="mso-bidi-language: ER;"><o:p></o:p></span></span></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: center; unicode-bidi: embed;">
<br /></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: center; unicode-bidi: embed;">
<span style="font-size: large;"><span lang="ER" style="mso-bidi-language: ER;">کلمہء تشکر میں گر ہو مقامِ
اولیٰ محمود</span><span dir="LTR" style="mso-bidi-language: ER;"><o:p></o:p></span></span></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: center; unicode-bidi: embed;">
<span style="font-size: large;"><span lang="ER" style="mso-bidi-language: ER;">پہاڑ کیا چاہے زمین پھٹ جائے
تو شکوہ کیا</span><span dir="LTR" style="mso-bidi-language: ER;"><o:p></o:p></span></span></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: center; unicode-bidi: embed;">
<br /></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: center; unicode-bidi: embed;">
<span style="font-size: large;"><span lang="AR-SA">محمودالحق</span><span dir="LTR"><o:p></o:p></span></span></div>
<br /></div>
Mahmood ul Haqhttp://www.blogger.com/profile/15663500585866206295noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-9093583512083034937.post-85610633753939972762020-06-03T21:35:00.003-07:002020-06-03T21:35:57.935-07:00راہِ ہدایت<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div style="text-align: right;">
</div>
<div class="MsoNormal" dir="rtl" style="text-align: right;">
</div>
<div class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; line-height: 107%;"><span style="font-size: large;">پہلے انسانیت
سسک رہی تھی اب انسان بلک رہا ہے۔ ایک مذاق تھا جو سر چڑھ کر بولتا رہا۔ معاشرہ محبت سے عاری تو معاشرت میں سیاسی داد گیری ۔ جھوٹ اتنا
کہ دم نکل جائے مگر سچ زبان پر نہ آ
سکے۔شہرت کے متلاشی ، دولت کے بھوکے،عزت کے طلبگار صرف خواہشوں کے دم پر۔ نہ کردار
کے غازی اور نہ ہی عہد کے پکے۔پاؤں سر پر
رکھ کر بھاگنے سے پاؤں زمین سے تکبر سے اٹھنے تک کے مراحل میں عاجزی اور نہ ہی صبر
، شائستگی سے محروم آئینے جو حقیقت کیا دکھاتے جن کا عکس بھی دھندلا ۔<o:p></o:p></span></span></div>
<div class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; line-height: 107%;"><span style="font-size: large;">نظام کائنات میں
زرہ برابر بھی فرق نہیں روشنی کا پیچھا کرتے اندھیرے کے غالب آنے تک۔ پیغمبروں کو
جھٹلانے والی قومیں کبھی بجلی کی کڑک سے ہلاک ہوئیں تو کبھی آسمان سے برستی آگ سے۔کسی
پر پانی چڑھ دوڑا تو کوئی پانی میں خود جا کودا۔راہ ہدایت کو اتنا مقدس جان لیا کہ
کھوجنا تو دور کی بات کھولنے سے ہی ہاتھ کھینچ لیا۔ صرف اتنا جاننا چاہتے ہیں جسے
سنایا جا سکے، جو عمل کا متقاضی ہے اسے ذاتی اختیار سمجھ کر فیصلہ صادر کر دیتے
ہیں۔<o:p></o:p></span></span></div>
<div class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; line-height: 107%;"><span style="font-size: large;">کسی نے شملہ
اونچا کر لیا تو کسی نے دستار کے پھیلاؤ بڑھا لئے۔اپنے راستے سیدھے نہ کئے ،
دوسروں کے سامنے گڑھے ڈھونڈنے میں توانائیاں صرف کرنے میں دن رات ایک کر دئیے۔
دوسروں کے نقائص سے اپنی نجات کا راستہ تلاش کرنے والےطبیب مسیحا ئی <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>کے دعویدار زمانے کی ہمراہی میں خود ہی عالم
روزگار بن گئے۔<o:p></o:p></span></span></div>
<div class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; line-height: 107%;"><span style="font-size: large;">اخلاق و اطوار ،
کردار و گفتار<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>کے بغیر ایسی کشتی کی مانند
ہے جو چپوؤں کے بغیر کھلے پانیوںمیں اپنی سمت کا تعین کرنے سے قاصر ہوتی ہے ، منزل
تک پہنچنا تو بہت دور بات ہے۔یقین کرنے کے لئے ہمیشہ معجزات کے طلبگار، ہدایت
یافتہ ہونے کے لئے آسمان سے فرشتے اترنے کے منتظر<span style="mso-spacerun: yes;">
</span>۔ <o:p></o:p></span></span></div>
<div class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; line-height: 107%;"><span style="font-size: large;">بچے کے ہاتھ میں
مغرب سے مشرق <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>تک پہنچنے والےمعمولی سے
تحفہ کی دھوم اور دھاک کئی گھروں کے در ہلا کر رکھ دیتی ہے۔اپنا منہ لال کرنے کے
لئے اپنے ہاتھوں سے اپنے منہ کا ماتم کیا جاتا ہے۔قلب پر اترنے والے تحفے<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>انمول ان کے لئے جنہیں خالص اور نایاب کی
قدردانی کا فن جو ہر شناسی حاصل ہوا۔جسے دیکھنے والے زیادہ ہوں وہاں دکھانے والے
اپنا اپنا مال بیش قیمت بنانے کے لئے بڑھ بڑھ کر قیمت لگاتے ہیں۔ ذرائع آمدن
بڑھانے کے لئے سر دھڑ کی بازی لگ جاتی ہےاورخرچ کے راستے روک لئے جاتے ہیں جو
معاشرے میں مسابقت اور حکم سے مطابقت رکھتے ہوں۔<o:p></o:p></span></span></div>
<div class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; line-height: 107%;"><span style="font-size: large;">زخم بھر جاتا ہے
، تکلیف جاتی رہتی ہے، تکمیل کا عمل کبھی نہیں رکتا۔چھوٹ جانے کا خوف دنیا میں بے
صبری اور ہیجان و بے چینی میں مبتلا رکھتا ہے۔اچھے دنوں کی آس کے سامنے برے دنوں
کا خوف اتنا ہیبت ناک ہوتا ہے کہ <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>عارضی
زندگی کے مقابلے میں دائمی زندگی <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>کے انجن کو
پٹڑی سے اتار دیتا ہے۔ <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>جس کے پیچھے اعمال
کی بے شمار بوگیاں<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>منزل تک پہنچنے سے پہلے
تباہ حالی کا شکار ہو جاتی ہیں۔اندھوں کے لئے روشنی کا ہونا یا نہ ہونا ایک برابر
ہوتا ہے۔ قلب میں جن کے ہوس و حرص ، غرض و مفاد<span style="mso-spacerun: yes;">
</span>کا زنگ بھرا ہو وہاں چھینٹوں سے داغ دھلنے زرا مشکل ہوتے ہیں۔فیصلے کی گھڑی
ہو یا قیامت کے قرب کی نشانیاں <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>تیاری کے
بغیر امتحان میں بیٹھنے کے لئے مچلنا<span style="mso-spacerun: yes;">
</span>کچلنے کے مترادف ہے۔<o:p></o:p></span></span></div>
<div class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; line-height: 107%;"><span style="font-size: large;">اوراق مقدس تبھی
ہوتے ہیں جب ان پر حروف مقدس لکھے ہوں۔ حروف وہی مقدس ہوتے ہیں جو اس کتاب کے ہوں
جس میں کسی قسم <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>کاکوئی شک نہ ہو، <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>جس کے حرف حرف پہ سچائی لکھی ہو اور ایمان والوں
کے <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>لئے راہ ہدایت <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>صرف وہی ہے۔<o:p></o:p></span></span></div>
<div class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<span dir="RTL" lang="AR-SA" style="color: black; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; line-height: 107%;"><span style="font-size: large;"><br /></span></span></div>
<div class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<span style="font-size: large;"><span dir="RTL" lang="AR-SA" style="color: black; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; line-height: 107%;">تحریر : محمودالحق</span><span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; line-height: 107%;"><o:p></o:p></span></span></div>
<div class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<span dir="RTL" lang="AR-SA" style="color: black; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; line-height: 107%;"><span style="font-size: large;"><br /></span></span></div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<br />
</div>
Mahmood ul Haqhttp://www.blogger.com/profile/15663500585866206295noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-9093583512083034937.post-74142314205070528402020-04-06T19:55:00.000-07:002020-04-06T19:55:57.249-07:00 اے خدا تیری رحمتوں کے بندے طلبگار ہیں<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div style="text-align: center;">
<iframe allowfullscreen="" frameborder="0" height="270" src="https://www.youtube.com/embed/4lnsV570AoQ" width="350"></iframe></div>
</div>
Mahmood ul Haqhttp://www.blogger.com/profile/15663500585866206295noreply@blogger.com2tag:blogger.com,1999:blog-9093583512083034937.post-75714829120298995632020-04-06T19:39:00.000-07:002020-04-06T19:39:07.133-07:00قید میں ضمیر قفس کے ہے ہجوم تنہائی<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div style="text-align: center;">
<iframe allowfullscreen="" frameborder="0" height="270" src="https://www.youtube.com/embed/o3bXzPu5AxU" width="350"></iframe></div>
</div>
Mahmood ul Haqhttp://www.blogger.com/profile/15663500585866206295noreply@blogger.com1tag:blogger.com,1999:blog-9093583512083034937.post-73094242648495242302020-04-05T07:32:00.001-07:002020-04-05T07:32:40.165-07:00عمرانیات پر کرونا اثرات<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
تعمیرات کے شعبے کو کھولنے کا فیصلہ کرونا کے اثرات سے نپٹنے کے لئے کیا گیا ہے تاکہ غریب عوام کو روزگار کے حصول میں دشواری کا سامنا نہ کرنا پڑے ۔ کوئی بھی حکومتی اقدام اس وقت تک اچھے نتائج کا حامل نہیں ہو سکتا جب تک کہ پالیسی بنانے والے ڈنگ ٹپاؤ پالیسی کی بجائے قومی معیشت کو مستقل بنیادوں پر استوار نہیں کرتے۔ 2016 سے ریئل اسٹیٹ انویسٹمنٹ کو برے طریقے سے سبوتاژ کیا گیا۔ بڑے چور تو عدالتوں سے ریلیف پا گئے۔ اور عام لوگ پیچھے بچ گئے جوگہیوں میں گھن کی طرح پس گئے۔ عجیب مارشلائی صورتحال ہے جب چاہا مال کا حساب مانگ لیا جب چاہا آنکھیں بند کر لی۔ دنیا کے کسی ملک میں 12/2 فیصد بینکوں میں شرح سود نہیں ہے ماسوائے پاکستان کے ۔ جو ملک مضبوط معیشت کے حامل ہیں وہاں سسٹم مضبوط ہوتا ہے جبکہ پاکستان میں صرف مافیا ہیں ۔ آٹا مافیا ،چینی مافیا ،پراپرٹی مافیا ،میڈیا مافیا ، ذخیرہ اندوز مافیا، ملاوٹ خور مافیا اور سیاستدان مافیا کے ساتھ ساتھ ہر طاقتور ادارہ بھی مافیا ہے اور پیچھے بچی صرف عوام جو اب کرونا کے زیر عتاب ہے۔ حکومت اس خوف سے حرام کو حلال ماننے پر آمادہ دیکھائی دیتی ہے کہ کہیں غریب عوام امیروں کی دوکانوں ، گھروں اور گوداموں پر حملہ آور نہ ہو جائیں۔ سننے میں آتا ہے کہ امریکہ جیسے ملک میں بعض ریاستوں کے شہریوں نے اپنی حفاظت کے پیش نظر اسلحہ خریدنا شروع کر دیا ہے کہ کہیں کرونا کی وجہ سے بھوک سے تنگ عوام چوریاں اور ڈکیتیاں نہ شروع کر دیں۔ حالانکہ حکومت نے بڑے کاروباری اداروں اور عوام کے ریلیف کے لئے دو ہزار ارب ڈالر کی ایک خطیر رقم مختص کی ہے اور پاکستان میں صرف آٹھ ارب ڈالر کی رقم مختص کی گئی جو شائد قرضوں کی قسطوں کی ادائیگی کے لئے آئی ایم ایف سے بطور قرض لی گئی ہے۔ صورتحال انتہائی تشویشناک ہے۔<br />
گنجی نہائے کیا نچوڑے کیا<br />
<br />
<br /></div>
Mahmood ul Haqhttp://www.blogger.com/profile/15663500585866206295noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-9093583512083034937.post-18962635635965825902020-02-26T00:52:00.000-08:002020-02-26T00:57:21.584-08:00Top 100 Math Blogs for Students and Teachers<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div class="MsoNormal" dir="rtl" style="text-align: right;">
</div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<span style="font-size: large;"><span lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; line-height: 115%;">اکتوبر 2018 میں پہلی
بار میں نمبرز کی دنیا سے روشناس ہوا۔
میرا علم سکول میں حساب کی کتاب تک تھا۔ آج میں ایک خوشگوار حیرت میں مبتلا
ہوں کیونکہ </span><span dir="LTR" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; line-height: 115%;">Feedspot</span><span dir="RTL"></span><span lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; line-height: 115%;"><span dir="RTL"></span>
کی طرف سے مجھے موصول ہونے والی ای میل میں<span style="mso-spacerun: yes;">
</span>میرے بلاگ </span><span dir="LTR"></span><span dir="LTR" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; line-height: 115%;"><span dir="LTR"></span><span style="mso-spacerun: yes;"> </span>Math Magic
Mystery </span><span lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; line-height: 115%;">کو اپنی ویب پر صرف شامل
ہی نہیں کیا گیا بلکہ </span><span dir="LTR" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; line-height: 115%;">Top 100 Math Blogs </span><span dir="RTL"></span><span lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; line-height: 115%;"><span dir="RTL"></span><span style="mso-spacerun: yes;"> </span>کی فہرست<span style="mso-spacerun: yes;">
</span>میں 97 ویں نمبرپر رکھا۔ جو کہ میرے جیسے ریاضی سے نا بلد انسان کے لئے باعث فخر ہے۔ در دستک کی طرح<span style="mso-spacerun: yes;"> </span></span><span dir="LTR"></span><span dir="LTR" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; line-height: 115%;"><span dir="LTR"></span><span style="mso-spacerun: yes;"> </span>Math Magic Mystery </span><span lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; line-height: 115%;">بھی <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>صرف اور صرف
عطائے رب العزت ہے ۔ </span></span></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<br /></div>
<div class="MsoNormal">
</div>
<div style="text-align: left;">
<span style="background-color: white; color: #222222; font-family: "arial" , sans-serif;">Hi Rana,</span></div>
<div style="text-align: left;">
<br /></div>
<div style="text-align: left;">
<span style="background: white; color: #222222; font-family: "arial" , sans-serif;">My name is Anuj Agarwal, I'm the Founder of
Feedspot.</span></div>
<span style="background: white; color: #222222; font-family: "arial" , sans-serif;">
</span>
<div style="text-align: left;">
<span style="background: white; color: #222222; font-family: "arial" , sans-serif;">Thanks
for submitting your blog </span><a href="https://mahmoodmathmagic.blogspot.com/" target="_blank"><span style="background: white; color: #1155cc; font-family: "arial" , "sans-serif";">Math
Magic Mystery</span></a><span style="background: white; color: #222222; font-family: "arial" , sans-serif;"> on Feedspot.</span></div>
<div style="text-align: left;">
<br /></div>
<div style="text-align: left;">
<span style="background: white; color: #222222; font-family: "arial" , sans-serif;"><span style="background-attachment: initial; background-clip: initial; background-image: initial; background-origin: initial; background-position: initial; background-repeat: initial; background-size: initial;">I would like to personally congratulate you as
your blog </span><a href="https://mahmoodmathmagic.blogspot.com/" style="background-color: transparent;" target="_blank"><span style="background-attachment: initial; background-clip: initial; background-image: initial; background-origin: initial; background-position: initial; background-repeat: initial; background-size: initial; color: #1155cc; font-family: "arial" , sans-serif;">Math Magic Mystery</span></a><span style="background-attachment: initial; background-clip: initial; background-image: initial; background-origin: initial; background-position: initial; background-repeat: initial; background-size: initial;"> has been selected by our panelist as one
of the <b>Top 100 Math Blogs</b> on the web.</span></span></div>
<span style="background: white; color: #222222; font-family: "arial" , sans-serif;">
</span>
<div style="text-align: left;">
<span style="color: #222222; font-family: "arial" , sans-serif;"><br /></span></div>
<div style="text-align: left;">
<a href="https://blog.feedspot.com/math_blogs/" target="_blank"><span style="background: white; color: #1155cc; font-family: "arial" , "sans-serif";">https://blog.feedspot.com/math_blogs/</span></a></div>
<div style="text-align: left;">
<br /></div>
<div style="text-align: left;">
<span style="background: white; color: #222222; font-family: "arial" , sans-serif;"><span style="background-attachment: initial; background-clip: initial; background-image: initial; background-origin: initial; background-position: initial; background-repeat: initial; background-size: initial;">I personally give you a high-five and want to
thank you for your contribution to this world. This is the most comprehensive
list of </span><a href="https://blog.feedspot.com/math_blogs/" style="background-color: transparent;" target="_blank"><span style="background-attachment: initial; background-clip: initial; background-image: initial; background-origin: initial; background-position: initial; background-repeat: initial; background-size: initial; color: #1155cc; font-family: "arial" , sans-serif;">Top 100 Math Blogs</span></a><span style="background-attachment: initial; background-clip: initial; background-image: initial; background-origin: initial; background-position: initial; background-repeat: initial; background-size: initial;"> on the internet and I'm honored to have
you as part of this!</span></span></div>
<span style="background: white; color: #222222; font-family: "arial" , sans-serif;">
</span>
<div style="text-align: left;">
<br /></div>
<div style="text-align: left;">
<span style="background: white; color: #222222; font-family: "arial" , sans-serif;">Best,</span></div>
<span style="background: white; color: #222222; font-family: "arial" , sans-serif;">
</span>
<div style="text-align: left;">
<span style="background-color: white; color: #222222; font-family: "arial" , sans-serif;">Anuj</span></div>
<br />
<div style="text-align: left;">
<br /></div>
<div class="separator" style="clear: both; text-align: center;">
</div>
<div style="text-align: center;">
<span style="font-size: x-large;"> <a href="https://www.feedspot.com/infiniterss.php?pubid=p_guest&q=site:https%3A%2F%2Fmahmoodmathmagic.blogspot.com%2Ffeeds%2Fposts%2Fdefault%3Falt%3Drss" target="_blank"> Math Magic Mystery Follow on Feedspot</a></span></div>
<br />
<div class="separator" style="clear: both; text-align: center;">
<a href="https://1.bp.blogspot.com/-ekDYs2dyBAU/XlYuAV41vFI/AAAAAAAAKiw/xxUethbFkdgbmCTPP5N4FfN1yJfbVHo7ACEwYBhgL/s1600/Feedspot%2B01.jpg" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" data-original-height="662" data-original-width="1339" height="196" src="https://1.bp.blogspot.com/-ekDYs2dyBAU/XlYuAV41vFI/AAAAAAAAKiw/xxUethbFkdgbmCTPP5N4FfN1yJfbVHo7ACEwYBhgL/s400/Feedspot%2B01.jpg" width="400" /></a></div>
<div class="separator" style="clear: both; text-align: center;">
</div>
<br />
<div class="separator" style="clear: both; text-align: center;">
</div>
<div style="text-align: left;">
<br /></div>
</div>
Mahmood ul Haqhttp://www.blogger.com/profile/15663500585866206295noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-9093583512083034937.post-34608574129189562342020-02-19T08:36:00.000-08:002020-02-19T08:42:21.315-08:00سچے کلام کی شدتِ چاہ<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div style="text-align: right;">
</div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<br />
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 16.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;">بادلوں اور پرندوں کی دسترس سے باہر38 ہزار فٹ کی بلندی پر
نیویارک سے لاہور جاتے ہوئے<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>مسافروں پر
اُچٹکتی نگاہ ڈالی تو اپنوں سے ملنے کی خوشی اُن کے چہروں سے عیاں تھی۔ میں ہزاروں
ڈالرز کا نقصان اُٹھانے کے بعد اپنی بچی کچھی جمع پونجی کو سمیٹے سرشاری سے بھرپور
نشے کی حالت میں تھا۔<o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 16.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;">"وہ کون سی پاک کتاب ہے جسے خدائے زوالجلال نے جیسے
اُتارا وہ آج بھی اسی حالت میں موجود ہے" سوال کرنے والے کے چہرے پر بے چینی
و اضطراری کھلی کتاب کے اوراق کی مانند <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>بے
ترتیبی اور الجھن کا اظہار کر رہی تھی۔پیشانی پہ پڑیں گہری سلوٹیں دنیا سے اُس کی
بیزاری کی چغلی کر رہی تھیں۔ میرےچہرے پر ایک لمحے کے لئے حیرانگی نے ایک تاثر
ابھارا<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>۔ اس کی بیوی کے بقول (جو میرے گیس
سٹیشن و سٹور پر ملازم تھی) وہ<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>توایک
نفسیاتی مریض تھا جسے ڈاکٹر کی تجویز کردہ میڈیسن نے شانت رکھا ہوا ہے ۔<o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 16.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;">سوال پوچھنے والے گورے نوجوان کو میں نے بتایا کہ وہ قرآن
پاک ہےجو نازل ہونے کے بعد سے اب تک خالق کائنات کی عظمت کی گواہی دیتا ہے اور وہ
حرف بہ حرف اپنی اصل حالت میں ہے۔ اتنا سن کر وہ خاموشی سے<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>سٹور سےباہر نکل گیا۔ ایک ہفتہ بعد وہی گورا
نوجوان پٹرول ڈلوانے کے بعد ایک بار پھر اندر آیا اور<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>پھروہی سوال دہرایا !<o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 16.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;">اسے ایسی کتاب کی تلاش کیوں جس کے ایک ایک لفظ سے سچائی
چھلکتی ہو۔ وہ اپنے باپ سے سوال کرتا کہ میں کون ہوں، کیا ہوں۔تو وہ دوسری بیوی
اور اس کے پہلے بچوں کے معاملات میں الجھنے کی وجہ سے اسے اپنی پہلی غلطی کی سزا
نظر آتا۔نوجوان گورے کی پہلی بیوی دوسرے شوہر کے ساتھ رہنے لگی تو پہلی بچی بھی
ساتھ لے گئی اور اس کی دوسری بیوی اپنی بچی پر صرف اپنا حق سمجھتی۔ہمسائے اس سے
نالاں ، دوست اس سے کنارہ کرتے۔پادریوں سے سوال کرتا تو وہ اسے ذہنی مریض سمجھ کر
بے اعتناعی برتتے۔مذہب میں اسے پناہ نہ ملتی۔ وہ الجھتا چلا گیا۔نشہ کی بجائے وہ
دوا کے سہارے کا محتاج ہو گیا۔ جس سے خیالات کچھ دیر کے لئے سستا لیتے۔جیسے ہی دوا
کا اثر ختم ہوتا بے رحم سوال اسے اپنی گرفت سے نکلنے نہ دیتے۔<o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 16.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;">انسان جواز کا طالب ہے اور وجود اس کا مطلوب۔منزل پر اس کی
نظر ہے ، کوشش پر یقین نہیں۔سچ جانتا ہے لیکن حق کا طالب نہیں۔قرآن کو<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>الہامی مانتا ہے ، سچ کو جانتا ہے<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>لیکن جزب سے محروم رہتا ہے۔اللہ تبارک تعالی
اپنی چاہ رکھنے والے<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>کو ناقابل یقین کرامت
دکھاتا ہے۔ جس پر گزری ہو اور جس کی آنکھوں نے وہ منظر دیکھا ہو وہ کیونکر رحمتوں
سے انکاری ہوں۔<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>اللہ تبارک تعالی ان کے
لئے راستے بنا دیتا ہے جو اُس کی راہ تکتے ہیں۔<o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 16.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;">گورے عیسائی نوجوان کو میں نے فطرت کا حسن کائنات کے جلوے سے
سمجھایا کہ<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ اُس
کی تخلیق<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>اور نشانیوں پر غور کیوں نہیں
کرتے۔ سمجھ والے ، علم والے اور ایمان والے کہہ کر انہیں درجہ بندی میں شمار کرتا
ہے۔ دنیا کی چاہ جتنا بڑھے گی محبت جاہ اتنی ہی شدت سے مٹی کے انسان سے تکبر کا
نشان بنا دیتی ہے۔پھل پھول اشجار کے ایک ہی قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں۔ مٹی سے پنپ
کر مہک خوشبو اور لذت سے لبریز حسن بے مثال ہوتے ہیں لیکن مٹی کا ذائقہ نہیں
رکھتے۔<o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 16.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;">فطرت کا حسن الفاظ میں ڈھل کر اس <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>کی رگوں میں لہو بن کر دوڑنے لگا تھا۔ میں ایک
لمحے کے لئے سہم گیا<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>جب <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>اُس نے کہا کہ رب زوالجلال کا ذکر سننے سے اُس
کے اندر کچھ ایسا ہو رہا ہے جیسے خون کی گردش میں کچھ شامل ہو گیا ہو۔وہ مسرور تھا
کیونکہ اسے اچھا محسوس ہو رہا تھا۔<o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 16.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;">اللہ اپنی طرف آنے والوں کی طرف ایسے رجوع کرتا ہے<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>۔ میں خاموشی سے طالب چاہ کو دیکھ رہا تھا اور
عالم جاہ وجلال تھا۔ اطمینان اور سکون کی ٹھنڈک اس کے جلتے وجود<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>پر قطرہ قطرہ خون میں شامل ہو کر پھولوں کی طرح
نکھررہی تھی۔ وہ مہک رہا تھا۔آنکھوں کی چمک قلب کے حاوی ہونے کا سندیشہ دے رہی
تھی۔دو <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>گھنٹے کی نشست میں عشق کی ایسی
انتہا دیکھی جس کا میرا قلم احاطہ کرنے کے قابل نہیں۔ وہ میری زندگی کے ایسے لمحات
تھے جب میرا وجود<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>مٹی کے ایک زرہ سے بھی
کمتر حیثیت کا حامل تھا۔ شان زوالجلال عظمتوں کے میناروں پر کھڑی تھی اور میں
لفظوں میں سجدہ ریز تھا۔ ایسا لمحہ جب پوسٹ مین عاشق کو محبوب کا خط سنا رہا تھا۔<o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 16.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;">آن لائن انگلش قرآن کے بارے میں اسے گائیڈ کرنے کے بعد میں
کئی دن بھرپور نشے میں مبتلا رہا۔ مگر پندرہ روز بعد جو منظر میری آنکھوں نے
دیکھا<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>اسے بیان کرنا میرے بس سے باہر ہے۔
شاعروں نے چودھویں کے چاند پر زمین و آسمان کے قلابے ملائے<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>لیکن دیکھنے میں جو نشہ ہے پڑھنے سے ممکن نہیں۔<o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 16.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;">میرا ہاتھ پکڑ کر تھینک یو کہہ کر اپنے چہرے کی طرف غور
کرنے کا کہا۔ یہ تو وہ شخص ہی نہیں تھا جو پندرہ روز پہلے مجھے ملا تھا ۔ پریشان
چہرہ، عجیب سی نظریں<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>اور پیشانی پر بے
شمار سلوٹیں۔ چودھویں کے چاند کی مانند چمکتا دمکتا چہرہ<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>اور سلوٹوں سے پاک۔ میں کھلی آنکھوں سے بس اسے
تک رہا تھا اور وہ بولے جا رہا تھا۔ قرآن کا مفہوم چند دنوں میں اس کی روح کو
سیراب کر گیا۔اللہ تبارک تعالی سے قرب کی داستان تھی جو وہ سنا رہا تھا کہ بیس سال
سے اس کی پیشانی پر سلوٹیں دو ہفتوں میں مکمل طور پر ختم ہو چکی تھیں جیسے کبھی
تھی ہی نہیں۔ روشن چہرہ اطمینان قلب سے<span style="mso-spacerun: yes;">
</span>بھرا ہشاش بشاش ایک عیسائی گورا نوجوان جو خدا کی سچی کتاب کی تلاش میں
نکلا تو سچ حقیقت بن کر اس میں سما گیا۔ اس نئے انسان کے بدلے ہوئے رویئے اور
کردار نے اس کی بیوی اور محلے داروں کو حیران و پریشان کر دیا۔اس کا ایک محلے دار جومیرے
پاس کام کرتا تھا ، ایک دن کہنے لگا کہ اسے کوئی اچھا ڈاکٹر مل گیا ہے اور اس کی
دوائی سے اسے بہت فرق پڑا ہے۔ بہت خوش اخلاقی اور خندہ پیشانی سے تمام لوگوں سے
ملتا ہے۔ نسخہ تو اسے ایسا شاندار ملا تھا جس میں اس کے درد کی دوا تھی اور
پریشانیوں کا مداوا۔<o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 16.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;">چند سال بعد میرے دوست کے بیٹے نے (جن کا گیس سٹیشن میرے
قریب ہی تھا ) مجھے بتایا<span style="mso-spacerun: yes;"> </span><span style="mso-spacerun: yes;"> </span>کہ <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>آپ
کے جانے کے بعد <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>وہ ہمارے پاس آیا اور <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>آپ کے بارے میں پوچھا تو میں نے اسے بتا یا کہ
آپ پاکستان واپس چلے گئے ہیں اور اس کی خواہش پر قرآن پاک انگلش ٹرانسلیشن کے ساتھ
منگوا کر اسے دے دیا تھا۔ اللہ تبارک تعالی کے سچے کلام کی شدت چاہ جتنی اس گورے
نوجوان میں دیکھی، ابھی تک کسی اور میں نہیں دیکھی میں نے۔<o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 16.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;">محمودالحق<o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<br /></div>
<br /></div>
</div>
Mahmood ul Haqhttp://www.blogger.com/profile/15663500585866206295noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-9093583512083034937.post-34943587101202483742020-01-25T13:11:00.000-08:002020-01-25T13:11:46.894-08:00پانی پر عکس چاند<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
زمین ہموار ہو، نظریں راستے پر اور قدم برابر تو سفر کٹ جاتا ہے۔بس اتنا ہی بس میں ہے۔ جہاں اختیار نہ ہو وہاں چاہت انتہا کر دیتی ہے۔جو پاس ہو وہ اپنا اختیار بھی چھین لیتا ہے۔زندگی نے جو چاہا وہ لے لیا اورہم نے جو مانگا وہ پانی پر عکس چاند ہو گیا ۔لہروں کی مستی نے وہ منظر بھی دھندلا کر دیا۔ بادل برس کر ہوا ہو جاتا ہے۔ تو قوس وقزح آسمانوں پر پھیل جاتی ہے۔</div>
<div style="text-align: right;">
جو ہمیں زندگی دیتا ہے وہی جینے کا ہنر دیتا ہے۔جنہیں خواہشیں مقدم ہوتی ہیں، انہیں زندگی محترم ہوتی ہے۔ آبادیوں میں انسان بستے ہیں جنگلوں میں جانور رہتے ہیں۔ جنہیں انسان بس میں کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔کمزور پرندے اور جانور چڑیا گھروں میں جتنے بھی مزے میں اور محفوظ کیوں نہ ہوں پھر بھی وہ قیدی ہیں۔آج ہر انسان آسائش و آرام کی ہر سہولت سے استفادہ حاصل کرتا ہے۔ ترقی ایک ایسا چڑیا گھر ہے جہاں ہر سہولت آسائش پانی پر چاند کے عکس کی مانند اسے حاصل ہے۔ پیکج ختم ہونے یا نیٹ بند ہونے پہ ہاتھوں پہ ہاتھ دھرے رہ جاتے ہیں۔ جو جب چاہتا ہے اور جتنا چاہتا ہے کھڑکی کھولتا ہے اور جب چاہے گا اسے بند کر سکے گا۔بس میں تو کچھ بھی نہیں بس خریدار ہیں۔جب تک نوٹ دکھاتے رہیں گے تماشا ہوتا رہے گا۔انسانی معاشرے میں جگہ جگہ کڑکیاں لگی ہوئی ہیں نیٹ فون ٹی وی کی۔اسی میں انسانوں کی ایک بڑی تعداد بستی ہے۔ایسے ہی جیسے جنگلوں میں چڑیا گھروں کا جال پھیلا دیا جائے۔پرندے اور جانور خود قید ہونے کے لئے بیتاب ہو جائیں اور اپنے اپنے پنجرے پر فخر کریں۔کوئی جھولے پر فخر کرے تو کوئی خوراک پہ۔</div>
<div style="text-align: right;">
پانے کی جلدی میں کھونے کے ڈر سے محروم ہو گئے۔ڈر ہے تو صرف رک جانے کا۔تیل ڈلتا رہے ، بجلی چلتی رہے تو گزر بسر بھی ہوتی رہتی ہے۔ایک ماہ کے لئے نیٹ فون ٹی وی بند کر دیں تو معلوم ہو گا کہ نشئیوں کی تعداد میں کتنا اضافہ ہو چکا ہے۔نشہ صرف ڈرگ کے استعمال کا نام نہیں بلکہ ہر وہ شے جو اپنے ارد گرد کے ماحول سے بے اعتنائی ، لاپرواہی اور لاتعلقی پیدا کرنے کا سبب بن جائے ،وہ معاشرہ ایک مہذب ترقی نامی بیماری کا شکار ہو جاتا ہے۔ جہاں تعلق صرف غرض و مفاد کا رہ جاتا ہے۔متواز ن شخصیت رکھنے والے ہی ایک مثالی معاشرے کی بنیاد رکھتے ہیں۔جس معاشرے میں عوام کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر، عوام کا ہجوم اورعوام کا جم غفیر جیسی ٹرم مقبول زبان زد عام ہوں۔ وہاں شائستگی ، تہذیب کی بجائے ہاسپٹل دوکانوں اور گاڑیوں کی توڑ پھوڑ کا لائسنس گاڑیوں موٹر سائیکلوں کی نمبر پلیٹس کے ساتھ لکھا ہوتا ہے۔جب نظام تعلیم شعور کی بجائے معاش کی فکر لاحق کرے تو عدم برداشت اور انتقام کا زہر شریانوں میں خون بن دوڑتا ہے۔ریوڑ پر امن ہوتے ہیں ہجوم بپھرے ہوئے۔</div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
محمودالحق </div>
</div>
Mahmood ul Haqhttp://www.blogger.com/profile/15663500585866206295noreply@blogger.com0