Oct 30, 2011
یہ جینا بھی کیا جینا ہے
نقصان عدم اعتماد پیدا کرتا اور بھروسہ کو پامال کرتا ہے ۔ فائدہ تکبر کا مادہ پیدا کرتا ہے ۔ مقدر کے سمندر میں سکندر کی ناؤ بہاتا ہے ۔ انسان سوچتا وہی ہے جو پانا چاہتا ہے ۔ ہوتا وہی ہے جو تقدیر میں لکھا ہو ۔
زندگی میں خوشیاں تلاش کی جاتی ہیں ۔ جبکہ خوشی موقع کی تلاش میں رہتی ہے ۔ اور مواقع حسد ، رقابت ، لالچ اور نفرت سے کھوتے چلے جاتے ہیں ۔ مزاج مسلسل بگڑے رہنے سے رویے عدم توازن کا شکار ہو جاتے ہیں ۔ پھر دوست دوست نہیں رہتے ۔ محبوب بھی محبوب نہیں رہتے ۔ عیوب کی نظر بد کا شکار ہو جاتے ہیں ۔ جیسے ساحل سمندر پر لہریں پاؤں کے نیچے سے ریت سرکا نے سے توازن بگاڑتی اور پھر ساتھ بہانے کی ضد میں ایک کے بعد ایک لہر دوسرے کی مدد کو پہنچ جاتی ہے ۔جو سنبھلنے اور پاؤں جمانے کی مہلت دینے میں بخل سے کام لیتیں ہیں ۔
محنت سے جوڑی گئی ایک ایک اینٹ جب ایک دوسرے سے کٹ جائے تو صرف ملبہ کے ڈھیر کی صورت میں رہ جاتی ہے ۔ عمارت نقش و نگار سے مزین اور نظر اُٹھا کر دیکھنے میں خوبصورتی کا مجسمہ بنتی ہے ۔نظریں جھکانا احتیاط یا تابعداری میں رہتا ہے ۔ دیکھنے والی آنکھ وجود کا ہی حصہ ہیں مگر نظر میں جزب کی کیفیت روح سے مزین ہے ۔
زمین میں بیج بو کر آبیاری سے ثمر کے حصول تک پروان چڑھانا ایک عمل کا نتیجہ ہے ۔ مگر جس زمین کی تاثیر سے شاخوں میں پھول کھلتے اور رس گھلتے ہیں ۔ وہ جڑوں سے پہنچنے والی طاقت ،مٹی میں عمل تبخیر آبگیری تک آنکھوں سے اوجھل رہتی ہے ۔
جو درخت گرمی میں ٹھنڈک پہنچاتے ، دھوپ سے بچاتے تو سردی میں وہی اپنے سے دور رہنے پر مجبور کرتے ہیں ۔ مگر انھیں کاٹ کر پھینک نہیں دیا جاتا ۔ بلکہ موسم میں تبدیلی کے آثار نمودار ہونے تک انتظار میں رہا جاتا ہے ۔ مگر انسان بھلائی نیکی کرنے والے کی ایک غلطی یا خامی کو حالات کی درستگی تک ٹھیک ہونے کی مہلت دینے کو تیار نہیں ہوتا ۔بلکہ محبت کی ڈوری سے بندھے رشتے ناطے کو نفرت اور غرض کی آری سے کاٹنے کے درپے رہتا ہے ۔ چشمہ سے ابلتا پانی گرمی میں ٹھنڈک کا احساس دلاتا اور موسم سرما میں یخ بستہ سردی کا احساس مٹاتا ہے ۔ مٹی سے بنا انسان مٹی سے اٹ جانے کو گندگی تصور کرتا ہے ۔ لباس اور وضع قطع سے منفرد اور مسحور کر دینے کی بے لگان خواہش سے عزت ومنزلت اور جاہ و مرتبہ کا متمنی رہتا ہے ۔
آزادی سرکش اور بے لگام گھوڑے کی مانند ہے جسے قانون کی کاٹھی سے موافق بنایا جاتا ہے ۔ مگر نفس پھر بھی سرکشی پر مائل رہتا ہے ۔اگر روح کا بار وجود پر بھاری پن کا احساس بڑھا دے تو خلوت کا احساس بوجھ سے آزاد ہو جاتا ہے ۔ترغیب گناہ کی لذت کا احساس ضمیر اور خواہش کے درمیان فاصلے مٹاتا چلا جاتا ہے ۔
خوشی لزت سے آشنا ہوتی ہے اور غم خوف سے ۔
غم کے آنے میں غم ہے تو جانے میں خوشی ۔ خوشی کے آنے میں خوشی ہے تو جانے میں غم ۔
جو اسے رضا جان لے تو رضائے الہی سے قلب اطمینان میں دھڑکتا ہے وگرنہ اچھل اچھل بھڑکتا ہے ۔
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
1 تبصرے:
اچھی تحریر ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
Post a Comment