Apr 30, 2021

ذات کا بلیک ہول

 روح روحانیت کے زیر اثر بدنی ضرورتوں سے بے خبری کی کیفیت میں ایک سسٹم کے تابع ہوتی چلی جاتی ہے۔ جسے سمجھنا انتہائی مشکل صورتحال سے دوچار کر دیتا ہے۔ انسان حالات کی گتھیاں سلجھانے کی فکر میں اپنی ذات کے اندر گھٹا گھوپ اندھیروں میں روشنی کی تلاش میں ایسی گہرائیوں میں جا اترتا ہے جہاں سے نکلنے میں زندگی بھر کی جمع توانائی صرف ہو جاتی ہے لیکن دلدل سےنکلنا نا ممکن ہو جاتا ہے۔ ٹوٹے وجود میں ایک ایسا بلیک ہول تشکیل پا جاتا ہے جو ادھوری خواہشات ، ناکام محبت، احساس محرومی اور وقت سے پہلے ہاتھوں سے پھسلتے رشتوں کے درد سے اتنا بڑا ہو جاتا ہے کہ بڑی سے بڑی خوشی اور کامیابی حاصل ہونے کے بعد چند لمحوں میں وجود میں بلیک ہول کے اندر غرق ہو جاتی ہے۔ انسان چند لمحوں کی تسکین کے بعد پھر اسی درد میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ یہ جان ہی نہیں پاتا کہ زندگی بھر کی خواہشیں اور کامیابیاں لمحوں میں اپنا اثر کیوں کھو دیتی ہیں۔ کیونکہ بلیک ہول کے بننے کا عمل سوچ، غور و فکر کی ارتقائی صورت انتہائی پوشیدہ اور سست رو ہوتی ہے۔ یہ ایک سفر کی داستان ہے جہاں منزل نہیں ہوتی راستہ ہوتا ہے ،مسافر ہوتے ہیں اورایک قطب ستارہ ہوتا ہے جو اس راستے کی نشاندہی کرنے کے لئے اسی سمت میں موجود ہوتا ہے۔ انسان حالات کی ستم ظریفی کی شکایات سے خوشیوں کی تلاش میں سرگرداں رہتا ہے لیکن وہ سمجھ ہی نہیں پاتا کہ وہ دوسرے انسانوں کے ساتھ ساتھ چلتے ہوئے جن راستوں پر چلنے کو منزل سمجھ بیٹھا ہے وہ تو ان راستوں کا مسافر ہی نہیں ہوتا۔اللہ سبحان و تعالی کے نزدیک وہ خاص ہوتے ہیں اور  جو اللہ کی محبت کا رس رکھنے والےانسانوں تک پہنچ کر محبت سے محبت کا غلاف عشق بناتے ہیں۔جنہوں نے اللہ کےعشق کی چوٹ نہ سہی ہو ، آزمائشوں کی چکی میں پسنے کے عمل سے نہ گزرے ہوں، ان کے لئے زندگی تندرستی اور بیماری سے بڑھ کر کچھ نہیں۔ کامیابی عقل و سمجھ کی معراج مانتے ہیں وہ اور ناکامی قسمت و تقدیر کا کھیل۔ لیکن یہ سفر ہے ،روح کا سفر ،روحانیت کا سفر اور انسان کے مقصد حیات کا سفر جس کے لئے اللہ سبحان و تعالی بار بار قرآن مجید میں فرماتے کہ تم غور کیوں نہیں کرتے۔ ہواہیں بادلوں کو کیسے لے کر وہاں پہنچتی ہیں جہاں مردہ بنجر زمین کو بارش سے زندہ کیا جاتا ہے اور زندہ سے مردہ اور مردہ سے زندہ پیدا کیا جاتا ہے۔ یہ صدیوں کی کہانی نہیں جوآثارقدیمہ سے بیان ہو، یہ حال کی کہانی ہے جو حال دل سے بیان ہوتی ہے۔ جوسر اور بلینڈر کی کہانی جیسی، ایک میں پھل سے جوس نکلتا ہے اور ایک میں ملک شیک بنتا ہے۔ دو اور دو چار ہوتے ہیں گناہوں سے دوزخ اور نیکیوں سے جنت واجب ہوتی ہے لیکن الگ الگ اپنے اپنے دائرے میں رخت سفر باندھ کر چلنے والوں کے لئے۔ جن کے اندر بلیک ہول موجود نہیں وہ اپنے سفر پرگامزن رہتے ہیں اور جو ہر خوشی اور کامیابی پانے کے لمحوں بعد درد کی ٹیس محسوس کریں ان کے سفر روشنیوں کی طرف بڑھنے کےسفر ہیں کیونکہ وجود کا بلیک ہول صرف انہیں ختم کرتا ہے جو اس وجود کے لئے اہم نہیں ہوتے اور پاک پروردگار کی طرف جانےوالے راستوں کی راہ میں رکاوٹ بنتے ہیں۔ بلانے کا سفر صدیوں سے جاری و ساری ہے لیکن سننے ماننے اور چلنے میں میَں، تکبر اورضد آڑے آ جاتی ہے۔ بلانے والے بلاتے رہیں گے کیونکہ وہ گونگے نہیں، سننے والے نہیں آتے کیونکہ وہ بہرے ہیں۔  ذات کابلیک ہول اللہ سبحان و تعالی کے حضور رات رات بھر گڑگڑانے کے بعد کہیں روشنیوں سے منور ہوتا ہے۔ 

اوکھے پینڈے لمیاں نیں راہواں عشق دیاں

حق اللہ ہو اللہ ہو اللہ اللہ  ہو اللہ 

تحریر: محمودالحق

در دستک >>

Apr 23, 2021

سراب

دنیا ایک ایسی آماجگاہ ہے جہاں غرض و مفاد کی خاطر نفرتیں پالی جاتی ہیں اور محبتیں دکھاوے سے زیادہ کچھ نہیں۔جینا آسان ہونا چاہئیے تھا جسےمشکل بنا دیا جاتا ہے۔ ایک ایسے معاشرے میں ہم زندہ ہیں جہاںمشینوں سے سانس لیا جاتا ہے اور مسکرانے کے لئے انسان ڈھونڈنےپڑتے ہیں۔کبھی کبھار احساس ہوتا ہے کہ ہم ایک ایسی بستی میں رہائش پزیر ہیں جہاں صرف دروازے ہیں داخل ہونے کے لئے ، کوئی کھڑکی نہیں باہر جھانکنے کے لئے۔ سیارچوں کی طرح انسان اپنے اپنے مدار میں گردش کر رہے ہیں جہاں پانا ہی زندگی کا مقصد ہے، اپنی خوشی سے بڑھکر کچھ نہیں۔ دوسروں کی تکلیف اور دکھ عارضی ہیں۔ جن کے بارے میں سوچنا اور ذکر کرنا بے فائدہ ہے۔ آگے بڑھنے کے راستے میں جو رکاوٹیں آئیں انہیں ہٹایا نہیں جاتا روندا جاتا ہے۔ ہر حال میں حالت جنگ میں رہتے ہیں لفظوں کے گولوں سے رشتوں پر حملہ آور ہوتے ہیں۔زندگی کوجیتے نہیں ہیں صرف گزارتے ہیں۔رشتوں سے نبھا نہیں کرتے صرف تعلق بناتے ہیں جنہیں جب چاہیں جہاں چاہیں چھوڑ کر آگے بڑھ جائیں،پھر سے نئے تعلق بنانے کے لئے جن میں غمگساری نہیں ہوتی، درد کےاحساس کارشتہ نہیں ہوتا۔ بس ایک ایسی راہگزر پر چلتے رہنے کا سفر جوریگستان کے نشیب و فراز میں دور سے پیاسوں کے لئے سراب دکھائی دینے کی مانند ہوتی ہے۔ 


محمودالحق

در دستک >>

سوشل نیٹ ورک

Flag Counter