Jul 24, 2014

اللہ کرے زورِ جذب اور زیادہ

دماغ کے گرم تنور پہ اختلاف کے پیڑے سے تسلی کی روٹی بنانے کی کوشش میں ہوں۔ اگر گول مٹول کی بجائے چپٹی بن جائے تو مردِ انجان سے کھری کھری سننے کی نوبت نہیں آئے گی مگر امور خانہ داری نبھانے والوں سے جان بچانی مشکل ہو جائے گی۔ جنہیں بھوک نے ستا رکھا ہو ظاہری خدو خال کی پیچیدگیوں سے آنکھیں چرائے رکھتے ہیں۔نخرہ  تو تب کیا جاتا ہے جب پیٹ بھرا ہو۔ خالی پیٹ تو آنکھ اوجھل پہاڑ اوجھل ہوتا ہے۔
والدین بچوں کے گریڈ کم آنے پر دہائی دیتے ہیں۔ بچے ٹیچروں کے نہ پڑھانے کی دہائی دیتے ہیں۔ حکومتیں قانون قانون کی دہائی دیتی ہیں۔ عوام امن کی دہائی دیتے ہیں۔غریب مہنگائی کی دہائی دیتے ہیں۔امیر ائیر کنڈیشنڈ کمرے میں بے سکونی کی دہائی دیتے ہیں۔لڑکے محبت محبت کی دہائی دیتے ہیں۔ لڑکیاں بے وفائی کی دہائی دیتی ہیں۔مظلوم ظلم ظلم کی دہائی دیتا ہے ۔ ظالم نا انصافی کی دہائی دیتا ہے۔  اورشاعر وزن بحر کی دہائی دیتا ہے  توادیب نارسائی کی دہائی دیتا ہے۔  جن کی پانچ گھی میں ہوں وہ نیند میں خواب کے مزے لیتا ہے۔ جن کی ایک کے بعد ایک ٹیڑھی ہونے کے باوجود گھی نہ نکلے  انہیں دوسروں کی سیدھی بری لگتی ہے۔سب اصول و ضوابط حضرت انسان کے اپنی ذات انجمن کے طے کردہ ہیں۔لندن اور امریکہ میں نظام ٹریفک ایسے ہے کہ  ایک کو دوسرے کی ٹریفک ون وے کی خلاف ورزی کر تی نظر آتی ہے۔کیونکہ لندن لیفٹ ہینڈ ٹریفک چلتی ہے تو امریکہ میں رائٹ ہینڈ ۔
قانون فطرت نہیں بدلتا ، مذہب کی تشریح بدل جاتی ہے۔ سرحدیں آسانی سے نہیں بدلتیں  کیونکہ طاقتور سے سامنا کرنا پڑتا ہےمگر قانون بدل جاتے ہیں کیونکہ وہ کمزور پر لاگو ہوتے ہیں۔ جن ملکوں میں نظام تعلیم پرائیویٹ سکولوں کے ٹھیکیداری نظام پر چلتا ہو ۔ استاد ٹیوشن سے گھر کا چولہا جلانے پر مجبور ہو۔ جہاں پیسے کے زور پر علم سیکھا جاتا ہو۔ وہاں شعر و ادب کے رکھوالے صدیوں کی روایات کو نشاۃ ثانیہ قرار دے کر دبستان لکھنو کی تحریک کے روح رواں بنے نظر آتے ہیں۔وہ حق بجانب ہیں کیونکہ ادب کی ان اصناف کو ماننے والے مسلمانوں سے زیادہ ہیں۔وہ اس لئے کہ مسلمان عشق حقیقی کو ماننے والا ہے  مگر یہاں تو عشق مجازی کے پرستار لاکھوں کی تعداد میں جلتی شمع کے گرد پروانوں کی طرح مٹنے کے لئے تیار رہتے ہیں۔ جن کے لئے میری ذات ذرہ بے نشان صرف ڈرامے کی حد تک ہوتی ہے۔قرآن و سنت نے جو طے کر دیا باتوں سے پورا کر لیا جاتا ہے۔اولاد  بننے سے لے کر فرد بننے تک اپنے فائدے کے حقوق مرضی کے فرائض ادا کر دئیے جاتے ہیں۔ 
اللہ کرے زور قلم اور زیادہ ۔یہ وہ دعا ہے جو لکھنے والوں کو دی جاتی ہے۔
اللہ کرے زور جذب اور  زیادہ ۔ یہ دعا  پڑھنے والوں کو دی جانی چاہیئے۔ 
لاہور کی سخت گرمی اور حبس  میں  لوڈ شیڈنگ سے بھری سحری اور افطاری کے بعد  ان سے دور آ کر ٹھنڈی ہواؤں  نےان سے غافل نہیں کیا جو گرمی اور حبس میں اللہ کے شکر گزار بندے بن کر رہتے ہیں۔ 
 پانچ انگلیوں سے لکھتے لکھتے پانچ سال ہو گئے۔ پانچ ملنے مشکل ہیں ۔لکھنا قلم سے ہوتا تو قلمی دوستیاں رکھتا۔مگر قلب مستی کرتا ہے۔اسی مستی میں ٹی وی پر آنے والے ایک فقیر سے ملاقات کا وقت مانگ لیا تو سیکرٹری نے دو گھنٹے انتظار کے بعد دو منٹ دینے پر رضا مندی ظاہر کی۔اتنے کم  تو ہم بھی نہیں کہ دو منٹ میں حال دل بیان کر دیتے۔ سالہا سال  سےعشق حقیقی میں مبتلا  ہیں۔دو منٹ میں تو دھڑکن سنائی نہیں دے  گی۔ ایک اور صاحب کے معتقد نے خود ہی  مایوسی سے بھانڈا پھوڑ دیا کہ آدھے گھنٹہ  کی ملاقات کا بیس ہزار اورپندرہ منٹ کے فون کا پانچ ہزار لیتے ہیں۔  ٹی وی پر آنے کا  معاوضہ تو ایسے ہی ہوتا ہے۔ جتنا گڑ ڈالو اتنا میٹھا ہو گا۔  اب وہ زمانہ نہیں کہ ایک ہاتھ سے خیرات کرو تو دوسرے ہاتھ کو پتہ نہ چلے۔ کیمرہ ٹی وی کا نہ بھی ہو اپنا ساتھ ضرور رکھو۔ نیکی کا ثبوت مانگا جا سکتا ہے۔اب نیکی کر دریا میں ڈال والا دور نہیں۔ کھوٹا کھرے سے زیادہ چلتا ہےاور جھوٹ سچ سے۔زبان قینچی کی طرح چلتی ہے تو قلم خنجر کی طرح۔
در دستک >>

Jul 23, 2014

محبت بے نام ہے



آج صرف دل کی سنتا ہوں۔کل کی بات ہے یہ صرف میری سنتا تھا۔یہ مجھے سمجھاتا کہ میں تو عکس آئینہ ہوں ۔ میں نے سمجھا کہ یہ پسِ آئنیہ ہے۔میں تصویر پہ تصویر بناتا  چلا گیا اور یہ انہیں مٹاتا چلا گیا۔
غصہ تو بہت کیا ۔میرے رنگوں کو بے رنگ کر دیتا۔جیسے سکول میں استاد تختہ سیاہ  کے ہر نشان کو ڈسٹر سے  صاف کر دیتا۔
استاد تو میں تھا اس کا ۔حرف مٹانے کا اختیار تو میرا تھا پھر یہ اپنی من مانی کیوں کرتا رہا میرے ساتھ ۔ ہر جذبہ ، ہر احسا س کو کرایہ دار کی طرح مکان سے بے دخل کر دیتا۔
مطالبہ بھی عجب تھا  چاہت ِکرایہ چاہے نہ دو مگر سکونت مکین کی طرح رکھو مسافر کی طرح پڑاؤ نہیں۔
 اندھیروں سے ڈر کر پناہ کی تلاش میں آنے والے تیل بھر بھر چراغ لے جاتے مگر یہ بھول جاتے کہ چراغ ِ روشن کے لئے چنگاری چاہیئے ہوتی ہے۔پھر چاہے چراغ سے گھر روشن کر لو یا اسے جلا لو۔یہ جل کر روشنی بھی دیتا  ہے اور جلا کر بھی۔
لیکن خواہش میں ہمیشہ بنا تیل کے بجھا جادوئی چراغ رہتا ہے۔جو ہاتھ کی رگڑ سے ہی محل جگمگا دے۔
شاعر کی نطر محبت کے شعر رگڑنے سے  دل کے بیاباں روشن نہیں ہوتے۔جب تک  کہ دل خود نہ جلے ۔
محبت محبوب  کودیکھنے کا نہیں ، اس کی گلی سے گزرنے کا نام ہے۔اسے پانے کا نہیں اسے سوچنے کا نام ہے۔مٹنے کا نہیں ہمیشہ رہنے کا نام ہے۔دیکھنے کا نہیں جاننے کا نام ہے۔خواہش کا نہیں احساس کا نام ہے۔تعلق کا نہیں بے پرواہی کا نام ہے۔پھول چننے کا نہیں  کانٹو ں سے بچنے کا نام ہے۔خاک پر رہنے کا نہیں خاک میں رہنے کا نام ہے۔

در دستک >>

Jul 12, 2014

نشانیاں


گرمی سے ستائے لوگ نہر میں الٹی قلابازیاں لگاتے کود رہے تھے۔ چند ایک پانی کو گندہ جان کر صرف پاؤں کو ٹھنڈک پہنچانے تک ہی استفادہ حاصل کر رہے تھے۔ وہاں گاڑیوں سے گزرنے والے بے اعتنائی سےکچھ بھی سوچنے کی مشقت سے لا پرواہی برتتے ہوئے افطاری میں مدعو کئے مہمانوں کی آؤ بھگت کے لئے جیب میں ڈالی لسٹ پر بار بار اچٹکتی نگاہ ڈالتے کہ کہیں گھر پہنچنے پر حافظہ کی کمزوری کا طعنہ سننے میں نہ آجائے۔کسی کو جانے کی جلدی تھی تو کسی کو واپس آنے کی۔دھوپ 43, 45  ڈگری سے جسم کی حرارت بڑھا رہی تھی تو دماغ ڈبل سپیڈ سے خیالات کو ہوا کے گھوڑے پر بٹھا رہا تھا۔غرض بندہ بشر کچھ سن رہا تھا کچھ سنا رہا تھا۔جو سبق ابھی یاد کیا اسے بھلا رہا تھا۔ رات کا چین کھو رہا تھا تو دن کا سکون بھی ہاتھ سے جا رہا تھا۔
نظر اُٹھا کر جب درختوں کو میں نے دیکھا تو وہ مسکرا رہے تھے۔ ٹہنی سے ٹہنی ملائے پتے سے پتہ ٹکرائے   تونشہ میں جھولتے ہوئے جھوم جھوم جاتے۔ میں زیر لب بڑبڑایا کہ تجھے اٹھکھیلیاں سوجی ہیں ہم بیزار بیٹھے ہیں۔ چلنے کونہیں ہم تیار بیٹھے ہیں۔چاہے صدیاں گزر جائیں کر کے انکار بیٹھے ہیں۔ اور ان میں سے کسی نے  خود کوپھل کے زیور سے آراستہ کر رکھا ہے  اور جھک جھک کر آداب بجا لا رہا ہے۔ کوئی  خود پھیل کر چھاؤں پھیلا کر  احسان جتانے پر بضد ہے۔ 
بیشک اللہ بیج اور گٹھلی کو چیرنے والا ہے)۔الانعام 95۔) 
زمین کی ہمواری سے لے کر آبیاری تک بیج کو پے در پے مواقع حاصل ہوتے ہیں۔ جن کی موسم سےنسبت طے کر دی جاتی ہے۔جو پہلے رنگ پاتے ہیں پھر خوشبو پھیلاتے ہیں۔بیج زمین سے ایسے نکلتے ہیں جیسے تاریکی چاک کر کے صبح  نکلتی ہے۔رات تو چین کا باعث ہے ۔ دن اور رات کی نسبت سورج اور چاند سے طے  کر دی جاتی ہے۔جو حساب کے سا دہ اصول پر جمع تفریق میں مصروف عمل رہتا ہے۔ اور دن کی تھکاوٹ کا حساب رات کو چکتا کر دیتے ہیں۔
یہ سادہ اور زبردست ہے جاننے والے کا )۔ الانعام 96۔ )
سورج اور چاند سے ہٹ کر تارے آسمان پر ٹمٹماتے  انگلیوں سے گنتی میں نہیں آتے۔ نہ ہی سکون آور ہیں نہ ہی چین کھونے والے مگر  خشکی اور تری کے اندھیروں میں  مسافروں کو راہ دکھلاتے ہیں۔تاکہ وہ بھٹک نہ جائیں اپنی سمت کو درست رکھ پائیں۔ اور منزل تک پہنچ کر اگلے سفر کی تیاری کا قصد کر لیں۔ان کے انتظار میں رہنے والے سورج اور چاند کی گردش سے جانے آنے کے فاصلوں کو دن رات میں باندھ لیں۔بے شک یہ نشانیاں علم والوں کے لئے ہیں۔
ہم نے نشانیاں مفصل بیان کر دیں علم والوں کے لئے) الانعام 97)
اللہ تبارک تعالی نے  سب سے پہلے آدم کی تخلیق   کی جسے  جاننے کاعلم عطا کیا گیا۔  پھر اسی جان سے اس کی بیوی پیدا کی گئی ۔پھر ان سے بہت سے مرد اور عورتیں پیدا کی گئیں۔ انسانی جان سے زندگی کے ایک مسلسل تسلسل کو جاری و ساری رکھنا حکمت خداوندی ٹھہرا ۔جہاں کوکھ  سےقبر میں ٹھہرانے اور امانت میں رکھنے کو منشاء و رضائے الہی ماننا بلا شک و شبہ  قرار پایا ۔جس کو علم کی طرح جاننے کی بجائے سمجھنا ضروری ہے کہ    حکم ربی ہے کیا۔زندہ کو مردہ سے اور مردہ کو زندہ سے نکالنے والا ہے ۔چاہے وہ بیج اور گٹھلی ہو یا ایک جان سے پیدا کیا گیا انسان ۔ ایک میں مفصل بیان کی گئی نشانیاں علم والوں کےلئے ہیں اور ایک میں سمجھ والوں کے لئے۔ انسان قبل از پیدائش سے  موت اور بعد از موت رکھے جانے کو احکامات پروردگار سے جستجو و تلاش کے راستے سے سمجھنے کی کوشش میں اللہ کا قرب پانے کےقریب ہو جاتا ہے۔ جہاں اس پر رحمتیں نچھاور ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔قبل از موت کئے گئے فیصلے بعد از موت محفوظ رکھے جاتے ہیں تاآنکہ فیصلہ کا دن آن پہنچے گا۔ انسان نشو ونما کی بجائے پرورش سے پروان چڑھتا ہے۔تربیت کے مختلف ادوار میں آگہی کی سوجھ بوجھ سے بعداز موت کے مناظر کو پہلے ہی کینوس پر  مختلف رنگوں کے حسین امتزاج   سےمنتقل کیا جانا بہتر رہتا ہے۔ 
بیشک ہم نے مفصل آیتیں بیان کر دیں سمجھ والے کے لئے)  الانعام 98)
اللہ تبارک تعالی نے مخلوق کو زندگی کی لذتوں سے مستفید رکھا ۔ آسمان سے پانی اتارا جس نے مردہ زمین کو زندہ کیا پھر وہاں سے ہر اُگنے والی چیز پیدا کی۔ تاکہ آدم اپنی ضرورت کے مطابق  سبزیوں اور پھلوں کو اپنے استعمال میں لا سکے۔ صرف زندگی عطا نہیں کی بلکہ اس کے بھرپور لوازمات بھی عطا کئے۔ایسی سبزی جس کے دانے ایک دوسرے پر چڑھے ہوئے اور کھجور کے گچھے انگور کے باغ اور زیتون اور انار کسی بات میں ایک دوسرے ملتے اور کسی بات پہ دیکھنے میں الگ ۔ ایسے پھل جو  پھلنے سے پکنے تک ٹوٹنے اور بچنے کی قدرتی حصار میں پروئے رہتے ہیں۔  تا آنکہ وہ پک کر اپنےوجود کو ذائقہ اور تسکین سے  بھر لیں۔آدم ان نعمتوں کو انعام و اکرام  مان کر رب کائنات کی شکر گزار بندگی میں چلا جائے۔
بیشک اس میں نشانیاں ہیں ایمان والوں کے لئے) الانعام 99)

تحریر ! محمودالحق


در دستک >>

Jul 6, 2014

خالی مٹکے بھرے مشکیزے

میں بستر پہ آنکھیں کھول کر زمین پر کھڑا ہوتا ہوں تو آسمان زمین پر چادر پھیلا کر میرے سامنے کھڑا ہو جاتا ہے۔مجھے اس احساس سے نکلنے نہیں دیتا کہ میں اس کی پناہ میں ہوں۔کسی ڈر یا خوف کے بغیر سینہ تان کر فخر سے پاؤں زمین پر جماتا ہوں۔انسانوں کی بھیڑ میں احساسِ تحفظ کسی سپر پاور کے حلیف ہونے جیسا ہوتا ہے۔تب اقتدار کے ایوانوں سے لے کر ہیرے جواہرات سے سجی دوکانوں تک بے وقعت اور بے مول دکھائی دیتی ہیں۔
جیت کے ایک لمحے کے انتظار میں ہار کے ماہ و سال شکوہ و شکایت کی بھٹی میں جلائے جاتے ہیں۔صبر و شکر کے مٹکے بھرے مشکیزوں کے انتظار میں سوکھ جاتے ہیں۔آنے کے انتظار میں بیٹھ رہتے ہیں۔ جا کر لانے کی تکلیف گوارا نہیں کرتے۔ سونے اور جاگنے میں صرف دیکھنے اور سننے کا فرق رکھا جاتا ہے۔حالانکہ یہ کھلی آنکھوں سے زماں و مکاں کی تلاش اور بند آنکھوں سے غفلت اور لا پرواہی کی کہانی بیان کرتی ہے۔
زندگی چولہے پر چڑھائی ہنڈیا کی طرح مرچ مصالحوں کی کمی بیشی سے پسند کے خوشبو و ذائقہ کو برقرار رکھنے تک محدود رکھی جاتی ہے۔پہلی نظر جس انتخاب پر ٹکتی ہے وہی منزل مراد ٹھہرتی ہے۔ اس سے آگے ہاں ناں میں ا’لفتِ جواز باقی رہ جاتا ہے۔ زندگی پیاز کی طرح ایک کے بعد دوسری پرت اُتارنے کا نام نہیں۔ کھیتی کی مانند پانی سے نم ہونے کے بعد اپنے ہی سخت وجود کو بار بار ہل چلا کر نرم کرنے کے بعد بیج کو پنپنے کے لئے ہموار و سازگار بناتی ہے۔فصلیں بوئی اور کاٹی جاتی ہیں مگر زمین اپنی جگہ تبدیل نہیں کرتی۔پھر وہی عمل دھراتی ہے۔بیج چاہے کوئی بھی ہو اپنی حیثیت و ہیئت میں فرق نہیں آنے دیتی۔زمین کی بےقراری کو جب انسان نہیں سمجھتا تو ان کے لئے پانی سے بھرے مشکیزے بادلوں کی صورت خشک مٹکے بھرنے خود آ پہنچتے ہیں۔
انسانی معاشرے میں جب سوچ بنجر ہونا شروع ہو جاتی ہے تو اللہ تعالی انسانوں میں خیالات کی پنیری اُگا دیتا ہے۔منجمد اور خشک سوچ دھیرے دھیرے رفتہ رفتہ آس و اُمید کی نمی پا کر فصل  کو پروان چڑھانے میں منطقی کردار ادا کرنے پر راضی ہو جاتی ہے۔ 
سہل انگاروں کا پیچھا پچھتاوے کرتے ہیں
گر ہوں عاجز تو خوف کے مارے ڈرتے ہیں
وحدہ لا شریک لہ کی امان میں جو نہیں رہتے
نفس کے کئی خداؤں سے وہ مرتے ہیں

محمودالحق
در دستک >>

Jul 3, 2014

تلاشِ ذات



پوری کائنات اللہ کی محبت کا سمندر ہے ۔ جہان کسی کونے کھدرے میں ایک عاشق ذات کی سیپ کے خول میں  چھپا محبت کا موتی ، نظروں سے اوجھل قدر دانوں کے غوطہ زنی کے انتظار میں صدیاں ساحلوں کو تکتا رہتا ہے۔جو ساحل پر کھڑے پاؤں کے نیچے سے سرکتی ریت سے یہی سوچ کر خوفزدہ  رہتے ہیں کہ اگر اندر اُتر گئے تو واپس کیسے آئیں گے۔
تلاش ِ ذات کے سفر میں کھوج و جستجو کے خاک آلود راستوں پر مسافتوں کی دھول میں سفر کرنے والے صدیوں کے بعد بھی اپنےہی دائرے سے باہر نکل نہیں پاتے۔ اندھیرے میں پھونک پھونک کر راستوں پر قدم جمانے والے چاندنی راتوں میں قدم اپنے ہی عکس سے راہ پا لیتے ہیں۔
زندگی کو جینا اور زندگی کو جاننا ایک وقت میں ایک ہی سوچ سے ممکن نہیں ہوتا۔پڑھ کر پا لینے سے پا کر پڑھنے کا نشہ خمار میں مبتلا کر دیتا ہے۔شخصیت کے رنگ و روپ قوس و قزح کی طرح اچانک ہی بے رنگ آسمانوں میں خوبصورت رنگ بکھیر دیتے ہیں۔دیکھنے والے سبحان اللہ کہہ کر نظروں سے من میں سمو لیتے ہیں۔شوقِ انتہا کو پہنچنے والے من سے نکال کر پھر نظروں کے سامنے پھیلا دیتے ہیں۔
فاصلے زمین کی قید میں رہتے ہیں۔ آسمان رنگ نہیں بدلتا۔  ہزاروں میل اور صدیوں کی مسافتیں بھی ایک ہی چاہ رکھنے والوں کو اتنا قریب کر دیتی ہیں کہ اپنے دل کی دھڑکن کہیں دور سنائی دیتی ہے۔
انسان فیصلوں کے انتظار میں رہتا ہے مگر نشانیاں تو عقل والوں کے لئے ہیں۔کچھ کھونے کا ڈر پانے کی لذت سے اتنا بڑھ جاتا ہے کہ چاہتے ہوئے بھی  نہ چاہنے کی ضد پر قائم رہتا ہے۔
جو کتابوں سے آگہی کا ادراک پانے کی خواہش رکھتے ہیں ۔ وہ سیاق و سباق کی نظرِ اختلاف کا شکار رہتے ہیں۔عمل کا اختیار  تو علم کی طاقت پر  ہمیشہ حاوی رہتا ہے۔
عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے
در دستک >>

سوشل نیٹ ورک

Flag Counter