میں بستر پہ آنکھیں کھول کر زمین پر کھڑا ہوتا ہوں تو آسمان زمین پر چادر پھیلا کر میرے سامنے کھڑا ہو جاتا ہے۔مجھے اس احساس سے نکلنے نہیں دیتا کہ میں اس کی پناہ میں ہوں۔کسی ڈر یا خوف کے بغیر سینہ تان کر فخر سے پاؤں زمین پر جماتا ہوں۔انسانوں کی بھیڑ میں احساسِ تحفظ کسی سپر پاور کے حلیف ہونے جیسا ہوتا ہے۔تب اقتدار کے ایوانوں سے لے کر ہیرے جواہرات سے سجی دوکانوں تک بے وقعت اور بے مول دکھائی دیتی ہیں۔
جیت کے ایک لمحے کے انتظار میں ہار کے ماہ و سال شکوہ و شکایت کی بھٹی میں جلائے جاتے ہیں۔صبر و شکر کے مٹکے بھرے مشکیزوں کے انتظار میں سوکھ جاتے ہیں۔آنے کے انتظار میں بیٹھ رہتے ہیں۔ جا کر لانے کی تکلیف گوارا نہیں کرتے۔ سونے اور جاگنے میں صرف دیکھنے اور سننے کا فرق رکھا جاتا ہے۔حالانکہ یہ کھلی آنکھوں سے زماں و مکاں کی تلاش اور بند آنکھوں سے غفلت اور لا پرواہی کی کہانی بیان کرتی ہے۔
زندگی چولہے پر چڑھائی ہنڈیا کی طرح مرچ مصالحوں کی کمی بیشی سے پسند کے خوشبو و ذائقہ کو برقرار رکھنے تک محدود رکھی جاتی ہے۔پہلی نظر جس انتخاب پر ٹکتی ہے وہی منزل مراد ٹھہرتی ہے۔ اس سے آگے ہاں ناں میں ا’لفتِ جواز باقی رہ جاتا ہے۔ زندگی پیاز کی طرح ایک کے بعد دوسری پرت اُتارنے کا نام نہیں۔ کھیتی کی مانند پانی سے نم ہونے کے بعد اپنے ہی سخت وجود کو بار بار ہل چلا کر نرم کرنے کے بعد بیج کو پنپنے کے لئے ہموار و سازگار بناتی ہے۔فصلیں بوئی اور کاٹی جاتی ہیں مگر زمین اپنی جگہ تبدیل نہیں کرتی۔پھر وہی عمل دھراتی ہے۔بیج چاہے کوئی بھی ہو اپنی حیثیت و ہیئت میں فرق نہیں آنے دیتی۔زمین کی بےقراری کو جب انسان نہیں سمجھتا تو ان کے لئے پانی سے بھرے مشکیزے بادلوں کی صورت خشک مٹکے بھرنے خود آ پہنچتے ہیں۔
انسانی معاشرے میں جب سوچ بنجر ہونا شروع ہو جاتی ہے تو اللہ تعالی انسانوں میں خیالات کی پنیری اُگا دیتا ہے۔منجمد اور خشک سوچ دھیرے دھیرے رفتہ رفتہ آس و اُمید کی نمی پا کر فصل کو پروان چڑھانے میں منطقی کردار ادا کرنے پر راضی ہو جاتی ہے۔
سہل انگاروں کا پیچھا پچھتاوے کرتے ہیں
گر ہوں عاجز تو خوف کے مارے ڈرتے ہیں
وحدہ لا شریک لہ کی امان میں جو نہیں رہتے
نفس کے کئی خداؤں سے وہ مرتے ہیں
محمودالحق
0 تبصرے:
Post a Comment