May 21, 2015

غُبارے


  کیش رجسٹر پر بل ادا کرنے کے بعد کیشئیرنے مسکرا کر مجھے الوداع کہا تاکہ میں شاپنگ کے لئے یہاں کا رخ بار بار کر وں اور میں اس ارادے کے ساتھ سامان سے بھری ٹرالی کو گھسیٹتا کار تک پہنچاکہ آئندہ یہیں سے ضروریات زندگی کی اشیا خریدوں گا۔میرے چہرے پر ایک دبی سی مسکراہٹ کافی دیر تک رہی۔یہ اس خوبصورت نوجوان کیشئیر لڑکی کےالوداعی دلکش اور نرالے انداز کی وجہ سے تھی یا شائد شاپنگ مال جیسے بڑے سٹور کے  انتہائی ترتیب اور جازب نظر ماحول کی وجہ سے ۔ لیکن ذہن ایک جھٹکے سے ناں ناں کرتا وہاں سے نکل آیا۔اچانک خوبصورت رنگوں کے حسین امتزاج کا ہیولا آنکھوں میں رقص کرنے لگا۔ جیسے ہی وہ منظر یاد آنے لگا ،سکون اور احساس کا ایک چشمہ جسم کے انگ انگ میں بہنے لگا۔کیشئیر لڑکی جب تک سامان پر لگے پرائس بار کوڈ کو سکین کرتی رہی۔ رجسٹر کے ساتھ بندھے ہوا میں تیرتے گیس بھرے غبارےمیری نظروں کو اپنی طرف جمائے رکھنے پر مجبور کرتے رہے۔بچے ، بچی کی پیدائش پر مبارکباد،سالگرہ پر مبارکباد،شادی کی مبارکباد،گریجوایشن کی مبارکباد،اور  بستر علالت سے اٹھنے کی دعا۔ایک ہی ساعت میں میں نے ان غباروں سے سالوں کی مسافت ایک پل میں طے کر لی۔زندگی کے سفر میں ہر پڑاؤ پرپیش آنے والے خوشگوار لمحات تسلسل سے ایک کے بعد ایک منظر یاد داشت کی سکرین پرنمودار ہونے لگے۔ہوا میں اڑتے  غبارےمجھے اپنی زندگی کی کہانی سنانے لگے تھے۔ شائد ہماری خوشیوں سے وابستہ لوگ اور تعلق ان غباروں کی مانند زندگی میں داخل ہوتے ہیں۔جو خوشیوں کے لمحات کے گزرنے کے چند لمحوں بعد ہی  غباروں کی طرح چھت کے ایک کونے میں دھکیل دئیے جاتے ہیں۔پھر آہستہ آہستہ نیچے آتے آتے پاؤں کی ٹھوکروں پہ آ جاتے ہیں۔ان غباروں کے مقدر میں صرف ایک بار کی ایک خوشی ہی لکھی ہوتی ہے۔وہ دوسری بار استعمال کے قابل نہیں رہتے۔
گھروں میں خوشیوں کی مبارکباد دینے آنے والے اور جانے والےجو احساس چھوڑ جاتے ہیں۔ وہ دوسری بار اپنے ہونے کا احساس نہیں دلا پاتے۔ہر نئے موقع کے لئے نیا احساس غبارے کی طرح پُھلایا جاتا ہے۔ لینے والے اسے محسوس کی چھت پر چپکا لیتے ہیں جو رفتہ رفتہ یادداشت کی رسی پر ڈھیلا ہوتے ہوتے اپنا وجود کھونا شروع کر دیتاہے۔
آج کے دور کا انسان پتھر کے دور کے انسان سے بہت آگے جا چکا ہے اور اس کا یہ سفر بتدریج بڑھتا جا رہا ہے۔جس کی انتہا کے متعلق جاننا یا مزید کچھ کہنا قبل از وقت کی طرح ہے۔گلوب سے گلوبل ویلج اور پھر گلوبل سرکل تک یہ سفر چٹکیوں میں طے ہو چکا ہے۔وہ دن شائد دور نہیں جب یونیورسل ویلج اور سرکل کی باتیں زبان زد عام ہوں۔ مگر اس وقت بھی شائدایک کسٹمر خوبصورت کیشئیر کے سامنےکھڑا ہوا میں جھومتے گیسی غباروں کو ایک دبی سی مسکراہٹ سے زندگی میں بیتے خوشیوں کے دنوں کو یاد کر رہا ہو گا۔
گھروں تک سامان لے جانے کا طریقہ شائد بدل چکا ہو گا۔عین ممکن ہے معیار زندگی بدل جانے سے ضروریات زندگی ویسی نہ رہیں۔مگر غبارے ہمیشہ کی طرح چھت کے ایک کونے میں اداس لٹکتے رہیں گے۔وہ اپنے انجام سے کبھی بے خبر نہیں رہتے۔چہکتے آتے ہیں مرجھاتے مر جاتے ہیں۔
یہ آج کے زمانے کی وہ خوشی کہانی ہےجو جس گھر میں جنم لیتی ہے ۔ کچھ عرصہ بعد وہیں دم توڑ دیتی ہے۔جیسے کہ لفظوں کو خوشخطی میں ڈھالتے رہتے ہیں۔ کچھ عرصہ بعد وہ  کاغذوں میں ہی دم توڑ دیتے ہیں۔ 
شائد کاغذ پہ لکھے الفاظ اور  احساس کے غبارے ایک ہی قسمت رکھتے ہیں۔چند لمحوں کے بعد اپنے وجود کے مٹنے کے احساس میں یادداشت کی رسی پر جھولنا شروع ہو جاتے ہیں۔ جب تک کہ وہ بھولنا شروع نہ ہو جائیں۔

محمودالحق 
در دستک >>

May 15, 2015

دائرے

زندگی بھر ہم سینکڑوں دائرے اپنے ارد گرد بناتے ہیں۔کہیں رشتوں کے، کہیں تعلقات کےاور کہیں روٹی روزی کے چکر۔ان میں حسبِ ضرورت داخل ہوتے ہیں۔جب چاہا باہر نکل آتے ہیں۔اتنے مختصر اور قلیل مدتی دائرے ایک دوسرے میں ایسے پیوست ہوتے ہیں کہ دیکھنے میں ایک جگہ پر ہی جامد نظر آتے ہیں۔مگر جب انہیں الگ الگ کیا جائےتو پیاز کی پرتوں کی مانند اترتے چلے جاتے ہیں۔دیکھنے میں وہ دائرے ایک دوسرے میں ضم نظر آتے ہیں مگر گردش اپنے اپنے مدار میں کرتے ہیں۔
ہم جس کے قریب ہوتے ہیں وہی ہمیں بڑا نظر آتا ہے۔کنالوں پر محیط گھرسامنے کھڑی سو منزلہ عمارت کی آخری منزل سے دیکھنے پرایک نقطہ میں بدل جاتا ہے۔ آسمان پر چمکتے جگمگاتے ستارے آنکھوں کےقریب جلتے دئیے سے بھی معمولی دکھائی دیتے ہیں۔ وجود سے باہر کائنات کا آخری ستارہ اور وجود کے اندر سیل کا آخری جز ہمیں کم مائیگی کا احساس نہیں دلا پاتا۔کیونکہ اسے علم و معلومات کا شاخسانہ قرار دے دیا جاتا ہے۔اس خودکار نظام کو جانچنے پرکھنے کی جستجو علم کی کسوٹی پر پرکھی جاتی ہے۔لاکھوں تجربات پر مبنی کتب انبار انسان کی سوچ کو دنگ کرنے پر اکتفا کرتی ہے۔
دنیا میں آنکھ کھولنے والے پہلے انسان سے لیکر آنکھ بند کرنے والے آخری انسان تک وجود کے اندر اور باہر کے دائرے ایسے ہی رقصاں رہیں گے۔مگر احساسات و محسوسات کے دائرے انسانی کردار و افکار سے بنتے اور مٹتے رہیں گے۔سینکڑوں ہزاروں تجربات کے بعد یہ دائرے ہر انسان کے اندر خود بخود بنتے ہیں ۔ کچھ چھوٹے کچھ بہت بڑے۔جن میں داخل ہونا یا باہر نکلنا جوئے شیر لانے کے مترادف نہیں ہوتا۔یہ وہ حقیقت ہے جس کی عکاسی افسانوں ،  ناولوں اور ڈراموں تک ہی محدود رہتی ہے۔ شائد اسی لئے انسان اپنے خیال سے ڈرامہ نگار ہوتا ہے اور اس میں افسانوی رنگ بھر دیتا ہے۔
وجود رویوں کو کسی خاطر میں نہیں لاتا کیونکہ سالہاسال قربت میں رہ کر بھی محبت کے مفہوم سے نا بلد رہتا ہے۔زندگی صرف مانگنے یا پانے کا نام نہیں ہے۔ بانٹنا بھی نشہ کے خمار میں مبتلا کر دیتا ہے۔رویوں کی  کانچ سے آئینے بنتے ہیں۔ جو ہمیں  اپنے آپ میں معزز، معتبراور سچ کا عَلم تھماتے ہیں۔زندگی کے خارزار میدان میں مرتے مر جاتے ہیں مگر عَلم ہاتھ سے چھوٹنے نہیں دیتے۔ آئینے ٹوٹ جائیں تو عکس کرچیوں میں ڈھل جاتے ہیں۔ پھر ایک نئے آئینہ کے سامنے جڑ کر کھڑے ہو جاتے ہیں۔
افکار و خیالات کی بھٹی میں رویوں کو پکایا جاتا ہے۔ پھر انہیں شخصیت کے سانچے میں ڈھالا جاتا ہے۔ٹوٹنے جڑنے اور پگھلنے ڈھلنے کے عمل سے بار بار شخصیت کو ادھیڑا اور  بُنا جاتا ہے۔کوئل کوے کے گھونسلے میں انڈے دیتی ہے۔مگر  پھر بھی کوئل کے بچے کوے کی طرح کاں کاں نہیں کرتے بلکہ اپنی دلکش اور خوبصورت آواز میں کو کو کرتے ہیں۔ مگر انسان نیک فطرت پر جنم لینے کے باوجود برائی کی کاں کاں اختیار کر لیتا ہے۔

محمودالحق   
در دستک >>

سوشل نیٹ ورک

Flag Counter