Dec 21, 2018

محنت کے ثمرات

چار دن کی زندگی میں دو ٹوک رویے جانے والوں کے دل میں گرہ باندھ دیتے ہیں۔جنہیں کھولنے کی کوشش کریں تو اور سختی میں کس جاتے ہیں۔ مذہب و عبادت ، تعلیم و تربیت اور مشورہ و نصیحت جب اپنا اثر دکھانا بند کر دیں تو عقل کے بند دروازوں پر دستک بیجا مداخلت تصور کی جاتی ہے۔دیواروں سے سر ٹکرانے میں دروازے نہیں کھلا کرتے۔بولنے ،لکھنے اور سننے ، پڑھنے میں سُر جیسا تال میل ہوتا ہے۔ بولنے اور لکھنے والے دو طرح سے اپنے اظہار کو پیش کرتے ہیں ۔ اپنی کہہ کر خاموش رہنے والے اور دوسروں کو دیکھ کر کہنے والے۔آج کامیاب وہ کہلاتے ہیں جو کسی سے اسی کی بات کہہ دیتے ہیں۔
زندگی ایک ایسی عمارت ہے جس کی آخری منزل پر کھڑے ہو کر کہنے اور سننے کے ہدف بہت چھوٹے ہو جاتے ہیں۔ہمیشہ کی طرح آج بھی مجھے اپنی بات اپنے ہی انداز میں کرنی ہے۔فطرت کے نئے خیال کو جانچتے ہوئے ،کامل یقین کے ساتھ مانتے ہوئے۔
معاشی و کاروباری معاملات ہوں یاتعلیم و روزگار کےلئے پیش بندی، رشتے ناطے کا بندھن ہو یا کردار و تعلقات  کاپیمانہ۔ دو طرح سے ان پر عملدرآمد کیا جاتا ہےاگر انہیں شخصیات کی کسوٹی پر پرکھا جائے تو جتنے منہ اتنی باتوں کے مصداق احاطہ کرنا مشکل ہو جائے گا۔ خاک سے بنے انسان کے لئے مٹی سے اُگی شے کی مثال منظور خیال ضرور ہو گی۔زمین بنی نوح انسان کے لئے اجناس پیدا کرتی ہے۔ وہ پھل ہوں،سبزی ہو یا میوہ۔ ان سے کیک  تیار ہو، روٹی بنے یا بریڈ۔آگ کی حدت و تپش کی جلوہ افروزی کا کرشمہ و کمال ہے۔کپاس کے پھول سے لباس تک اور بیج سے پکوان تک مختلف مراحل مختلف ہاتھوں سے تشکیل پاتے ہیں۔کئی منزلہ عمارت کی ہر منزل سے گزرتی سیڑھیوں کی طرح، لیکن ہم ہمیشہ آخری منزل پر ہی رہتے ہیں۔
زندگی میں جینے کے لئے جو راستہ اختیار کیا جاتا ہے جتنی محنت کو بروئے کار لایا جاتا ہے، اسی طرح کے نتائج حاصل ہوتے ہیں۔ زمین ان مثالوں سے بھری پڑی ہے لیکن آج صرف دو مثالوں سے انہیں بیان کرنا مقصود ہے۔
بھینسوں کے لئے جو چارہ اُگایا جاتا ہے وہ بیج سے فصل بننے تک چند ہفتوں میں تکمیل کے مراحل طے کر لیتا ہے۔  گھاس اورچھٹالہ ایسا چارہ ہے جو  ایک بار اُگنے کے بعد کاٹنے پردنوں میں بار بار دوبارہ تیار ہوتا رہتا ہے۔بھینسیں چند گھنٹوں میں اسے کھا کر دودھ کی شکل میں ڈھال دیتی ہے۔مختصر وقت میں سب سے تیزی میں تیار ہونے والا  مقوی غذائیت سے بھرپور، جس کا خرچہ بھی کم ، محنت بھی کم اور قیمت بھی کم ۔ اُبال کر پئیں یا بنا اُبال کے۔ جتنی تیزی سے تیار ہوتا ہےاتنی ہی تیزی میں استعمال ہو جاتا ہے۔ 
اب آتے ہیں دوسری مثال کی طرف زمین سے ہی اُگنے والے چاول پانی میں بھگونے کے بعد بہت زیادہ مقدار میں پانی کے ملاپ سے ہی کھانے کے قابل ہوتے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ بیج سے چاول بننے تک یہ مسلسل پانی میں ہی پروان چڑھتے ہیں۔ بیج سے پنیری تیار کی جاتی ہے اور اس پنیری کوایک ایک کی صورت میں الگ کر کے کھڑے پانی میں زمین میں بویا جاتا ہے۔مونجی کی یہ فصل  کئی ماہ میں اپنی تکمیل تک بے بہا پانی کے استعمال سے پروان چڑھتی ہے اور چولہے پر پکنے کے لئے بھی کھلے پانی کی طلبگار ہوتی ہے۔ کھانے کے بعد بھی پانی کی طلب برقرار رہتی ہے۔ جتنا چاول پرانا ہو گا اتنا ہی بیش قیمت اور غذائیت سے بھرپور ہوتا ہے۔
زندگی میں ہماری محنت کے نتائج دودھ اور چاول جیسے ہیں۔بعض لوگ کم وقت میں تھوڑی محنت سے کاروبار زندگی اختیار کرتے ہیں جن کے نتائج بھی  دودھ کی طرح فوری اور جلد اختتام پزیری کا شکار ہوتے ہیں اور دوسری طرف مونجی یعنی چاول کی فصل کی طرح  ابتداء سے  نتائج تک محنت کرنے والے طویل مدت تک انتظار کی گھڑی سے جڑے رہتے ہیں۔ جو بالآخر پر آسائش شاندار کامیاب زندگی کی ضمانت حاصل کر لیتے ہیں۔
اپنی زندگی میں پڑھائی اور کاروبار میں کئی گئی محنت پر ایک نظر ڈالیں تو یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہو گا کہ ہم نے اپنے لئے جو راستہ اختیار کیا ہمیں اسی کے مطابق نتیجہ حاصل ہوتا ہے۔دوسروں کی کامیابی سے اپنی ناکامی کا موازنہ نہیں کیا جا سکتا بلکہ اپنی کی گئی محنت کا موازنہ دوسروں کی محنت سے کیا جانا چاہیئے۔ کیونکہ محنت اور مسلسل جدوجہد کرنے والے آخری منزل تک ثابت قدم رہتے ہیں۔ مختصرالمدتی اور طویل المدتی پالیسی، طریقے اور ذرائع ہی ہمارے مستقبل کو محفوظ بناتے ہیں۔ مختصرالمدتی محنت کے نتائج دودھ کی طرح جلد پھٹ کر کھٹے ہو جاتے ہیں اور طویل المدتی محنت و لگن کے نتائج چاول کی طرح اول سے آخر تک پانی کی طرح محنت کے متقاضی ہوتے ہیں مگر جتنے پرانے ہوتے جاتے ہیں اُتنے ہی قدروقیمت میں چاہت طلب ہو جاتے ہیں۔

تحریر : محمودالحق    
در دستک >>

Dec 18, 2018

سنانے کو ایک سادہ نظم چاہتا ہوں


سنانے کو ایک سادہ نظم چاہتا ہوں
تنہائی میں ایک رویدِ بزم چاہتا ہوں

مقرر مقرر کا نہیں میں نقشِ بیمار
سینوں پر لکھتا تراشا قلم چاہتا ہوں

زمینِ کاغذ پہ نہیں بچھاتا ردا کے پھول
بادِ معطر کو اطہرِ انعم چاہتا ہوں



خندہ جبین / محمودالحق
در دستک >>

Dec 10, 2018

فلاح و اصلاح کا دستور حیات

فلاحی ریاست اپنے شہریوں کو ہاتھ پھیلانے سے باز رکھنے کے لئے بلا امتیاز مدد فراہم کرتی ہے۔ بچوں کی تعلیم اور صحت کا خصوصی بندوبست کرتی ہےتو بوڑھوں کے علاج معالجہ و خوراک کا خیال رکھتی ہے۔قابل اور ذہین نوجوان سفارش کی سیڑھی کے بغیر بلندیاں چھونے کے قابل بنائے جاتے ہیں۔رٹے لگانے سے رٹے رٹائے نتائج حاصل نہیں کئے جاتے بلکہ خودانحصاری کی تعلیم دی جاتی ہے۔ خودکفالت کے سبق میں عزت و احترام آدمیت کا مقام پیدا کیا جاتا ہے۔کھیل کے میدان آباد رکھے جاتے ہیں۔آگے بڑھنے کے لئے تنگ گلیوں سے گزرا جاتا ہے۔راستہ دینے پر شکریہ ادا کیا جاتا ہے۔پیدل چلنے والوں کو روندا نہیں جاتا۔پاؤں سے چلنے والے پاؤں سے تیز رفتاری سے چلانے والوں سے زیادہ اہم سمجھے جاتے ہیں۔سامنے سے آنے والوں کے لئے راستہ چھوڑا جاتا ہے تو پیچھے آنے والوں کے لئے دروازہ کھول کر رکھا جاتا ہے۔ معمولی کام پر شکریہ کہہ کر حوصلہ بڑھایا جاتا ہے۔مہنگے دام  ارزاں سے بہتر بھی ہوتے ہیں پائیدار بھی۔
دسمبر 1903  میں رائٹ برادرز نے سائیکل بنانے کے ساتھ ساتھ جہاز کی اُڑان بھر کر دنیا کو ایک نئی جہت سے روشناس کرایا۔ جس کی وجہ سے آج لاکھوں افراد چند گھنٹوں میں ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچ جاتے ہیں بلکہ روبوٹ مریخ تک جا پہنچے۔ کردار سازی، نفسیات، تجارت ، تعلیم،حقوق انسانیت، سائنس ، فکشن ،تاریخ، ڈرامہ اور فلسفہ پر کتابیں لائبریریوں میں بھری پڑی ہیں۔
چودہ سو  سال پہلے جہالت کے اندھیرے جس انداز میں ختم ہوئے۔مساوات، حقوق انسانی، فلاح آدمیت کا ایسا دستور پیش ہوا کہ دنیا نے پہلی بار فلاح اور اصلاح کا عملی نمونہ دیکھا۔ علم و فضل میں افضل سمجھنے والوں کے لئے چیلنج کیا گیا ۔
اور اگر تمہیں اس (کلام ) میں شک ہو جو ہم نے اپنے بندہ پر اُتاراتو اس جیسی ایک سورۃ لے آؤ :  سورۃ البقرۃ آیت ۲۳
دنیا کا پہلا دستور حیات جو ریاست، فرد اور اقتدار کے درمیان حقوق و فرائض کی حدیں مقرر کرتا ہے۔جس نے مسلمانوں میں ایسے لوگ پیدا کئے جو علم و فضل میں یکتا تھے۔ علم ریاضی ہو یا علم فلکیات، کیمسٹری ہو یا حکمت ، اقتدار ہو یا معاشرہ، سائنس ہو یا تاریخ بے شمار پردے اُٹھا ئے گئے۔ مگر اقتدار کے نشہ نے مسلمان حکمرانوں کو جہالت کے اندھیروں میں ڈبو دیا۔کربلا کی زمین پر پھیلائی گئی سرخی آج بھی آسمان پر نظر آتی ہے۔ ظالم جابر کے سامنے صبر سیسہ پلائی دیوار بن کر ہمیشہ کے لئے کھڑا ہو گیا۔ انسانی تاریخ میں محسن انسانیت کے چشم و چراغ ایسے نہیں بجھائے گئے کبھی جیسے میدان کربلا میں ظلم ڈھائے گئے۔
صدیوں کی حکمرانی میں روز افزوں ترقی کی بجائے دن بدن انتشار و زوال نے معاشرے میں اتنے طبقات پیدا کر دیئے کہ ڈیڈھ اینٹ کی مسجد جیسی ضرب المثل روزمرہ جملوں میں استعمال ہونے لگی۔
وہ دستور حیات جوانسانیت کی میراث ہے اسے چند گروہوں نے اپنا ورثہ بنا لیا۔ قوم لوک ورثہ بن کر دھمال ڈال کر خوش ہے۔امتحان استاد اور سلیبس کا محتاج ہوتا ہے۔ ادارے قاعدے و قانون کی پاسداری کے۔
زندگی جو یقین کامل ، ایمان،دعا اور صبر و جزا سے لپٹی فرش و عرش سے جڑی انتظار کی کوفت سے پاک منزل کی جانب نہایت خاموشی سے رواں دواں رہتی ہے۔
مسلمان نے خود کو حلقہ ارباب ذوق اور حلقہ ارباب اختیار  تک محدود کر لیا۔ برصغیر پاک و ہند کے مسلمان حکمرانوں کی بیش بہا خدمات میں باغات، قلعے،شیش محل ،بارہ دریاں اور آخری مغل حکمران بہادر شاہ ظفر کے دربار میں منعقد محافل مشاعرہ کی داستانیں زبان زد عام ہیں۔اقبالیات اور غالبیات کے علاوہ کچھ بھی نہیں دنیا کو دکھانے کے لئے کیونکہ یہی ہماری لائبریری ہیں اور  لیبارٹری بھی۔
محبت کے ایک شعر پر فدا ہونے والے ہزاروں کی تعداد میں شعر و سخن کے دلدادہ واہ واہ کے ترانے آلاپتے ہیں تو دوسری طرف سیاسی دانشور جھوٹ کو سچ باور کروانے والے عقل کن قبریں کھودے بیٹھے ہیں گورکن کی طرح۔
پھلوں کو سکرین کے ٹیکے سے میٹھا کرنے اور کیمیکل سے دودھ بنانے والے سائنسدان بھی کسی سے الگ نہیں۔بیماری سے مرنے والی مرغیوں کی کھالیں اُتار کر مرغ کڑاہی بنانے والوں کے ساتھ ساتھ گدھے اور کتے کا گوشت بیچنے والے بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے میں دو ہاتھ آگے ہیں۔
لوٹ مار ، اقربا پروری، رشوت  ستانی اور بےایمانی نے نظام ڈھیلا اور معاشرہ کس رکھا ہے۔ اتنا علم نہیں بچا جتنے عالم ہیں۔نسوانی پوسٹ پر حاضری لگوانے والوں کی عمر کی کوئی قید نہیں۔ تصویر شئیر ہونے پر تو صدقے واری تک چلے جاتے ہیں۔
تعجب بالکل نہیں ہوتا کیونکہ سینکڑوں سالوں میں جو بیج بویا جاتا رہا۔ تنآور درخت بننے پر اُسے کاٹنے میں تردد کیسا۔
ایمان والے ہدایت پانے والوں میں سے ہیں اور نافرمان گمراہ کئے جانے والوں میں سے۔

تحریر: محمودالحق
در دستک >>

سوشل نیٹ ورک

Flag Counter