Oct 26, 2017

ایک نقطہ

درد جب اندر اُترتا ہے تو دنیا باہر نکلنے کو پر تولتی ہے۔غم جب باہر نکلنے کو تڑپیں تو خواہشیں مضبوطی سے دل و دماغ کو تھام لیتی ہیں۔حالات سے صرف وہی لڑتے ہیں جو خود پہ قابو پا سکتے ہیں۔جو خود سے چھوٹ رہے ہوں وہ کسی کو کیسے تھام سکتے ہیں۔کتاب پڑھ کر زندگی کو سمجھا جا سکتا ہے لیکن محسوس کرنے کے لئے دوسرے کے درد سے گزرنا ضروری ہوتا ہے۔ مسائل فون اپلیکیشن  کےجی بی  (گیگا بائٹ)کی طرح بڑے سے بڑے  ہوں اور ذہنی استعداد  کی میموری ایم بی (میگا بائٹ)کی طرح کم سے کم کی سطح پر ہو تو انسان انہیں اُٹھانے کی بجائے دبتا چلا جائے گا حتی کہ معمولی سے معمولی خطرات و خدشات انہیں منوں مٹی کے نیچے دھکیل دیتے ہیں۔ جہاں مایوسی و محرومی  بوتل سے نکلےدیو ہیکل جِن کی صورت اختیار کر لیتے ہیں۔ جسے بوتل میں دوبارہ پابند سلاسل کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہو جاتا ہے۔بڑی بلکہ بھاری سوچ کو اندر پنپنے سے پہلے  صبروبرداشت کی میموری کو کئی سو جی بی تک لانا ضروری ہوتا ہے۔فون کا ماڈل تو تمام تقاضے پورا کرتا ضروری جانا جاتا ہے مگر دنیا کو گلوبل ویلج بنانے والوں نے ذہن کو قوت برداشت کی صلاحیت کواپڈیٹ کرنے میں کوئی خاطرخواہ انتظام نہیں کیا۔ جس کے نتائج میں ذہنی دباؤ،سٹریس و ڈپریشن کی صورت میں کئی طرح سے حملہ آور ہے۔ ہائی بلڈ پریشر میں نمک اور ذیابیطس میں میٹھے سے پرہیز لازمی ہوتا ہے۔ نفی اثبات کا پانی ملنے سے تن تندرست اور من مضبوط رہتا ہے۔ کائنات میں زمین ایک نقطہ اور زمین پہ ہم ایک نقطہ۔ 
سفر چند دہائیوں کا انتظام  و اہتمام صدیوں کا۔آنے والے اپنے مالک خود جانے والے اپنے منصف خود۔لگن سچی ہو ،ارمان ٹوٹنے والے نہ ہوں ، ہاتھ چھوٹنے کا ڈر نہ ہو، تھامنے والے سامنے ہاتھ بڑھانے کو کھڑے ہوں تو راستے کا تعین اتنا مشکل نہیں رہ جاتا۔بھاری سلوں کے نیچے گہیوں پیسے جاتے ہیں ،جب  گندھ کر تپش سے پھول جاتے ہیں تو ہاتھ بڑھا کر تھام لئےجاتے ہیں۔ 
گلاس آدھا خالی دیکھنے والے خوشیوں سے بھرپور آدھی زندگی کو نظرانداز کر دیتے ہیں۔بچپن سے پانچ  چھ دہائیوں تک ادوار زندگی  میں درپیش مسائل کو جھیلنے والے گلاس میں پڑے ایک گھونٹ پانی کو بھی بھرا ہوا دیکھتے ہیں۔زندگی عمر کے علم و فکر کے ارتقائی ادوار سے سیکھنے کے عمل سے گزرتی ہے۔جینا اور گزرنا ، جاگنے اور سونے جیسا ہے۔رُک کر بار بار پیچھے دیکھنے والے قافلے سے بچھڑ جاتے ہیں۔آگے بڑھنے کا نام زندگی ہے جو  ماضی کو دفن کر کے چلتی ہے اور سوچ ایک قدم آگے بڑھانے پر دو قدم پیچھے دھکیل دیتی ہے۔ایک ایک قدم پیچھے جاتا وہ انسان صرف ماضی میں رہ جاتا ہے۔ آسمانوں پر جلوے آنکھوں سے اوجھل ہیں مگر تہہ زمین جگمگاتے ہیرے ٹنوں کوئلوں کے نیچے بھی صرف ہیرا ہی کہلاتا ہے۔ کوئلوں میں وہ ایک پتھر ہی رہتا ہے جب تک کہ جوہری کی نظر التفات کا شکار نہ ہو جائے۔ موقع ہاتھ سے نکل جانے پر کف افسوس ملنے والے اور پرندےکا ہاتھ سے نکل جانے پر آزاد فضاؤں میں اس کی اُڑان پر مسرت پانے والے دیکھنے میں بہت مختلف دیکھائی نہیں دیتے۔جنہیں جس کی تمنا ہوتی ہے ویسے ہی اُس کی منزل تک جانے والے قافلے کے سنگھی ساتھی ہوتے ہیں۔ فرق ظاہر میں نہیں باطن کا ہے۔ ایسے علم کا نہیں جو متکبر کرے بلکہ ایسی سوچ کا ہے جو ایک مسلسل کھینچی لائن میں  بھی نقطہ کا تسلسل دیکھتا ہے۔ کیونکہ وہی ایک نقطہ اسے پہلے زمین سے ملاتا ہے پھر کائنات سے۔

تحریر: محمودالحق             
در دستک >>

Oct 11, 2017

سفرِ نا تمام

اونچائی کی مناسبت سے سیڑھی کی لمبائی کا تعین کیا جاتا ہے اگر منزلیں زیادہ ہوں تو لفٹ کی مدد درکار ہوتی ہے۔کیونکہ ٹانگیں  وجود کواوپر اُٹھانے  سے آگے بڑھانے کو ترجیح دیتی ہیں۔ دوسری طرف نظر پلک جھپکنے پر انتہائی بلندیوں تک جا پہنچتی ہے اور زمین پر قرب وجوار کے دائرے سے نکلنا  انتہائی دشوار ہو جاتا ہے۔ 
آزمائشوں کی گھٹڑی سر پر آن پڑے تو کچھ گردن جھکا لیتے ہیں اور باقی آسمان سر پر اُٹھا لیتے ہیں۔جنہیں زندگی میں آسائشیں بچوں کو سالگرہ میں ملے تحفوں کی مانند ملیں وہ ایک کے بعد دوسرے پیکٹ کو کھولنے میں بیتابی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ دو چار دن کے بعد اگلی سالگرہ کے انتظار میں بیٹھ جاتے ہیں۔جو درد کی سیڑھی اور غم کی چال سے زندگی کی منازل طے کرتے ہیں وہ آزمائشوں کے باغات میں آسائشوں کے پھول کھلنے کا انتظار کرتے ہیں۔ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ  ایک پھول کے انتظار میں کئی سال  کانٹوں  سے لپٹ کرگزر جاتے ہیں۔خوشی کے بادل برس کر بکھر جاتے ہیں  تو ہوا  مٹی اور روشنی کی محبت کی بھینی بھینی خوشبو سے مہک اُٹھتی ہے۔غم کے بادل گرج کر گزر جاتے ہیں توزمین پیاسی رہ جاتی ہے اور اگلے بادلوں کے انتظار میں روشنی سے دست وگریباں ہو جاتی ہے دھول بن کر۔ 
بلندیوں سے انسان بہت چھوٹے دیکھائی دیتے ہیں مگر مزاج متکبر نہیں ہوتا  توبہ و استغفار میں سفر گزرتا ہے لیکن جونہی پاؤں زمین پر اُتریں تو گردن اَکڑ جاتی ہے۔ برابر دیکھائی دینے والے اتنے چھوٹے  دیکھائی دینے لگتے ہیں کہ رشتے سنبھالنے مشکل ہو جاتے ہیں۔انسان بیشک ناشکرا جو ٹھہرا۔قیدی درندے کے سامنے ببر شیر جیسے نشہ میں غوطہ زن ہوتا ہے مگر ان کی کھلی آماجگاہوں کے تصور سے رونگھٹے کھڑے کر لیتا ہے۔دیوار پر آئینے لگا دینے سے کمرے بڑے نہیں ہوا کرتے۔ منظر بدل جاتے ہیں مگر حدود وہی رہتی ہے۔ ساتھ والا کمرہ چھوٹا نہیں ہو جاتا۔
زندگی ایک کتاب ہے ،حالات  اس کےابواب ہیں اور اسباب صفحات۔پطرس بخاری کے مضمون "میبل اور میں" کی طرح بغیر پڑھے تبصرہ تو کیا جا سکتا ہے مگر نتیجہ اخذ نہیں کیا جا سکتا۔ کیونکہ نتائج تک پہنچنے کے لئے حقائق کی روشنی کا ہونا بہت ضروری ہے۔ جس سے سولات کے بخارات کا اُٹھنا نا گزیر ہو جاتا ہے۔ایک بار اندر اُتر جاؤ تو دلدل کی طرح سوچ کو اپنے اندر کھینچ کر دھنسا لیتی ہے۔ زندگی کی روشنی سے  سوالات کی تاریکی میں لا کھڑا کرتی ہے جہاں کسی کے ذہن میں اچھوتے خیال کی بجائے ایک سوال  سر اُبھارنے لگتا ہےاور وہ سوال کچھ اس انداز میں پوچھ لیتے ہیں۔ 
 کہ ہم جب تنہا ہوتے ہیں ذات کو ٹٹولتے ہیں بہت اندھیرا ہے بہت زیادہ اندھیرا کچھ بھی تو سمجھ میں نہیں آتا کہ ہم کون ہیں کیوں ہیں اور کیا ہیں لیکن کبھی کبھی یہ لگتا ھے کہ ہم ہی ہم ہیں اور کوئی بھی نہیں جو ہم سا ہو یہ الجھن ہے یا سوال ؟
ایساسوال،پوچھنے والے کی زندگی کی کتاب کا دیباچہ کی مانند ہے جس کے لئے میرے پاس ان الفاظ سے بہتر جواب دینا زرا مشکل تھا۔ 
ہر انسان دنیا میں دو آنکھوں ، دو ہاتھوں ، دو پاؤں ، حتی کہ دماغ کے دو حصوں کے ساتھ پیدا ہوتا ہے۔ہمارا وجود ایک اور دو کی مناسبت سے سفر زیست طے کرتا ہے۔انسان اپنے رویے میں بھی ہاں ناں ، خیر و شر، سچ و جھوٹ، حتی کہ جنت و جہنم کے درمیان رسہ کسی میں مصروف عمل رہتا ہے۔انسان سب سے طاقتور اور مضبوط ظاہر و باطن کی کشمکش سے بر سر پیکار رہتا ہے۔ اور یہ ایک فطری عمل ہے اس میں الجھن پیدا ہونا سوچ کی نا ہمواری کی غماز ہے۔ ہر زی روح کے اندر بیماریوں کے خلاف قوت مدافعت کا ہونا فطری ہے۔ وہ ہمارے وجود کے لئے لازم ہیں۔اس لئے ہم اس سے لاپرواہ رہتے ہیں ۔ لیکن جب ان کا بیلنس بگڑ جائے تو جان کے لالے پڑ جاتے ہیں۔یہی حال ہماری ذات کے اندر ہونے یا نا ہونے کی فطری کشمکش میں جاری و ساری رہتا ہے۔ہم اس کا حل جواز سے تلاش کرتے ہیں جو ہمیں سوال کے راستے پر ڈال دیتا ہے۔میں کون ہوں ، کیا ہوں، اور کیوں ہوں جیسے سوالات ایسی پنیری ہے جسے کھاد وجود سے حاصل ہوتی ہے ۔ اور وجود صبح و شام کے معمولات سے تھکن سے چور رہتا ہے۔ بچا کھچا ذہنی دباؤ سے کھچاؤ میں چلا جاتا ہے۔ تناور درخت بننے سے پہلے نو خیز پودوں کی کیاریوں سے گھاس پھونس الگ کی جا تی ہے۔ جنگلی جڑی بوٹیوں کو تلف کیا جاتا ہے تب وہ نو خیز پودا پھل دار یا خوشبو دار درخت بنتا ہے۔ انسان صرف سوچ کے بل بوتے پر تناور درخت بننے کی راہ پر گامزن رہتا ہے۔ حالانکہ ابتدائی نو خیزی میں شفافیت اور اکثیر کی طاقت حاصل کرنے کے لئے باہر سے اثر انداز ہونے والے باغی خیالات کا سدباب ضروری ہوتا ہے۔ زندگی کو کتاب کی طرح پڑھیں گے تو ابواب اور صفحات کی ترتیب ایک سے دو ، دس یا سو تک چلتی ہے۔مگر احسا س ایٹم کے زروں کی طرح وجود میں تباہی پھیلاتے ہیں۔جنہیں باہمی ربط سے ہی شانت رکھا جا سکتا ہے۔جب ضرورت پیش آئے تو استعمال میں لاؤ ورنہ خوداعتمادی کی طاقت بنا کر ذات کے کسی گوشے میں محفوظ رکھوجو بوقت ضرورت بیرونی حملہ آور سے بچاؤ کی تدبیر کرے گی۔ 

تحریر  :محمودالحق    
در دستک >>

Oct 7, 2017

بندگی کا سفر

آنکھیں بدن کا ایسا حصہ ہیں جو فطرت کا عین عکاس وغماز ہیں۔جو کچھ نہیں چھپاتیں دوسروں پر اصل صورت میں عیاں ہوتی ہیں۔خوشی اور غم کے الگ الگ آنسو ہر کوئی پہچان لیتا ہے ۔ غصے اور ہمدردی کے جذبات بھی بھانپ لئے جاتے ہیں۔ مگر آنکھوں کی گہرائی میں چھپی کیفیت  جو سوچ کی غماز ہوتی ہے ہمیشہ نظروں سے اوجھل رہتی ہے۔زبان الفاظ کی ادائیگی سے پیشتر انہیں کانوں سے یادداشت کی سی ڈی پر ریکارڈ کرتے ہیں پھر چاہے الف ب پ ہو یا اے بی سی، جیسے سنا گیا ہو ویسے ہی لوٹا دئیے جاتے ہیں۔ میٹھے کڑوے،  سچے جھوٹے،زہر آلود نشتر بھرے دوسروں پر اچھال دئیے جاتے ہیں۔ اس بات سے قطع نظر کہ اس سے دل ٹوٹے یا روح زخمی ہوتی ہو۔ یہ ایک ایسا فن ہے جسے افراد کی اکثریت بروئے کار لانے میں کسی ہچکچاہٹ کا شکار نہیں ہوتی۔ یہی وجہ ہے کہ جی بھر کر روزانہ جھوٹ بولنے والوں کو سچ ماننے والے بھی اتنی ہی تعداد میں موجود ہوتے ہیں۔جن کے لئے جھوٹ ناقابل برداشت ہو وہ تلملاتے رہتے ہیں۔ سچ ماننے والوں کو برا بھلا کہتے اور کوستے رہتے ہیں۔
آنکھیں اپنا راز صرف انہی پر کھولتی ہیں جو انہیں پڑھ سکتی ہیں۔ علم نجوم، دست شناسی اور علم الاعداد کی حقیقت ماننے والوں سے اتنی ہی دور رہتی ہے جتنی مشرق سے مغرب۔
پہلی نگاہ میں محبت کی کہانیاں ہر معاشرے ہر ثقافت میں عام ہیں۔جس میں نام، چہرے  اور کردار بدلتے رہتے ہیں مگرمرکزی خیال ایک ہی رہتا ہے۔ آنکھوں سے محبت کے پیغام ارسال اور وصول کرنے کا کام لیا جاتا ہے۔ حالانکہ آنکھیں حال دل سنانا چاہتی ہیں  کہ جن کے ساتھ بچپن کھیل کود میں گزرا ،جوانی جن کے سنگ بتائی  ۔کسی کو حالات نے سست کیا کسی کو سخت ۔ کوئی نیک ہوا کوئی بد۔کسی نے سچ کی چادر اوڑھ لی کسی نے جھوٹ کا کفن پہن لیا۔کوئی ایمانداری پر کاربند رہا کسی نے بے ایمانی کو اوڑھنا بچھونا بنایا۔ان کے درمیان  رہ کر اجنبیت کا احساس  بار بار زنجیروں سے چھٹکارا کے لئے زور لگاتا ہے۔ مگر  وہ نہیں جانتے کہ بہت فرق ہے کانوں سے الفاظ کی پہچان سیکھ کر اتار چڑھاؤ سے زبان سے ادائیگی کرنے والے  اور  ان آنکھوں میں جو حسن فطرت کو اپنے اندر سمیٹے ہوئی ہیں  جو کسی کتاب کسی استاد کی محتاج نہیں ہوتیں، فطرت کے حسن کو کشید کر کے جذب کرنے کی بھرپور اہلیت رکھتی ہیں۔
  مگر انہیں پھر بھی یہ احساس رہتا ہے کہ ایک جیسے  دیکھائی دینے والے ایک جیسا کیوں نہیں سوچتے لیکن وہ نہیں جانتے کہ کوئلے کی کانوں میں ہی ان کے اندر بیش قیمت ہیرے موجود ہوتے ہیں۔فرق صرف اتنا ہے کہ  ہیرے کوجوہری کی نگاہ میں قدر پانے سے پہلے کوئلے پتھر میں  رہتے ہوئے الگ پہچان حاصل کرنی پڑتی ہے۔ تب اسے ڈھونڈنے والے ملین ٹریلن ٹن پتھر کوئلے کے نیچے سے نکال لیتے ہیں۔ 
جو اپنے ظاہر اور باطن میں توازن قائم کر لیتے ہیں، دوسرے لفظوں میں اپنے اندر کو   آلائن کر لیتے ہیں ، اتنے طاقت ور ہو جاتے ہیں کہ انہیں ہیرے کی مانند چمکتی ہوئی آنکھیں جو اپنی حیثیت سے بے خبر ارد گرد بسنے والوں کی بے اعتناعی پر غمگسار دیکھائی دیتی ہیں نظر آنے لگتی ہیں۔ بالآخروہ بھی خودشناسی کے سفر پر چل دیتی ہیں جس سے آگے چمکتی آنکھیں کہیں کسی جگہ ان کی منتظر ہوتی ہیں۔ کبھی نہ ختم ہونے والا  آنکھوں سے قلب  تک محدود تعلق  کا سفر ہمیشہ جاری رہتا ہے۔ رنگ و نسل  اورعلاقائی جغرافیائی حدود سے بالا تر مثبت ،شفاف ،عشق و محبت، بندگی  کا سفر۔

 تحریر:محمودالحق     
در دستک >>

سوشل نیٹ ورک

Flag Counter