Oct 11, 2017

سفرِ نا تمام

اونچائی کی مناسبت سے سیڑھی کی لمبائی کا تعین کیا جاتا ہے اگر منزلیں زیادہ ہوں تو لفٹ کی مدد درکار ہوتی ہے۔کیونکہ ٹانگیں  وجود کواوپر اُٹھانے  سے آگے بڑھانے کو ترجیح دیتی ہیں۔ دوسری طرف نظر پلک جھپکنے پر انتہائی بلندیوں تک جا پہنچتی ہے اور زمین پر قرب وجوار کے دائرے سے نکلنا  انتہائی دشوار ہو جاتا ہے۔ 
آزمائشوں کی گھٹڑی سر پر آن پڑے تو کچھ گردن جھکا لیتے ہیں اور باقی آسمان سر پر اُٹھا لیتے ہیں۔جنہیں زندگی میں آسائشیں بچوں کو سالگرہ میں ملے تحفوں کی مانند ملیں وہ ایک کے بعد دوسرے پیکٹ کو کھولنے میں بیتابی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ دو چار دن کے بعد اگلی سالگرہ کے انتظار میں بیٹھ جاتے ہیں۔جو درد کی سیڑھی اور غم کی چال سے زندگی کی منازل طے کرتے ہیں وہ آزمائشوں کے باغات میں آسائشوں کے پھول کھلنے کا انتظار کرتے ہیں۔ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ  ایک پھول کے انتظار میں کئی سال  کانٹوں  سے لپٹ کرگزر جاتے ہیں۔خوشی کے بادل برس کر بکھر جاتے ہیں  تو ہوا  مٹی اور روشنی کی محبت کی بھینی بھینی خوشبو سے مہک اُٹھتی ہے۔غم کے بادل گرج کر گزر جاتے ہیں توزمین پیاسی رہ جاتی ہے اور اگلے بادلوں کے انتظار میں روشنی سے دست وگریباں ہو جاتی ہے دھول بن کر۔ 
بلندیوں سے انسان بہت چھوٹے دیکھائی دیتے ہیں مگر مزاج متکبر نہیں ہوتا  توبہ و استغفار میں سفر گزرتا ہے لیکن جونہی پاؤں زمین پر اُتریں تو گردن اَکڑ جاتی ہے۔ برابر دیکھائی دینے والے اتنے چھوٹے  دیکھائی دینے لگتے ہیں کہ رشتے سنبھالنے مشکل ہو جاتے ہیں۔انسان بیشک ناشکرا جو ٹھہرا۔قیدی درندے کے سامنے ببر شیر جیسے نشہ میں غوطہ زن ہوتا ہے مگر ان کی کھلی آماجگاہوں کے تصور سے رونگھٹے کھڑے کر لیتا ہے۔دیوار پر آئینے لگا دینے سے کمرے بڑے نہیں ہوا کرتے۔ منظر بدل جاتے ہیں مگر حدود وہی رہتی ہے۔ ساتھ والا کمرہ چھوٹا نہیں ہو جاتا۔
زندگی ایک کتاب ہے ،حالات  اس کےابواب ہیں اور اسباب صفحات۔پطرس بخاری کے مضمون "میبل اور میں" کی طرح بغیر پڑھے تبصرہ تو کیا جا سکتا ہے مگر نتیجہ اخذ نہیں کیا جا سکتا۔ کیونکہ نتائج تک پہنچنے کے لئے حقائق کی روشنی کا ہونا بہت ضروری ہے۔ جس سے سولات کے بخارات کا اُٹھنا نا گزیر ہو جاتا ہے۔ایک بار اندر اُتر جاؤ تو دلدل کی طرح سوچ کو اپنے اندر کھینچ کر دھنسا لیتی ہے۔ زندگی کی روشنی سے  سوالات کی تاریکی میں لا کھڑا کرتی ہے جہاں کسی کے ذہن میں اچھوتے خیال کی بجائے ایک سوال  سر اُبھارنے لگتا ہےاور وہ سوال کچھ اس انداز میں پوچھ لیتے ہیں۔ 
 کہ ہم جب تنہا ہوتے ہیں ذات کو ٹٹولتے ہیں بہت اندھیرا ہے بہت زیادہ اندھیرا کچھ بھی تو سمجھ میں نہیں آتا کہ ہم کون ہیں کیوں ہیں اور کیا ہیں لیکن کبھی کبھی یہ لگتا ھے کہ ہم ہی ہم ہیں اور کوئی بھی نہیں جو ہم سا ہو یہ الجھن ہے یا سوال ؟
ایساسوال،پوچھنے والے کی زندگی کی کتاب کا دیباچہ کی مانند ہے جس کے لئے میرے پاس ان الفاظ سے بہتر جواب دینا زرا مشکل تھا۔ 
ہر انسان دنیا میں دو آنکھوں ، دو ہاتھوں ، دو پاؤں ، حتی کہ دماغ کے دو حصوں کے ساتھ پیدا ہوتا ہے۔ہمارا وجود ایک اور دو کی مناسبت سے سفر زیست طے کرتا ہے۔انسان اپنے رویے میں بھی ہاں ناں ، خیر و شر، سچ و جھوٹ، حتی کہ جنت و جہنم کے درمیان رسہ کسی میں مصروف عمل رہتا ہے۔انسان سب سے طاقتور اور مضبوط ظاہر و باطن کی کشمکش سے بر سر پیکار رہتا ہے۔ اور یہ ایک فطری عمل ہے اس میں الجھن پیدا ہونا سوچ کی نا ہمواری کی غماز ہے۔ ہر زی روح کے اندر بیماریوں کے خلاف قوت مدافعت کا ہونا فطری ہے۔ وہ ہمارے وجود کے لئے لازم ہیں۔اس لئے ہم اس سے لاپرواہ رہتے ہیں ۔ لیکن جب ان کا بیلنس بگڑ جائے تو جان کے لالے پڑ جاتے ہیں۔یہی حال ہماری ذات کے اندر ہونے یا نا ہونے کی فطری کشمکش میں جاری و ساری رہتا ہے۔ہم اس کا حل جواز سے تلاش کرتے ہیں جو ہمیں سوال کے راستے پر ڈال دیتا ہے۔میں کون ہوں ، کیا ہوں، اور کیوں ہوں جیسے سوالات ایسی پنیری ہے جسے کھاد وجود سے حاصل ہوتی ہے ۔ اور وجود صبح و شام کے معمولات سے تھکن سے چور رہتا ہے۔ بچا کھچا ذہنی دباؤ سے کھچاؤ میں چلا جاتا ہے۔ تناور درخت بننے سے پہلے نو خیز پودوں کی کیاریوں سے گھاس پھونس الگ کی جا تی ہے۔ جنگلی جڑی بوٹیوں کو تلف کیا جاتا ہے تب وہ نو خیز پودا پھل دار یا خوشبو دار درخت بنتا ہے۔ انسان صرف سوچ کے بل بوتے پر تناور درخت بننے کی راہ پر گامزن رہتا ہے۔ حالانکہ ابتدائی نو خیزی میں شفافیت اور اکثیر کی طاقت حاصل کرنے کے لئے باہر سے اثر انداز ہونے والے باغی خیالات کا سدباب ضروری ہوتا ہے۔ زندگی کو کتاب کی طرح پڑھیں گے تو ابواب اور صفحات کی ترتیب ایک سے دو ، دس یا سو تک چلتی ہے۔مگر احسا س ایٹم کے زروں کی طرح وجود میں تباہی پھیلاتے ہیں۔جنہیں باہمی ربط سے ہی شانت رکھا جا سکتا ہے۔جب ضرورت پیش آئے تو استعمال میں لاؤ ورنہ خوداعتمادی کی طاقت بنا کر ذات کے کسی گوشے میں محفوظ رکھوجو بوقت ضرورت بیرونی حملہ آور سے بچاؤ کی تدبیر کرے گی۔ 

تحریر  :محمودالحق    

0 تبصرے:

Post a Comment

سوشل نیٹ ورک

Flag Counter