Oct 31, 2021

ادھوری عشق کہانی

دل تو ہمیشہ چاہا کہ وہ بات کروں جو دل پہ اثر رکھے ، دل سے نکلے لفظ روح تک پہنچیں۔ آج صرف اپنے لئے لکھ رہا ہوں  کیونکہ جو سفر اکیلے طے کیا ہو اس کی داستان سناتے سناتے ایک دہائی سے اوپر ہو گیا   اور مسافر کی عمر پانچ دہائیوں سے اوپر۔سولہ سائز کے کالر میں تیرہ سائز پہن کر بدن و گردن پر ایک مضبوط گرفت کے احساس سے نکلنے میں ایک لمحہ درکار ہوتا ہے۔ کہنے سننے کا وقت گزر جائے تو  تلاش رک جاتی ہے ۔ جاننے کی جستجو نہ رہے تو منزل رک جاتی ہے۔
جنہیں زندگی سے عشق  ہوتا ہے وہ آسائش و آرام کی گنتی کرتے ہیں ۔ آزمائشوں کے ذکر  صبر و تحمل سے بیگانہ ہوتے ہیں۔  چھوٹی گاڑیوں میں اپناسر چھت سے لگےتو پچھلی سواری کے گھٹنے کے لئے جگہ تنگ ہو جاتی ہے۔ کیونکہ  آگے پھیلتے ہیں اور پیچھے سکڑتے ہیں۔ زندگی اپنے چاہنے والوں کو مایوس نہیں کرتی، گنجائش پیدا کر دیتی ہے۔ انسان جب پھیلتا ہے تو دوسروں کو سکڑنے اور پیچھے ہٹنے پر مجبور کر دیتا ہے۔ چاہ کر بھی سیکھنے والے نہیں ملتے، صرف وہ ملتے ہیں جو صرف پانے کی چاہت رکھتے ہیں اور وہ  بھی اتنا کہ چند لمحات میں وہ اپنا اثر زائل کر دے ۔ زندگی جتنی مختصر ہے خواہشات کی زندگی بھی اتنی ہی محدود۔
گردش خون کی نالیاں جلد پر ابھر جاتی ہیں ،سخت زمین پر سونے سے بھی دل تک خون پہنچنے کی راہ میں رکاوٹ نہیں بن سکتیں کیونکہ قلب صرف اپنا خیال نہیں  رکھتا بلکہ پورے وجود کو فعال رکھنے کے لئے  متحرک رہتا ہے۔ جس کا کہا مانا جاتا ہے وہ دو تہائی مشقت سے چور ہو جاتا ہے اور  ایک تہائی وقت زندگی بھر استعمال کرتا ہے۔ پھر بھی تکبر کا مادہ پیدا کرنے سے باز نہیں رہتا۔  انسان اس کے زیر اثر اپنے زندگی بھر کے تجربات کی روشنی میں اندھیروں کی گہرائیوں میں جا اترتا ہے۔
فن پارہ ہو یا بت عاشق نامراد اپنے تخیل سے کینوس پر رنگ بکھیر دیتا ہے  لیکن اس میں احساس کی خوشبو سے محروم رکھتا ہے۔ خالق اپنی مخلوق کو تخلیق کے حسن سے احساس کی دعوت دیتا ہے۔لیکن انسان چولہے پر جلے  اور مشین پر ڈھلے لباس سے اپنی بقائے حیات کی جنگ لڑتا ہے۔ وہیں رہ کر دستارِ وفا کی منزلت و کبریائی چاہتا ہے۔
بوڑھے کی لاٹھی مضبوط ہو تو بڑھاپے سنبھل جاتے ہیں۔ کمر پر بوجھ بڑھ بھی جائے تو کمزور رگوں سے قلب خون کھینچ لیتا ہے ۔ بڑھاپے سپردِ لحد ہونے پر لاٹھی ٹوٹ نہیں جاتی بلکہ زمین پر ڈال دینے سے ہر مشکل اور کڑی آزمائش میں رکنے، ٹوٹنے، جھکنے اور گرنے سے بچائے رکھتی ہے۔ اپنے اپنے سفر کی کہانی ہے ، اپنی اپنی منزل کی راہ ہے، اپنے اپنے عمل کی جزاہے، جسے جو جاننا ہے وہ خود کو کریدے ، جسے جو پانا ہے وہ خود سے چاہے۔ جب سفر ایک نہیں تو نتیجہ ایک کیسے ہو گا۔ اپنی اپنی راہ ہے اپنا اپنا سفر۔ سوچ کے دھارے میں نفع و نقصان تولے جاتے ہیں۔ قلب کے استعارے خالق و مخلوق کے درمیان جزا  و رضا سے جڑے ہیں۔ راہوں سے راہیں جدا ہیں، سوچ سے سوچ بیگانہ ہے، خواہش  کے انتخاب سے آزمائش کی برداشت  حاصل اور لا حاصل کی  جنگ ِافکار ہے۔
پانے کے لئے بھاگ دوڑ ہے جینے کے لئے عیش و آرام ہے۔ کمپیوٹر کی یاد داشت کروڑوں اربوں انسانوں سے بڑھ کر ہے لیکن ایک مچھر کے پر کے برابر اس میں احساس  نہیں ہے۔ ایک سبق ہے زندگی کی دوڑ میں آگے بڑھنے کا جب دوسرے پیچھے رہ جاتے ہیں۔ کامیابی و کامرانی کے لئے ایک نسل دوسری نسل سے بہتر پلاننگ کر کے آگے بڑھ جاتی ہے۔ کامیابی و ترقی کا یہ سفر زمین کے لپیٹ دئیے جانے تک جاری رہے گا۔ اور انسان کفن میں لپٹے خالی ہاتھوں کو سپردِ لحد کرتے رہیں گے کیونکہ زندگی کی اصل حقیقت یہی ہے۔
تخلیق اپنے راستے خود اختیار کرتی ہے مخلوق سے اجازت کی طالب نہیں ہوتی۔ خشکی، تری اور ہوا میں رہنے والے اپنی جنس کا توازن برقرار رکھتے ہیں۔ رہتے ہیں ملتے ہیں پالتے ہیں پھر رخت سفر باندھ کر آنے والوں کو یہی موقع فراہم کرتے ہیں۔  انسان اپنے ہاں اولاد پیدا کرنے ، لڑکا یا لڑکی کی صورت بنانے کی اہلیت و اختیار سے محروم ہے۔ پھر دعوی ترقی و عروج کا کیا رہ جاتا ہے۔  پیچھے بچ جانے والے کس نئے نظام کی اصلاح و فلاح کے لئے کمربستہ رہتے ہیں؟
نیا نظام کچھ نہیں ، صرف ایک نظام ہے خالق کا تخلیق کردہ ، جس کی حقانیت قرآن سے ثابت ہے، جو سچ ہے، حقیقتِ عالم ہےجو وجود کائنات کے دائرہ اختیار پر مکمل کنٹرول رکھتا ہے۔ یقین کے ساتھ جینے میں  صبر و تحمل اور سیر و شکر کی جو رضا ہے  وہ  مٹی سے پیدا ہوئی ہر شے کو خون میں ڈھالنے جیسی ہے۔ کیونکہ زمین میں خون نہیں بنتا اور بدن میں خوشبو نہیں پیدا ہوتی۔ جس ہستی کے بدن کے بہتے پسینے میں خوشبو و مہک کا جلوہ تھا وہ خالقِ کائنات ربِ زوالجلال مالکِ دو جہان نے اپنے محبوب رسول مقبول محمد مصطفی ؑ رحمتہ للعالین کی صورت میں اس زمین پر پھیلایا۔ جن کی بدولت آج ہم اللہ سبحان و تعالی کے فرمان کی  حکم عدولی اور نافرمانی کے باوجود  اس امید کے ساتھ زندہ رہتے ہیں کہ ہم امت محمد صلی اللہ علیہ والیہ وسلم ہیں جو ہماری بخشش کے لیے ایک زریعہ ہے۔
ارشاد باری تعالی ہے
ترجمہ:
"آسمانوں اور زمین  اور ان کے درمیان سلطنت اللہ کی ہے"۔ سورۃ المائدہ ۔آیت 18
"اور اس سے بہتر کس کا قول جو بلائے اللہ کی طرف اور اچھے عمل کرے اور وہ کہے بیشک میں مسلمانوں میں سے ہوں"۔ سورۃ فصلت ۔آیت 33
 
تحریر: محمودالحق

در دستک >>

Apr 30, 2021

ذات کا بلیک ہول

 روح روحانیت کے زیر اثر بدنی ضرورتوں سے بے خبری کی کیفیت میں ایک سسٹم کے تابع ہوتی چلی جاتی ہے۔ جسے سمجھنا انتہائی مشکل صورتحال سے دوچار کر دیتا ہے۔ انسان حالات کی گتھیاں سلجھانے کی فکر میں اپنی ذات کے اندر گھٹا گھوپ اندھیروں میں روشنی کی تلاش میں ایسی گہرائیوں میں جا اترتا ہے جہاں سے نکلنے میں زندگی بھر کی جمع توانائی صرف ہو جاتی ہے لیکن دلدل سےنکلنا نا ممکن ہو جاتا ہے۔ ٹوٹے وجود میں ایک ایسا بلیک ہول تشکیل پا جاتا ہے جو ادھوری خواہشات ، ناکام محبت، احساس محرومی اور وقت سے پہلے ہاتھوں سے پھسلتے رشتوں کے درد سے اتنا بڑا ہو جاتا ہے کہ بڑی سے بڑی خوشی اور کامیابی حاصل ہونے کے بعد چند لمحوں میں وجود میں بلیک ہول کے اندر غرق ہو جاتی ہے۔ انسان چند لمحوں کی تسکین کے بعد پھر اسی درد میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ یہ جان ہی نہیں پاتا کہ زندگی بھر کی خواہشیں اور کامیابیاں لمحوں میں اپنا اثر کیوں کھو دیتی ہیں۔ کیونکہ بلیک ہول کے بننے کا عمل سوچ، غور و فکر کی ارتقائی صورت انتہائی پوشیدہ اور سست رو ہوتی ہے۔ یہ ایک سفر کی داستان ہے جہاں منزل نہیں ہوتی راستہ ہوتا ہے ،مسافر ہوتے ہیں اورایک قطب ستارہ ہوتا ہے جو اس راستے کی نشاندہی کرنے کے لئے اسی سمت میں موجود ہوتا ہے۔ انسان حالات کی ستم ظریفی کی شکایات سے خوشیوں کی تلاش میں سرگرداں رہتا ہے لیکن وہ سمجھ ہی نہیں پاتا کہ وہ دوسرے انسانوں کے ساتھ ساتھ چلتے ہوئے جن راستوں پر چلنے کو منزل سمجھ بیٹھا ہے وہ تو ان راستوں کا مسافر ہی نہیں ہوتا۔اللہ سبحان و تعالی کے نزدیک وہ خاص ہوتے ہیں اور  جو اللہ کی محبت کا رس رکھنے والےانسانوں تک پہنچ کر محبت سے محبت کا غلاف عشق بناتے ہیں۔جنہوں نے اللہ کےعشق کی چوٹ نہ سہی ہو ، آزمائشوں کی چکی میں پسنے کے عمل سے نہ گزرے ہوں، ان کے لئے زندگی تندرستی اور بیماری سے بڑھ کر کچھ نہیں۔ کامیابی عقل و سمجھ کی معراج مانتے ہیں وہ اور ناکامی قسمت و تقدیر کا کھیل۔ لیکن یہ سفر ہے ،روح کا سفر ،روحانیت کا سفر اور انسان کے مقصد حیات کا سفر جس کے لئے اللہ سبحان و تعالی بار بار قرآن مجید میں فرماتے کہ تم غور کیوں نہیں کرتے۔ ہواہیں بادلوں کو کیسے لے کر وہاں پہنچتی ہیں جہاں مردہ بنجر زمین کو بارش سے زندہ کیا جاتا ہے اور زندہ سے مردہ اور مردہ سے زندہ پیدا کیا جاتا ہے۔ یہ صدیوں کی کہانی نہیں جوآثارقدیمہ سے بیان ہو، یہ حال کی کہانی ہے جو حال دل سے بیان ہوتی ہے۔ جوسر اور بلینڈر کی کہانی جیسی، ایک میں پھل سے جوس نکلتا ہے اور ایک میں ملک شیک بنتا ہے۔ دو اور دو چار ہوتے ہیں گناہوں سے دوزخ اور نیکیوں سے جنت واجب ہوتی ہے لیکن الگ الگ اپنے اپنے دائرے میں رخت سفر باندھ کر چلنے والوں کے لئے۔ جن کے اندر بلیک ہول موجود نہیں وہ اپنے سفر پرگامزن رہتے ہیں اور جو ہر خوشی اور کامیابی پانے کے لمحوں بعد درد کی ٹیس محسوس کریں ان کے سفر روشنیوں کی طرف بڑھنے کےسفر ہیں کیونکہ وجود کا بلیک ہول صرف انہیں ختم کرتا ہے جو اس وجود کے لئے اہم نہیں ہوتے اور پاک پروردگار کی طرف جانےوالے راستوں کی راہ میں رکاوٹ بنتے ہیں۔ بلانے کا سفر صدیوں سے جاری و ساری ہے لیکن سننے ماننے اور چلنے میں میَں، تکبر اورضد آڑے آ جاتی ہے۔ بلانے والے بلاتے رہیں گے کیونکہ وہ گونگے نہیں، سننے والے نہیں آتے کیونکہ وہ بہرے ہیں۔  ذات کابلیک ہول اللہ سبحان و تعالی کے حضور رات رات بھر گڑگڑانے کے بعد کہیں روشنیوں سے منور ہوتا ہے۔ 

اوکھے پینڈے لمیاں نیں راہواں عشق دیاں

حق اللہ ہو اللہ ہو اللہ اللہ  ہو اللہ 

تحریر: محمودالحق

در دستک >>

Apr 23, 2021

سراب

دنیا ایک ایسی آماجگاہ ہے جہاں غرض و مفاد کی خاطر نفرتیں پالی جاتی ہیں اور محبتیں دکھاوے سے زیادہ کچھ نہیں۔جینا آسان ہونا چاہئیے تھا جسےمشکل بنا دیا جاتا ہے۔ ایک ایسے معاشرے میں ہم زندہ ہیں جہاںمشینوں سے سانس لیا جاتا ہے اور مسکرانے کے لئے انسان ڈھونڈنےپڑتے ہیں۔کبھی کبھار احساس ہوتا ہے کہ ہم ایک ایسی بستی میں رہائش پزیر ہیں جہاں صرف دروازے ہیں داخل ہونے کے لئے ، کوئی کھڑکی نہیں باہر جھانکنے کے لئے۔ سیارچوں کی طرح انسان اپنے اپنے مدار میں گردش کر رہے ہیں جہاں پانا ہی زندگی کا مقصد ہے، اپنی خوشی سے بڑھکر کچھ نہیں۔ دوسروں کی تکلیف اور دکھ عارضی ہیں۔ جن کے بارے میں سوچنا اور ذکر کرنا بے فائدہ ہے۔ آگے بڑھنے کے راستے میں جو رکاوٹیں آئیں انہیں ہٹایا نہیں جاتا روندا جاتا ہے۔ ہر حال میں حالت جنگ میں رہتے ہیں لفظوں کے گولوں سے رشتوں پر حملہ آور ہوتے ہیں۔زندگی کوجیتے نہیں ہیں صرف گزارتے ہیں۔رشتوں سے نبھا نہیں کرتے صرف تعلق بناتے ہیں جنہیں جب چاہیں جہاں چاہیں چھوڑ کر آگے بڑھ جائیں،پھر سے نئے تعلق بنانے کے لئے جن میں غمگساری نہیں ہوتی، درد کےاحساس کارشتہ نہیں ہوتا۔ بس ایک ایسی راہگزر پر چلتے رہنے کا سفر جوریگستان کے نشیب و فراز میں دور سے پیاسوں کے لئے سراب دکھائی دینے کی مانند ہوتی ہے۔ 


محمودالحق

در دستک >>

Feb 27, 2021

قوس و قزح

قوس و قزح

سورج کی شعائیں جب آسمان پر موجود پانی کے قطروں سے گزرتی ہیں تو منعکس ہو کر ست رنگی رنگوں میں ڈھل جاتی ہیں۔ ایسا ہونا تبھی ممکن ہوتا ہے اگر بادل برس کر جا چکے ہوں یا سورج کی شعاؤں کو اند ر آنے کا راستہ دے چکے ہوں۔ ریاضی دانوں نے  Mathematical derivationسے اس کی حقیقت بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔  جس میں روشنی ،پانی کے قطروں میں ایک مخصوص angle  سے گزر کر شعاؤں کے منعکس  ہونے کے عمل سے  دھنک کے رنگ تشکیل پاتے ہیں۔

نظام کائنات کی یہی خوبی ہے کہ اس میں داخل ہونے والی روشنی اور خارج ہونے والی انرجی اپنا توازن برقرار رکھتی ہے۔ آکسیجن اگر جانداروں کی زندگی کی علامت ہے تو کاربن ڈائی اکسائیڈ درختوں کی خوراک۔ توازن بگڑ جائے تو او ۔زون میں سوراخ پیدا ہو جانے سے گرمی کی شدت میں اضافہ اور گلیشئیرز کے پگھلنے سے زمین کا درجہ حرارت بڑھنے کے امکانات  روشن دکھائی دیتے ہیں۔

یہ باتیں چار انچ کے سیل فون کی سکرین پر قوس و قزح لکھنے سے  ہی حاصل ہو جاتے ہیں۔  تو اس کی تحقیق و جستجو سے لا حاصل بحث سے اصلاح معاشرہ یا فلاح آدمیت  کے لئے کچھ نیا جاننے کا عمل رک بھی جائے تو  کوئی فرق نہیں پڑنے والا۔ ہماری زندگیوں میں لفظ مقرر مقرر کے نعرہ مستانہء  سے ایسے آشنا ہو جاتے ہیں کہ رنگوں کی برسات اپنی تجوریوں اور قلعوں میں محفوظ دکھائی دیتی ہیں۔ زندگی کو سمجھنے کے لئے جتنا دنیا کی ہستی میں بے حال ہوتے رہیں گے، حالات کی رسی میں جکڑے رہنے کے امکانات بھی بڑھتے رہیں گے۔انسان دنیا میں پیدا ہونے کے لئے اپنی مرضی و اختیار کا مالک نہیں ہوتا۔ نہ ہی زبان و بیان پر عبور عطائے رب العزت کی بدولت ہوتی ہے۔ زمانہ کا عجب دستور ہے کہ   ترقی کی رفتار سے حدود وقیود کی حدیں بھی پار کرنے کی ایسی لت کا شکار ہونے میں فکر حیات سے بیگانہ ہو چلے تھے، تب ہی ایک وائرس نے انسانی زندگیوں کو ایسے  جکڑ بند لگایا کہ ہاتھ منہ لپیٹ کر کھانسنے سے ڈر میں مبتلا ہو گئے۔ انسانی بستیوں میں  داخل ہونے والا ایک وائرس دنیا کی تاریخ سے نکل نہیں پاتا۔ صدیوں بعد بھی اس سے لڑنے اور شکست دینے کے بلند و بانگ دعوے دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں۔

روزگار میں کمی کا رونا دھونا زیادہ سننے میں رہتا ہے۔اللہ سبحان تعالی اپنے بندوں کو فلاح کی طرف بلاتا ہے پانچ وقت روزانہ۔ نماز کے ساتھ صبر کی تلقین کرتا ہے۔ مدد کرتا ہے اپنی رحمت اور فضل سے۔ لیکن شکر نظر آنا انتہائی دشوار گزار پہاڑی سلسلوں میں راستہ تلاش کرنے جیسا ہوتا ہے۔ اللہ سبحان تعالی  سےمحبت و عقیدت کا تقاضا یہ ہے کہ آزمائش آنے پر امتحان کے پر خطر راستے پر چلنے سے   صبر و شکر کا دامن ہاتھ سے نہ چھوٹنے پائے۔ اللہ سبحان تعالی فرماتے ہیں کہ

ذٰلِكَ الْكِتَابُ لَا رَيْبَ ۖ فِيْهِ ۚ هُدًى لِّلْمُتَّقِيْنَ             

"یہ وہ کتاب ہے جس میں کوئی بھی شک نہیں، پرہیز گارو ں کے لیے ہدایت ہے"۔

جس میں پرہیز گاروں کے لئے ہدایت ہے  تو گناہگاروں کے قلب پر قفل لگ جاتے ہیں۔ قفل بند قلب ہماری زندگیوں کے فیصلے صادر کرتے ہیں۔ انہیں اپنے راہنما بناتے ہیں۔ انہی کے نقش قدم پر چلنے کو باعث فخر سمجھتے ہیں۔ قرآن ہماری زندگیوں کے لئے راہ ہدایت ہے۔ حکم رب العزت مالک دوجہاں  خالق کل کائنات عظیم المرتبت  ارض وسماں  نے بار بار کہا کہ میں ہوں اور میں ہی ہوں جو فریاد سننے والا ہے ، رزق دینے والا ہے، عزت دینے والا ہے، گناہوں کو معاف کرنے والا ہے، زندگی کی حفاظت کرنے والا ہے، موت دینے والا ہے۔ کسی بشر کے  لئےممکن نہیں کہ وہ اللہ سبحان تعالی کے حکم کے بغیر مر جائے۔ 

وَ لِلّٰہِ مُلۡکُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ ۚ وَ اِلَی اللّٰہِ الۡمَصِیۡرُ﴿۴۲

"اور آسمانوں اور زمین کی بادشاہی اللہ ہی کے لیے ہے اور اللہ ہی کی طرف پلٹ کر جانا ہے"۔

انسان بنیادی طور پر خسارے میں رہنے والا ہے۔ اپنے لئے انہیں منزل راہ بناتا ہے جن کی منزل دنیا  کی زندگی  میں ہر آسائش و آرام  کےمقصود تک ہو۔  لیکن اللہ سبحان تعالی  سورۃ المائدہ میں فرماتے ہیں!

يَـهْدِىْ بِهِ اللّـٰهُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوَانَهٝ سُبُلَ السَّلَامِ وَيُخْرِجُهُـمْ مِّنَ الظُّلُمَاتِ اِلَى النُّوْرِ بِاِذْنِهٖ وَيَـهْدِيْـهِـمْ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيْـمٍ (16)

"اللہ سلامتی کی راہیں دکھاتا ہے اسے جو اس کی رضا کا تابع ہو، اور ایسے لوگوں کو اپنے حکم سے اندھیروں سے روشنی کی طرف نکالتا ہے، اور انہیں سیدھی راہ پر چلاتا ہے"۔

اندھیروں سے روشنی کی طرف نکالنے کا اختیار صرف پاک پروردگار کو ہے جو اس کی رضا کے طالب ہوتے ہیں اور زندگیاں ان کی حکم اللہ کے سامنے سجدہ ریز ہوتی ہیں۔  اس آیت میں ہمارے لئے روشنی کی راہیں تلاش کرنے کا راستہ بتایا گیا ہے۔ لیکن اس کے لئے دیکھنے والی آنکھ چاہیئے  اور وہ آنکھ اس روشنی کی طالب ہو اور رضا کی تابع ہو۔

قوس و قزح کو انسانی آنکھ صدیوں سے دیکھتی آ رہی ہے اور صدیاں دیکھتی رہے گی۔ اگر روشنی پانی کو آسمان پر اپنا عکس دیتی ہے تو انسان زمین پر رہ کر مٹی کی محبت سے روشنی کی طلب رکھنے کی  جستجوئے تلاش میں مٹی کے کھلونوں  سے کھیلنا اور اس کے کاروبار سے منافع حاصل کرنے کی روش شتر بے مہار  کا شکار رہتا ہے۔

رات سونے سے پہلے قرآنی آیات کا ورد اور آیت الکرسی کے پڑھنے سے اپنی خواب آور زندگی کو اللہ شان زوالجلال کی رحمتوں کے سائے میں دیا جائے تو دنیا اور آخرت میں اپنے لئے بخشش کی راہیں کھولنے کے اسباب پیدا ہوتے ہیں۔ لیکن دن کی روشنی میں گرد و غبار بن کر شعاؤں سے مڑ بھیڑ کر کے  قوس و قزح کے رنگ نہیں پائے جا سکتے۔ قوس و قزح کے رنگ پانے کے لئے بادل بن کر ایک سفر طے کر کے  زمین کی پیاس بجھا کر بچے کچھے قطروں سے رنگ جمائے جاتے ہیں۔ جس کے لئے رضا کی طلب اور تابع ہونا ضروری ہوتا ہے۔ قلب پر ہاتھ رکھ کر قرآن کھول کر جس آیت پر بھی انگلی رکھیں گے وہ اللہ سبحان تعالی کی حاکمیت اور بادشاہت کے اعلان میں اپنے قاری کو سجدہ ریزی کا حکم دیتی محسوس ہو گی۔ اللہ سبحان تعالی کا فرمان قرآن ہے جو ضابطہ حیات ہے جس میں دائرہ کار سے دائرہ اختیار تک ہر  موضوع پر تفصیل سے روشنی ڈالی گئی ہے۔

قرآن کھلے گا تو کائنات بھی کھلے گی کیونکہ اللہ سبحان تعالی سورۃ الطلاق میں فرماتے ہیں !

اَللَّـهُ الَّـذِىْ خَلَقَ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ وَّّمِنَ الْاَرْضِ مِثْلَـهُنَّۖ يَتَنَزَّلُ الْاَمْرُ بَيْنَـهُنَّ لِتَعْلَمُوٓا اَنَّ اللّـٰهَ عَلٰى كُلِّ شَىْءٍ قَدِيْرٌۙ وَّاَنَّ اللّـٰهَ قَدْ اَحَاطَ بِكُلِّ شَىْءٍ عِلْمًا (12)

اللہ ہی ہے جس نے سات آسمان پیدا کیے اور زمینیں بھی اتنی ہی، ان میں حکم نازل ہوا کرتا ہے تاکہ تم جان لو کہ اللہ ہر چیز پر قادر ہے، اور اللہ نے ہر چیز کو علم سے احاطہ کر رکھا ہے۔

 

محمودالحق

در دستک >>

Feb 13, 2021

روح کی آبیاری

زندگی جسم اور روح کا مرکب ہے۔ زمین پر ان دونوں کی موجودگی اسباب سے منسلک ہے ۔ جو کہ ہوا پانی روشنی سے وابستہ ہےجس کے لئے صبح اٹھتے ہیں اور رات گئے سوتے ہیں۔ روح جب تک جسم سے تشنگی لیتی ہے تو زمین سے جڑی رہتی ہے۔ جب وہ اسے قید محسوس کرے تو پھر وہ پرواز کرتی ہے۔ اس کی پرواز ہے کیا۔ سوچنے سمجھنے کے لئے وہ علم کے روائتی فلسفہ کی بجائےحقیقت شناسی کے راستے پر گامزن ہو جاتی ہے۔ سائنس کہتی ہے کہ زمین سورج کے گرد 365.25 دنوں میں چکر مکمل کرتی ہے۔ چارموسم ہیں، ہر موسم کا الگ الگ پھل ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ آم گرمیوں میں صرف تیار نہیں ہوتا بلکہ سورج کے ایک مخصوص حصے میں پہنچنے پر پکتا ہے اور یہی حال دوسرے پھلوں اور چاول گندم کا بھی ہے۔ صرف سوچنے کا انداز تبدیل ہوتا ہےکیونکہ ہم اس جگہ موجود تو نہیں ہوتے ۔ لیکن ہم احساس سے جڑ جاتے ہیں۔ جب روح فطرت سے جڑ نے لگتی ہے تو زمین سےوابستگی کمزور پڑنے لگتی ہے۔ معجزات اور کرامات اسی وابستگی سے وقوع پزیر ہوتے ہیں۔ اگر آسان انداز میں زمین پر رہتے ہوئےتجربہ کرنا چاہئیں تو بھی ممکن ہے۔ کسی بھی پھل کی دوکان سے سیب، آم، کیلا،امرود، ناشپاتی، انگور وغیرہ پانچ دس کلو  خرید کرگھر میں چھری کانٹے سے پلیٹ میں کاٹ کر کھائیں۔ پھر ان پھلوں کو باغات میں توڑ کر کھائیں۔ درخت سے توڑ کر کھایا جانے والاایک سیب دوکان سے ٹوکری بھرے سیب سے مختلف کیوں محسوس ہوتا ہے۔ صرف اس وجہ سے کہ  باغات میں لٹکے پھل ہمیں فطرت کے قریب لے کر جاتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں یوں کہا جا سکتا ہے کہ روح کی تشنگی فطرت سے مٹتی ہے۔ اور فطرت ایک سسٹم کا نام ہے۔ اللہ سبحان تعالی فرماتے ہیں کہ تم دیکھتے نہیں کہ بادل کیسے ہوائیں لے کرجاتی ہیں اور مردہ زمین کو زندگی عطاکرتی ہیں۔ وہی بارش کا پانی ایک مخصوص درجہ حرارت پر برف باری میں بدل جاتا ہے۔ لیکن سورج کے ایک مخصوص حصہ میں زمین کے پہنچنے پر ایسا ہونا ممکن ہوتا ہے۔ روح جب دنیاوی بدنی ضرورتوں سے بے پرواہ ہو جائے، نظام حیات سے نظام کائنات سے منسلک ہو جائے تو خالق سے ایک رشتے میں جڑ جاتی ہے۔ اسی ناطے سے اللہ سبحان تعالی فرماتے ہیں کہ اس کا کان بن جاتاہوں جس سے وہ سنتاہے اور میں اس کی آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے اور اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے اورقدم بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے ۔

دنیا بھر میں ایک ہی دن پیدا ہونے والے ہر رنگ و نسل کے بچوں کو ایک ہی چھت تلے اکٹھا کریں تو ان سب میں کوئی فرق نہیں ہو گا۔ ان کے مسکرانے میں چہرے پر معصومیت ایک جیسی ہو گی۔جوں جوں بڑے ہوتے ہیں شعور، تربیت اور راہنمائی سےپروان چڑھتا ہے۔ اس وقت جو ہم سب ایک ہی رنگ و نسل سے موجود ہیں ہمارے مزاج، رویے ، افکار وسوچ ایک جیسے نہیں رہے۔ تو اس میں روح کا کیاعمل دخل ہے ۔ ہماری سوچ میں نظریات اور فلسفہء حیات کا بہت عمل دخل ہوتا ہے کیونکہ معاشرت ہمیں گائیڈ کرتی ہے۔

مذہب ہمیں نفس کے متعلق آگاہی دیتا ہے کہ اس سے جنگ کرو کیونکہ یہ ہمارے سسٹم میں بلٹ ان نہیں ہوتا۔ بلکہ اسے ہم ڈاؤن لوڈ کرتے ہیں اپنے ارد گرد سے جس کے نتیجے میں ہمارے اندر وائرس بھی داخل ہو جاتے ہیں۔ دین بنیادی طور پر ہمارےوجود میں اینٹی وائرس کا کردار ادا کرتا ہے جو کسی بھی غیر متعلقہ خیال اور فکر  کواندر گھس کر بیٹھنے کی اجازت نہیں دیتا۔

روح کو سمجھنے کے لئے ہمیں سب سے پہلے اپنے نظام کو سمجھنا پڑے گا جو ہمیں درست سمت میں سفر کرنے کا پابند بناتا ہے۔چھوٹی سی مثال ہے کہ ہمارے گھروں اور کھیتوں میں سبزی پھل پھول اگائے جاتے ہیں اور کھیت ، کیاریوں میں گھاس پھونس تلف کی جاتی ہے جڑی بوٹیاں ختم کی جاتی ہیں۔ خالص روح پانے کے لئے سب سے پہلے اپنے وجود کو  خیال کی ان جنگلی  جڑی بوٹیوں سے محفوظ کرنا پڑے گا۔خیالات کی پنیری بار بار اگنے کی اہلیت رکھتی ہے کیونکہ اس کی جڑیں بہت اوپر یعنی سوچ تک محدود ہوتی ہیں اور چھوٹی چھوٹی جڑ کرتنآور ہو جاتی ہیں۔ 


تحریر: محمودالحق

در دستک >>

Feb 7, 2021

رانجھا رانجھا کر دی میں آپے رانجھا ہوئی

قرآن میرا مرشد اور قرآن ہی میری رہنمائی ۔ قرآن ہی میرا راستہ  اور قرآن ہی  بخشش کا ذریعہ۔ قرآن ہی میرا مقصد  اور قرآن ہی میرا مطلوب۔قرآن ہی میری نظر  اور قرآن ہی میری عنایت۔ قرآن ہی میری دنیا  اور قرآن ہی میری آخرت۔قرآن ہی میری رضا اور قرآن ہی میری جزا۔

جب آنکھیں بند کر کے سر جھکا دیا مالک کے حکم پر تو زندگی سے کیا اب بھیک مانگیں۔دنیا کے پاس دینے کے لئے  کیا،کتابوں سے اُٹھتا ہوا دُھواں جو خواہشات سے جلتا ہے۔ آنکھیں بند کر کے دل کی طرف رجوع کر کے اللہ کو پکاریں تودل ذکر سے منور ہو۔  جنہوں نے عمل سے رضا پائی ہو، وہ رجوع سے طالب دعائے مرشد رہتے ہیں۔تلوار کمر پہ باندھنے سے جنگ جیتی نہیں جا سکتی۔ جنگ کے بھی دستور و روایت اور کچھ اصول و ضوابط ہیں۔حیرانگی کی انتہا ہے جب فجر سے عشاء تک پانچ بار دنیا کے کونے کونے سے حی الصلاح حی الفلاح پکارا جاتا ہے۔ تو آٹے میں نمک کے برابر مسلمان اپنی صفیں درست رکھتے ہیں اورقیام کرتے ہیں۔معاشرے میں پائے جانے والے عیبوں کی فہرست اتنی طویل ہے کہ  اللہ سے مدد کے طلبگار ہیں۔ اللہ سبحان و تعالی سیدھے راستہ پر چلنے کے لئے انعام و اکرام کی خوش خبری دیتا ہے۔ لیکن ایک شرط ہے کہ اپنے عمل  سےاس انعام کے لئے طالبِ سفر ہوں۔

اپنا راستہ سیدھا رکھنے کی بجائے  اپنی خواہشیں پوری کرتے ہیں۔ بے ایمانی اور دھوکہ سے رزق کے حصول کی کوشش میں اگر کوئی اللہ کے حکم سے روگردانی کرے۔ اسے ہنس کر بڑا سمارٹ ہے کہہ کر سزا و جزا سے بری الذمہ قرار دے دیا جاتا ہے۔قرآن میں کافر اور منافقین  سے مسلمانوں کو  خود  کومحفوظ رکھنے اور ایمان پر قائم رہنے پر زور دیا گیا ہے۔ نیند کی گہری آغوش میں جانے  اور بیدار ہونے کے درمیان بستر پر پڑے رہنے کے ہم مسلمان ہیں۔ کیونکہ جاگنے کے بعد صرف انسان رہ جاتے ہیں۔عدل و انصاف کے بغیر کوئی بھی معاشرہ مساوی حقوق کا علمبردار نہیں ہو سکتا۔ جس معاشرے میں طاقتور مافیا کہلائے ، پیسہ بٹورنا پیسہ کمانے سے زیادہ معتبر ہو جائے تو  وہاں انسان عمل سے نہیں اپنے علم سے جانے جاتے ہیں،  کردار سے نہیں گفتار سے پہچانے جاتے ہیں۔ ہزاروں لاکھوں میں پیسہ بنانے والے قابل تقلید مانے جاتے ہیں لیکن اس کے مقابلے میں کروڑوں کو دھتکار کر اللہ کے حضور شرمندگی سے بچنے کے لئے ایک مثال بننے  کی بجائے بیوقوف و احمق ٹھہرائے جاتے ہیں۔ 

جب قرآن ہاتھوں میں کھلنے کی بجائے صرف چوم کر غلاف میں محفوظ رکھنے اور ثواب کی نیت مقصود ہو تو انسان کی تربیت کے عمل سے پہلو تہی کا جواز  فراہم کرنے کا سبب ہو جاتا ہے۔قرآن کو پاک غلاف میں لپیٹ کر رکھنا جنت میں اعلی مقام کے حصول کی گارنٹی نہیں دیتا۔ جنت کے دروازہ سے گزرنے کے لئے عمل کی کنجی سے  تالہ کو کھولنا پڑتا ہے اور اس کے لئے ایمان کو فرمان کے ترازو میں گناہوں کے پلڑے کے مقابلے میں بھاری کرنے کی ضرورت پیش آتی ہے۔قرآن کی ابتدائی آیت میں اللہ فرماتے ہیں :

  ذٰلِكَ الْكِتَابُ لَا رَيْبَ  فِيْهِ  هُدًى لِّلْمُتَّقِيْنَ  ( یہ کتاب ہے جس میں کوئی بھی شک نہیں، پرہیز گاروں کے لئے ہدایت ہے) 

جنہوں نے گناہوں کو زندگی کا اوڑھنا بچھونا بنایا ،  ان کے لئے تو کھلی چھوٹ ہے کہ وہ  اپنے کئے کے جواب دہ ہوں گے قیامت کے دن۔قرآن ہدایت ہے جو پرہیز گار ہیں اور اپنے عمل و کردار سے صراط مستقیم پر چلنے والے ہیں۔ وہ جو حکم رب ذوالجلال  پر اپنا سر خم تسلیم کر دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم حاضر ہیں  اے اللہ ہم حاضر ہیں۔ اللہ انہیں اپنی رحمت کے سائے میں گھیر لیتا ہے۔ پھر ان کی زبان سے نکلے حرفِ دعا کو قبولیت کے شرف سے سرفراز کر دیتا ہے۔ انسان گھاٹے کا سودا  کر کے نقصان اٹھانے والا ہے۔ اللہ کی رحمت  کو کسی ترازو میں تولا نہیں جا سکتا اور نہ ہی وہ کسی گنتی میں آتی ہے۔ اللہ سبحان و تعالی کی رحمتیں بخشش اور عنایات کے سمندر میں طلب کی کشتی پر سوار رہتی ہیں۔ اللہ سے مانگنے کا طریقہ اس کے حکم پر سر جھکانے سے سیکھا جا سکتا ہے۔ 

جب قرآن پر ہمارا یقین کامل ایسا ہو کہ اللہ ہے اور صرف اللہ ہی ہے ۔ زرہ کائنات سے لے کر سات آسمانوں تک ہر شے اسی کی تخلیق ہے اور اسی کی ثناء بیان کرتی ہے تو  یہ یقین کامل اس راستے پہ انسان کو ڈال دیتا ہے جہاں کن فیکون کے دائرے میں انسان داخل ہو جاتا ہے۔ اللہ کی رحمت میں پناہ پانے کے لئے عمل کارگر ہونا ضروری ہے اور عمل کی راست روی کے لئے قرآن کو ہدایت اور سیدھا راستہ دکھانے والا ماننا  ضروری ہے اور اس پر  علمدرآمد ایسے کرنا ضروری ہے کہ اللہ  ہر عمل سے ایسے آگاہ  ہو کہ وہ اپنے بندے کی نیت کو شرف قبولیت  بخشنے کے لئے فرشتوں کے پروں کا سایہ کر دے۔ 

اللہ سبحان  وتعالی اپنی تلاش میں آنے والوں کو ایسے خوش آمدید کہتا ہے کہ  عقل دنگ ہی نہیں رہ جاتی بلکہ غفور و رحیم کی اپنے بندے پر رحمت نزول کی کہکشاہوں کی برسات کا منظر دلکشا ہوتا ہے۔   اوکلوہاما امریکہ کے ایک چھوٹے سے شہر کویٹا میں ایک عیسائی نوجوان جب اللہ سبحان و تعالی کی سچی کتاب کی تلاش میں میرے  پاس آیا   تو  اس کی تلاش کے اس سفر میں میرا ایمان پہلے سے زیادہ مستحکم ہوا اور اللہ کے نام نے جس طرح اس گورے کو اپنی طرف رجوع کیا کسی طلسماتی کہانی   سے کم نہیں۔

 (سچے کلام کی شدتِ چاہ میں ایک منظر جو میری آنکھوں نے قلبِ کیفیت میں دیکھا دانستہ بیان کرنے سے رہ گیا تھا، نور ایمان کی گورے نوجوان کی قلبی کیفیت کو مزید جاننے کی خواہش پر اس تحریر میں قلمبند کر رہا ہوں) 

اللہ کی سچی ذات  اور اس کے سچے کلام کی تلاش میں مارا مارا پھرنے والا  عیسائی گورا  نوجوان پادریوں سے چرچ میں سوال کرتا کہ  خدا کا  سچا کلام کون سا ہے کیونکہ بقول اس کے بائبل بارہ کی تعداد میں ہیں اور ان میں سے اصل کون سی ہے۔ پادری اس نوجوان کو اس سوال کا جواب دینے سے قاصر تھے۔ قرآن کے بارے میں جب اس نے  مجھ سےجانا کہ وہ اپنی اصل حالت میں آج تک محفوظ ہے اور اس کی حفاظت کی ذمہ داری اللہ سبحان و تعالی نے خود اٹھا رکھی ہے۔ اس کے لئے اتنا معلوم ہو جانا کافی تھی۔  مجھے اس کی بے چینی اور بیتابی پر بہت ملال ہوا کہ جو اللہ کے اصل پیغام تک پہنچنا چاہتا ہے اور اسے کہیں سے جواب نہیں مل رہا۔ وہ بار بار اپنے سینے پر ہاتھ رکھتا تو مجھے اس کے قلب کے اندر بے چین روح کی تڑپ کا اندازہ ہوا۔میں نے دل ہی دل میں اپنے پاک پروردگار کو پکارا اور اللہ ۔۔۔اللہ۔۔۔ اللہ کہتے ہوئے اس کے دل پر ہاتھ رکھ دیا۔ بس یہ ہی وہ گھڑی تھی جس کا اسے انتظار تھا۔ وہ تڑپ اٹھا دونوں بازو میرے سامنے پھیلا کر کہنے لگا کہ میرے بدن میں خون کے ساتھ  رگوں میں کچھ دوڑ رہا ہے۔ مجھے بہت اچھا لگ رہا ہے اور سکون محسوس ہو رہا ہے۔ وہ ایسا نشہ تھا کہ جسے لفظوں میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔ اسے اللہ کی پہچان مل رہی تھی اور مجھے ایمان کی طاقت۔ ایک ہی وقت اللہ سبحان و تعالی  اپنے دو بندوں کو جو دو طرح سے اللہ سبحان و تعالی تک پہنچنے کی تگ و دو میں مصروف عمل تھے، اپنی کرامت سے  مختار کل ہونے کے اپنے مقام رب العالمین کا مفہوم سمجھا رہا تھا۔ یہ وہ لمحہ تھا جب  ایک انسان اللہ کی ایک کتاب بائبل سے قرآن تک آنے کے سفر سے گزر رہا تھا اور دوسرا مسلمان سے ایمان کی طاقت سے نئے سفر پر روانہ ہوا۔ اس دن کے بعد زمین پر بسنے والے زورآور اور طاقتور نہایت حقیر اور خاک کے زرے محسوس ہونے لگے۔   اللہ کا کلام صرف ہدایت نہیں زندگیوں پر نافذ فرمان  ہے جس کو مضبوطی سے پکڑ لینے سے انسان دنیاوی خواہشات و آرزوؤں  کی گرفت سے آزادی پا لیتا ہے۔  اللہ سبحان و تعالی جب یہ جان لیتا ہے کہ میرا بندہ جھکنے کے لئے صرف میرا در چاہتا ہے اور عمل کے لئے میری ہدایت تو وہ ہدایت  دے دیتا ہے اور عمل کی توفیق بھی دیتا ہے۔ اللہ جنہیں محبوب بنا لیتا ہے انہیں مشعل راہ بنا دیتا ہے۔ 

تحریر: محمودالحق


در دستک >>

سوشل نیٹ ورک

Flag Counter