گیارہ مئی کے انتظار میں عوام سانسیں روکے بیٹھی ہے۔ حساب کتاب لگائے جارہے ہیں پہلے شخصیت پھر پارٹی کو تولا جا رہا ہے ۔ کون ہو گا وہ خوش قسمت جس کے سر پر جیت کا ہما بیٹھے گا۔ جو اکیلا وزیراعظم ہو گا پارٹی اس کی وزیر مشیر ، خاندان کے لوگ بھی بہتی گنگا میں کشتی ڈالے ساتھ ہوں گے۔ مال مفت دل بے رحم کا نعرہٗ مستانہ ہو گا۔ الیکشن کسی سیاسی جماعت کے لئے امتحان سے کم نہیں ہوتے۔ مگر کیا کہیئے اس امتحان کے ۔نہ قلم نہ کاغذ ۔ کاروائی صرف وائٹ پیپر۔
اس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خدا
لڑتے ہیں اور ہاتھ میں تلوار بھی نہیں
سکول میں ایک کلاس میں فیل اور کم از کم نمبر لے کر پاس ہونے والے اگلی جماعت میں ڈاکٹر انجینیئر یا سی ایس پی افسر بننے کا خواب نہیں دیکھتے۔ مگر سیاست نام ہی خواب دیکھنے کا ہے۔ ایسی پارٹیاں جن کے کامیاب امیدوار ہر الیکشن میں چنگ چی میں پورے سما جائیں۔ 18 کروڑ عوام کو جہالت کے اندھیروں سے نکالنے کا عزم رکھتے ہیں۔ ان کےبلند و بانگ دعوے کم از کم میرے جیسے تاریخ کے ایک کمزور طالبعلم کی سوچ سے بہت اونچے رہتے ہیں۔
کیا ایسا ممکن نہیں کہ قوم کا ایک فرد ہونے کے ناطے وطن کے لئے درد دل رکھ کر فیصلہ کریں کہ 65 سال میں جو کھویا اسے آئندہ پانچ سال میں حاصل کر لیں۔ مگر کیسے یہاں جیتنے کے لئے سر دھڑ کی بازی ہے۔ ایک باری لینے پر بضد ہے تو دوسرا بار بار باری لینے کی دھمکی دیتا ہے۔ عوام 8 گھنٹے پنکھے کی ہوا لیتے ہیں سولہ گھنٹے کوسنے دیتے ہیں۔ جن کے گھروں میں جنریٹرز کھٹ کھٹ چلتے ہیں وہ ابھی کسی نتیجہ پر نہیں پہنچے کہ ملک کے عوام کا کوئی جائز مسئلہ بھی ہے یا اس قوم کو خوامخواہ رونے پیٹنے کی وہی پرانی عادت جو پچھلے 65 سال سے ساتھ چپکی ہوئی ہے۔
الیکشن کے نتائج کئی لوگوں کے لئے اتنے اہم نہیں ہوں گے کیونکہ ان کےگھروں میں کوئی بھی بھوکا نہیں سوتا۔ کوئی بے روز گار نہیں ہے۔ تعلیمی ادارے کی کوئی شکائت نہیں البتہ ذہانت کو الزام دیا جا سکتا ہے۔ لوڈ شیڈنگ میں اضافہ نا گزیر ہو گیا تو ٹھنڈے ملک جانے میں کوئی امر مانع نہیں۔ مگر کیا کریں وطن کی گرم ہواؤں نے ہمیں کبھی جلایا نہیں۔ درجن بھر گلاس پانی جسم کے اندر اور بالٹی بھر پانی جسم کو باہر سے تمام بیماریوں سے پاک کرتا رہا۔ ٹھنڈے مشروبات الگ سے توانائی بحال رکھتے رہے۔
سیاست کی گرمی مئی کے مہینہ میں جوبن پر ہو گی۔ تجزیوں تبصروں سے شدت میں اضافہ تو ہو سکتا ہے مگر تسلی و تشفی اور راحت نہیں۔ قوم کو فیصلہ کرنا باقی ہے۔ انہوں نے ملک کا وزیراعظم منتخب کرنا ہے یا ملک کے مسائل کا حل تلاش کرنا ہے یا پھر وہی روائتی مخاصمت ، مخالفت جس کا پاکستان اور اس کے چاہنے والوں کو کبھی بھی فائدہ نہیں ہوا۔
اگر سابقہ حکومت ناکام ریاست کا وجود چھوڑ جائے تو اسے ٹھیک اور بحال کرنے کے لئے اگر امریکہ کے گورے ، سیاہ فام مسلمان کے سیاہ فام بیٹے کو اپنا صدر دوسری بار بھی چن سکتے ہیں تو پھر پاکستان میں بلند مرتبی کا ٹھیکیداری نظام کیوں۔ جہاں سیاسی وراثتی سپوت اور سپوتری بندر بانٹ کے لئے تماشا کرتے ہیں۔
ہمیں دوسروں کے نظریات یا پارٹی وابستگی جاننے کی بجائے نوشتہ دیوار پڑھنا چاہیئے کیونکہ ہر پانچ سال بعد لاکھوں نوجوان بے روزگاری اور غربت کا ایندھن بنیں گے۔ جو جھوٹے وعدوں اور دلاسوں سے بہلائے نہیں جا سکیں گے۔ ایک شہر کی فوٹو دکھا دکھا کر ان پر احسان عظیم جتایا نہیں جا سکتا ۔ شخصیت پرست جماعتیں اور نظریات ہمیشہ غالب نہیں رہتیں۔ اکیسویں صدی کا نوجوان کئی صدیوں پہلے نازل فرمان پر تو آنکھیں بند کر کے چل سکتا ہے مگر 65 سال میں ہر پل بدلتی شخصیتوں پر اعتبار کرنا اس کے لئےمشکل ہوتا جا رہا ہے اور وہ بالآخرتعداد میں اتنے ہو جائیں گے کہ تبدیلی کے لئے کسی بھی سچے ایماندار انسان کو اپنا مرکز بنا لیں گے۔ آج کم تر برا جیتے گا تو اس وقت کم تر اچھا ہارے گا۔ فلم شائد دیر میں چلے مگر قوم اس فلم کا ٹریلر 11 مئی کو دیکھ لے گی۔
اس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خدا
لڑتے ہیں اور ہاتھ میں تلوار بھی نہیں
سکول میں ایک کلاس میں فیل اور کم از کم نمبر لے کر پاس ہونے والے اگلی جماعت میں ڈاکٹر انجینیئر یا سی ایس پی افسر بننے کا خواب نہیں دیکھتے۔ مگر سیاست نام ہی خواب دیکھنے کا ہے۔ ایسی پارٹیاں جن کے کامیاب امیدوار ہر الیکشن میں چنگ چی میں پورے سما جائیں۔ 18 کروڑ عوام کو جہالت کے اندھیروں سے نکالنے کا عزم رکھتے ہیں۔ ان کےبلند و بانگ دعوے کم از کم میرے جیسے تاریخ کے ایک کمزور طالبعلم کی سوچ سے بہت اونچے رہتے ہیں۔
کیا ایسا ممکن نہیں کہ قوم کا ایک فرد ہونے کے ناطے وطن کے لئے درد دل رکھ کر فیصلہ کریں کہ 65 سال میں جو کھویا اسے آئندہ پانچ سال میں حاصل کر لیں۔ مگر کیسے یہاں جیتنے کے لئے سر دھڑ کی بازی ہے۔ ایک باری لینے پر بضد ہے تو دوسرا بار بار باری لینے کی دھمکی دیتا ہے۔ عوام 8 گھنٹے پنکھے کی ہوا لیتے ہیں سولہ گھنٹے کوسنے دیتے ہیں۔ جن کے گھروں میں جنریٹرز کھٹ کھٹ چلتے ہیں وہ ابھی کسی نتیجہ پر نہیں پہنچے کہ ملک کے عوام کا کوئی جائز مسئلہ بھی ہے یا اس قوم کو خوامخواہ رونے پیٹنے کی وہی پرانی عادت جو پچھلے 65 سال سے ساتھ چپکی ہوئی ہے۔
الیکشن کے نتائج کئی لوگوں کے لئے اتنے اہم نہیں ہوں گے کیونکہ ان کےگھروں میں کوئی بھی بھوکا نہیں سوتا۔ کوئی بے روز گار نہیں ہے۔ تعلیمی ادارے کی کوئی شکائت نہیں البتہ ذہانت کو الزام دیا جا سکتا ہے۔ لوڈ شیڈنگ میں اضافہ نا گزیر ہو گیا تو ٹھنڈے ملک جانے میں کوئی امر مانع نہیں۔ مگر کیا کریں وطن کی گرم ہواؤں نے ہمیں کبھی جلایا نہیں۔ درجن بھر گلاس پانی جسم کے اندر اور بالٹی بھر پانی جسم کو باہر سے تمام بیماریوں سے پاک کرتا رہا۔ ٹھنڈے مشروبات الگ سے توانائی بحال رکھتے رہے۔
سیاست کی گرمی مئی کے مہینہ میں جوبن پر ہو گی۔ تجزیوں تبصروں سے شدت میں اضافہ تو ہو سکتا ہے مگر تسلی و تشفی اور راحت نہیں۔ قوم کو فیصلہ کرنا باقی ہے۔ انہوں نے ملک کا وزیراعظم منتخب کرنا ہے یا ملک کے مسائل کا حل تلاش کرنا ہے یا پھر وہی روائتی مخاصمت ، مخالفت جس کا پاکستان اور اس کے چاہنے والوں کو کبھی بھی فائدہ نہیں ہوا۔
اگر سابقہ حکومت ناکام ریاست کا وجود چھوڑ جائے تو اسے ٹھیک اور بحال کرنے کے لئے اگر امریکہ کے گورے ، سیاہ فام مسلمان کے سیاہ فام بیٹے کو اپنا صدر دوسری بار بھی چن سکتے ہیں تو پھر پاکستان میں بلند مرتبی کا ٹھیکیداری نظام کیوں۔ جہاں سیاسی وراثتی سپوت اور سپوتری بندر بانٹ کے لئے تماشا کرتے ہیں۔
ہمیں دوسروں کے نظریات یا پارٹی وابستگی جاننے کی بجائے نوشتہ دیوار پڑھنا چاہیئے کیونکہ ہر پانچ سال بعد لاکھوں نوجوان بے روزگاری اور غربت کا ایندھن بنیں گے۔ جو جھوٹے وعدوں اور دلاسوں سے بہلائے نہیں جا سکیں گے۔ ایک شہر کی فوٹو دکھا دکھا کر ان پر احسان عظیم جتایا نہیں جا سکتا ۔ شخصیت پرست جماعتیں اور نظریات ہمیشہ غالب نہیں رہتیں۔ اکیسویں صدی کا نوجوان کئی صدیوں پہلے نازل فرمان پر تو آنکھیں بند کر کے چل سکتا ہے مگر 65 سال میں ہر پل بدلتی شخصیتوں پر اعتبار کرنا اس کے لئےمشکل ہوتا جا رہا ہے اور وہ بالآخرتعداد میں اتنے ہو جائیں گے کہ تبدیلی کے لئے کسی بھی سچے ایماندار انسان کو اپنا مرکز بنا لیں گے۔ آج کم تر برا جیتے گا تو اس وقت کم تر اچھا ہارے گا۔ فلم شائد دیر میں چلے مگر قوم اس فلم کا ٹریلر 11 مئی کو دیکھ لے گی۔
8 تبصرے:
شہری علاقوں میں جہاں قدرے آزادی میسر ہے وہاں تو شاید کچھ لوگ عقل کی بات مان لیں لیکن گأن کے لوگ تھانے کچہری کے چکروں کی وجہ سے انہیں لوگوں کو ووٹ دیں گے جو انہیں پولیس سے تحفظ مہیا کر سکے
ازراہ کرم کمنٹس میں ورڈ ویریفیکش یا کیپچا ہٹا دیں تو نوازش ہو گی تبصرہ کرنے میں مشکل پیش آتی ہے
پہلے تبصرے میں ٹائپنگ کی غلطی ہو گئی تھی اسلئے اُسے حذف کر دیجئے
آپ نے درست نشان دہی کی ہے لیکن بات وہی ہے کہ جب تک لوگ اپنے اطوار نہیں بدلیں گے ان کی حالت نہیں بدلے گی ۔ اللہ کا بھی فرمان ہے ۔ سورت 13الرعدآیت 11 ۔ اللہ تعالٰی کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک وہ خود اسے نہ بدلیں جو ان کے دلوں میں ہے
محمد ریاض شاہد صاحب میں سو فیصد آپ سے متفق ہوں ۔سب سے پہلے قوم کی تربیت کی ضرورت ہے تاکہ انہیں اپنے حقوق سے آگاہی ہو۔تھانہ کلچر سے جان چھڑانا ہو گی۔
افتخار اجمل بھوپال صاحب لوگوں کے اطوار بدلنا کوئی اتنا آسان کام نہیں ہے کیونکہ ان کو خود اپنی حالت بدلنے کی خواہش ہی نہیں ۔ملک کے لئے نہ تو امیدوار ہی میدان میں اترتے ہیں اور نہ ہی ووٹر ۔ بس الیکشن تفریع طبع کا ایک فنکشن رہ گیا ہے۔
اللہ کرے جو بھی حکومت آئے وہ پاکستان کے لیے کچھ ضرور کرے
لوگ تو اس کو ووٹ دیتے ہیں جو ان کے ذاتی معاملات میں مدد کرتے ہیں ، اپنے وطن کے مستقبل کے لیے ووٹ نہیں دیتے۔
اللہ سب کو ہدایت دے ، آمین۔۔۔
Post a Comment