May 25, 2010

انٹر نیٹ کی دنیا آہنگ انگیز

عجب آہنگ تھا جس نے جگایا بھی سلایا بھی
کہ دل تو جاگ اٹھا آنکھوں میں غفلت نیند کی چھائی

کچھ عجب نہیں کہ لکھنا چاہیں اور کاغذ قلم سیاہی سے سیاہ بھی ہو ۔ مگر دیکھنے میں سفید ہی رہ جائے اگرپڑھنے والے کو تحریر کم غصہ زیادہ محسوس ہو ۔ لفظوں میں طنز کے نشتر نظروں میں چبھنے لگیں ۔کہیں کسی خیال میں دوسرے کی ہتک یا ذاتی عناد کی رنجش کا گمان ہو ۔ بندے تو اللہ کے ہیں مگر باشندےاس معاشرے کے ہیں جہاں زورآور کی زورآوری سے بچنے میں کمال مہارت حاصل کرنے میں زندگی کا ایک حصہ تجربات کی نظر ہو جاتا ہے ۔ جہاں کبھی خود میں ٹھیک ہوتے ہیں تو کبھی دوسرے غلط ہوتے ہیں ۔خود کا غلطی
پہ ہونا اور دوسرے کا حق پہ سمجھ میں آنا ایک مشکل کام ہے ۔ذہن یکطرفہ ٹریفک کی مانند مخالف جزبات کو عقل کی گلی میں گھسنے کی اجازت نہیں دیتا ۔جسے مقام نفرت پہ رکھ لیتا ہے تو نیکیاں گناہ کے پلڑے میں بڑھاتا چلا جاتا ہے ۔دانش کی مٹھی میں پکڑا ترازو کا دوسرا پلڑا اپنے وزنی موقف سے بھاری رکھتا ہے ۔
ابھی تک ایسے انسانوں سے کم ہی شرف ملاقات حاصل ہوا جو کہنے میں وہی ہیں جو کرنے میں ۔آنکھ سے دیکھ کر بھی بات انہیں سمجھ سے باہر ہوتی ہے ۔دل میں اترنے کی نوبت تو کبھی آتی ہی نہیں ۔جان بوجھ کر بات آئی گئی کرتے ہیں ۔یا انجان بننے کا ڈھونگ رچاتے ہیں ۔
یہ باتیں پڑھنے سے نہیں بلکہ پالا پڑنے سے پلے پڑی ہیں ۔یہ آخری فقرہ لکھنے کی ضرورت لکھنے والوں کے عتاب سے بچنے کے لئے لکھی ہے ۔
دیکھنے میں ایک ہی طرح کے انسانوں میں ہر چیز میں ترتیب اور ڈھنگ، ہر بات میں نظم اور آہنگ مختلف ہی دیکھنے میں آتا ہے ۔چند ایک اپنی فطرت اور حالات کے دم پر ہم آہنگ ہو جاتے ہیں ۔جو کبھی انہیں قانون تو کبھی ضابطہ اخلاق کی پابندی میں قید کر دیتا ہے ۔مگر سوچ کی آزادی انہیں پابندی سے بغاوت پر آمادہ رکھتی ہے ۔اخلاقی ، مالی نقصان یا جسمانی تکلیف کا خیال ارادوں سے باز رکھنے میں اور ہم آہنگی پیدا کرنے کا سبب ہوتا ہے ۔
ترتیب اور ڈھنگ تو تبھی ہوگا جب پابندی کرانے والے اپنا اختیار استعمال کرنے کی طاقت رکھتے ہوں ۔جہاں اختیار اپنی مرضی کا ہو تو آزادی پابندی کی قید میں کب تک رہے گی ۔ہم آہنگی کا ایک بنیادی نقطہ اصول نظم و ضبط ہے ۔ اگر یوں کہا جائے کہ دوسرے کے حق کو بھی تسلیم کیا جائے یا یہ کہنا زیادہ بہتر ہے کہ برداشت کا مادہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہو ۔ اگر نہ بھی بھرا ہو مگر عدم برداشت سے خالی ضرور ہو تو سونے پہ سہاگہ نہ سہی سونے کے بنا بھی سدا سہاگن رہے گی۔
اب اگر یہ تسلیم کر ہی لیا جائے کہ عِلم عاجزی کے عَلم کی بجائےتکبر کے جھنڈے سے لہرایا جائے ۔تو سیاسی جھنڈوں کی تشہیری پرواز کی طرح جھوٹ کے انڈے کوے کے گھونسلے میں دینے سے کوا کاٹے گا نہیں۔ تو کیا کوئل کی طرح گنگنائے گا ۔نہ جانے کسی شاعر کو کیا سوجھی کہ جھوٹ کی سزا صرف کوے کے کاٹنے تک محدود کر دی ۔اگر کتے کے کاٹنے کا عندیہ دیتا تو شائد جھوٹ اب تک چھوٹ چکا ہوتا ۔اور ایسے اختیار کو پانے کے بعد کوا بھی ہنس کی چال نہ چلتا ۔
جہاں پابندی کی سزا کا خوف نہ ہو یا اگر کم ہو تو وہاں ترتیب ہو یانظم و ضبط فائدہ ہی کی حد تک اپنائی جاتی ہے ۔خاص کر قطعا نہ اپنانے میں جو مزا رہتا ہے ۔شاعر نے اسے کچھ یوں بیان کیا ہے کہ کتنے شیریں ہیں تیرے لب کہ گالیاں کھا کر بھی بے مزا نہ ہوئے ۔ اب اگر یہ دھمکی دی جاتی کہ کتنے بھاری ہیں تیرے ہاتھ کہ گالوں پر کھا کر بھی بے مزا نہ ہوئے۔ تو گالیاں نہ ہوتیں گلیوں میں سناٹا ہوتا ۔
اب آتے ہیں اصل موضوع کی طرف جس مقصد کے لئے خوامخواہ اتنی لمبی تمہید باندھی صرف یہ خیال کر کے کہ ترتیب رہ جائے ۔ روز بروز تبدیل ہوتی انٹر نیٹ کی دنیا میں یہ بلاگرز کی دنیا بھی حیران کن نتائج دینے میں کتب، رسالہ جات ، اخبارات کے بعد تسلسل اور ربط سے تحریریں ارسال کرنے میں آگے بڑھ رہی ہے ۔بہت اچھا لکھنے والے اپنی تحریروں اور تبصرہ جات سے ایک دنیا کو پڑھنے پر مجبور کر رہے ہیں ۔بعض کڑھنے پر بھی مجبور کر دیتے ہیں ۔ شکر ہے کہ میں ابھی تک ان دونوں کیٹیگری میں نہیں ہوں ۔اس کی بنیادی وجہ میرا اپنا مجبور ہونا ہے ۔پہلےزمانہ حالات کے ہاتھوں مجبور تھے ۔ اب زبان کمالات کی باتوں سے مجبور ہیں ۔
چند ماہ پہلے لکھنے کا آغاز ہوا ۔تو ڈرتے ڈرتے اردو فورم پر تحریر پوسٹ کرتا کہ نہ جانے کیسے تبصرے سے واسطہ پڑے ۔مگر اب جھجھک دور ہو چکی ہے ۔ برا سے برا بھی ہو سکتا ہے ۔ یہ کوئی بری بات نہیں ۔ بلاگرز کی دنیا میں ایک بات جو بہت پسند آئی انتہا پسندی ہے ۔ جی ہاں لکھنے کی انتہا اور ایک دوسرے سے موضوعات کے حوالے سے بحث و تکرار میں بھی انتہا ۔
ہر فرد کا معاشرے میں رہنے کا اپنا انداز اور طریقہ کار ہے ۔ کچھ ہم خود سے تو کچھ اپنے مہربانوں سے نالاں ۔ کہیں ضروریات زندگی میں کمی بیشی برداشت کا مادہ بہا دیتی ہے تو کہیں رشتے ناطے احترام مجبوری کے بندھن ڈھیلے کر دیتے ہیں ۔جو خود دیکھتے ہیں دوسروں کو بھی وہی دکھانا چاہتے ہیں ۔ جس سے دھوکہ کھاتے ہیں دھوکے کو نہیں کوستے دھوکے باز کی کلاس لیتے ہیں ۔سیاستدان کے بیان کے لتے لیتے ہیں ۔ انداز سیاست کو برا نہیں کہتے ۔
کیونکہ شخص پر اعتراض زیادہ آسان اور یکطرفہ ہوتا ہے ۔ اور جانبداری پر منحصر ہوتا ہے ۔پڑھنے والا اسے لکھنے والے کا ذاتی مفاد و عناد سمجھتا ہے ۔ مگر حالات پیدا کرنے کی پاداش میں لکھنے کی صورت میں پڑھنے والے کو اپنے ارد گرد بے شمار مثالیں ملیں گی جو اپنے اندر اعتراضات کی وضاحت سے بھرپور ہوتی ہیں ۔
ہمارا لکھنا تحقیق نہیں تجسس ہے ۔ افسانہ نہیں حقیقت ہے ۔مجبوری نہیں شوق ہے ۔ لطافت نہیں صداقت ہے ۔ دل خوشی سے جھومتا نہیں حالات پہ افسوس کرتا ہے ۔کہیں کوستا ہے تو کہیں سوچتا ہے ۔کہیں غصہ ہے تو کہیں نفرت ۔ کہیں سیاست ہے تو کہیں عداوت ۔

1 تبصرے:

افتخار اجمل بھوپال said...

جہاں اللہ سے لوگ نہيں ڈرتے وہاں اور کسی سے کيا ڈريں گے

Post a Comment

سوشل نیٹ ورک

Flag Counter