Feb 24, 2010

مُحَمَّدۖ کی نگری میں

مُحَمَّدۖ کی نگری میں فقیر صدا دیتا پھرے
ا ُٹھو مدینہ والو دیکھو امبر افشانی کرے

عبادت میں ہو حرا تو حفاظت کرے ثور
پہاڑوں سے میدانوں تک مقام ہرے بھرے

جو نازاں تھے اپنے علم و قلم کے تکبر سے
بلند کر دئیے آویزاں کوثر نے رتبے تیرےۖ


دعوت میں پیش امام شہر نبیۖ کو لاکھوں سلام
سچے عاشق رسولۖ مسلمانان پاک و ہند ہمارے

قریہ قریہ بستی بستی ہے جشن ولادت نبیۖ
مہکتے گلستانوں میں چند پتیاں پھول میرے

دعا کرو اے عاشق عبادت گزارو
رفاقت نبی سے متصل ہو مقام صفہ تمھارے

اس جہاں میں جینا تو جسم جان سے ہے
عالم ارواح میں مقام میرا نہ دور ٹھہرے

محبت مُحَمَّدۖ کی شان کیسے کروں بیان
خون جگرسے نہیں روح ایمان سے پروتا ہوں تارے

قلب ِ روشنی سے ہے میری قلم سیاہی
کاتب روح تعریف و تحسین نبیۖ ہمارے

اللہ کی شان محبوب خدا ہو میری روح جان
دیکھو آتش عشق میں کٹتے قلب کے نظارے

نور سے نور ہوا ہم کلام معراج مقام
محبوب سے ُاٹھا دئیے حجاب کے پردے سارے



روشن عطار / محمودالحق
در دستک >>

محبوب خدا سفارش کرنا

آپۖ کے نور کی ہے جلا محبوب خدا سفارش کرنا
میری آتش عشق کو بڑھکاۓ ردا کی ہوا
محبوب خدا سفارش کرنا
ہرعاشق کا سلام میرے وجود سے ہو کر گزرے
آپۖ کے در آتی ہر گلی کا ہو جاؤں خاک پا
محبوب خدا سفارش کرنا
عقیدت و محبت میں ہر جالی سے گزر جاؤں
قدموں میں مسل مسل کر ہو جاؤں ہوا
محبوب خدا سفارش کرنا
آپۖ کی رحمتوں کو بن کے ہوا سمیٹ لوں
گھر گھر دستک دوں ہو جاؤں صدا
محبوب خدا سفارش کرنا
مجھ بےعلم کے آنسوؤں کو گر مل جاۓ زباں
صحرا میں عقیدت کے پھول دوں کھلا
محبوب خدا سفارش کرنا
مدینہ شہر مجھے نظر آتا ہے گنبد
ہر ذرہ کو دیکھتا ہوں پڑھتے ہوے ثنا
محبوب خدا سفارش کرنا
آپۖ ہی کی طریقت ہو میری اِتِّباع پَیراہَن
میرا قلب پڑھے لا الہ الااَللہ نظر آوں گدا
محبوب خدا سفارش کرنا
روح ایمان کرے بیان آپۖ ہی کی شان
برق شِتاب ابصار کی ہے ابتغا
محبوب خدا سفارش کرنا


برگ بار / محمودالحق
در دستک >>

Feb 21, 2010

زمینی قزاق یاتحسینی مذاق

تحریر : محمودالحق

آج تک آپ نے بحری قزاقوں کا ذکر سنا ہے مگر آج میں قزاقوں کی ایسی قسم سے پردہ اُٹھانے جا رہا ہوں جن کی خشکی پر پناہ گاہیں ہیں ۔ انہیں انگلش میں پائریٹس کہا جاتا ہے ۔ ایک عرصہ ہمیں یہ نام رکھنے کی وجہ سمجھ نہیں آئی ۔ بھلے پیرٹس یعنی طوطا کیوں کہا جاتا ہے انہیں ۔لیکن ہماری انگریزی کی مشق شامت نے یہ مشکل آسان کردی ۔ ورنہ یہی سمجھتے رہے کہ طوطا بے وفا ہوتا ہے ۔ اور آنکھیں پھیر لیتا ہے ۔ اس لئے یہ لوگ بھی ایک آنکھ پر پٹی باندھ کر واردات پر نکلتے ہیں ۔ہماری غلط فہمی جلد دور ہو گئی ۔ اور کئی لوگ قزاق بنتے بنتے رہ گئے ۔
ایک ہمارے بہت مہربان
( کیونکہ ان کی میزبانی سے آج بھی کانوں سے دھواں نکلتا ہے ) کو طوطے رکھنے کا بہت شوق تھا ۔ اپنا لیکچر ریکارڈ کرکے طوطے کے پنجرے کے قریب رکھ دیتے تاکہ جلد وہ انسانوں کی طرح بولنا سیکھ جائے۔ مہینہ بھر کے ریاض کے بعد صحن میں اترتے ہی جناب طوطا بہادر کاں کاں تو کبھی چیں چیں کی گردان کرتے ۔ اگلا ماہ پھر بیچارہ قید تنہائی میں سروں کے ریاض میں گزارتا ۔ قصور طوطے کی قسم کا نکلا تو افریقن طوطا مہنگے داموں منگوایا گیا ۔ سال بھر اس پر محنت فرمائی گئی ۔ وہ بھی چند الفاظ سے اگے نہ بڑھ سکا ۔ طوطا تو آج بھی گھر میں موجود ہے۔ طوطا کی روح اب ان میں سما گئی ہے ۔ رٹے رٹائے الفاظ دہرانے کا کام اب موصوف خود کرتے ہیں ۔جی جناب بیگم جو کہتی ہیں وہی گفتگو فرماتے نظر آتے ہیں ۔ ٹائیں ٹائیں فش ۔اور یہی نہیں آنکھوں پر تو چشمہ ہے مگر چشم نظر طوطا ہو چکی ۔کام نکلنے پر آنکھیں پھیرنا تو چٹکی میں کر لیتے ہیں ۔دیکھنے میں تو بھولے بھالے طوطے نظر آتے ہیں ۔ چوری نہ کھلائیں تو انگلی بچا کر دکھائیں ۔بیگم کا اتنا خیال کرتے ہیں کہ ایک منسٹر صاحب کا پی اے بھی ان کے سامنے مات کھا جائے ۔پی اے تو وہ ہمیں کبھی نہیں بھولے گا جو علاقہ میں بڑے ٹورنامنٹ کے اختتام پر تقسیم انعامات کے مہمان خصوصی وزیر خزانہ نواز شریف کے ساتھ تشریف لائے ۔ کیا سوچ رہے ہیں کہ یہ کون ہیں ۔ جی ہاں میں انہی کی بات کر رہا ہوں ۔ یہ 1985 سے پہلے کی بات ہے جب وہ گورنر جیلانی کی حکومت میں تھے ۔ گورا چٹا کشمیری نوجوان منسٹر گھبرائیں نہیں لیڈر کے بارے میں ایسی جرآت کہاں کہ انہیں اس صف میں لاؤں ان کا ذکر پی اے کی وجہ سے آگیا ۔ مگر ہم سب ہی دوست پی اے پر توجہ مرکوز کئے ہوئے تھے ۔گاڑی سے اترنے سے لیکر گاڑی میں بٹھانے تک کی ذمہ داری کسی درباری کی طرح بخوبی نبھا رہا تھا ۔ ہمارا ایک محلے دار علاقہ کے کونسلر کا کچھ ایسا ہی پی اے تھا ۔ ایک فرق صاف ظاہر تھاکہ یہ صاحب ساتھ میں براجمان تھے ۔لیکن کونسلر کا پی اے گاڑی سے اتار کر پھر گاڑی ہی میں بیٹھ جاتا ۔منسٹر اور کونسلر دونوں کا ہی یہ اعزاز ہے کہ1985 میں لاہور میں قومی اور صوبائی اسمبلی کی نشستیں بیک وقت جیتے ۔کار خاص ساتھ بٹھانے والا وزیر اعظم بھی بنا اور وہ پہلی اور آخری بار ہی جیتے ۔شائد اس میں ہماری لگائی پہلی اینٹ کا عمل دخل بھی ہو سکتا ہے ۔ہم ہر آنے والے امیدوار کو مایوس نہ کرتے اور بینر گھر کے سامنے لگانے کی ترغیب دیتے ۔ یوں بینروں کا گھمسان کا رن وہیں نظر آتا ۔ بڑی بڑی سفارش بھی ان بینروں کو نہ اتار سکی ۔ ہمارے بینر لٹکے رہ گئے اور جناب الیکشن جیت گئے ۔ لیکن پھر کبھی نہیں جیتے ۔ اب اگر مجھے کوئی کریڈٹ نہ دے تو سراسر جمہوریت شکنی ہو گی ۔
دل شکنی اتنی بار ہو چکی ہے کہ شکنیں چاہے بستر پہ ہوں یا پیشانی پہ تکلیف نہیں دیتیں ۔تکلیف تو اب وہ لوگ دیتے ہیں جو حقوق و فرائض کا ایسا لیکچر شروع کرتے ہیں کہ خاوند بیچارہ طوطا نامدار نظر آتا ہے ۔ بات بات میں قرآن و حدیث سے ساس سسر کی خدمت بہو کی ذمہ دار ی نہیں ،کی تبلیغ فرمائی جاتی ہے ۔ اور دوسری طرف خوشخبری سنانے میں بیتابی کہ خاوند نامدار کی تنخواہ سے کئی سالوں میں ایک بڑی رقم توڑی گئی تاکہ ولائت میں رہائش پزیرموصوفہ اپنے والدین سے شرف ملاقات حاصل کر پائیں ۔
ملاقات کے لئے آنے والوں کا تانتا تو ہمارے گھر بھی لگا رہتا ۔ اکثر محلے دار سوچتے آئندہ امید واربننے کی تیاری میں ہے ۔گھر آنے والے مہمان دوست اکثر ٹھنڈا مشروب نوش فرماتے ۔ لیکن اچانک ہی وہ چائے کی فرمائش کرنے لگے ۔ ہم نے سکھ کا سانس لیا کہ خرچہ بچا ۔ جب بھیا جی ( جو بوتل ، سگریٹ و پان کا کھوکھہ چلاتے تھے ) میرا مہینہ بھر کا بل لائے تو آنکھیں چندھیا گئیں ۔اتنی بوتلیں تو میں سال میں بھی نہیں پیتا ۔ آخر کون پی گیا ۔ نام تو نہیں لکھا تھا ۔ موٹر سائیکل کے نمبر درج تھے ۔ سبھی میرے دوستوں کے ۔ظلم کی انتہا ساتھ میں سگریٹ کے پیکٹ بھی ہر بار وصول کئے جاتے ۔پوچھا کہ بھیا جی میں نے کب کہا میں الیکشن لڑ رہا ہوں کھلا کھاتہ چلاؤ ۔کہنے لگا وہ آپ کا نام لیتے تو میں انکار نہیں کر سکتا کہ آپ ناراض نہ ہوں ۔کریڈٹ اتنا اچھا تھا میرا کہ پہلے دوستوں نے آغاز کیا پھر بھیا جی دوستوں کو روک روک کر اپنی بیکری بڑہاتے میرے کھاتے سے ۔
دوکان پر بوتل پینے کا ایک فائدہ تو ہے کہ گرمی زیادہ ہو تو پوری بوتل پینے کو ملتی ہے ۔ ستیاناس ہو نئے نئے گلاس منی سکرٹ کی مانند بنانے والوں کا ۔ ایک بوتل کے چھ گلاس بنتے ہیں ۔ منہ میں ڈالتے ہی پہلے گھونٹ بھاپ بن جاتے ہے ۔اور میزبان کو سانپ سونگھ جاتے ہیں ۔
چلیں آپ کو ایک گھر کی سیر کرواتے ہیں ۔ ایک صاحب اپنے داماد کے ساتھ عزیزوں کے گھر جلوہ افروز ہیں ۔ گلاس میں پیپسی کیک مہینہ بھر فریزر میں رہنے سے کاٹنے کٹنے سے معزور ہو چکا تھا ۔چھری کیک پر آتے ہی ہنستی ہنستی دہری ہو جاتی ۔دو تین بار کی کوشش سے چھری چلانے والے کی بھی ہنسی نکل گئی ۔ اب کی بار سیب پر دھار آزمانے کا فیصلہ ہوا ۔کاٹھے سیب نے کٹنے پر جو ناگواری کا اظہار کیا ۔ تو یہ بات سمجھ آئی کہ کاٹھے انگریز کا لفظ ایسی ہی آوازوں کے نکلنے سے ایجاد ہوا ہے ۔ میزبان نے فوری طور پر ملازم لائن حاضر کیا کہ کھانے والے سیب لائے جائیں ۔ تو جناب اب تک ہم کرکٹ کھیلنے والے سیب سے کھیل رہے تھے ۔ شرارتی مہمان سیب سے کب کرکٹ کھیلی جاتی ہے ۔
جو نہ کھایا جائے وہ مربہ کے کام آتا ہے ۔ اس پر بھی پھبتی کسنے سے باز نہیں آتے یار لوگ ۔اب اگر ایسے سیبوں کا مربہ گھوڑے کھا لیں تو کیا مضائقہ ۔ جب گھاس ڈالنے والے زیادہ اور کھانے والے گھوڑے کم ہوں تو پھر معیار اونچا نہیں ہو گا تو کیا ہو گا ۔ کاٹھے سیب کھا کھا کر کاٹھی اتر گئی پیٹھ پر کاٹھے انگریز رہ گئے ۔
یقین نہیں تو ابھی ٹی وی آن کریں ۔ اگر آن لائن کوئی عالم ہو تو بند کر دیں ۔ کیونکہ عید میں ابھی کئی ماہ ہیں ۔ان کی لڑائی کا مزا تو عید پر ہی آئے گا ۔ میرے مطابق تو کوئی بھی گیارہویں گھنٹے کے بعد دارالحکومتی ٹاک نہیں ہونی چاہئے ۔ اگر استاد سلامت علی خان اور استاد امانت علی خان زندہ ہوتے تو یہ نوبت ہی نہ آتی ۔قوم کی بجائے وہ خود ہی ریاض کرکرکے پکے سر وں سے ان کچے سروں کی تلافی کر دیتے ۔تلافی تو دراصل نقصان کی ہونی چاہئے تھی ۔ جو بوریاں بھر بھر آٹا سے سوجی میدہ نکال کر پھیکی چینی کی چائے جیسی روٹی کر دی ۔اگر آپ کا نقصان پورا ہو جاتا ہے یعنی روٹی کا وزن پورا ہو گا تو آپ کاکھویا وزن پورا ہو گا ۔
اگر بجلی کی بندش سے زندگی بھر کھایا کھویا پسینہ سے بہہ جائے تو پرانی فوٹو نئے فریم میں لگوا لیں ۔ تاکہ سند رہے کبھی آتش جوان تھا ۔اگر نیا گھر بنائیں تو آتش دان ضرو رکھیں ۔آگ بھڑکانے کی فکر نہ کریں ۔ اخبار لگوا لیں ۔بیگم کی ہر بات پر جوابی حملہ کریں ۔ سردیوں میں گرم رہے گا ۔ گھر میں زیادہ جگہ نہ ہو تو گملے میں پھول کی بجائے پنیری لگائیں پودینہ کی۔ گل قند کسی کام کی نہیں ۔چٹنی سے کم از کم دال چاول کا خرچہ بچے گا ۔
بچے زیادہ ہوں تو فکر والی کوئی بات نہیں ۔ روٹی اکثر کم پڑتی ہے جہاں ہاتھ زیادہ ہوں ۔مگرہاتھ دکھا کر ہی بہت سے کام نکل جائیں گے ۔اگر مجھے وہ مل جائے جس نے میرا ہاتھ دیکھ کر کہا تھا کہ سفر کی لکیر ہی نہیں ہے ۔ اس کی ناک کی لکیریں نکلوا دوں ۔ آج تک سفر سے جان نہیں چھوٹی ۔ کل کلاں کو پاک نیٹ سے چلا جاؤں تو کون کون کہے گا کہ جان چھوٹی پڑھنے سے ۔کھیلو گے کودو گے بنو گے نواب صرف جاوید میاں داد پر صادق آتا ہے ۔آپ لوگ نہ غلطی کرنا ۔چھکا زندگی میں ایک بار ہی لگتا ہے ۔ کون جانے کب لگ جائے ۔اور اگر نہ لگ سکے تو بال ضائع مت کریں سنگل لیتے جائیں ۔
در دستک >>

تھوڑی سی لفٹ کرا دے

تحریر : محمودالحق

چھوڑو نا یار۔۔۔ آجکل ہمیں معاش کی فکر ہلنے نہیں دیتی۔۔۔ کون سے نظریات اور کہاں کے نظریات۔۔۔ میرے بلاگ پر جناب نعیم صاحب نے یہ تبصرہ فرمایا ہے ۔ لکھنے کا خیال تو تھوڑی سی لفٹ کرا دے سے متعلق تھا ۔ مگر سوچا لگے ہاتھوں اس تبصرہ پر بھی اظہار خیال ہو جائے ۔سنجیدہ موضوع پر لکھا جائے تو پڑھنے والے تعداد میں انتہائی کم ہوتے ہیں ۔یعنی سینکڑوں کی بجائے دہائیوں میں ۔ لیکن ٹریفک بڑھانے کے لئے میرا قطعا کسی فلمی یا غیر فلمی گانے کے بارے میں لکھنے کا موڈ نہیں ہے ۔ اور نہ ہی عدنان سمیع کا ڈائٹنگ پروگرام یہاں بیان کرنا ہے ۔کیونکہ میں ہمیشہ سے ہی موٹا کرنے والی خوراک کا دیوانہ رہا ہوں ۔اس لئے موٹاپا کم کرنے کی ترکیب بیان کی جسارت نہیں کر سکتا ۔ جو کام خود نہ کیا ہو دوسروں کے لئے کیوں مولانا فصیحت ہو جاؤں ۔میرا مزاج معتدل ہے ۔ شوکت علی کے گانے ہوں یا ترانے سننے میں ہی گردش خون بڑھا دیتے ہیں اس لئے ان سے بھی ہمیشہ آنکھ بچا کر نکل جاتے ۔ عطا اللہ عیسی خیلوی کولڑکپن میں جنازہ نکالتے سنا تو
بلڈ پریشر کم ہو گیا ۔ اب سننے کی ہمت نہیں کمزوری بڑھ چکی ہے ۔ چکر آ جاتے ہیں ۔ صحت مزاج پرسی کے گانوں سے ہی تسکین پاتی ہے اب تو ۔ خوشی ہوتی ہے جب کوئی ہمارا حال پوچھتا ہے ۔ بیماری سے اظہار نفرت کرتا ہے اور ہمیں ساتھ دینے کا حوصلہ باندھتا ہے ۔کہ چلیں اسی بہانے ہماری ہمدرد فوج میں نئے سپاہیوں کا اضافہ ہوتا ہے ۔جیسے میری تحاریر پر داد دینے والے مختصر الفاظ کے ساتھ حوصلہ دیتے ہیں۔ جیسے بہت اچھے ، جاری رکھو، ویری نائس ، گڈ شئیرنگ وغیرہ ۔ مگر سبھی تو سپاہی نہیں ہوتے۔ تفصیل سے روشنی ڈال کر بعض پہلی صفوں میں اعلی عہدوں کے تغمہ بھی سجا لیتے ہیں ۔ اورکچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جو بیماری کے متعلق ایسے انکشافات کرتے ہیں کہ سوتے میں آنکھ کھل جاتی ڈراؤنے خواب سے ۔مگر ان سب تفصیلات میں لفٹ کا ذکر تو کہیں بھی نہیں مل رہا ۔ ابھی تک تو صرف صفت ہی بیان کی جارہی ہے ۔ جو ہمیشہ انسان کی سرشت میں پائی جاتی ہے ۔بات تو شروع ہوئی تھی کہ ہر انسان کو روزی کے لالے پڑے ہیں ۔ پھر نظریات کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے ۔ہماری زندگی میں عملی لحاظ سے اس کا کیا عمل دخل ہے ۔ اگر میں یہ کہوں کہ جناب روزی کے لالے پڑے ہیں تو لالوں ( لالہ کی جمع یعنی بھائی ) سے لفٹ کی بجائے کیوں نہ لاالہ الااللہ سے ہی لفٹ کا قصد کیا جائے ۔ ہمارے مشورے بھی اب تو مال مفت دل بے رحم کی طرح محسوس ہوتے ہیں ۔ کہ جناب باتوں سے پیٹ نہیں بھرتے ۔ جان کے لالے پڑے ہیں ۔ لالہ سے مدد نہ ملی تو زندگی تہہ و بالا ہوتی نظر آ رہی ہے ۔اپنا بلاگ بنا کر بیٹھے ہیں در دستک ۔ چھتیں بغیر بالے کے ہیں ۔ محنت سے ہاتھوں میں چھالے ہیں ۔ گھر کے اندر اندھیرے تو باہر اجالے ہیں ۔دستک دیں تو کہاں ۔ دیواروں پر ۔صرف جھانکتے ہیں لوگ کبھی چلمن سے تو کبھی چوباروں سے۔ پریشانیاں اتنی ہیں کہ زندگی ایک کم ہے۔ کیونکہ ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے ۔ جب ہر خواہش پہ دم نکلے تو ایک زندگی کے دم گن لیں ۔ اب تو حالت یہ ہے ہزاروں زندگیاں بھی کم نکلیں ۔ہم نے ہزاروں میں جینے کی بجائے ایک زندگی سے کام چلانے کی کوشش کی ۔ کوشش تو ہم نے یہ بھی کی تھی کہ گورنمنٹ کالج میں ایم اے تاریخ میں جب داخلہ لیا تو کلاس میں مجھے بھی کوئی لفٹ کرا دے ۔ آپ پھر غلط رخ دیکھ رہے ہیں ۔ میرا مطلب ہے کہ کلاس کے سبھی لڑکے لڑکیاں جب کسی اسائنمنٹ کو اکٹھے بیٹھ کر ڈسکس کرتے تو ہمیں اپنی طرف آتا دیکھ کر خاموشی چھا جاتی ۔اور ہم اپنا سا منہ لے کر کسی دوسری سمت چل پڑتے ۔ جہاں سے جو ملتا پڑھ لیتے اور پہلی پوزیشن سے جلا کر رکھ دیتے صرف کلاس ٹیسٹ میں ۔تقریبا چار ماہ بعد اقلیتی نشست سے جان چھوٹی ۔ لفٹ نہ ملنے کی بابت دریافت کیا کیونکہ چار ماہ اقلیت کا کردار نبھایا تھا ۔ فرمایا گیا جناب کا کردار ہی ایسا تھا ۔ اس میں تو کوئی شک نہیں تھا کہ ہمارا گھر محلے میں چھڑوں (کنواروں ) کا گھر مشہور تھا ۔ کزنز اور محلے کے سبھی چھڑے وہیں ڈیرہ جماتے تھے ۔مگر جناب ہم تو ہمیشہ سے آنکھ نیچے رکھتے محلے میں ۔ تو کلاس میں کیسے اُٹھا سکتے تھے پھر یہ ناروا سلوک کیوں ہوا ۔اب اگرداخلہ لینے کے چند روز بعد ہمارے ڈیپارٹمنٹ کے باہر آٹھ دس لڑکے دو مخالف پارٹی کے لڑکوں کوگھونسوں اور لاتوں سے پیٹیں گے تو کیا ہم خاموش تماشائی بنے تماشا دیکھیں گے ۔ نہیں نہ ! یاد تو ہو گا آپ کو کھڑکی پر حملہ اور لائن توڑنے والے شدید ناپسند تھے ۔ سو کود پڑے بیچ میں اور دونوں کو بچا کر اپنا فرض ادا کیا ۔ تو کیا برا کیا ۔ نیکی کا یہ صلہ ملا ۔پوری کلاس نے اقلیتی بنچوں پر بٹھا کر رکھا ۔کہ کہیں اس کی وجہ سے کسی مصیبت میں نہ پڑ جائیں ۔ لیکن مصیبت تو میرے گلے پڑی۔ جب مخالف محاذ کی طلبا تنظیم نے دعوت شمولیت دے دی ۔ ہم کرایہ کے --- تھوڑے تھے ۔ چمچہ گیری سے جان چھڑاتے چھڑاتے اب داداگیری کو پلے باندھ لیں ۔ پلہ تو ہم کب کا جھاڑ چکے تھے ۔ ابا جی کی پانچ مربع زرعی زمین کے ٹھیکیدار فصل کے اجڑنے پر معافی مانگ کر پلہ جھاڑچکے اور ہم اخراجات و ضروریات زندگی سے ۔امیروں کے بیٹے کلاس میں ڈالہ (بوتلوں کے )کھلواتے ۔ اور ہم اکثر ہی حلیم کی ریڑھی پر پائے جاتے ۔ ایسے موقع پر خیال آتا کہیں سے تھوڑی سی لفٹ ہی مل جائے ۔ دعا سنی گئی ۔ اور پانچ بڑے لالوں (بھائیوں) نے امریکہ سےماہانہ مدد کا بل پاس کیا کہ کہیں تنگیء داماں میں بیرون ملک کا قصد سفر نہ باندھ لے ۔ بوڑھے اور بیمار والدین کی بیماریوں کو شکست دئے بنا تو اپنا فوجی اڈا نہیں چھوڑنا تھا ۔ بل منظور ہوا تو دو سو ڈالر کا پہلا چیک امریکن ایکسپریس سے کیش کروایا تو 4200 روپیہ ہاتھ لگا ۔ اس وقت ڈالر 21 روپے کا تھا ۔ سترھویں گریڈ کی بنیادی تنخواہ 2200 روپے تھی ۔ اتنی جلدی ایسی لفٹ کہ انیسویں گریڈکی تنخواہ گھر بیٹھے ملنے لگے تو بھاٹی کی سلطان حلیم چھوڑ لکشمی چوک سے مرغ کڑاہی کا دور چلنے لگا ۔ابھی صرف تین چیک کو تین ماہ ہی کھا پائے تھے کہ چوتھا چیک مزاج ،سوچ ،تربیت اور اصولوں پر بوجھ بن گیا ۔سن رکھا تھا اللہ تبارک تعالی کو صرف اوپر والا ہاتھ پسند ہے یعنی دینے والا مدد کرنے والا ہاتھ ۔بس پھر کیا تھا آئی روزی کو لات مار دی ۔ ایک لمبا چوڑا خط لکھ دیا ۔ ہم اپنا مقصد پورا کریں گے ۔ والدین کی چھاؤنی نہیں چھوڑیں گے۔ مگر ہمیں مدد نہیں چاہیئے ۔ جو والدین کے پاس ہے میری ضرورتوں کے لئے کافی ہے ۔اور چیک کا سلسلہ رک گیا ۔سنا تھا برا وقت اکیلا نہیں آتا ۔ اب اگر ٹھیکیدار اچھا ملا تو ٹیوب ویل کا بور بیٹھ گیا اور پانی کی کمی سے آمدن کا سلسلہ رک گیا ۔ دو سال بعد مجھے ملازمت ملی وہ بھی 65 میل دور دوسرے شہر میں ۔ روزانہ آتا جاتا ۔ تنخواہ جو مجھے ملتی 2400 روپے ماہوار تھی ۔ اسی سال میری شادی ہوئی اور ولیمہ کےسادہ اخراجات پھر بیرونی امداد سے پورے ہوئے ۔ لیکن زندگی میں لالوں کی بجائے لاالہ الااللہ پر ایمان کو پختہ رکھا ۔وقت گزرتا رہا ۔پائی پائی جوڑ کرکاروبار شروع کیا ۔ والد صاحب کی بیس سال پرانی کار کی بجائے سوزوکی ایف ایکس پھر شیراڈ اور کشکول توڑنے کے دس سال بعد میرے پاس پجارو گاڑی تھی ۔ اکثر لوگ خیال کرتے کہ پھر کوئی بل منظور ہوا ہے مدد کا۔ مگر یہ پیکج میرے بوڑھے اور بیمار والدین کی دعاؤں کا تھا ۔
در دستک >>

Feb 19, 2010

کنارے پہ لہروں سے اٹھکھیلیاں تو ہیں بہت آساں

کنارے پہ لہروں سے اٹھکھیلیاں تو ہیں بہت آساں
طوفانوں میں گھری کَشتئ نُوح جیسی کم ہیں داستاں

برس جائے تو سوغات تڑپ جائے تو ہے طوفاں
یہ تو سب اس کی جلوہ گری کے ہیں نشاں

سمجھنے والوں کے لیےہے کن فیکوں عیاں
بند در خرد واسطے بہتا برستا ھوا جہاں

ارض و سماں کے ہر رنگ میں ہے وہ پنہاں
بے رنگ نور مجسم پھر بھی متکبر ہے حضرت انساں

نہ غم نہ دنگ نہ ملال ہے نہ پشیماں
ایک قطرہ ہی سے تو ہے مکمل سب جہاں

بدعت عمل سے جن کی مستی جاوداں
ایسی قوموں کا کبھی کوئی پاتا نہیں نشاں

مٹ گئے محلات جبروت کے دربار شاہاں
آباد ہیں آج بھی کاشانہء فقیہاں

چاہنے سے چاہے جانے کی منزل نہیں آساں
خوشہ تقدیر کے مراد دانہ میں چھپا اک جہاں




موسل بار / محمودالحق
در دستک >>

صدف نایاب سے مزین جہان رنگ و نو

صدف نایاب سے مزین جہان رنگ و نو

اک دل مسلم پکارے الله ھو الله ھو

پَرِند میں ہے خوشہء جزبہ جنوں

کوئی کہے سبحان الله کوئی الله ھو

منزل سے نا آشنا رزق تلاش گرداں

میسر ہے انہیں ہر شب ماہ نو

یقین محکم جن کا آغوش رو سیاہی میں

شب کی چاندنی پہ غالب ہے آفتاب صبو



موسل بار / محمودالحق
در دستک >>

Feb 14, 2010

علم سے عالم یا عمل سے مسلمان

علم حاصل کرو چاہے تمہیں چین جانا پڑے ۔ حدیث تو ہم نے بھی سن رکھی تھی مگر کبھی بچپن میں اس کے اصل مفہوم سے آگاہی نہیں ہو پائی ۔ پانچویں جماعت میں تھے تو اچانک ایک خیال روشن دماغ کی زینت بنا ۔ پائلٹ بننا اچھا رہے گا ۔تو بس پھر کیا تھا ۔ ہر ٹیچر سے کہتے کہ ہم تو پائلٹ ہی بنیں گے ۔ والد صاحب نے حسن ابدال جانے کی اجازت نہیں دی کہ ابھی چھوٹے ہیں سنبھال نہیں پائیں گے خود کو ۔ جماعت ہشتم تک انتظار کی گھڑیاں گنتے رہے کہ کب پائلٹ بنیں اور جہاز اڑائیں ۔ انگلش میڈیم سکولوں کے فارغ التحصیل شہریوں کے لئے بتانا ضروری ہے کہ جماعت ہشتم سے مراد آٹھویں جماعت ہے ۔ کے جی ون ٹو تھری بنچ کے سامنے کرسی پر بیٹھ کر پڑھنے کے بعد ہائی سکول میں جماعت ششم یعنی چھٹی میں داخلہ لیا۔ تو ٹاٹ کی دھول سے پہلی بار بڑے بھائیوں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے شناسائی کا موقع ملا ۔ مخلوط تعلیم لیڈی ٹیچرز کے بعد اچانک ہڈبونگ مچاتی کلاس اور قہر برساتا مولا بخش
کبھی کبھار خاموش بھی ہو جاتا۔ مگر دھول ہوا میں ہی محو رقص پرواز رہتی ۔ اور ہمارے گھر پہنچنے پر ہی آرام گاہ میں اترتی ۔ لیکن ہمیں تو صرف انتظار تھا کہ ششم سے ہفتم اورپھر ہشتم ۔ مگر بعض اوقات تقدیر ہمارے لئے کچھ اور ہی ترتیب رکھتی ہے ۔ میرے ہاتھوں میں جماعت دہم میں پڑھتا میرا بڑا بھائی ٹی وی سے کرنٹ پڑنے سے جانبر نہ ہو سکا ۔ والد صاحب ٹوٹ کر رہ گئے ۔ والدہ ماجدہ کی آنکھیں بیٹے کی جدائی میں آنسوؤں کی ہی سہیلی بن کر رہ گئی ۔ بھائی جو دوست بھی تھا ہاتھ سے چھوٹ گیا ۔ وہ کبوتر پالنے کا بہت شوقین تھا ۔ بچپن میں بیماری سے بڑی مشکل سے صحتیاب ہواتھا ۔ اس لئے تمام کاموں کی اسے چھوٹ تھی اور مجھے نہیں ۔ کیونکہ اب یہ خیال کیا جا رہا تھا ۔ کہ بڑے بھائی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ڈاکٹر بننے کی اہلیت ثابت کرے گا ۔ اور جو بھائی انجئینر بن چکا تھا ۔ میرے چال چلن ان سے ملتے جلتے تھے ۔ میرے ڈاکٹر بننے کی شائد انہیں خواہش اس لئے تھی کہ وہ بڑھاپے میں داخل ہورہے تھے ۔ جب میں پیدا ہوا تو والد صاحب باونویں سال میں تھے ۔ اور والدہ انتالیسویں سال میں ۔ بڑے تمام بھائی روزگار کے سلسلہ میں گھر سے دور اندرون و بیرون ملک جا چکے تھے ۔ اب تو میری زندگی میں جو بھی تعلیم کا میدان تھا وہ شہر لاہور ہی تھا ۔ گھر میں نماز تسبیع میں مشغول میری ماں اور عدالتوں میں پیشی پر آنے والوں کی فائلوں سے رات گئے دیر تک اگلے روز عدالت میں مخالف فریق سے بحث کے لئے تیاری میں مصروف رہتے میرے والد ماجد ۔
دبلا پتلا تو میں بچپن ہی سے تھا ۔ مگر کھلے ڈیل ڈول کے بڑے بھائی کی وجہ سے میں بھی چوڑا رہتا ۔ اس کے غم میں پہلے سے بھی کمزور ہو گیا ۔ اور دشمنوں کی تعداد میں اضافہ ۔ حیران ہونے والی بات نہیں ۔ جہاں ہم رہتے ہیں یہ کسی جنگل سے کم نہیں ہے ۔ طاقتور سے خوف اور کمزور پہ زور کے فارمولے پر عمل پیرا رہتی ہے ۔ پانی کا بہاؤ نیچے کی طرف ہی ہوتا ہے ۔ قوت کا اندازہ ضرب سے نہیں لوہا کے ٹھنڈا گرم ہونے پر ہوتا ہے ۔ زمانہ انسان کا ایسا استاد ہے جس سے پڑھنے کی ضرورت نہیں ہوتی ۔ وہ خود سبق یاد کرواتا ہے ۔ اور اتنی بار دھراتا ہے کہ گرم فولاد ٹھنڈا ہونے پر جب ڈھلتا ہے تو خود کبھی ڈھال تو کبھی تلوار کا وار بن جاتا ہے ۔ سکول میں پہلی جماعت کے دوستوں سے لیکر کلاس کے دادا گیروں تک سے آنکھ بچا کر گزرنا پڑتا ۔ جینے کی دستگیری تبھی ملتی اگر چمچہ گیری کرو یا آب گیری ۔ ایک بات تو طے تھی کہ اپنا تشخص برقرار رکھنے کے لئے حد سے گزرنا ہوتا ہے ۔ سوچ کے انداز کو بدلنا ہوتا ہے ۔ بچپن میں پیدا ہونے والی سوچ جب پروان چڑھتی ہے تو بڑھتی چلی جاتی ہے ۔ پڑھنے لکھنے والے چین سے بھی آگے جا چکے ۔ اور علم کے سمندر میں موتی ڈھونڈتے ڈھونڈتے عالم جہاں بن جاتے ہیں ۔ دھکم پیل کی معاشرتی اجارہ داری کسی کو وہ بنا دیتی ہے جو وہ خود سے بننا نہ چاہتا ہو ۔ حق پر ہو کر حق چھوڑ دینا کبھی اچھا تو کبھی برا تجربہ رہتا ہے ۔ ایک بار جھکنے سے دوبارہ سنبھل جائے تو الگ بات ہے مگر جھکا کر توڑ دینے میں بہادری نہیں ۔ بلکہ قوت کے استعمال کا انداز جارحانہ ہو جاتا ہے ۔ پے در پے ضربوں سے ٹوٹ نہ سکے تو دھار بن جاتی ہے جو کٹتی نہیں کاٹ دیتی ہے ۔
ایسے ہی ایک موقع پر یہ واقعہ یاد آ جاتا ہے ۔ ایک دوست کے ساتھ فلم دیکھنے سینما گئے ۔ اسے لائن میں کھڑا کیا اور خود پوسٹر سے فلم کی کہانی بننے لگا ۔ اسے اپنی طرف آتا دیکھ کر میں گیلری کی سیڑھیوں کی طرف بڑھنے لگا ۔
ٹکٹ نہیں ملا !
اس کے اس جملے نے فلم دیکھنے کی امیدوں پر پانی پھیر دیا ۔ بہت عرصہ کے بعد فلم دیکھنے کے لئے سینماکا رخ کیا تھا ۔ اب ایسے ہی واپس لوٹ جائیں کیسے ممکن تھا ۔ حالات جاننے کے بعد جب ٹکٹ لینے والی کھڑکی کے پاس پہنچے تو کمال منظر تھا ۔ لائن کا وجود ہی نہیں تھا ۔ قمیضوں سے بے نیاز ۔ کوئی نیچے سے تو کوئی اوپر سے ایک تنگ سوراخ میں ہاتھ ڈال کر ٹکٹ کا متمنی تھا ۔ ہم نے آؤ دیکھا نہ تاؤ حملہ کر دیا کھڑکی پر لپکنے والوں پر ۔ چار پانچ لڑکوں پر جو سخت ہاتھ جڑے تو ضرب سے طاقت کا اندازہ ہو گیا انہیں کہ اب تو یہ ہاتھ بھی دھار بن چکے ہیں ۔ ایک لمحے میں کھڑکی کلئیر ہو گئی ۔ ایکشن کامیاب رہا ۔ مجھے اندیشہ تھا کہ جوابی حملہ ہوگا مگر نہ ہوا ۔ تگڑے تگڑے بھی پیچھے ہٹ گئے ۔ کیونکہ دبلے پتلے کے ہاتھوں کی ضرب جو جوڈو کراٹے کی تربیت اور اینٹوں پر ضربیں لگانے سے فولادی بن چکے تھے ۔ کسی نے ہمت نہ باندھی ۔ لائن ٹوٹنے سے اصول و قوائد پر عمل کرنے والے یا کمزور جو منتشر ہوئے دوبارہ لائن میں یکجا ہوگئے ۔ دوست کو پھر اسی لائن میں اپنی جگہ بحال کروایا ۔ ابھی ٹکٹ لیکر کر واپس پلٹے ہی تھے ۔ کہ ایک بار پھر وہی کھڑکی پر چاروں اطراف سے حملہ ہو گیا ۔ ایک آواز نے مجھے اپنی طرف متوجہ کیا ۔
جناب لائن ٹوٹ گئی ہے !
میں نے پلٹ کر جواب دیا ۔ مجھے اپنا حق لینا تھا سو لے لیا ۔ اب تم جانو کیسے اپنا حق دفاع کرتے ہو ۔ چند لوگ تم بیسیوں پر بھاری ہیں ۔ مگر میں اکیلا ان پر بھاری تھا ۔
وہ کہنے لگا ! ہم شریف ہیں ۔
تو میں کونسا بدمعاش ہوں۔ میں نے غصے سے جواب دیا ۔ انہی لائین توڑنے اور دوسروں کے سروں پر چڑھنے والوں نے مجھے فولاد بنانے میں اہم کردار ادا کیا ۔
مرحومہ والدہ ماجدہ اکثر کہا کرتی تھیں ۔ کہ کیا بن گئے تم ڈاکٹر تو نہ بنے مگر ان ہاتھوں سے اینٹوں کا اپریشن کرتے رہتے ہو ۔
مگر وہ یہ نہیں جانتی تھیں کہ بروس لی کی فلم انٹر دی ڈریگن سے متاثر ہو کر طاقت ور بننے کا جو کام میں نے شروع کیا ۔ وہ مجھے اعصابی طور پر بھی فولاد بنانے جارہا ہے ۔ ہر چیلنج کو قبول کرنے کی عادت پیدا ہوتی چلی گئی ۔ بڑھاپے میں ماں کو جگر کا سرطان اور والد صاحب کو الزائمر کا موذی مرض جو چودہ سال تک انہیں جسمانی اور مجھ پر اعصابی دباؤ بڑھاتا چلا گیا کو بھی لائن ٹوٹنے کی طرح برداشت نہیں کیا ۔ بلکہ بھر پور جینے کے حق سے دستبرداری کی نوبت نہیں آنے دی۔ الزائمر کی بیماری ایک کے بعد ایک اعصاب کی لائن توڑتی رہی ۔ والد صاحب کو تو توڑ کر سات سال گوشت کا لوتھڑا بنا کر رکھا ۔ مگر میں چودہ سال اس پر حملہ آور ہو کر اپنے اعصاب کی لائن سیدھی رکھتا رہا ۔
علم کے حصول میں عالم تو نہ بن سکے مگر مذہب نے عملی مسلمان بنا دیا ۔ بی اے اور ایم اے بھی اچھے نمبروں سے پاس کیا ۔ لائن توڑنے اور کھڑکی پر حملہ کرنے والے ہر جگہ ملتے رہے ۔ وہ اپنے راستہ پر چلتے رہے اور ہم اپنے پر ۔ کسی نے ہماری لائن نہیں توڑی اور ہم نے اپنی جگہ نہیں کھوئی۔ نہ جانے ہمارے معاشرے کی یہ سوچ کیونکر بن گئی تھی یا ہے ۔ کہ جو تم سے ٹکر لے سکتا ہے اس سے تعاون و تعلق بڑھایا جائے ۔ سکولوں سے لیکر کالج یونیورسٹیوں تک ، کونسلر سے لیکر ایوان صدارت تک ، کمزور و بے ضرر پر طاقت بڑھائی جاتی ہے ۔ جو پارٹیاں بگاڑ پیدا کر سکتی ہیں ۔ وہ اسمبلی سی باہر بھی تعاون رکھتی ہیں ۔ مگر جو اپنی لائن کے ٹوٹنے کو نہیں بچا پاتیں ۔ وہ اسمبلی کے اندر بھی سونے میں ہی وقت گزارتی ہیں ۔ اور ان کے ممبران بیگمات کے مجازی خدا کے درجے پر ہی فائز رہنا پسند کرتے ہیں ۔ لائن توڑنے والے کبھی ایک تو کبھی دوسری پارٹی کی ضرورت بنے رہتے ہیں ۔ جب نہ لوٹیں تو پھر وہ لوٹے ہو جاتے ہیں ۔ کیونکہ کٹی پتنگوں کی طرح انہیں لوٹ لیا جاتا ہے ۔
یہ صرف اتنی دیر ہی لائن سیدھی رکھتے ہیں جب انہیں سخت ہاتھوں سے کوئی دو دو جڑ دیتا ہے ۔ اور اس کے لوٹ جانے کےبعد پھرلائن توڑ دیتے اور کھڑکی پر چاروں اطراف سے حملہ کر دیتے ہیں ۔
ان میں سے ہی چند پھر بول اٹھتے ہیں کہ جناب لائن ٹوٹ گئی ہے ۔ آخر کب تک کوئی بار بار ان کو اپنی جگہ پر بحال کروائے گا ۔ اپنی پوزیشن برقرار رکھنے اور حق لینے کے لئے لائن سیدھی کروائی جاتی ہے ۔ جب تک اس کھڑکی کی لائن میں سب اکھٹے کھڑے رہیں گے ٹکٹ کی آس میں ۔ لائنیں ٹوٹتی رہیں گی ۔ لائن میں کھڑے رہ کر انتظار کرنے والے کیوں نہیں جدا ہو جاتے کھڑکی پر حملہ کرنے والوں سے ۔ کیونکہ فلم دیکھنے کا شوق بھی سبھی رکھتے ہیں ۔ سبھی ہال میں بیٹھنا چاہتے ہیں تبھی تو رش ہوتا ہے ۔ پھر لائن ٹوٹنے کا رونا روتے ہیں ۔
در دستک >>

Feb 7, 2010

کالونی سے کمپیوٹر تک

چند سال پہلے تک زندگی گزارنے کا ڈھنگ مزاج فطرت میں تھا ۔ رہن سہن سے لے کر ملنے ملانے تک عزیز و اقارب ہوں یا احباب گھر انہ گھرہستی سے مزین اخلاق و کردار تھا ۔جب مہمان آتے تو خوشی سے پھولے نہ سماتے بچے اور جب چھٹیاں ختم ہونے پر لوٹتے تو چہرے اداسی کی تصویر بنے رخصت کرتے اور جانے والے محبتوں کے تسلسل ٹوٹنے پر بھاری قدموں سے اجازت مانگتے ۔خوشیاں ایک پل کو جدا ہوتی محسوس ہوتیں ۔مگر یہ کیفیت زیادہ دیر تک قائم نہ رہتی ۔کالونی محلے میں ساتھ رہنے والےپھر ساتھ جڑ جاتے ۔قہقہوں پر صرف ایک گھر کا حق نہ ہوتا ۔
ایک گھر سے نکلتے تو بلی کی طرح سات گھروں سے بھی آگے میزبانی کا مزہ چکھ کر لوٹتے ۔ہر گھر کھلے بازؤوں سے استقبال کرتا ۔کھیل کھیل میں کبھی ناراضگی ہو جاتی تو پھر صبح وہیں سے آغاز ہوتا ۔ غصہ تو تھا مگر نفرت کا پاس سے بھی گزر نہ ہوتا ۔سالوں سے ایکدوسرے کے قریب بسنے والے قربت کے ایسے رشتوں میں بندھے ہوئے تھے ۔کبھی کبھارملنے اور دور دراز رہنے والےعزیز و اقارب ان کے سامنے اجنبی لگتے ۔ روز ایک نئی کہانی کا آغاز ہوتا ۔شرارتوں کے قصے ہنسی مذاق میں زبان زد عام ہوتے ۔ عمر کے درجے ہی دوستی کے معیار تھے ۔ باپ اور بڑے بھائیوں سے بچوں تک دوستیاں سیڑھیوں کے پائیدان کی طرح ہوتیں ۔کھیل میں گروپ بازی نہ ہوتی ۔ آج ایک ٹیم میں تو اگلے دن دوسری ٹیم میں ہوتے ۔اتحاد و اتفاق تو تھا لیکن نفاق نہیں ۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ترقی کا پہیہ جب چلا تو مزاج مسافروں کی طرح اس میں سوار ہوتا چلا گیا ۔رفتار بڑھتی چلی گئی ۔ سب ہی آگے کی طرف دوڑ پڑے کیونکہ اب پیچھے مڑ کر دیکھنے کا وقت نہیں رہا۔ ہاتھ چھوٹنے کا دور گزر چکا ۔ اب تو ہاتھ ہلا کر رخصت ہونے کا وقت نہیں بچا ۔جنہوں نے اسی سفر میں جنم لیا وہ کالونی محلے کی چاشنی کو نہیں سمجھ سکتے ۔کیونکہ جس گھوڑے پر وہ سوار ہوئے ہوا سے بھی تیز رفتار ہے ۔سینکڑوں ہزاروں میل پر پھیلی ریاست دو انگلیوں کی مسافت پر رہ گئی ہیں ۔وفا کا بھروسہ نہیں مگر عشق میں اندھا پن ہے ۔محبوب سات پردوں میں چھپنے کا تو سنا تھا لیکن اب وہ سات سمندر پار بھی چھپتا نہیں ۔ فاصلے سمٹ کر انگلی کی پور کی مسافت پر ہیں ۔ انٹر نیٹ کی دنیا سے جڑا یہ ہمارا محبوب جان کمپیوٹر ہے ۔جس کے بارے میں بہت جگہ پڑھا کہ اب تو اس کے بغیر دل نہیں لگتا ۔اداسی چھا جاتی ہے ۔ بیویوں کے لئے تو سوکن کا درجہ حاصل کر چکی ہے ۔اور کنوارے روٹھے محبوب منانے کی طرح فورم کی گلیوں میں بے تحاشا چکر لگاتے ہیں ۔اب تو دل کی قربتیں دھڑکن سے جڑی رہ گئی ہیں ۔جو گردش خون سے مسافت طے کرتی ہیں ۔ کبھی سوچا نہ تھا کہ میں بھی اس کی زلف دھاگہ کا اسیر ہو جاؤں گا ۔اور بیشتر فارغ وقت اسی کے ساتھ نغمہ گاتا پھروں گا ۔ لیکن آج نفیس نفس انسان کی تلاش، وقت کی کمی کا شکار ہے ۔خواہش اور ضرورت ہوا پر سوار ہے ۔ہوا ترقی کی رفتار ہے ۔ اور انسان کبھی خوش تو کبھی بیزار ہے۔ کبھی کبھار تو سوچتا ہوں کہ بہتر ہو اگر کچھ وقت کے لئے توقف کر لوں ۔رفتار کی کمی سے ہیجان انگیزی میں کچھ بہتر نتائج سامنے آنے کے امکانات زیادہ ہیں ۔کمپیوٹر سے صرف گھر تک محدود ہو کر رہ گیا ہوں ۔ایک زمانہ تھا شہروں میں ہر مکتبہ فکر کے لوگوں کا الگ الگ حلقہ ارباب تھا ۔ ہم صرف اپنی پسند کے ہی حلقہ اثر تک محدود رہتے ۔ مگریہاں نہ چاہتے ہوئے بھی نظر پڑ ہی جاتی ہے ۔بچپن سے ہی گھر میں جو نظریہ موجود تھا اسی کے ساتھ ہی زندگی پروان چڑھتی رہی۔مگر جوانی ، معاشرہ ، مزاج ، رویے، کتاب، سیاست اور مذہبی خیالات و اعتقادات سے بہت کچھ سیکھنے کو ملا ۔سنی العقیدہ ماحول میں پرورش پائی ۔ بچپن میں کربلا گامے شاہ بھاٹی گیٹ لاہور دوستوں کے ساتھ بھی جا چکے ۔مگر تربیت میں کیا کمی رہ گئی کہ صرف اپنے مسلک پر سختی سے کاربند نہیں رہے ۔ دوسرے بھی قابل احترام تھے ہمارے لئے ۔درخت کی شاخیں چاہے کتنی بھی دور تک کیوں نہ پھیل جائیں ، آپس میں ان کا ربط بھی نہ ہو اور ہواؤں کے چلنے سے آپس میں ٹکراتی رہیں ۔ مگر جڑی ایک جڑ کے ساتھ ہیں ۔ وہیں سے آب گوہر قطرہ قطرہ سمو کر تنے کے ذریعے شاخوں پتوں تک پہنچتا ہے ۔ پھول کتنا بھی خوشبو دار کیوں نہ ہو ۔جڑ سے کٹ کر خوشبو تو در کنار خود بھی مرجھا جاتا ہے ۔
دے اس قوم کو ایسی جِلا
یہ پکار اٹھیں یا خدا یا خدا
سمجھ کر یہ تیرا فرمانِ ضیا
اپنی روح کو جسم سے کریں جدا
تائب ہوں جو اپنی خطا
ملیں انہیں فرمانِ اجلِ جزا
تحریص و ترغیب تو ہے ابلیسِ ادا
چھن جائے مسلم کی ایمانِ رضا
جو خود ہے وہاں سے نکالا گیا
تیرے لیے بھی چاہے گا ویسی سزا
گر نہ ہو لغزشِ تحریز پا
آئے ایک ہی صدا یا خدا کرم فرما
نہیں ہے وہ تم سے جدا
قلب تو ہے اسکی نورِ ربا
خارِ وفا تو ہے ہمیشہ کی فنا
رضاء خدا ہی کو ہمیشہ بقا
اتنی بھی کیا جلدی سانس لے ذرا
پہلا پڑاؤ ہے تجھے پھر ہے جانا
بن گیا ایندھن جو کٹ گیا
بچ گیا جو جَڑ سے جُڑ گیا

کمپیوٹر سے جو دوستی ہو چکی تو اس کی ہر اچھی یا بری عادت کو اپنانا تو ممکن نہیں مگر ایک بات کا خیال ضرور رکھا جاتا ہے کہ کہیں لکھتے لکھتے قلم شاخ کسی دوسری شاخ سے نہ چھو جائے ۔ نقصان شاخوں کا نہیں ہمیشہ پتوں کا ہوتا ہے ۔جنہوں نے مہکنا اور کھلنا ہوتا ہے ۔بنیادی طور پر میں ایک کم علم انسان ہوں ۔ بھاری کتابوں کا بوجھ میں کیا اُٹھا پاؤں گا ۔ زندگی بھر کےعمل کے لئے چند احکامات ہی کافی ہیں ۔ کیا خوب کہا اقبال (رح) نے ،عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے ۔ ہر فورم پر تاکیدی مضامین پڑھنے کو ملتے ہیں کہ ذاتیات اور بحث و مباحث سے اجتناب برتا جائے۔
یہ سب اردو فورم کسی طرح کی کوئی خدمت انجام نہیں دے رہے ۔وقت کا ضیاع ہے نوجوان نسل کو تفریح فراہم کرنے کا انتظام ہے ۔ اس میں خوبیاں کم برائیاں زیادہ ہیں ۔ اگر میرے ساتھ کوئی بحث چاہتا ہے تو میں ثابت کرتاہوں ۔سنجیدہ نہ ہوں یہ صرف مثال کے لئے لکھے ہیں ۔ یہ حقیقت بھی نہیں ہے ۔ میرے یہ جملے کتنے لوگوں کو چبھے ہوں گے ۔ چندتنقیدی جملے خامیوں کے ساتھ ساتھ خوبیوں کو بھی لپیٹ جاتے ہیں ۔برداشت کےمادہ سےبہت سی خامیاں خود سے فنا ہو جاتی ہیں ۔چونکہ اب کمپیوٹر نے کالونی کی جگہ لے لی ہے ۔ تو اس رشتے سے ہم سب محلے دار ہوئے تو جناب مجھے تو آپ کو برداشت کرنا ہی ہو گا ۔ جو نہیں کرتے وہ شکریہ کے قریب سے بھی نہیں گزرتے ۔ اب نام لے کر پردہ نشینوں کو کیا بے پردہ کروں ۔ جتنا وقت ایک کالم لکھنے میں صرف ہوتا ہے اگر لطیفے لکھتا تو یقینا کمائی (پوائنٹ)لاکھوں میں نہیں تو ہزاروں میں ضرور ہوتی ۔ لیکن اس کام میں ہم ہمیشہ ہی ناکام رہے کیونکہ ہم دعا لکھتے رہے وہ دغا پڑھتے رہے ۔ درد کی داستان میں پھولوں سے شناسائی کھو چکے ، کانٹے اعتبار کے قابل نہیں ۔میرا یہی تخیل شاعری میں خود بخود ڈھل جاتا ہے ۔ایک نشست میں لکھنا ہوتا ہے ۔ چاہے تو شعر ڈھل جائیں یا کالم ۔آج کا کالم حاضر ہے ۔ شعر چند ماہ پہلے لکھے تھے ۔ شاعری میں تو کوئی پڑھتا نہیں تو مجبورا کالم میں پھنسا دیتا ہوں ۔ کالم کے بہانے میرے اشعار جو شائد شعراء کرام کے ترازو پر پورے نہ اترتے ہوں ۔ وہ بھی نکل جاتے ہیں ۔میں کونسا باقاعدہ شاعر یا قلم کار ہوں کہ کتابیں چھاپ کر رائلٹی لینی ہے۔اگر کوئی صرف پڑھ ہی لے تو ہمیں محنت کا صلہ مل جاتا ہے ۔شائد کسی دل سے دعا بھی نکلتی ہو ۔دعاؤں ہی سے تو یہاں تک پہنچا ہوں ۔
کس سے اپنے درد کا اظہار کروں
کوئی تو ہو جسے راز دار کروں
اب تو پھول بھی شناسا نہ رہے
آخر کب تک کانٹوں پہ اعتبار کروں
میری داستان تو ہے ایک نوحہ کناں
سنا سنا کر کب تک بیزار کروں
بھر دے لب تک پیمانے کو ساقی
مدہوشی میں استادِ زمانہ کو برخوردار کروں
جہالت جہاں سے میں بے علم ہی اچھا
الف اقرا ہی کو اپنا علم سالار کروں
آبِ کوثر کی ایک بوند کا طلبگار ہوں
تیرے حکم کو کیسے اور کیونکر انکار کروں
مجھے درد کی دعا دے دوا نہ دے
تہی دامن خزاں کو بھی بہار کروں



تحریر و اشعار: محمودالحق
در دستک >>

شعلہ بیان یا سلگتا بیان

ایک زمانہ تھا جب بھی کسی قوم کے اندر کسی تحریک کا آغاز ہوتا تو قائدین اپنی تحریروں اور تقریروں سے انقلاب برپا کر دیتے ۔ قوم میں ایک نیا جوش و ولولہ انگڑائیاں لیتا ۔منزل کی نشاندہی اس انداز میں کی جاتی کہ آغاز میں ہی کوشش سےکامیابی قدم چومنے لگتی۔ لیڈر صرف تقریریں نہیں کرتے تھے حقیقت میں اس پر عمل پیرا ہوتے ۔ قوم انہیں اپنا نجات دہندہ سمجھتی ۔ان کی ایک آواز پر لبیک کہتی ۔ڈنڈا گولی سے ڈرنے کی بجائے سینہ تان کر سینہ سپر ہو جاتی۔ چاہے مسجد شہید گنج کا معاملہ ہو یا سانحہ جلیانوالہ باغ ہو ۔ آزادی کے بنیادی حقوق کے لئے آواز بلند کی جاتی ۔انفرادی کوشش سے نہ تو تحریکیں چلیں اور نہ ہی حقوق کا حصول ممکن ہوا ہے ۔ قوموں کے اندر ہی سے ان کے رہنما پیدا ہوتے ۔ جو صحیح معنوں میں صرف حقوق کی آزادی کے لئے نہیں لڑتے بلکہ رہنمائی بھی کرتے ۔
صحیح خطوط پر سیاسی وابستگی کا استعمال کیا جاتا ۔ ذاتی مفادات و کاروبار کا قریب سے بھی گزر نہیں ہوتا ۔عوام سے کئے گئے وعدے وفا ہوتے ۔ جن کے بل بوتے پر اسمبلی میں جاتے ۔ انہی کے لئے بے چین رہتے ۔جلسہ میں ہوتے یا اسمبلی میں اپنی شعلہ بیانی سے مجلس گرما دیتے ۔ ایسے شعلہ بیان مقرر جلسوں میں تقریر سے ، اخبارات میں اپنے کالموں سے نئی روح پھونک دیتے ۔تاریخ شاہد ہے کہ نئی نسل کو شعلہ بیان رہنماؤں نے ایک اچھے مستقبل کی نوید دلائی ۔ مگر اب حالات بدل چکے ہیں ۔لیڈر بہک چکے ہیں ۔قوم سہم چکی ہے ۔کیونکہ جب سے دنیا گلوبل ولیج بنی ہے ۔ انٹر نیٹ پر کاروبار ، اشتہارات ، اخبارات ، غرض میرے جیسے مضمون نگار بھی انٹر نیٹ پر پائے جاتے ہیں ۔ جنہیں کوئی بھی اپنے دو کالمی خبر کے قابل نہ سمجھے۔مگر کیا کریں ہمیں تو کام لینا نہیں آتا ۔کسی بڑے تعلق کا بھی مان نہیں ۔ صرف نماز میں ہی ہاتھ باندھنے سے خوشی ملتی ہے ۔جھکنا صرف سجدہ میں جانے کے لئے ہی اچھا لگتا ہے ۔ہمیں کوئی خواہش نہیں کہ بڑے لیڈر سے ربط بڑھے ۔ ٹی وی پر انٹرویو ان کا ہو اور گردن اُٹھا اُُٹھاکر کیمرے کو منہ چڑاتے پھریں ۔ان کی فائلیں ، موبائل فون ، ڈائری کسی اور کے ہاتھ میں ہو اور وہ دونوں ہاتھ صرف سمیٹنے کےلئے خالی رکھیں ۔بھلا ہو لنڈے میں سستے داموں ملنے والے ٹو پیس سوٹ کا امیر غریب کا فرق مٹا دیا ۔صرف خالی ہاتھ دیکھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ لیڈر یہی ہے ڈائری و فائلیں ٖفون ہاتھ میں رکھنے والا اسسٹنٹ ہے ۔ حکومتیں جب بھی کوئی نیا نظام متعارف کرواتی ہیں تو مقصد عوامی بھلائی نہیں ہوتا بلکہ اسسٹنٹ بنانے میں چھانٹی کا عمل ہے ۔ تاکہ زیادہ سے زیادہ فائلیں اُٹھانے والے میسر ہوں ۔ قوم سمجھتی ہے کہ فائلوں میں وہ پراجیکٹ ہیں جو ان کی بھلائی واسطے شروع کئے جانے والے ہیں ۔ مگر وہ تو مہنگے پلاٹوں کی اوپن فائلیں ہوتیں جن کو بیچ کر پیسے کھرے کئے جاتے ہیں ۔مگر میں یہ کیا کر رہا ہوں کوئی نئی بات ہو تو یہاں ذکر کروں بھلا ان باتوں کا یہاں کیا تعلق ۔ سب ہی تو جانتے ہیں بلکہ کچھ زیادہ ہی جانتے ہیں ۔ ایک آدھ واقعہ بیان کرنا وقت کا ضیا ع ہے قاری کا ۔پہلے کیا کم مسائل سے دوچار ہیں کہ اب پڑھنے کا بھی بوجھ ڈال دوں ان پر ۔ روزانہ ہی نت نئے تازہ حالات پر لب کشائی کی جاتی ہے اور میں ہوں کہ وہی پرانی باتوں کو لیکر بیٹھ جاتا ہوں ۔اب کیا کیا جائے نیا مصالحہ ملتا نہیں ورنہ ہم بھی سیاسی بریانی کی نئی دیگ تیار کر ہی دیں ۔پہلے خبریں گھروں تک پہنچانے والے سینہ گزٹ سے پیراستہ تھے ۔ اب خبریں گھروں سے باہر لائی جاتی ہیں ۔ میڈیا بہت آگے جاچکاہے ۔ ہم پیچھے پیچھے چل تو پڑے ہیں ۔ اب کہیں گر نہ پڑیں تیزی میں چلنے کی دوڑ میں ۔
بہت عرصہ ہوا کسی جلسہ میں جانے کا اتفاق نہیں ہوا ۔ٹی وی پر تقاریر سننے کو مل جاتی ہیں ۔تقریریں بھی ایسی کہ آگ لگانے کی ضرورت ہی نہیں بھڑکی بھڑکائی ۔ ایک دن تقریر دوسرے دن تابڑ توڑ جوابی حملے ۔ کبھی صفائیاں تو کبھی تاویلیں ۔
ایک زمانہ تھا رہنما شعلہ بیان تھا ۔ آج کیا زمانہ ہے سلگتا بیان ہے ۔ چھپتے ہی آگ بھڑکا دیتا ہے ۔

تحریر : محمودالحق
در دستک >>

Feb 6, 2010

یادداشت کھو جانے والی بیماری الزائیمر کی علامات

آج سے چند سال پیشتر پاکستان میں بہت کم لوگ الزائیمر کے متعلق جانتے تھے۔سیمینار منعقد کئے جاتے رہے تاکہ عوام میں بیماری کے بارے شعور بیدار ہو ۔ یادداشت کھونے والی بیماری جو رفتہ رفتہ انسان کو اپنے بس سے باہر کر دیتی ہے ۔
غیر محسوس طریقے سے دماغ کے خلئے آہستہ آہستہ جسم کے اعضاء کو آزاد ی کے پروانے تھماتے چلے جاتے ہیں ۔اورصرف وہی اعضاء کام سرانجام دیتے رہتے ہیں ۔ جو دماغ کے تابع نہیں ہوتے ۔ورنہ تو ایک کے بعد ایک بغاوت کرتا چلا جاتا ہے ۔خودمختاری کے اعلان کے بعد وجود کو زندہ جسم کی بجائے گوشت کا لوتھڑا بنا دیتا ہے ۔
طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ یاداشت کی کمی اور یاداشت کے خاتمے کی بیماری ”الزائیمر“ میں دماغ کی گہرائی میں حصہ لینے والے خلیوں الیکٹرانک الیکڑوڈ کے ذریعے متحرک کر کے دماغ میں”نیورون گروتھ“ کو بہتر بنایا جا سکتا ہے۔امریکہ کے سابق صدر رونالڈ ریگن 1994میں اسی بیماری کا شکار ہوئے اور 2004 میں دس سال اس بیماری سے لڑتے لڑتے دنیا سے چلے گئے ۔مگر اس بیماری سے نجات نہیں پا سکے ۔تحقیق سے یہ بات دیکھنے میں آئی ہے کہ ذہنی دباؤ کی وجہ سے نیند میں خلل سے اس بیماری کی علامات یادداشت میں کمی سے شروع ہو جاتا ہے ۔
لیکن اس وقت میں اس بیماری کے علاج یا تحقیق کے متعلق سیمیناروں کا احوال بیان نہیں کرنے جارہا ۔ بلکہ یہ بتانے جارہا ہوں کہ یہ بیماری اپنی ابتدائی حالت میں کون کون سی علامات ظاہر کرتی ہے ۔ اور اس کا آغاز کس طرح ہوتا ہے ۔ غیر محسوس انداز میں کہ ساتھ رہنے والے بھی اس بات سے بے خبر رہتے ہیں کہ ایک انسان اپنی زندگی بھول رہا ہے ۔ مرکزی حکومت (دماغ) سے ایک کے بعد ایک ریاست (اعضاء) آزادی کا اعلان بغاوت کر رہے ہیں ۔ انسان سمجھ ہی نہیں پاتا کہ وہ زندگی کے ان تنگ و تاریک راستوں میں داخل ہو رہا ہے ۔ جہاں وہ خود اور اس کے ساتھ رہنے والے ایک دوسرے کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ۔الزائیمر کا آغاز جیسا کہ ابتدائی تحقیق سے سامنے آئی ہے کہ ذہنی دباؤ اس کا بنیادی سبب ہے ۔ شروع میں مریض کی یادداشت ایک مختصر وقت کے لئے ختم ہو جاتی ہے جیسے وہ اپنے گھر کے افراد میں سے چند ایک کو پہچان نہیں پاتا اور کبھی کبھار جوانی کے ایام دور کے واقعات اور تعلق والے اسے یاد آتے بلکہ سامنے بیٹھے محسوس ہوتے ہیں ۔گھر سے باہر سیر کے لئے جائیں تو اچانک وہ اپنے گھر کی شناخت بھول جاتے ہیں ۔ گھر کے سامنے کھڑے اپنا گھر تلاش کرتے ہیں ۔ پھر اسی تلاش میں ایک گلی سے دوسری میں جاتے جاتے گھر سے دور نکل جاتے ہیں ۔ اور جب انہیں یادداشت واپس آتی ہے تو اس وقت تک اپنے گھر سے بہت دور نکل چکے ہوتے ہیں ۔ گھر کی پہچان تو واپس آ جاتی ہے مگر اب گھر سامنے نہیں رہتا ۔ کھانا کھا چکنے کے بعد بھی انہیں اس بات کا خیال ہوتا ہے کہ انہوں نے ابھی کھانا نہیں کھایا ۔انہیں یاد دلانا پڑتا ہے کہ وہ کھانا کھا چکے ہیں ۔دن و رات کا فرق ختم ہو جاتا ہے آدھی رات کو سالوں پہلے چھوڑا گیا دفتر اچانک یاد آجاتا ہے اور تیار ہو کر اندھیرے میں دفتر جانے کی تیاری میں گھر سے باہر جانے کی ضد کرتے ہیں ۔آہستہ آہستہ یادداشت کھونے کا دورانیہ بڑھتا جاتا ہے ۔اور دیر تک اپنے حال سے جدا ہو جاتے ہیں ۔ماضی پرانے ریکارڈ کی طرح نکل کر سامنے آ جاتا ہے ۔اردو انگلش لکھنے پڑھنے والی آنکھیں لفظوں سے شناسائی کھو دیتی ہیں ۔ مریض سمجھتا ہے کہ اس کی نظر کمزور ہو چکی ہے مگر دراصل دماغ کے وہ خلئے جس میں الفاظ کا ڈیٹا سٹور رہتا ہے صاف ہو جاتا ہے ۔پاخانہ پیشاب کے لئے باتھ روم تک پہنچ نہیں پاتے اور راستے میں ہی کپڑے خراب ہو جاتے ہیں کبھی بستر پر تو کبھی کسی فرش پر ۔ مریض سمجھ نہیں پاتا کہ کیا ہو رہا ہے ۔ ہاتھ میں پانی کا گلاس پکڑنے کا فن بھول جاتے ہیں ۔ روٹی کا نوالہ بنانے کی ترکیب یاد نہیں رہتی ۔ چمچ کو ہاتھ سے پکڑنا بھول جاتے ہیں ۔ بنیادی طور پر انگلیاں دماغ سے آزادی کا بغل بجا دیتی ہیں ۔اور لکڑی کے سہارے سے بھی لا تعلق ہو جاتی ہیں ۔کئی سال یہی معمولات زندگی رہتی ہے ۔ اگر کبھی دست کی شکایت سے کمزوری یا نقاہت ہو جائے تو ایک دو دن بستر پر رہ جائیں تو پھر پاؤں پر کھڑا ہونا ممکن نہیں رہتا ۔ بچے کی طرح لڑکھڑا کر گر جاتے ہیں ۔ زیادہ تر وقت اپنے حوش وحواس میں نہیں رہتے ۔ چند لمحوں کے لئے یادداشت لوٹ کر آتی ہے ۔ اور مریض صرف بستر تک محدود ہو کر رہ جاتا ہے ۔ کھلی آنکھیں اور سانس لیتی ہوا صرف زندگی کی علامت رہ جاتی ہے۔ یہ زندگی مہینوں نہیں سالوں پر محیط ہے ۔ ایک ایک پل مریض جس تکلیف سے گزرتا ہے بیان سے باہر ہے ۔اس بیماری کا دورانیہ آغاز کے بعد15 سے 20 سال تک بھی رہ سکتا ہے ۔
یہ بیماری زیادہ تر بوڑھے لوگوں میں دیکھنے میں آئی ہے مگر یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ 50 کی عمر کے افراد جو شدید ذہنی دباؤ کا شکار رہے وہ بھی اس بیماری کا شکار ہوئے ۔ترقی یافتہ ممالک میں تو الزائیمر کا مرض کافی پرانا ہے ۔ اور وہ سال و سال سے اس کا علاج دریافت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ مگر فی الحال کوئی خاص کامیابی نہیں ملی مگر اس سے بچاؤ ممکن ہے کہ ڈپریشن اور سٹریس سے حتی الامکان بچنے کی کوشش کی جائے ۔ مگر اب ہمارے معاشرے میں یہ بیماری وبا کی طرح پھیل رہی ہے ۔جوں جوں معاشرہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے ۔ رشتوں میں محبت اور ہمدردی کے جزبات کم ہوتے جارہے ہیں ۔ خاص طور پر معاشی ، خاندانی اور معاشرتی مسائل سے پریشانیاں بڑھی ہیں ۔کہیں دولت کی تقسیم سے تو کہیں رشتوں کے لین دین سے آپس میں ناچاتیاں پیدا ہوتی ہیں ۔زیادہ تر وہی لوگ اس بیماری کا شکار ہوتے ہیں جو گھل گھل کر جیتے ہیں ۔دل کی بات کسی سے نہیں کہتے ۔ غم دکھ کسی ہمدرد سے بانٹتے نہیں بلکہ خود سے برداشت کرنے اور کڑھتے رہنے سے دماغ میں شریانیں سکڑتی چلی جاتی ہیں ۔ جب یہ بیماری سامنے آتی ہے تو وقت ہاتھ سے نکل چکا ہوتا ہے ۔ اپنے ارد گرد ماحول کا جائزہ لیں کہیں ہمارا اپنا کوئی پیارا تو برداشت کی قوت کو آزماتے آزماتے زندگی تو نہیں بھول رہا ۔
اللہ تعالی ہم سب کو اپنی حفظ و امان میں رکھے اور صحت و تندرستی سے زندگی گزارنے کےڈھنگ پرعمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین


محمودالحق
در دستک >>

Feb 3, 2010

کیا کھویا کیا پایا

تحریر : محمودالحق
خدا خدا کر کے زندگی کا ایک سال اور گزر گیا ۔ امید و آس کے ساتھ جس کا آغاز ہوا تھا ۔ نا امیدی و مایوسی کے ساتھ انجام پزیر ہوا ۔ دنیا کے نقشے میں کوئی خاص تبدیلی واقع نہیں ہوئی ۔جیسا ہے جہاں ہے کی بنیاد پر ہر ملک اپنی حدوں کے اندر ہی پناہ گزیں رہا۔ جگمگاتی روشنیوں کا فائر ورکس نئی امیدوں کا چراغ بن کر پھر آنکھوں کو چندھیاگیا ۔ ہر سال ہی ہم خوشیوں کے ساتھ نئے سال کا استقبال کرتے ہیں ۔ اور گزشتہ برس پر افسوس کا اظہار کر کے پھر ایک نئی منزل کی امید میں نظریں باندھ لیتے ہیں ۔جیسے ریگستان میں بھٹکا قافلہ ہر پڑاؤ پر نیا سراب دیکھتا ہے ۔ مگر جونہی
قریب پہنچتا ہے تو خواب بکھر جاتے ہیں ۔ ہر بار وہی پشیمانی ، وہی درد افسوس سے ہاتھ ملتے رہ جاتے ہیں ۔جن سے امید باندھ لیتے ہیں وہی نا امیدی کے دھکتے انگاروں پر چلنے پر مجبور کر دیتے ہیں ۔مجھے اب نئے سال کی خوشی نہیں ہوتی اگر کوئی یہ سمجھے کہ ہونی چاہیئے تو پھر احمقوں کی جنت میں رہنے کا اب شوق نہیں رہا۔ ایک کے بعد ایک جزباتی انداز میں فلسفہء زندگی کو ایسے تاک تاک کر نشانے پر بٹھاتے ہیں کہ اب تختہ مشق بننے پر دل آمادہ نہیں ۔حلق سے نیچے تو اب کسی بات کی اثر انگیزی نہیں رہی ۔تر نوالہ کی طرح لعاب دہن ہی اب لفظوں کو گولی میں ڈھال کر حلق سے اتارنے کی کوشش میں ہیں ۔آج سائنس کا یہ کہنا کہ قلب تو بس ایک خون کے بہاؤ کے لئے پمپ کا کام کرتا ہے ، ان کی زبان سے نکلتے الفاظ اور دعوے اس کی دلالت کے غماز ہیں ۔کہ یہ ہیں وہ لوگ جن کے قلب ہر کیفیت سے عاری ہیں اور واقعی انہیں وہ صرف پمپ کاکام ہی دیتے ہیں۔ مگر درد دل رکھنے والا ہر انسان اس مفروضے پر آنکھ بند کر کے یقین کرنے سے قاصر ہے۔جس عقل کی بنیاد پر لوٹ مار کا بازار گرم رکھا جاتا ہے ۔وہ اگر سو بھی جائے تو وہی قلب اس کی حفاظت کا حصار بنا رہتا ہے۔اگر وہ بھی غافل ہو جائے تو منوں مٹی کے نیچے دفن ہونے سے کوئی کیا بچا پائے گا۔ مگر ان کے نزدیک ہر منزل کا راستہ عقل کی راہوں سے گزرتا ہے۔ اور اسی راستے پر چلنے والے تو بہک سکتے ہیں مگر دل کی بات سننے والے ہمیشہ ہی شش و پنج کا شکار رہتے ہیں۔شیطان کا بہکاوہ کمزور عقل مالک پر گہری چوٹ رکھتا ہے۔وگرنہ مٹی سے بنا انسان اسی زمین پر تکبر نہ کرتا ۔کامیابی کا حصول ، دوسروں سے معتبر کرنے میں اپنی تمام کوششیں بروئے کار لائی جاتی ہیں۔برداشت ، صبر ، عجز و انکساری کی جگہ اب لالچ خود غرضی نے لے لی ہیں ۔ فلسفہ حیات و ممات اب صرف کتابوں کی زینت رہ گیا ہے۔دوسروں سے بڑھ جانے کی تگ و دو میں روندنے کا عمل اپنی دانست میں عقل کی معراج سمجھا جانے لگا ہے۔ بیوقوف انسان تصور کیا جاتا ہے جو اپنا مستقبل ، بڑھاپا اور اولاد کی جوانی محفوظ نہیں رکھتا ۔کامیابی کی سیڑھی جزبات کے کھیل سے تیار کی جاتی ہے۔مفاد پرستی میں کینہ و بغض کو جھوٹ کی تراوٹ سے تازگی کے دھوکہ میں بہلایا جاتا ہے۔ سیاست سے لیکر کاروبار تک اور حکومت سے لیکر گھریلو انتظامات تک فرد فرد سے شکوہ و شکایت کے دربار شاہی کا طلبگار ہے۔ہر شخص اپنے مسائل و مشکلات کا شکار ہے ۔جسے جو مسئلہ درپیش ہو ۔ اسی کا مداوا چاہتا ہے ۔مردوں کو نوکریوں کے لالے پڑے ہیں تو خواتین کو مردوں سے برابری کی جنگ جیتنے کی جستجو ہے۔والدین اولادوں سے نالاں ہیں ، تو اولادیں والدین کو اپنی ناکامی کی وجہ قرار دیتے ہیں کہ سفارش یا رشوت کی سیڑھی سے انہیں منزل مراد تک پہنچنے میں مددگار نہیں ہوئے۔احسان ہی بھول چکے ہیں کہ تابعداری میں حکم کیا ہے۔بس صرف شکوہ میں زبان ذکر کرتی ہے۔دولت کا حصول ہی مقصدحیات ٹھہر چکا۔ رشتوں میں بناوٹ و تصنع نے اصل چہرے چھپا لئے ۔ پردہ اٹھنے پر دل خون کے آنسو روتا ہے۔ اگر ملک میں انصاف نہیں تو خود میں بھی برداشت نہیں۔جلوس ریلیاں نکال نکال کر نوجوانوں کو توڑ پھوڑ کا ڈھنگ سکھا دیتے ۔ پھر شکوہ دوسروں سے کہ اپنی حدوں سے آگے گزر گئے ہیں۔ہر عروج کو زوال سے ہمکنار کرنے میں سب کا ایک ہی ڈھنگ اور کام ہونے کے بعد پھر وہی رنگ۔قوم تتلیوں کی مانند کبھی ایک ڈالی پہ تو کبھی دوسری ڈالی پہ۔ظالموں نے قوم کے خوبصورت رنگوں کو ہی بکھیر دیا ۔ روز ہی ٹی وی مناظروں میں لوٹا لفافہ کریسی سے بات اب آگے بڑھ کر کردار کشی تک جا پہنچی۔لفظوں کی نورا کشتی سے اب آگے تھپڑوں گھونسوں کی باری ہے جو پارلیمنٹ کی بجائے قوم کو گھروں میں دیکھنے کو ملے گی۔کوئی ستر ہزار ووٹ سے جیتنے کے دعوی سے ہر الزام سے بری الزمہ ہو گیا ۔ تو کوئی ان کے کندھوں پر ہی پوری قوم کا نا خدا بن جا تا ہے ۔نہ الیکشن صفاف اور نہ ہی ریفرنڈم ۔ بس بھیڑوں کا ایک باڑا ہے جو چاروں اطراف سے گھرا ہوا ہے۔ ایک ہانکتا ہے تو باقی ارد گرد سے گھیرا ڈال کربکھرنے سے بچاتے ہیں۔بھوک سے لاچار بھی ہوں قدم ڈگمگانے کی اجازت نہیں ۔بچا کر رکھتے ہیں کیونکہ دولت کے انبار انہی کی کھالوں سےتو لئے جاتے ہیں۔جس کو ہاتھ لگاؤ ڈنک بھرے تیار بیٹھےہے۔ ہر بار اس سال کی امید بہار میں ہمارے بالوں میں بھی چاندنی پوری طرح سے پھیل چکی ہے۔ ہم تو بچپن سے لاٹھی جلوس کی تزکیہ نفسی کے شکار رہے اور اب ہمارے بچے بھی دھکم پیل کے اس کھیل میں کہیں عمر نہ گنوا دیں۔اور دوسروں کو اپنے ماموں کے پودینہ کے باغات کے قصے سنا کر مرعوب کرنے کی ناکام کوشش میں اپنی شناخت ہی بھول جائیں ۔ اور جو غریب ہیں ان پر ظلم ڈھانے کے لئے امارت کا رعب ہی کافی ہے۔غریب وکمزور کو اوئے ،تو کہ کر بلانا اور امیر طاقتور کو آپ جناب کی گردان سےعزت افزائی سے طاقت بڑھائی جاتی ہے۔تو غریب بچہ کوئی ایسا ہی فعل انجام دے گا جس کی ایک مثال نیلا گنبد میں پارکنگ سٹینڈ پر گاڑی صاف کرنے والا ایک بچے نے کالی بڑی گاڑی کے شیشےکو اچھی طرح آئینہ کی طرح صاف کیا ۔ اور خود کا چہرہ دیکھا پھر اسی شیشے پر تھوک کر چلا گیا ۔مگر دوسری طرف وی آئی پی کلچر کے دلدادہ وطن میں ہوں تو ملازموں کی فوج ظفر موج انتظار میں پسند فرماتے ہیں۔ اور اگر باہر سے آئیں توامیگریشن سے پہلے اپنے نام کے ساتھ استقبال پر مامور سرکاری ملازم کا پروٹوکول چاہتے ہیں ۔آج بھی یہ سوچتا ہوں کہ دو سو سال بعدبھی کس کی حکومت ہے یہاں مغل بادشاہ کی ، ریاست کے راجہ مہاراجہ کی یا پھر ایسٹ انڈیا کمپنی کی۔ کیونکہ جمہوریت عوام سے ہے مگر عوام کہاں ہیں؟
مگر ان تمام کے باوجود میرے لئے یہ ایک اہم سال تھا ۔ میں زندگی میں مرحوم و مغفوربوڑھے والدین کے ساتھ اس لئے جڑا رہا کہ دنیا تو شائد مجھے کچھ نہ دے سکے ۔مگر ان کی خدمت سےجو اطمینان قلب آج مجھے نصیب ہے ۔ وہ دولت سے بڑھ کر بیش بہا خزانہ تسکین ہے ۔ خاص طور پر اس سال آٹھ جنوری کو شروع ہونے والا میرا یہ سفر در دستک ہے۔ موسل بار ، برگ بار، روشن عطار، خندہ جبین ، بادِ امنگ، بر عنبرین اور خیال رست جیسی تخلیق قلم نے آسودہ کیا۔
در دستک >>

Feb 2, 2010

زندگی گناہ دلدل رقص زمانہ آ گیا

زندگی گناہ دلدل رقص زمانہ آ گیا
در توبہ جو کھلا مقام آشیانہ آ گیا

خوف سزا سےگرنہ مائل بہ کرم ہو
لزت جزا ہی سے خواب سہانہ آ گیا


ایک اکیلا راستہ انجان تو آباد گنجان
روح فقیری میں مزاج شاہانہ آ گیا

ترغیب ثروت میں عشرت ہوتی بیتاب
بچ گیا جب اٹھا شور دیکھو دیوانہ آ گیا

نفس مجہول سے زخم خوردہ قوم
محکومی نہ رہی جب انقلاب ترانہ آ گیا

شریک وصل امتنان ہیں باہم رحجان
مفارقت عدم میں رہنے کو بیگانہ آ گیا

قلب اشتیاق جنوں میں جو نغمہ سرا ہوا
زبان پہ میرے کلام عارفانہ آ گیا

ہر روپ الگ روپ میں رنگ جدا
آفتاب و مہتاب میں بھی موازانہ آ گیا

سب کو تو غائب ہے خود میں حضور
علم الف سے ہی حال میں رندانہ آ گیا

شکوہ کو نہیں ملتی تحسین پزیرائی
آنکھوں کو درد میں بھی مُسَخرانَہ آ گیا

وصف عشق میں رنگ ایک تو روپ جدا
ایک ہے آستانہ تو ایک کا افسانہ آ گیا


خندہ جبین / محمودالحق
در دستک >>

اے پاک وطن میری پاک زمین

اے پاک وطن میری پاک زمین
تو ہی میرا درماں تو ہی یقین

تیری آغوش میری اسلاف امین
تو میرا مکاں میں ہوں تیرا مکین

تیرے چمن میں ہیں ہم گوشہ نشین
میں دلبر تیرا تو میری نازنین

بے کسوں کو بھی ہےتو مکاں ومکین
جہان چمن میں ہے تو گل حسین



خندہ جبین / محمودالحق
در دستک >>

سوشل نیٹ ورک

Flag Counter