Feb 21, 2010

زمینی قزاق یاتحسینی مذاق

تحریر : محمودالحق

آج تک آپ نے بحری قزاقوں کا ذکر سنا ہے مگر آج میں قزاقوں کی ایسی قسم سے پردہ اُٹھانے جا رہا ہوں جن کی خشکی پر پناہ گاہیں ہیں ۔ انہیں انگلش میں پائریٹس کہا جاتا ہے ۔ ایک عرصہ ہمیں یہ نام رکھنے کی وجہ سمجھ نہیں آئی ۔ بھلے پیرٹس یعنی طوطا کیوں کہا جاتا ہے انہیں ۔لیکن ہماری انگریزی کی مشق شامت نے یہ مشکل آسان کردی ۔ ورنہ یہی سمجھتے رہے کہ طوطا بے وفا ہوتا ہے ۔ اور آنکھیں پھیر لیتا ہے ۔ اس لئے یہ لوگ بھی ایک آنکھ پر پٹی باندھ کر واردات پر نکلتے ہیں ۔ہماری غلط فہمی جلد دور ہو گئی ۔ اور کئی لوگ قزاق بنتے بنتے رہ گئے ۔
ایک ہمارے بہت مہربان
( کیونکہ ان کی میزبانی سے آج بھی کانوں سے دھواں نکلتا ہے ) کو طوطے رکھنے کا بہت شوق تھا ۔ اپنا لیکچر ریکارڈ کرکے طوطے کے پنجرے کے قریب رکھ دیتے تاکہ جلد وہ انسانوں کی طرح بولنا سیکھ جائے۔ مہینہ بھر کے ریاض کے بعد صحن میں اترتے ہی جناب طوطا بہادر کاں کاں تو کبھی چیں چیں کی گردان کرتے ۔ اگلا ماہ پھر بیچارہ قید تنہائی میں سروں کے ریاض میں گزارتا ۔ قصور طوطے کی قسم کا نکلا تو افریقن طوطا مہنگے داموں منگوایا گیا ۔ سال بھر اس پر محنت فرمائی گئی ۔ وہ بھی چند الفاظ سے اگے نہ بڑھ سکا ۔ طوطا تو آج بھی گھر میں موجود ہے۔ طوطا کی روح اب ان میں سما گئی ہے ۔ رٹے رٹائے الفاظ دہرانے کا کام اب موصوف خود کرتے ہیں ۔جی جناب بیگم جو کہتی ہیں وہی گفتگو فرماتے نظر آتے ہیں ۔ ٹائیں ٹائیں فش ۔اور یہی نہیں آنکھوں پر تو چشمہ ہے مگر چشم نظر طوطا ہو چکی ۔کام نکلنے پر آنکھیں پھیرنا تو چٹکی میں کر لیتے ہیں ۔دیکھنے میں تو بھولے بھالے طوطے نظر آتے ہیں ۔ چوری نہ کھلائیں تو انگلی بچا کر دکھائیں ۔بیگم کا اتنا خیال کرتے ہیں کہ ایک منسٹر صاحب کا پی اے بھی ان کے سامنے مات کھا جائے ۔پی اے تو وہ ہمیں کبھی نہیں بھولے گا جو علاقہ میں بڑے ٹورنامنٹ کے اختتام پر تقسیم انعامات کے مہمان خصوصی وزیر خزانہ نواز شریف کے ساتھ تشریف لائے ۔ کیا سوچ رہے ہیں کہ یہ کون ہیں ۔ جی ہاں میں انہی کی بات کر رہا ہوں ۔ یہ 1985 سے پہلے کی بات ہے جب وہ گورنر جیلانی کی حکومت میں تھے ۔ گورا چٹا کشمیری نوجوان منسٹر گھبرائیں نہیں لیڈر کے بارے میں ایسی جرآت کہاں کہ انہیں اس صف میں لاؤں ان کا ذکر پی اے کی وجہ سے آگیا ۔ مگر ہم سب ہی دوست پی اے پر توجہ مرکوز کئے ہوئے تھے ۔گاڑی سے اترنے سے لیکر گاڑی میں بٹھانے تک کی ذمہ داری کسی درباری کی طرح بخوبی نبھا رہا تھا ۔ ہمارا ایک محلے دار علاقہ کے کونسلر کا کچھ ایسا ہی پی اے تھا ۔ ایک فرق صاف ظاہر تھاکہ یہ صاحب ساتھ میں براجمان تھے ۔لیکن کونسلر کا پی اے گاڑی سے اتار کر پھر گاڑی ہی میں بیٹھ جاتا ۔منسٹر اور کونسلر دونوں کا ہی یہ اعزاز ہے کہ1985 میں لاہور میں قومی اور صوبائی اسمبلی کی نشستیں بیک وقت جیتے ۔کار خاص ساتھ بٹھانے والا وزیر اعظم بھی بنا اور وہ پہلی اور آخری بار ہی جیتے ۔شائد اس میں ہماری لگائی پہلی اینٹ کا عمل دخل بھی ہو سکتا ہے ۔ہم ہر آنے والے امیدوار کو مایوس نہ کرتے اور بینر گھر کے سامنے لگانے کی ترغیب دیتے ۔ یوں بینروں کا گھمسان کا رن وہیں نظر آتا ۔ بڑی بڑی سفارش بھی ان بینروں کو نہ اتار سکی ۔ ہمارے بینر لٹکے رہ گئے اور جناب الیکشن جیت گئے ۔ لیکن پھر کبھی نہیں جیتے ۔ اب اگر مجھے کوئی کریڈٹ نہ دے تو سراسر جمہوریت شکنی ہو گی ۔
دل شکنی اتنی بار ہو چکی ہے کہ شکنیں چاہے بستر پہ ہوں یا پیشانی پہ تکلیف نہیں دیتیں ۔تکلیف تو اب وہ لوگ دیتے ہیں جو حقوق و فرائض کا ایسا لیکچر شروع کرتے ہیں کہ خاوند بیچارہ طوطا نامدار نظر آتا ہے ۔ بات بات میں قرآن و حدیث سے ساس سسر کی خدمت بہو کی ذمہ دار ی نہیں ،کی تبلیغ فرمائی جاتی ہے ۔ اور دوسری طرف خوشخبری سنانے میں بیتابی کہ خاوند نامدار کی تنخواہ سے کئی سالوں میں ایک بڑی رقم توڑی گئی تاکہ ولائت میں رہائش پزیرموصوفہ اپنے والدین سے شرف ملاقات حاصل کر پائیں ۔
ملاقات کے لئے آنے والوں کا تانتا تو ہمارے گھر بھی لگا رہتا ۔ اکثر محلے دار سوچتے آئندہ امید واربننے کی تیاری میں ہے ۔گھر آنے والے مہمان دوست اکثر ٹھنڈا مشروب نوش فرماتے ۔ لیکن اچانک ہی وہ چائے کی فرمائش کرنے لگے ۔ ہم نے سکھ کا سانس لیا کہ خرچہ بچا ۔ جب بھیا جی ( جو بوتل ، سگریٹ و پان کا کھوکھہ چلاتے تھے ) میرا مہینہ بھر کا بل لائے تو آنکھیں چندھیا گئیں ۔اتنی بوتلیں تو میں سال میں بھی نہیں پیتا ۔ آخر کون پی گیا ۔ نام تو نہیں لکھا تھا ۔ موٹر سائیکل کے نمبر درج تھے ۔ سبھی میرے دوستوں کے ۔ظلم کی انتہا ساتھ میں سگریٹ کے پیکٹ بھی ہر بار وصول کئے جاتے ۔پوچھا کہ بھیا جی میں نے کب کہا میں الیکشن لڑ رہا ہوں کھلا کھاتہ چلاؤ ۔کہنے لگا وہ آپ کا نام لیتے تو میں انکار نہیں کر سکتا کہ آپ ناراض نہ ہوں ۔کریڈٹ اتنا اچھا تھا میرا کہ پہلے دوستوں نے آغاز کیا پھر بھیا جی دوستوں کو روک روک کر اپنی بیکری بڑہاتے میرے کھاتے سے ۔
دوکان پر بوتل پینے کا ایک فائدہ تو ہے کہ گرمی زیادہ ہو تو پوری بوتل پینے کو ملتی ہے ۔ ستیاناس ہو نئے نئے گلاس منی سکرٹ کی مانند بنانے والوں کا ۔ ایک بوتل کے چھ گلاس بنتے ہیں ۔ منہ میں ڈالتے ہی پہلے گھونٹ بھاپ بن جاتے ہے ۔اور میزبان کو سانپ سونگھ جاتے ہیں ۔
چلیں آپ کو ایک گھر کی سیر کرواتے ہیں ۔ ایک صاحب اپنے داماد کے ساتھ عزیزوں کے گھر جلوہ افروز ہیں ۔ گلاس میں پیپسی کیک مہینہ بھر فریزر میں رہنے سے کاٹنے کٹنے سے معزور ہو چکا تھا ۔چھری کیک پر آتے ہی ہنستی ہنستی دہری ہو جاتی ۔دو تین بار کی کوشش سے چھری چلانے والے کی بھی ہنسی نکل گئی ۔ اب کی بار سیب پر دھار آزمانے کا فیصلہ ہوا ۔کاٹھے سیب نے کٹنے پر جو ناگواری کا اظہار کیا ۔ تو یہ بات سمجھ آئی کہ کاٹھے انگریز کا لفظ ایسی ہی آوازوں کے نکلنے سے ایجاد ہوا ہے ۔ میزبان نے فوری طور پر ملازم لائن حاضر کیا کہ کھانے والے سیب لائے جائیں ۔ تو جناب اب تک ہم کرکٹ کھیلنے والے سیب سے کھیل رہے تھے ۔ شرارتی مہمان سیب سے کب کرکٹ کھیلی جاتی ہے ۔
جو نہ کھایا جائے وہ مربہ کے کام آتا ہے ۔ اس پر بھی پھبتی کسنے سے باز نہیں آتے یار لوگ ۔اب اگر ایسے سیبوں کا مربہ گھوڑے کھا لیں تو کیا مضائقہ ۔ جب گھاس ڈالنے والے زیادہ اور کھانے والے گھوڑے کم ہوں تو پھر معیار اونچا نہیں ہو گا تو کیا ہو گا ۔ کاٹھے سیب کھا کھا کر کاٹھی اتر گئی پیٹھ پر کاٹھے انگریز رہ گئے ۔
یقین نہیں تو ابھی ٹی وی آن کریں ۔ اگر آن لائن کوئی عالم ہو تو بند کر دیں ۔ کیونکہ عید میں ابھی کئی ماہ ہیں ۔ان کی لڑائی کا مزا تو عید پر ہی آئے گا ۔ میرے مطابق تو کوئی بھی گیارہویں گھنٹے کے بعد دارالحکومتی ٹاک نہیں ہونی چاہئے ۔ اگر استاد سلامت علی خان اور استاد امانت علی خان زندہ ہوتے تو یہ نوبت ہی نہ آتی ۔قوم کی بجائے وہ خود ہی ریاض کرکرکے پکے سر وں سے ان کچے سروں کی تلافی کر دیتے ۔تلافی تو دراصل نقصان کی ہونی چاہئے تھی ۔ جو بوریاں بھر بھر آٹا سے سوجی میدہ نکال کر پھیکی چینی کی چائے جیسی روٹی کر دی ۔اگر آپ کا نقصان پورا ہو جاتا ہے یعنی روٹی کا وزن پورا ہو گا تو آپ کاکھویا وزن پورا ہو گا ۔
اگر بجلی کی بندش سے زندگی بھر کھایا کھویا پسینہ سے بہہ جائے تو پرانی فوٹو نئے فریم میں لگوا لیں ۔ تاکہ سند رہے کبھی آتش جوان تھا ۔اگر نیا گھر بنائیں تو آتش دان ضرو رکھیں ۔آگ بھڑکانے کی فکر نہ کریں ۔ اخبار لگوا لیں ۔بیگم کی ہر بات پر جوابی حملہ کریں ۔ سردیوں میں گرم رہے گا ۔ گھر میں زیادہ جگہ نہ ہو تو گملے میں پھول کی بجائے پنیری لگائیں پودینہ کی۔ گل قند کسی کام کی نہیں ۔چٹنی سے کم از کم دال چاول کا خرچہ بچے گا ۔
بچے زیادہ ہوں تو فکر والی کوئی بات نہیں ۔ روٹی اکثر کم پڑتی ہے جہاں ہاتھ زیادہ ہوں ۔مگرہاتھ دکھا کر ہی بہت سے کام نکل جائیں گے ۔اگر مجھے وہ مل جائے جس نے میرا ہاتھ دیکھ کر کہا تھا کہ سفر کی لکیر ہی نہیں ہے ۔ اس کی ناک کی لکیریں نکلوا دوں ۔ آج تک سفر سے جان نہیں چھوٹی ۔ کل کلاں کو پاک نیٹ سے چلا جاؤں تو کون کون کہے گا کہ جان چھوٹی پڑھنے سے ۔کھیلو گے کودو گے بنو گے نواب صرف جاوید میاں داد پر صادق آتا ہے ۔آپ لوگ نہ غلطی کرنا ۔چھکا زندگی میں ایک بار ہی لگتا ہے ۔ کون جانے کب لگ جائے ۔اور اگر نہ لگ سکے تو بال ضائع مت کریں سنگل لیتے جائیں ۔

0 تبصرے:

Post a Comment

سوشل نیٹ ورک

Flag Counter