Feb 14, 2010
علم سے عالم یا عمل سے مسلمان
کبھی کبھار خاموش بھی ہو جاتا۔ مگر دھول ہوا میں ہی محو رقص پرواز رہتی ۔ اور ہمارے گھر پہنچنے پر ہی آرام گاہ میں اترتی ۔ لیکن ہمیں تو صرف انتظار تھا کہ ششم سے ہفتم اورپھر ہشتم ۔ مگر بعض اوقات تقدیر ہمارے لئے کچھ اور ہی ترتیب رکھتی ہے ۔ میرے ہاتھوں میں جماعت دہم میں پڑھتا میرا بڑا بھائی ٹی وی سے کرنٹ پڑنے سے جانبر نہ ہو سکا ۔ والد صاحب ٹوٹ کر رہ گئے ۔ والدہ ماجدہ کی آنکھیں بیٹے کی جدائی میں آنسوؤں کی ہی سہیلی بن کر رہ گئی ۔ بھائی جو دوست بھی تھا ہاتھ سے چھوٹ گیا ۔ وہ کبوتر پالنے کا بہت شوقین تھا ۔ بچپن میں بیماری سے بڑی مشکل سے صحتیاب ہواتھا ۔ اس لئے تمام کاموں کی اسے چھوٹ تھی اور مجھے نہیں ۔ کیونکہ اب یہ خیال کیا جا رہا تھا ۔ کہ بڑے بھائی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ڈاکٹر بننے کی اہلیت ثابت کرے گا ۔ اور جو بھائی انجئینر بن چکا تھا ۔ میرے چال چلن ان سے ملتے جلتے تھے ۔ میرے ڈاکٹر بننے کی شائد انہیں خواہش اس لئے تھی کہ وہ بڑھاپے میں داخل ہورہے تھے ۔ جب میں پیدا ہوا تو والد صاحب باونویں سال میں تھے ۔ اور والدہ انتالیسویں سال میں ۔ بڑے تمام بھائی روزگار کے سلسلہ میں گھر سے دور اندرون و بیرون ملک جا چکے تھے ۔ اب تو میری زندگی میں جو بھی تعلیم کا میدان تھا وہ شہر لاہور ہی تھا ۔ گھر میں نماز تسبیع میں مشغول میری ماں اور عدالتوں میں پیشی پر آنے والوں کی فائلوں سے رات گئے دیر تک اگلے روز عدالت میں مخالف فریق سے بحث کے لئے تیاری میں مصروف رہتے میرے والد ماجد ۔
دبلا پتلا تو میں بچپن ہی سے تھا ۔ مگر کھلے ڈیل ڈول کے بڑے بھائی کی وجہ سے میں بھی چوڑا رہتا ۔ اس کے غم میں پہلے سے بھی کمزور ہو گیا ۔ اور دشمنوں کی تعداد میں اضافہ ۔ حیران ہونے والی بات نہیں ۔ جہاں ہم رہتے ہیں یہ کسی جنگل سے کم نہیں ہے ۔ طاقتور سے خوف اور کمزور پہ زور کے فارمولے پر عمل پیرا رہتی ہے ۔ پانی کا بہاؤ نیچے کی طرف ہی ہوتا ہے ۔ قوت کا اندازہ ضرب سے نہیں لوہا کے ٹھنڈا گرم ہونے پر ہوتا ہے ۔ زمانہ انسان کا ایسا استاد ہے جس سے پڑھنے کی ضرورت نہیں ہوتی ۔ وہ خود سبق یاد کرواتا ہے ۔ اور اتنی بار دھراتا ہے کہ گرم فولاد ٹھنڈا ہونے پر جب ڈھلتا ہے تو خود کبھی ڈھال تو کبھی تلوار کا وار بن جاتا ہے ۔ سکول میں پہلی جماعت کے دوستوں سے لیکر کلاس کے دادا گیروں تک سے آنکھ بچا کر گزرنا پڑتا ۔ جینے کی دستگیری تبھی ملتی اگر چمچہ گیری کرو یا آب گیری ۔ ایک بات تو طے تھی کہ اپنا تشخص برقرار رکھنے کے لئے حد سے گزرنا ہوتا ہے ۔ سوچ کے انداز کو بدلنا ہوتا ہے ۔ بچپن میں پیدا ہونے والی سوچ جب پروان چڑھتی ہے تو بڑھتی چلی جاتی ہے ۔ پڑھنے لکھنے والے چین سے بھی آگے جا چکے ۔ اور علم کے سمندر میں موتی ڈھونڈتے ڈھونڈتے عالم جہاں بن جاتے ہیں ۔ دھکم پیل کی معاشرتی اجارہ داری کسی کو وہ بنا دیتی ہے جو وہ خود سے بننا نہ چاہتا ہو ۔ حق پر ہو کر حق چھوڑ دینا کبھی اچھا تو کبھی برا تجربہ رہتا ہے ۔ ایک بار جھکنے سے دوبارہ سنبھل جائے تو الگ بات ہے مگر جھکا کر توڑ دینے میں بہادری نہیں ۔ بلکہ قوت کے استعمال کا انداز جارحانہ ہو جاتا ہے ۔ پے در پے ضربوں سے ٹوٹ نہ سکے تو دھار بن جاتی ہے جو کٹتی نہیں کاٹ دیتی ہے ۔
ایسے ہی ایک موقع پر یہ واقعہ یاد آ جاتا ہے ۔ ایک دوست کے ساتھ فلم دیکھنے سینما گئے ۔ اسے لائن میں کھڑا کیا اور خود پوسٹر سے فلم کی کہانی بننے لگا ۔ اسے اپنی طرف آتا دیکھ کر میں گیلری کی سیڑھیوں کی طرف بڑھنے لگا ۔
ٹکٹ نہیں ملا !
اس کے اس جملے نے فلم دیکھنے کی امیدوں پر پانی پھیر دیا ۔ بہت عرصہ کے بعد فلم دیکھنے کے لئے سینماکا رخ کیا تھا ۔ اب ایسے ہی واپس لوٹ جائیں کیسے ممکن تھا ۔ حالات جاننے کے بعد جب ٹکٹ لینے والی کھڑکی کے پاس پہنچے تو کمال منظر تھا ۔ لائن کا وجود ہی نہیں تھا ۔ قمیضوں سے بے نیاز ۔ کوئی نیچے سے تو کوئی اوپر سے ایک تنگ سوراخ میں ہاتھ ڈال کر ٹکٹ کا متمنی تھا ۔ ہم نے آؤ دیکھا نہ تاؤ حملہ کر دیا کھڑکی پر لپکنے والوں پر ۔ چار پانچ لڑکوں پر جو سخت ہاتھ جڑے تو ضرب سے طاقت کا اندازہ ہو گیا انہیں کہ اب تو یہ ہاتھ بھی دھار بن چکے ہیں ۔ ایک لمحے میں کھڑکی کلئیر ہو گئی ۔ ایکشن کامیاب رہا ۔ مجھے اندیشہ تھا کہ جوابی حملہ ہوگا مگر نہ ہوا ۔ تگڑے تگڑے بھی پیچھے ہٹ گئے ۔ کیونکہ دبلے پتلے کے ہاتھوں کی ضرب جو جوڈو کراٹے کی تربیت اور اینٹوں پر ضربیں لگانے سے فولادی بن چکے تھے ۔ کسی نے ہمت نہ باندھی ۔ لائن ٹوٹنے سے اصول و قوائد پر عمل کرنے والے یا کمزور جو منتشر ہوئے دوبارہ لائن میں یکجا ہوگئے ۔ دوست کو پھر اسی لائن میں اپنی جگہ بحال کروایا ۔ ابھی ٹکٹ لیکر کر واپس پلٹے ہی تھے ۔ کہ ایک بار پھر وہی کھڑکی پر چاروں اطراف سے حملہ ہو گیا ۔ ایک آواز نے مجھے اپنی طرف متوجہ کیا ۔
جناب لائن ٹوٹ گئی ہے !
میں نے پلٹ کر جواب دیا ۔ مجھے اپنا حق لینا تھا سو لے لیا ۔ اب تم جانو کیسے اپنا حق دفاع کرتے ہو ۔ چند لوگ تم بیسیوں پر بھاری ہیں ۔ مگر میں اکیلا ان پر بھاری تھا ۔
وہ کہنے لگا ! ہم شریف ہیں ۔
تو میں کونسا بدمعاش ہوں۔ میں نے غصے سے جواب دیا ۔ انہی لائین توڑنے اور دوسروں کے سروں پر چڑھنے والوں نے مجھے فولاد بنانے میں اہم کردار ادا کیا ۔
مرحومہ والدہ ماجدہ اکثر کہا کرتی تھیں ۔ کہ کیا بن گئے تم ڈاکٹر تو نہ بنے مگر ان ہاتھوں سے اینٹوں کا اپریشن کرتے رہتے ہو ۔
مگر وہ یہ نہیں جانتی تھیں کہ بروس لی کی فلم انٹر دی ڈریگن سے متاثر ہو کر طاقت ور بننے کا جو کام میں نے شروع کیا ۔ وہ مجھے اعصابی طور پر بھی فولاد بنانے جارہا ہے ۔ ہر چیلنج کو قبول کرنے کی عادت پیدا ہوتی چلی گئی ۔ بڑھاپے میں ماں کو جگر کا سرطان اور والد صاحب کو الزائمر کا موذی مرض جو چودہ سال تک انہیں جسمانی اور مجھ پر اعصابی دباؤ بڑھاتا چلا گیا کو بھی لائن ٹوٹنے کی طرح برداشت نہیں کیا ۔ بلکہ بھر پور جینے کے حق سے دستبرداری کی نوبت نہیں آنے دی۔ الزائمر کی بیماری ایک کے بعد ایک اعصاب کی لائن توڑتی رہی ۔ والد صاحب کو تو توڑ کر سات سال گوشت کا لوتھڑا بنا کر رکھا ۔ مگر میں چودہ سال اس پر حملہ آور ہو کر اپنے اعصاب کی لائن سیدھی رکھتا رہا ۔
علم کے حصول میں عالم تو نہ بن سکے مگر مذہب نے عملی مسلمان بنا دیا ۔ بی اے اور ایم اے بھی اچھے نمبروں سے پاس کیا ۔ لائن توڑنے اور کھڑکی پر حملہ کرنے والے ہر جگہ ملتے رہے ۔ وہ اپنے راستہ پر چلتے رہے اور ہم اپنے پر ۔ کسی نے ہماری لائن نہیں توڑی اور ہم نے اپنی جگہ نہیں کھوئی۔ نہ جانے ہمارے معاشرے کی یہ سوچ کیونکر بن گئی تھی یا ہے ۔ کہ جو تم سے ٹکر لے سکتا ہے اس سے تعاون و تعلق بڑھایا جائے ۔ سکولوں سے لیکر کالج یونیورسٹیوں تک ، کونسلر سے لیکر ایوان صدارت تک ، کمزور و بے ضرر پر طاقت بڑھائی جاتی ہے ۔ جو پارٹیاں بگاڑ پیدا کر سکتی ہیں ۔ وہ اسمبلی سی باہر بھی تعاون رکھتی ہیں ۔ مگر جو اپنی لائن کے ٹوٹنے کو نہیں بچا پاتیں ۔ وہ اسمبلی کے اندر بھی سونے میں ہی وقت گزارتی ہیں ۔ اور ان کے ممبران بیگمات کے مجازی خدا کے درجے پر ہی فائز رہنا پسند کرتے ہیں ۔ لائن توڑنے والے کبھی ایک تو کبھی دوسری پارٹی کی ضرورت بنے رہتے ہیں ۔ جب نہ لوٹیں تو پھر وہ لوٹے ہو جاتے ہیں ۔ کیونکہ کٹی پتنگوں کی طرح انہیں لوٹ لیا جاتا ہے ۔
یہ صرف اتنی دیر ہی لائن سیدھی رکھتے ہیں جب انہیں سخت ہاتھوں سے کوئی دو دو جڑ دیتا ہے ۔ اور اس کے لوٹ جانے کےبعد پھرلائن توڑ دیتے اور کھڑکی پر چاروں اطراف سے حملہ کر دیتے ہیں ۔
ان میں سے ہی چند پھر بول اٹھتے ہیں کہ جناب لائن ٹوٹ گئی ہے ۔ آخر کب تک کوئی بار بار ان کو اپنی جگہ پر بحال کروائے گا ۔ اپنی پوزیشن برقرار رکھنے اور حق لینے کے لئے لائن سیدھی کروائی جاتی ہے ۔ جب تک اس کھڑکی کی لائن میں سب اکھٹے کھڑے رہیں گے ٹکٹ کی آس میں ۔ لائنیں ٹوٹتی رہیں گی ۔ لائن میں کھڑے رہ کر انتظار کرنے والے کیوں نہیں جدا ہو جاتے کھڑکی پر حملہ کرنے والوں سے ۔ کیونکہ فلم دیکھنے کا شوق بھی سبھی رکھتے ہیں ۔ سبھی ہال میں بیٹھنا چاہتے ہیں تبھی تو رش ہوتا ہے ۔ پھر لائن ٹوٹنے کا رونا روتے ہیں ۔
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
5 تبصرے:
بہت خوب محمود صاحب
اگر ہر انسان اسی طرح اپنا کردار پہچان لے اور زندگی میں ہمت سے کام لے تو کیا ہی خوب ہے ۔ والدین کی خدمت کر کے آپ جنت کے حقدار تو بن چکے ہیں ۔ خدا آپ پر مہربان رہے
بہت شکریہ محمد ریاض شاہد بھائی میں تو اللہ تعالی کی مہربانیوں کا شکر ادا کرنے کے قابل ہی نہیں ہوں ۔
یو ٹیوب پر میرا یہ کلام سنئے
تیری عنایات ہیں اتنی کہ سجدہء شکر ختم نہ ہو
http://www.youtube.com/watch?v=YsLqiBnva-w
آپ کے بھائی کی بے وقت موت کا پڑھ کر بے حد افسوس ہوا،واقعی ہم جوچاہتے ہیں بعض اوقات وہ ہمارے سامنے کی بات لگنے کے باوجود ہم سے ایسا دور ہوتا ہے کہ نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پاہے رکاب میں والی بات سچ لگنے لگتی ہے مگراس کا متبادل بھی ایسا برا نہیں ہوتااب کون جانے کے والدین کی خدمت جیسی سعادت جو اپکو نصیب ہوئی اس نے آپ کے درجات کہاں پہنچادیئے ہوں گے،
ویسے مجھے لگتا ہے کہ آپ نے اپنی اس پوسٹ میں انیقہ کے سوال کیا دہشت گردی کو دانشوری نہیں دہشت گردی ہی شکست ے سکتی ہے؟ پر بھی خاصی روشنی ڈالی ہے :)
عبداللہ صاحب آج بھی میری زرعی زمین پر سینکڑوں کبوتر کھلی فضا میں اڑتے ہیں ۔کوئی نہیں جانتا کہ کبوتروں سے میرا کیا تعلق ہے حالانکہ مجھے اُڑانے کا کوئی شوق نہیں ،پچیس سال بعد بھی بھائی کی یاد نہیں بھلا سکا آج بھی جڑا ہوں اس کے شوق کے ساتھ۔
کیا بات ہے دوست بچپن یاد دلا دیا آپ نے
Post a Comment