May 26, 2011

معمار قوم

آج کل ایسا ویسا لکھنے کا رواج عام ہے تو سوچا کہ ایک کالم کاغذ کی کشتی بنا کر بارش کے بہتے پانی میں بہا دوں ۔ ارادہ پکا تھا کہ خود فریبی میں مبتلا قوم عمار کو ضرور ایک معمار کی ضرورت پیش آ سکتی ہے تو اپنی خدمات پیش کر کے دیکھوں کیا نتیجہ نکلتا ہے ۔ امتحانات کے نتائج توتینتیس اور پچاس کے درمیان ہی رہے ۔ اگر معماری کا کنٹریکٹ ہاتھ لگ جائے تو چھیاسٹھ تک گنتی پہنچ سکتی ہے ۔ پھر چاہے قانون بدل دوں یا آئین ۔ پوچھے گا کون ۔
معمارقوم بیمار ہوا تو بنیاد پر ہی کام رک گیا ۔ اس کے بعد ایک کے بعد ایک نیا خودساختہ معمار بنیاد میں ڈالے گئے مضبوط کنکریٹ کو بھول بھلیاں سمجھنے کا شکار رہا ۔ باورچی خانہ کی جگہ باتھ روم تو ڈرائینگ روم کی جگہ کچن بناتا چلا گیا ۔ نیا نئے سرے سے معمار کے آئیڈیا کو جانچتا یہ کہہ کر یہ نقشہ اصل معمار کی بنیاد سے میل نہیں رکھتا ۔ پھر سے بنیاد تک بلڈنگ ڈھا دیتا ۔ کیونکہ وہ جانتا ہے کہ
مسجد ڈھا دے مندر ڈھادے
ڈھیندا جو کجھ ڈھا دے
اک بندے دا دِل ناں ڈھاویں
رب!دلاں اندر رھیندا
اور یہ سب انہوں نے خوف خدا سے کیا کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اٹھانے گرانے سے رب کی ناراضگی کا انہیں اندیشہ نہیں ۔ دلوں میں اس کی یاد خوشبو کی طرح بس چکی ہے ۔ ایک ہلکا سا ترانہ بجانے اور جھنڈا لہرانے سے وہ مہک اُٹھے گا ۔ زنجیر سے باندھے مست ہاتھی کے جوش سے بڑھ کر جوشیلا پن نعروں کی گونج میں مترنم ہو گا ۔
عمارت کا کیا ہے ۔معماری کا ایک شاہکار ہی تو ہے ۔ بنیاد تو پھر بھی رہ جائے گی ہڑپہ اور مونجو ڈھارو کی طرح جہاں صرف عمارتیں ملیا میٹ ہو چکی ہیں ۔ تاریخ بنیاد سےخود پتہ چلا لے گی کیا کہاں تھا ۔ جب عمارت کا وجود ہی تاریخ کے لئے ضروری نہیں تو پھر اسے مضبوط کرنے کے لئے خون جگر دینے کی ضرورت آج کے معمار نہیں سمجھتے ۔
جیسے خون وہ مچھروں کو دیتے ہیں ۔ بات کاٹنے کی کرتے ہیں ۔ یہی حال معماروں کا ہے لوٹتے مال ہیں الزام ان پر کال کے ہیں ۔
فرق صرف اتنا ہے مچھروں میں ڈینگی وائرس پھیلانے والا کوئی کوئی ہے ۔ معماروں کے ہاتھ سے بچتا کوئی کوئی ہے ۔ جو بچ جائے وہ ڈریکولا نہیں بنتا دوسری طرف معماروں کے کاٹے خود خون چوسنے کی بیماری کا شکار ہو جاتے ہیں ۔ مریض اپنے اپنے مسیحا ء کی لمبی عمر کی دعا سے دم بھرتے ہیں ۔ جب کہ دوسروں کی تعریف سے سانس ان کے رکتے ہیں ۔
اگر سب ہی خون چوسنے والے بن جائیں تو خون دینے والے کہاں سے لائے جائیں گے ۔ شائد اسی لئے خاندانی منصوبہ بندی پر عملداری سے روکا جاتا رہا ۔ کیونکہ جمہوریت میں انسان تولے نہیں گنے جاتے ہیں ۔ گنتی میں بھاری ہلکے سب چل جائیں گے ۔ حالات تولنے کے ہوئے تو راشن کے بٹوارے کا خطرہ ہے ۔ ایک غلطی کا خمیازہ 71 میں بٹوارہ کی صورت میں بھگت چکے ہیں ۔ اب پھر راشن کی تقسیم کا رولا پڑ چکا ہے ۔ پانی راشن نہ سہی اجناس راشن کا سبب تو ہے ۔ زمین کے مقدر میں اس کا جزب ہونا نہ لکھا ہو ۔ سمندر میں غرق ہونے سے جو پھر بادل بن اُٹھ جائے تو ہونٹوں پہ مسکراہٹ کیوں نہ چپک جائے ۔اگر نہ برسے تو یہ کہنا کہاں جائز قرار پائے گا کہ
میرے گھر کے بادل گرج کر گزر گئے
تیرے گھر کے بادل برس کر بکھر گئے
میری شاخِ شجر کے پتے اتر گئے
تیرے پھول بھی کھل کر نکھر گئے

شکوے تو معماروں سے ہیں ۔ نہ گل سے نہ گلزاروں سے ۔

محمودالحق
در دستک >>

May 15, 2011

اختلاف رائے اور ہمارے رویے

اسلام ایک ضابطہ حیات ہے جو تا قیامت ہماری رہنمائی کی سند رکھتا ہے ۔ جس پر کوئی اختلاف نہیں ہے ۔ اختلاف تو بعد میں حالات و واقعات میں تبدیلی کے عمل سے پیدا ہونے والی صورتحال سے ہم آہنگی اختیار کرنے کی وجہ سے ہے۔ہمارے حالات بدل گئے ۔ غلامی کے دور گزر گئے ۔ غلام ہندوستان میں بھی یہی اختلاف رائے کبھی مسلکی تو کبھی نظریاتی انداز میں بھرپور نظر آتا ہے کہ کون کون پاکستان کے قیام کے حق میں نہیں تھے ۔ ایک نامور کانگرسی مسلما ن ابوالکلام آزاد بھی تو ایک آزاد اسلامی ملک کی مخالفت میں ہمیشہ کمر بستہ رہے ۔دوسری طرف ایک جدید تعلیم سے آراستہ محمد علی جناح نے بغیر کسی مالی فائدہ کے حصول کےاپنی بہن کے ساتھ ساری زندگی اس ملک کی ایک اقلیت کے حقوق کی حفاظت میں صرف کر دی ۔ جب انہیں قائد اعظم کے خطاب سے بھی نوازا گیا ۔ تو کافر اعظم کہنے والے فتوی دینے میں اپنا حق محفوظ رکھتے تھے ۔ علامہ اقبال کے اشعار ڈاکٹر اسرار احمد سے لیکر ڈاکٹر طاہرالقادری تک قران کی تفسیر بیان کرتے ہوئے سمجھانے کے لئے آسانی پیدا کرنے کے لئے بیان کرتے رہے ہیں ۔ شکوہ لکھنے پر ان پر بھی فتوی لگے تھے ۔اور جواب شکوہ لکھنے پر جوش صاحب کا یہ کہنا تھا کہ وہ اپنے مقام سے گر گئے ۔
جو بات قرآن و سنت سے مطابقت نہ رکھتی ہو پر اختلاف کی بجائے جو قرآن و سنت کے منافی ہو اس پر اختلاف تو ایک طرف اسے جڑ سے اکھاڑ پھینکنا چاہئے ۔
ایوب خان نے اسلام میں طے شدہ عائلی قوانین ہی تبدیل کر دیے ۔ چند سال پہلے پینتیس چالیس سال پرانے یہ ایوب دور کے عائلی قوانین شریعت کورٹ نے منسوخ کر دئے ۔ ماسوائے ایک کے " اگر بیٹا باپ سے پہلے وفات پا جائے تو اس کی اولاد اپنے دادا کی وفات کے بعد جائداد میں وراثت کی حقدار ہو گی "۔کیونکہ وہ حالات کی وجہ سے ایسے اقدام کا متقاضی تھا ۔ حالانکہ دین اسلام میں پوتا دادا کی وراثت کا حق نہیں رکھتا اور واضح ہے۔
اس کے علاوہ بے شمار معاشرتی رسمیں ایسی ہیں جن کا دین اسلام سے دور دور کا بھی واسطہ نہیں ۔ ان پر کوئی قدغن نہیں ۔ بسنت تو ہندوانہ تہوار ہے مگرکراچی سے لیکر پشاور تک گلی محلوں میں انڈین فلمیں اورگانے جائز ہیں ۔ گھر گھر کیبل نیٹ ورک ہر انڈین چینل دو سو روپوں میں دستیاب ہے ۔ دوسروں کے گھروں میں پتھر پھنکنے سے پہلے خود کے گھر کا تو جائزہ لینا ہو گا ۔ ہم کس پتھر کے گھر میں رہتے ہیں ۔
اختلاف رائے رکھنا کوئی بری بات نہیں ۔ مگر بحث برائے بحث اور تنقید برائے تنقید کے لئے میں نہ مانوں کی رٹ کم از کم میرے نزدیک تو کوئی صحت مند دلیل نہیں ہے ۔
ہر شخص کا اپنا نقطہ نظر ہے ۔ جو وہ اپنی پسند سے اختیار کرتا ہے ۔کتنے لوگ ہیں جو ہر دو موقف کو جاننے کے بعد کسی نتیجہ پہنچے ۔ ہمارے ہاں سیاست اور کاروبار کی طرح دینی افہام زیادہ تر موروثی ہوتا ہے ۔ بریلویوں کے گھر بریلوی سپوت اور دیوبندیوں کے گھر دیوبندی سپوت ہی پیدا ہوتے ہیں ۔ جیسے بنگالیوں کے گھر بنگالی پیدا ہوئے تھے ۔ اب پنجابیوں کے گھر پنجابی اور پٹھانوں کے گھر پٹھان ۔ اردو سپیکنگ بھی اس میں شامل ہیں ۔
دعوی تو سبھی یہی کرتے ہیں کہ ہم بگاڑ ٹھیک کر کے سدھار رہے ہیں ۔ معاشرہ اختلاف اور تنقید سے نہیں اخلاق و اخلاص اور برداشت سے تبدیلی کے عمل سے گزرتا ہے ۔ جو آج کل کہیں بھی دیکھنے کو نہیں ملتی ۔ تحسین و پزیرائی جب تک ملتی رہے تو واہ واہ اگر کبھی غلطی سے آئینہ دکھا دیں تو تو کون ۔ جیسے جنہیں بیوی ناپسند ہو تو اس کا بنایا ذائقہ دار کھانا بھی شدید نا پسند ہوتا ہے ۔
سب سے آسان کام تنقید ہی ہے ۔ جس کے لئے نہ تو تعلیم کی ضرورت ہے نہ شعور کی اور عقل تو سرے سے چاہئے ہی نہیں ۔ تنقید کو صرف تنقید ہی کہنا شائد صحیح نہ ہو ۔ کیونکہ یہ بھی دو طرح کے رحجانات رکھتی ہے یعنی مثبت اور منفی ۔ مثبت تنقید کسی میں پائی جانے والی خامی کو دور کرنے کی نیت سے بھی کی جا سکتی ہے ۔ اور اپنے نظریہ کی سچائی کے لئے بھی ۔ مگر اگر تنقید نظریات یا موقف کی ترجمانی کی بجائے ذات کی خامیوں پر آگ برسائے تو نقصان خود کا ہوتا ہے ۔ کیونکہ وہ برداشت کی سرحد پار کروا دیتی ہے ۔ اور عدم برداشت کا مادہ بہنے سے انسان اپنے قد سے بہت چھوٹا ہو جاتا ہے ۔ کئی ضرب المثل ہمیں یاد رہتی ہیں ۔ بڑی ہستیوں کےاقوال سنہری حروف میں لکھتے ہیں ۔ لیکن جب انہیں استعمال کرنے کا وقت خود پہ آتا ہے تو کئی توجیحات نکال لی جاتی ہیں ۔ ہم کبھی غور ہی نہیں کرتے ہم زندہ کیسے رہتے ہیں ۔ ہماری عقل یا ہمارا شعور جنہیں معتبر بنا لیتا ہے ۔ وہ انا اور تکبر بن جاتے ہیں ۔ انہیں پارسائی کے اس مقام تک پہنچا دیتے ہیں ۔ کہ ان پر انگلی اٹھانا معیوب ہی نہیں گناہ کے تصور میں ڈھال دیا جاتا ہے ۔
ایک مثال سے کچھ کہنا چاہوں گا ۔ کائنات کی ہر شے میں ہمارے سمجھنے کے لئے پیغام ضرور ہے ۔ہزاروں لاکھوں شہد کی مکھیاں ایک ایک ملکہ کی زیر کمان پھول پھول سے رس لے کر چھتہ کو بھگوتی رہتی ہیں ۔ ہر موسم میں کھلنے والے پھولوں کی تاثیر بھی شہد میں اتر آتی ہے ۔ جو انسانی صحت کے لئے نہایت کارآمد اور صحت بخش ہے ۔ ہر چھتہ کی ملکہ الگ ضرور ہے مگر کام ایک ہی ہے ۔ پھولوں کی عرق ریزی سے شہد بنانا ۔ وہ قانون قدرت پر عمل پیرا تھیں ۔ ہم نے مصنوعی انداز میں شہد کے حصول کو ممکن بنایا ۔ مکھیاں پال کر شکر کے شیرے سےشہد کا حصول ممکن کر دکھایا ۔ نہ تو مکھیوں کی فطرت بدلی اور نہ ہی کام ۔ مگر انجام ضرور بدل گیا ۔ چاروں موسموں کے پھولوں کے اثرات سے لبریز صحت بخش شہد کی بجائے کماد سے شکر ، شکر سے شہد تک کا مرحلہ ایسے ہی طے ہوا جیسے کماد سے فیکٹری میں چینی تیار کی جاتی ہے ۔ دیکھنے میں تو وہ شہد ہی ہو گا مگر چکھنے میں چینی جیسی مٹھاس ہی رکھتا ہے ۔ مگر اثر شہد جیسا نہیں !!!!!!!!

تحریر : محمودالحق
در دستک >>

سوشل نیٹ ورک

Flag Counter