Jan 10, 2011

رضوان سے ایک تعارف

چند روز ہوئے ایک سیاہ فام نوجوان میرے پاس ایک کاروباری کمپنی کی طرف سے آیا ۔ اور اپنے آنے کا مقصد بیان کیا ۔ کچھ کمپنی کےفضائل پیش کرنے کے بعد اپنا فون نمبر نام کے ساتھ چھوڑ کر اجازت چاہی ۔ میں نام دیکھ کر چونک گیا ۔
رضوان !
یہی نام تھا اس کا ۔ میرے استفسار پر بتایا کہ چار سال پہلے اس نے اسلام قبول کر لیا ہے ۔ ایک بیٹے کا نام ابراہیم اور دوسرے کا عمر رکھا اس نے ۔ میرا نام جاننے کے بعد اپنے ٹرک میں سے قرآن پاک ، انگلش ترجمہ اور کئی ایک اسلامی کتب نکال لایا ۔ میں حیرانگی سے اسے دیکھتا رہا کہ کام کے دوران میں اتنی کتب کا کیا کام ۔ میرے سوال پر اس نے بتایا کہ جب بھی اسے دوران ملازمت وقت میسر ہوتا ہے اللہ سبحان تعالی کے ذکر سے مستفید ہوتا ہے ۔ اور اپنی زندگی کو صحیح اطوار پر رکھنے کے لئے اسلام کے لافانی اور لاثانی ضابطہ حیات کو سمجھنے اور اس پر عمل پیرا ہونے کے لئے مطالعہ کرتا ہے ۔
وہ تو چلا گیا مگر اپنے پیچھے میرے لئے کئی سوال چھوڑ گیا ۔ اللہ اور اس کے محبوب کے ذکر سے کتنا خوش تھا ۔جو اس کے چہرے سے عیاں تھا ۔ اور مجھے بھی ان کتابوں کا حوالہ دئیے جارہا تھا ۔ اور میں بھی اس کے اشتیاق میں برابر دلچپسی لیتا رہا ۔
ایک لمحے کے لئے میرے دل میں خیال پیدا ہوا کہ اسے اپنا تعارف پیش کروں کہ کس ملک کی مٹی سے میرا تعلق ہے ۔ کن اسلاف کی نیابت میں سنبھالے ہوئے ہوں ۔ ہم نے کتنی قربانیوں کے بعد وطن پاکستان حاصل کیا ہے ۔ نوجوانوں اور بوڑھوں کو تیغ زن کیا گیا ۔ بچوں کو نیزوں میں پرو دیا گیا ۔ لڑکیوں کو ہوس کے پجاریوں نے ایک لاش بنا کر اپنی دھرتی پر زندہ درگور کر دیا ۔
لیکن ہم اپنے مقصد سے نہیں ہٹے ۔ پہلے بھی ہم میں غازی علم دین شہید پیدا ہوتے رہے ۔ ہندو کو اتنی جرآت نہیں دی کہ وہ ہمارے اسلام یا ہمارے ایمان پر نشتر چبھو سکے ۔ اٹوٹ انگ کا اس کا خواب چکنا چور کر دیا ۔ اس کے مغرب اور مشرق دو بازوؤں پر مشتمل پاکستان گھیرا ڈالے تھا ۔ وہ اپنے آپ کو ہماری گرفت سے نکالنا چاہ رہا تھا ۔ اور ہم ایک دوسرے کی گرفت سے ۔
دلوں کی کھیتی جو ہری بھری تھی ۔ جو ذکر سے کھلی کھلی تھی ۔اپنے آپ کو سچا ثابت کرنے میں ساری توانائیاں خرچ کر دی گئی ۔ پہلے بازو کی گرفت ڈھیلی پڑی پھر ایک دوسرے سے ہی آزاد ہو گئے ۔ اب مشرق اور مغرب صرف سورج کے لئے ہیں ۔ اب ہم صرف مغرب ہیں ۔ مشرق ہمارا سنہ 71 میں غروب ہو چکا ۔ آج ہم مغرب سے طلوع ہونے کو دنیا کے لئے پیغام بننے جا رہے ہیں ۔
میں حیران تھا کہ رضوان شائد ہماری نئی تاریخ سے بھی آگاہ نہیں ۔ ہم اپنی ہی مساجد کو نشانہ بنائے ہوئے ہیں ۔ پٹاخوں کی گونجدار آواز میں خون کے فوارے بہانے میں سکون پاتے ہیں ۔
ہم سب ---- ہیں ۔ نعوذبااللہ ۔ کیونکہ ہم ایک دوسرے کو اس نام سے پکارتے ہیں ۔ ہمارے عقائد ہی ہمارا دین ہے ہمارا اسلام ہے۔ جو ہمارا امام ہے ۔ ایک دوسرے کو ایسے طعنے دیتے ہیں ۔ کہ پاکستان پاک نہیں رہ جاتا شرکستان معلوم ہوتا ہے ۔ جو دوسرے کریں وہ غلط جو ہم کریں وہ ٹھیک عین اسلامی جو قرآن و سنت سے ثابت بھی کیا جا سکتا ہے ۔
رضوان تم کتنے بھولے ہو مجھے قرآن پاک اور احادیث کی کتب کا بتا رہے ہو ۔ ہم مہینوں سالوں اس پر بحث کر سکتے ہیں کہ کون علمی بد دیانتی کر رہا ہے ۔ کس کے عقائد فاسق ہیں ۔ ہم اتنی جلد متفق نہیں ہوتے ۔ عمل اگر نہ بھی ہوں تو کوئی حرج نہیں وہ اللہ اور اس کے بندے کا معاملہ سمجھا جاتا ہے ۔ ہمیں تو حکم ہے صفیں درست کرنے کا ۔ اعمال کی درستگی اتنی ضروری نہیں سمجھتے ۔
کیا کہا تم نے چار سال پہلے شہادۃ پڑھی کہ
میں گواہی دیتا ہوں کہ اﷲ کے سوا کوئی معبود نہیں، میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اﷲ کے رسول ہیں۔
مگر یہ جاننا تمہارے لئے بہت ضروری ہے کہ آپ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے محبت کا مقام کس حد تک ہے کیونکہ اب تم جس مذہب میں داخل ہوئے ہو وہاں تمہیں ان سوالات کا بھی جواب دینا پڑ سکتا ہے ۔
جتنا تم جان جاؤ دوسروں تک پہنچاؤ بلکہ انہیں منوانے تک جاؤ ۔ علم کا اتنا پانا ضروری نہیں ۔ دس بیس کیسٹس میں تیار لیکچر تمہیں اسلام کے دائرہ میں داخل صحیح افراد کی نشاندہی کر دیں گے ۔ ہاتھ آیا موقع گنوایا نہیں جاتا یہاں ۔ ایک دنیا پرست ، مفاد پرست کی بنیاد پر ساری امت کے ایمان کو دھویا جا سکتا ہے ۔
زیادہ گہرائی میں مت جانا کہ ہم نے صدام حسین کو عالم اسلام کا ہیرو کیوں بنا دیا تھا جب کہ اس نے ایک ہمسایہ اسلامی ملک کویت پر قبضہ کر لیا تھا ۔ کیوں ہر کار ، ویگن اور دوکان پر صرف اسی کا پوسٹر چسپاں تھا ۔ملک کی تاریخ میں شائد ہی اس سے زیادہ پوسٹر کسی کا فروخت ہوا ہو ۔
یہ سوال بھی ہم سے نہ پوچھنا کہ اکثر اسلامی ممالک میں موروثی بادشاہت ہمیں قبول کیوں ہے ۔لیکن ہمارے ہاں تمہیں بادشاہت نہیں ملے گی ۔ کیونکہ ہم صرف موروثی سیاسی و مذہبی قیادت پر یقین رکھتے ہیں ۔
جو ملک ووٹ ، عوامی سپورٹ سے بنا تھا اب لوٹ کھسوٹ سے چلتا ہے ۔
ایک بات کا خیال رکھنا قدم بوسی کی اجازت چاہنے کا استعمال کبھی غلطی سے بھی نہ کرنا ۔ بے علم بھی نسبت رتبہ سے سجدہ تک پہنچا دے گا ۔ ہندوستان کے ہر دلعزیز بادشاہ اکبر اعظم کے دین الہی کا مطالعہ شائد تمہیں مدد دے سکے ۔ یہ بادشاہ تو نہیں مگر شاہ گری کے کمالات سے بخوبی واقف ہیں ۔ دنیا کے خزینے سمیٹتے اور اللہ کی رحمتیں بانٹنے کے دعوےدار ہیں ۔
مگر رضوان !
یہ سو فیصد حقیقت نہیں ۔
اکثریت کا ایمان تو اللہ سبحان تعالی اور اس کے پیارے محبوب نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے آگے بڑھتا نہیں ۔ جتنا سمجھنے کے لئے سوچ لیتےہیں ۔ ڈر ختم نہیں ہوتا کہ کہیں اللہ تعالی کی حدود سے نہ آگے بڑھ جائیں ۔
ہم کسی کو بھی برا نہیں کہ سکتے کیونکہ سب ہی اللہ سبحان تعالی کےنام لیوا ایمان کے خزینوں سے بھرے قلب رکھتے ہیں ۔ ہم گناہگاروں سے بہت اچھے ہیں ۔
یہ دعا ہے کہ ہمیں ایمان کی سلامتی اور صراط مستقیم پر چلنے کی توفیق عطا فرما ۔ آمین

تیری عنایات ہیں اتنی کہ سجدہء شکر ختم نہ ہو
تیرے راستے میں کانٹے ہوں میرا سفر ختم نہ ہو
پھیلا دوں روشنی کی طرح علم خضر ختم نہ ہو
توبہ کرتا رہوں اتنی میرا عذر ختم نہ ہو
سجدے میں سامنے تیرا گھر ہو یہ منظر ختم نہ ہو
تیری رحمتوں کی ہو بارش میرا فقر ختم نہ ہو
مجھ ادنیٰ کو تیرے انعام کا فخر ختم نہ ہو
جہاں جہاں تیرا کلام ہو میرا گزر ختم نہ ہو
تیری منزل تک ہر راستے کی ٹھوکر ختم نہ ہو
آزمائشوں کے پہاڑ ہوں میرا صبر ختم نہ ہو
زندگی بھلے رک جائے میرا جذر ختم نہ ہو
وجود چاہے مٹ جائے میری نظر ختم نہ ہو
تیری اطاعت میں کہیں کمی نہ ہو میرا ڈر ختم نہ ہو
بادباں کو چاہے کھینچ لے مگر لہر ختم نہ ہو
خواہشیں بھلا مجھے چھوڑ دیں تیرا ثمر ختم نہ ہو
تیری عبادت میں اتنا جیئوں میری عمر ختم نہ ہو
بھول جاؤں کہ میں کون ہوں مگر تیرا ذکر ختم نہ ہو
جاگوں جب غفلتِ شب سے میرا فجر ختم نہ ہو
تیری محبت کا جرم وار ہوں میرا حشر ختم نہ ہو
تیری حکمت سے شفایاب ہوں مگر اثر ختم نہ ہو
میرے عمل مجھ سے شرمندہ ہوں مگر فکر ختم نہ ہو
منزلیں چاہے سب گزر جائیں مگر امر ختم نہ ہو
سپیدی و سیاہی رہے نہ رہے مگر نشر ختم نہ ہو
دن چاہے رات میں چھپ جائے مگر ازہر ختم نہ ہو

2 تبصرے:

Javed Iqbal said...

واقعی میں بہت محمودصاحب، بہت اچھی تحریرلکھی ہےلیکن ہم لوگوں نےان لوگوں کوجوکہ اسلام کی ا ب سےبھی واقفیت نہیں رکھتےہیں جوکہ اسلام کوبس عبادات کامجموع سمجھـ کراسی پرعمل کواسلام کہتےہیں کواپنےسرپربٹھالیاہےحالانکہ اسلام توزندگی کےہرہرلمحےکواس کےمطابق پابندکرنےکانام ہے۔اللہ تعالی ہم پراپنارحم وکرم کردےاورہمیں اسلام کی صحیح تعلیمات پرعمل کرنےکی توفیق عطاء فرمائیں ۔ آمین ثم آمین

Mahmood ul Haq said...

یہی تو ہمارا المیہ ہے جاوید بھائی اختلافات کی ایسی آگ بڑھ رہی ہے کہ اللہ سے پناہ مانگتے ہیں . جیسے کہ ہم ایک دوسرے کی نظر میں مسلمان نہیں رہے . آخر اس کا انجام کیا ہو گا . جگ ہنسائی کا سبب بن رہے ہیں .
یہاں آپ ہی کے الفاظ دہرانا چاہتا ہوں
" اللہ تعالی ہم پراپنارحم وکرم کردےاورہمیں اسلام کی صحیح تعلیمات پرعمل کرنےکی توفیق عطاء فرمائیں ۔ آمین ثم آمین "

والسلام

Post a Comment

سوشل نیٹ ورک

Flag Counter