Sep 18, 2011

کس کی بنی ہے عالمِ ناپائدار میں

جب بخار کی شدت میں دو تین ڈگری کمی آتی تو تیمار داری کے لئے آنے والوں سے ہنسی مذاق میں موڈ خوش گوار کر لیتا ۔ جیسے ہی دوا کے اثرات زائل ہونا شروع ہوتے تو ٹمپریچر 105 سینٹی گریڈ تک پہنچتے پہنچتے مجھے نڈھال کر دیتا ۔ سر ایک طرف ڈھلک جاتا ۔ کھانا پینا تو پہلے ہی دواؤں کی کڑواہٹ کا شکار تھا ۔ کمزوری و نقاہت سے بدن حاجت کے لئے بھی سہارے کا محتاج ہو چکا تھا ۔ نرس گلوکوز کی بوتل میں ہی وقفے وقفے سےگھونٹ گھونٹ ٹیکے ٹکا رہی تھی ۔ خواتین تیمار داری کے ساتھ ساتھ باتیں کم اور کچھ پڑھتے ہوئے ہاتھ کے انگوٹھے سے انگلیوں کو جگا رہی تھی ۔ اور میں جاگتے ہوئے بھی مدہوشی کی کیفیت میں مبتلا تھا ۔
کسی بھی ٹیسٹ میں بیماری کی تشخیص میں مدد نہیں مل رہی تھی ۔ ڈاکٹر ٹامک ٹوئیوں سے کام چلا رہے تھے ۔ ویسے بھی مریض کو اتنی جلدی ٹانک پر ڈالا نہیں جاتا ۔ کمزوری دنوں میں بڑھتی ہے اور طاقت مہینوں میں لوٹتی ہے ۔ بیماری جڑ سے نکالنے میں گولیوں کے ساتھ ساتھ ٹیکوں کی ٹیک دینا ضروری خیال کیا جاتا ہے ۔ ہزاروں کا بل چکانے کے بعد بھی بیماری نے گردن کو اکڑنے کی اجازت نہیں دی ۔ جھکی کمر افسران بالا کے سامنے ماتحت کی عرض مندی کا منظر پیش کر رہی تھی ۔ تکلیف کا خیال آتے ہی آنکھوں کے سامنے تارے ناچنے لگتے ۔ شدید سر درد اور مسلسل قے کی وجہ سے توبہ ! توبہ ! سر دیواروں سے ٹکرانے کو جی چاہتا ۔ نہ دن کو چین اور نہ ہی رات میں سکون ۔ بھلا ہو ڈاکٹر وں کا ٹیکے لگا لگا ایسا نشہ طاری کیا کہ بیماری سے لا علم نشے کی لت کا شکار سمجھتے ہوں گے ۔ کام کے لئے گھر سے نہ نکل سکے مگر صحت و تندرستی چل چلا پر گامزن تھی ۔
جو دو دن شادی میں شرکت کی تھکاوٹ سے پھر بے حال ہو گئی ۔ سر ایک بار پھر درد کے ہتھوڑے سے ہاتھ ہولا رکھنے میں ناکام تھا ۔ ایک مہربان نے پھر سے ایک دوسرے بڑے ڈاکٹر کے در پہ جا پھٹکا ۔ سرنجوں سے خون نکال نکال لیبارٹری اسسٹنٹ نے آنکھوں میں ایسا اندھیرا پھیلایا کہ کئی مریضوں کو بوتل بھر بھر خون کا عطیہ دینے میں کبھی چکر نہیں آیا تھا ۔ رزلٹ پھر وہی ڈھاک کے تین پات ۔ ہمت مرداں مدد خدا ۔ کلینک کے باہر قطار میں انتظار سے بھی کوفت نہیں ہوتی تھی ۔ ڈاکٹر کی صورت دیکھ کر یہ پیغام ملتا کہ پاس کر اور برداشت کر ۔ سو پاس کرنے کا اختیار تو بیماری کے سپرد کر دیا اور برداشت کرنے کا اپنے ذمے لیا ۔ معدہ جن ادویات کو برداشت کر چکا تھا اب ان مہنگی ادویات کی شان باقی نہیں رہی تھی ۔
آخر انتظار کی گھڑیاں ختم ہوئیں ۔ تمام لیبارٹری ٹیسٹ میز پر رکھے تھے جس پر لکھی اے بی سی 123 کے ساتھ پڑھ کر بھی اپنی کم علمی پر ندامت ہو رہی تھی ۔ ڈاکٹر نے بھاری فیس کے عوض جو دوا لکھی وہ سرے سے ہی پلے نہ پڑی ۔ بھاری قدموں سے ہلکے کاغذ پر لکھے نسخے کے ساتھ میڈیکل سٹور پر حاضری دی ۔ دوا ہاتھ میں تھما کر جس رقم کا مطالبہ ہوا کلیجہ منہ کو آ گیا ۔ ہزاروں روپے خرچ کرنے کے بعد یہ کیا چند روپوں کی گولیاں ہاتھ لگیں ۔ جسے بچپن میں ماں جی کئی بار کھلا چکی تھیں ۔ اگر وہ اس وقت زندہ ہوتیں تو بخار نناوے پر آؤٹ ہو چکا ہوتا ۔ ایک سو پانچ کی یاد گار انگز کبھی نہ کھیل پاتا ۔ بقول ڈاکٹر صاحب یہ ملیریا کی ایسی قسم ہے جو لاکھوں میں سے کسی ایک مچھر میں موجود ہے جو پاکستان میں نہ ہونے کے برابر ہے اور لاکھوں میں ایک مریض اس کا شکار ہوتا ہے ۔ ساؤتھ افریقہ میں یہ پایا جاتا ہے ۔ آج ہمیں کوئی فخر نہیں کہ ایسی ہی کسی مچھر کی ڈینگی قسم اب ہمارے ہاں بھی پائی جاتی ہے ۔ جس نے شہر شہر سراسیمگی پھیلا رکھی ہے ۔
کیا بات تھی ماؤں کی ، کسی ڈاکٹر سے کم نہ ہوتیں ۔ بغیر ٹیسٹوں کے ہی تشخیص کر لیتیں ۔ اور مسیحائی کرتیں ۔ آج ڈاکٹر تو بہت ہیں مسیحا کوئی نہیں ۔ بیماریاں آنے میں صبر نہیں کرتیں اور دوائیں اثر نہیں کرتیں ۔
جیسے محبتیں بہت ہیں قربانی کہیں نہیں ۔ ایک ہاتھ دو ایک ہاتھ لو کی بجائے دو ہاتھ دو اور دو ہاتھ لو کے فارمولہ پر ایک وقت میں ایک کام سرانجام پا سکتا ہے ۔ بیماری غریب کے در پر دستک ہر بار دیتی ہے ۔ بہتے برستے پانی جب گھروں میں جوہڑوں کی طرح ٹھہر جائیں تو دونوں خالی ہاتھ کم کشکول بن جاتے ہیں ۔ بلکتے سسکتے بچے ماؤں کی گود میں پانی کو جب ترستے تو وہ بھوکی شیرنیوں کی طرح خوراک کی تقسیم کرنے والوں پر جھپٹ پڑتیں ۔ لاٹھیاں جن کا مقدر کسی کا گولیاں بھی نصیب بن جاتی ہیں ۔ جہاں زندہ سنبھالے نہیں جاتے وہیں لاشیں بن اپنوں کی جدائی کو بھی زرہ بے نشان بنا دیتی ہیں ۔ غریب کی دہائی دہائیوں کے اقتدار کی ضمانت بن کر رہ جاتی ہے ۔ غربت کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی بجائے کہیں غریب ہی نہ مٹ جائیں ۔ پھر جمہوریت کے تھیلے سے موٹی بلی کیسے باہر نکالی جا ئے گی ۔ کیونکہ امیروں کو نوٹوں کی ضرورت نہیں ۔ پھر حکمرانی کے لئے لمبی غریبی لائن کے بغیر جعلی ووٹوں کی بھی انٹری ممکن نہیں ۔ نمائندگی کے دعوی کا دم بھرنے والے بھیک منگوں کی بجائے خودداری کے علمبراد بن جائیں تو عوام صدیوں پہلے ٹیپو سلطان کے کہے گئے الفاظ کہ شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے کو پڑھنے سے کڑھنے کی کوفت سے بچ جائیں ۔ شائد وہ سمجھ سکیں کہ ایک حلال لقمہ حرام اور بے ایمانی کے کروڑوں سے بہتر ہے ۔ اپنے بڑھاپے کے سہاروں کو امانت میں خیانت کر کےکردار کی جس عمارت کی بنیاد رکھ رہے ہیں ۔ کتنی آہوں کو دبا کر ،امنگوں کو سلا کر ،ضمیر کی نظروں سے چرا کر تاریخ کے گرد آلود اوراق کی شان بے نیازی تو ہو سکتے ہیں مگر شان امتیاز نہیں ۔ آخری شہنشاہ ہندوستان بہادر شاہ ظفر ایک پیغام چھوڑ گیا ہے انہی سوالیوں کے لئے ۔

لگتا نہیں ہے جی مرا اُجڑے دیار میں
کس کی بنی ہے عالمِ ناپائدار میں

بُلبُل کو باغباں سے نہ صَیَّاد سے گلہ
قسمت میں قید لکّھی تھی فصلِ بہار میں

کہہ دو اِن حسرتوں سے کہیں اور جا بسیں
اتنی جگہ کہاں ہے دلِ داغدار میں

ایک شاخ گل پہ بیٹھ کے بلبل ہے شادمان
کانٹے بچھا دیے ہیں دل لالہ زار میں

عُمْرِ دراز مانگ کے لائے تھے چار دن
دو آرزو میں کٹ گئے دو انتظار میں

دِن زندگی کے ختم ہوئے شام ہو گئی
پھیلا کے پاؤں سوئیں گے کُنجِ مزار میں

کتنا ہے بدنصیب ظفر دفن کے لیے
دو گز زمین بھی نہ ملی کوئے یار میں
در دستک >>

سوشل نیٹ ورک

Flag Counter