Mar 3, 2017

دل دریا سمندروں ڈونگھے


سبز پسند کرنے والے کالے کے قریب نہیں جاتے، نیلا کسی کو بھلا لگے توپیلا کسی کی آنکھیں چندھیا دے۔کوئی سر پر وزن اُٹھاتا ہے تو کسی کی نظریں بارآوری سے جھک جاتی ہیں۔کوئی پاؤں کی حرکت سے چولہا جلاتا ہے تو کوئی قلم کی جنبش سے۔گردشِ خون برقرار رکھنے کے لئے دانتوں سے چبا کر حلق سے اُتارا جاتا ہےاور فاسد بدبو سے جسم چھٹکارا پا لیتا ہے۔کانوں سے دماغ کے نہاں خانوں میں  جو ہوا بن اُترے، زبان سے لفظ کبھی کڑوا تو کبھی میٹھا بن نکلے۔جو اصل  اندررہ جائے غبارِ خیال بن تہہ در تہہ وجودِ ناتواں پر سنگ بار جڑتا رہے۔ جہاں سے جو سیکھا ،اسی دور میں اسے لوٹانا ہوتا ہے۔
پیدا ہوتے ہی احساس کا رشتہ پروان چڑھتا ہے پھر پہچان کا ،پھر تعلق گہرا ہوتا ہے زبان کا۔سماج سے تعلق بندھتا ہے تعلیم و تربیت سے۔ افراد سے قرب ملتا ہے اخلاق و اطوار سے۔سوچ پہاڑوں سے اُبلتے پانی کی مثل  گنگناتی شور مچاتی اپنے راستے خود بنا لیتی ہے۔ کسی کو علم ورثے میں ملتا ہے کسی کو طاقت۔کوئی سچ سے بہادری پا لیتا ہے کوئی جھوٹ سے بزدلی۔کوئی حق کے حصول کے لئے کوشش سے آگے بڑھتا ہے تو کوئی چھین کر حق جتاتا ہے۔دو صدیاں پہلے اپنی منزل پا کر سب جا چکے، پچھلی صدی میں جنہیں منزل مل گئی وہ جانے کے انتظار میں۔ بندوبست ایسا کہ شاید لوٹ کر پھر باری آئے ،جو نہ آئی اور نہ ہی آئے گی۔ایک بار آئے ہیں تو ایک بار ہی جانا ہے۔
فیلنگ کی دنیا ڈیلنگ سے اتنی ہی دور ہے جتنی جلد کے نیچے شریانوں میں بہتا لہو ہوا سے ،جو جلد کو مَس کرتی گزر جاتی ہے۔نفرت تکبر کو جنم دیتی ہے تو غصہ انتقام کو۔محبت میں احساس غالب رہتا ہے تو رقابت میں حسد پروان چڑھتا ہے۔دل کو کھیل بنانے والادماغ دھیرے دھیرے سوچ کی سنگ باری سے عاجز آنے لگتا ہےاورنفرت حقارت شکوہ شکایت حسد جلن کی بھاری سلوں کے بوجھ تلے دب جاتا ہے۔ جہاں سے نکلتے نکلتے پاؤں میں لغزش اور ہاتھوں میں رعشہ طاری ہو جاتا ہےاور سر نہ نہ کی تکرار جیسا ہلنے لگتا ہے۔ کوئی نہیں پوچھتا کیا پا یا اور کیا چھوڑا۔ 
عجب تماشا ہے جو کھلاڑی میدان میں اپنے لئے اُترے اس کی ناقص کارکردگی اجتماعی عزت کا مسئلہ بن جاتی ہے۔حالانکہ  فائدہ بھی خالص اسی کا نقصان بھی اسی کا مگر قیمتی وقت کے ضیاع کی ذمہ داری سے بری الزمہ نہیں۔وہ نفرت حقارت کے ساتھ ساتھ بدزبانی سے بھی محفوظ نہیں رہتے۔ ملاوٹ شدہ خوراک ،جعلی ادویات ،بے ہنگم ٹریفک ،بات بات پر جھوٹ، کسی وعدہ کا وفا نہ ہونا،غریب چاہے پسینے میں نہائے یا خون بہائے،نا انصافی کے ستون سے بندھ کر مظلوم رشوت کے کوڑے کھائے، تو ایسا معاشرہ بغل میں چھری اور منہ میں رام رام کی عملی تصویر نظر آتاہے۔
کس سچ کو ماننے والے ہیں ،کس حق کے پیروکار ہیں ،کس کوراضی رکھنا چاہتے ہیں، کیاہے اس خواب کی تعبیر،کسے مطمئن کرنا چاہتے ہیں،کس سے تعریف و تحسین چاہتے ہیں، کون ہے جو  چند جملوں کے عوض خزانوں کے منہ کھول دے۔آخری ڈگری حصولِ رزق میں مددگار ہوتی ہے  باقی صندوقوں میں پڑی رہتی ہیں۔
اللہ تبارک تعالی اپنی راہ میں خرچ کرنے والوں کو انعام و اکرام کی خوشخبری دیتا ہے۔جو رزق عطا فرماتا ہے وہ بھی اسی کے فضل سے ہے۔ایسی جنت جس کے نیچے نہریں بہتی ہیں جہاں کھجور اور انگور کے باغات ہیں ۔اس زمانہ میں رائج دستور ِحیات کے مطابق رہنے سے تو پانا مشکل نظر آتا ہے۔ دنیاوی امارت ،شہرت ،امامت کے لئے فلسفہ ءجہالت پر اتنا زور کہ دم ہی نکلنے سے رہ جائے۔ جو آسائش پالیں وہ خوش نصیب جو رہ جائیں وہ ناکام و نامراد۔ مراد  بر آنے کی ایک ہی صورت ہے کہ مدد مانگو صبر اور نمازسے بیشک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔انسان زندگی کے پہلے دس  سال میں صرف سیکھتا ہے آخری دس سال میں صرف بھولتا ہے۔ درمیانی پچاس ساٹھ سال صرف  دوڑنے میں گزر جاتے ہیں۔چاہے حصے میں جیت آئے یا ہار۔
جنہوں نے آنکھوں سے لفظوں کی پہچان کو بھولتے دیکھا ہو،زبان سے لفظوں کی ادائیگی کو رکتے دیکھا ہو،ہاتھوں اور انگلیوں سے نوالہ بنانے اور پکڑنے کو بھولتے دیکھا ہو،ٹانگوں پر جسم کو بوجھ محسوس کرتے دیکھا ہو، ایک ایک اعضاء کی موت کا منظر سالہا سال دیکھا ہو،ڈگریوں کو صندوق میں اور دولت کو بینک میں کسی کام نہ آتے دیکھا ہو، وہ لاکھوں  میں چند ایک ہوں گے اور ان کے لئے زندگی کا روائتی فلسفہء حیات   درسگاہی  کتب جیسا نہیں ہو سکتا۔علم و عرفان کی آگہی جنہیں نصیب ہو وہ اپنی دنیا آباد کر لیتے ہیں جس میں مدد صرف اللہ سے صبر اور نماز سے مانگی جاتی ہے۔
دل دریا سمندروں ڈونگھے کون دلاں دیاں جانے ہُو
وچے بیڑے وچے جھیرے وچے ونجھ مہانے ہُو
چوداں طبق دلے دے اندر تنبو وانگوں تانے ہُو
دل دا محرم ہووے باہُو سوئی رب پچھانے ہُو

تحریر : محمودالحق       
در دستک >>

سوشل نیٹ ورک

Flag Counter