Aug 25, 2014

دیکھ ہمارا کیا رنگ کر دیا


جیولری ، کھلونے ، بوتیک ہو یا کاروں کا شو روم صرف دیکھ کر یا ہاتھ سے محسوس کر کے تسلی نہیں ہوتی۔جب تک کہ وہ احساسِ لمس سے خوابیدہ نہ کر دے۔ نظر بھربھر دیکھنے سے اپنائیت کا احساس موجزن نہیں ہوتا۔عدم دستیابی خالی پن سے زیادہ اپنے پن سے عاجز ہو جاتی ہے۔آج لفظوں سے اظہار اجاگر نہیں ہو گا۔کیفیت بیان سے آشکار نہیں ہو گی۔احساسات اور محسوسات پر اعتراضات بھی نہیں ہوں گے۔
کون جانتا ہے کہ رات دن سے الگ کیسے ہوتی ہے اور دن رات میں کیسے چھپ جاتا ہے۔چاندنی راتوں میں سمندر پر لہریں کیوں رقص کرتی ہیں۔آسمانوں سے پانی برس کر پھلوں پھولوں میں رنگ و خوشبو کے رنگ کیسےبکھیر دیتا ہے۔ چاہنے اور پانے کے انداز جدا ، رنگوں کی ترتیب الگ رہتی ہے۔ رنگ ونور کی برسات صفحات پر اترے تو آنکھوں کو خیرہ کر دیتی ہیں۔مگر جب قلب پہ اُترے تو روح میں خوشگوار احساسِ حیرت کو جاگزیں کر دیتی ہے۔ 
آرٹس کے مضامین پڑھنے والا سائنسی توجیحات پر سر کھجانے سے آگے نہیں بڑھتا۔ کیونکہ وہاں سوچ داخلہ بند کے آویزاں بورڈ سے استقبال کرتی ہے۔ قربت کا مضمون پڑھنے والے محبت کے مفہوم سے ہمیشہ ناآشنا رہتے ہیں۔پانے کا جنون احساس کے لگن سے کبھی ہم رکاب نہیں ہوتا۔بہشتی زیور بحر طور زمینی زیور سے بدرجہا بہتر بھی ہے اور لازوال و لافانی بھی ۔
جن چیزوں کی اہمیت انہیں پانے کے بغیر مکمل نہ ہو تو ایک سے بڑھ کر ایک کی تلاش کے سلسلے ختم نہیں ہوتے۔ جیولری ، کپڑے ، جوتے کا نیا ڈیزائن اور کار  کانیا ماڈل ،گلے میں لٹکے ہیرے کے ہار اور گیراج میں کھڑی نئی گاڑی کو بھی بے وقعت کر دیتی ہے۔ بچے جن کھلونوں کے لئے زمین پرسر پٹختے ہیں۔ پھر نیا دیکھ کر انہی کھلونوں کو زمین پر پٹخ دیتے ہیں۔ 
مگر اس کے مقابلے میں قدرت اور فطرت سے محبت رکھنے والے آپس میں دست و گریباں نہیں ہوتے۔ پانے کے لئے حسد و رقابت کی بھٹی میں نہیں جلتے۔چاہت بہت  ہوتی ہے مگر طلب نہیں کہ جان پر بن آئے۔ان کا جینا آسان ہوتا ہے ۔حقیقی خوشی سے سرشار ہوتا ہے۔صرف محسوس کرنے سے ہی قربت کے احساس سے سرشار ہو جاتے ہیں۔ایک کے بعد ایک روح میں سماتا چلا جائے  توتشنگی بڑھ جاتی ہے مگرتڑپ نہیں ۔ 
میلوں پھیلے گلستان میں ہزاروں رنگ بکھیرتے خوشبو پھیلاتے پھول دیکھنے والوں کوسحر میں مبتلا کر دیتے ہیں۔ ایک کے بعد دوسرا جاذبیت سے جذبیت بڑھا دیتا ہے مگر پہلے کی محبت کم نہیں کرتا۔ انہیں توڑ کر گھر وں میں سجایا  نہیں جاتا بلکہ قلب ِروح کے گلدان میں بسایا جاتا ہے۔خوشبو سے خود کومہکایا جاتا ہے۔ اظہار ِخیال قلبِ حال پر فوقیت نہیں رکھتا۔لفظ تو پھول کی مانند ہیں ۔کوئی انہیں گلستان میں مہکتا دیکھ کر محبت کا شکار ہوتا ہے تو کوئی انہیں توڑ کر کتابوں میں چھپا کر چپکے چپکے روتا ہے۔
سکول  میں پڑھنے والے طالبعلم چاہے پہلی پوزیشن سے کامیابی کے زینہ پر قدم رکھیں یا صرف پاس ہونے پر اکتفا کر پائیں۔ مگر بیس کمروں کے سکول کو بیس ہزار طالبعلم میرا سکول  کہہ کر پکارتے ہیں۔ اس کے برعکس ہوٹل یا ہوسٹل میں سالہا سال  رہنےکے بعد بھی اسےاپنا نہیں کہہ پاتے۔
زندگی میں صرف دیکھنے سے مفہوم جانے نہیں جا سکتے۔زندگی میں درپیش حالات و واقعات کی کھائیوں سے دوبارہ ابھر کر سمجھے جا تے ہیں۔ کتابوں سے مطالب ومعنی تلاش کئے جا سکتے ہیں مگر مفہوم نہیں۔

محمودالحق                           
در دستک >>

Aug 6, 2014

زمین میری تھکن سے بھی چھوٹی ہے۔۔۔۔۔ سارا شگفتہ


           ؛’‘؛’‘؛’‘؛’‘؛محمودالحق کے قلم سے؛’‘؛’‘؛’‘؛’‘؛

سفید چاندنی میں لپٹی آنکھیں موندھے وہ مسکرا رہی تھی۔بائیں کندھے کو بایاں کندھا دینےوالےآگے سے پیچھے دائیں تو کبھی بائیں کندھے سے آج ایک فعل کو ایسے ادا کرنے جارہے تھے جیسے کوئی زمین کا بوجھ اُتارنے جا رہے ہوں۔ آج تو وہ ایک لاش کو دفنانے جا رہے تھے۔ جس کے چہرے پہ مسکراہٹ روح اپنا صدقہ سمجھ کر چھوڑ گئی تھی۔جسے جسم نے خیرات سمجھ کر کبھی قبول ہی نہیں کیا تھا۔ مگر آج وہ بے بسی کی تصویرنہیں تھی۔
بادل آج بھی کالی گھٹا کی صورت اپنا سایہ چھوڑنا نہیں چاہتا تھا۔کہ کہیں سورج کی کرنیں اسے اپنی آغوش میں نہ نہلا دیں۔کرنیں بادلوں سے اُلجھ رہی تھیں سفید چاندنی پرایک نظر التفات ڈالنے کے لئے بے چینی سے بادلوں میں کندھا دینے والوں کی طرح  کبھی آگے سے کبھی پیچھے کبھی دائیں سے تو کبھی بائیں سے جھانک رہی تھیں۔  وہ آج بوند بوند برس کر روشنیوں سے انتقام لینے کے موڈ میں تھے۔ مٹی زرہ زرہ بکھر کر آج سارا وجود سمیٹ کر گوندھنے کے موڈ میں تھی۔بوند بوند پانی اسے بکھرنے سے روک رہا تھا۔ آج کندھوں پر جانے والی جوتیوں میں رہنے سے بھی بد تر حالت میں تھی۔جو پتھر دیواریں چنتے چنتے گلے تک آ گئے تھے آج وہ آنکھوں سے منظر چھین لینے کے لئے سر سے اوپر چننے کے لئے بیتاب تھے۔بیگانے سر سے بوجھ اُتارنے جا رہے تھے اور اپنے بانہیں پھیلائے سمیٹنے کے لئے بیتاب تھے۔ 
وہ سفید بے داغ کاغذ کے ایک ورق پر ایک نقطہ ڈال کر اُس میں اُتر جاتی۔وہاں اسے ویسا ہی پھر کاغذ ملتا ۔ نقطہ ڈال کر پھر  اس میں اُتر جاتی۔ نہ جانے  وہ سفید اور اُجلے اوراق کی کتنی ہی تہوں کے نیچے اُتر گئی۔ جہاں اسے سمندر ایک قطرہ بن کر آنکھ سے ٹپکتا نظر آیا۔زمین ایک زرہ کی مانند ہوا میں بھٹکتی نظر آئی۔سورج اس کے ہاتھ میں یوں اُتر آیا جیسے چیونٹی کے منہ میں آٹا۔
جو پہاڑ بن کر اُس پر گرے جہاں اُس کی چیخیں  دم گھٹ گھٹ کر مرتی رہیں ۔ وہ بے بسی سے تلاوت کے لئے انسانی صحیفہ چاہتی رہی۔مگر آسمانی صحیفوں کی تلاوت کرنے والے اسے پتھر کی مورتی بنا کر چٹانوں پر نصب کرتے رہے۔وہ کالی سیاہی کی مورتی بن کر علم کے قلم سے آڑھی ترچھی لکیروں میں ڈھال دی گئی۔
وہ بھول گئی یہ ہوائیں کب اُس کی سانسوں سے آشنا ہوئیں۔کب ان فضاؤں نے اُس کی پہلی آواز سنی تھی۔ ہاں یہ یاد تھا اسے پنچھیوں کی چہچہاہٹ سے وہ روئی تھی۔جب بھی پنچھی چہچہاتے وہ اپنا جنم دن منا لیتی۔
وہ ہواؤں کو شیشہ کہتی جو اسے چھو کر اپنے ہونے کا احساس دلاتے۔قوس وقزح کے رنگ اس کے رنگوں کو بے رنگ کر دیتے۔ سورج اپنی تمازت سے اُس کے پیرہن کے رنگ پھیکے کر دیتا۔پیڑوں پر ناچتے ہرے پتے ،سمندر پر بہتی سفید لہریں،آنکھوں سے بہتے آنسو  جس میں وہ خود ہی ڈوب جاتا ہے۔ان سب کو چوری ہونے کا خطرہ نہیں ۔جو انہیں چرا لے جائے وہ دن میں توڑے پھولوں کو رات میں کالا کر دیتے ہیں۔وہ اندھیروں کو چور سمجھتی۔جو روشنیوں کو چرا لیتے ہیں۔
پیڑ پر رات بسر کرنے والا پنچھی پتوں کے ہلنے پر پھڑ پھڑا جاتا ہے۔وہ صبح کے انتظار میں وہیں دبکا بیٹھا رہتا ہے۔کیونکہ اندھیرے خود سے جدا نہیں ہونے دیتے ۔سبھی اندھیرے مل کر روشنی سے محبت رکھنے والوں کو ڈرا کر پھڑ پھڑانے کی صرف اجازت دیتے ہیں۔پنچھی ایک شاخ سے دوسری شاخ پر، چاہے ایک پیڑ سے دوسرے پیڑ تک چلا جائے اندھیرے پیچھا کرتے رہتے ہیں تا وقتکہ روشنیاں اندھیرے بھگا نہ دیں۔
وہ ایک ایسا دکھ تھا  جو ماں کے کلیجے سے خون کا آخری قطرہ بھی نچوڑ کر لے گیا۔ کوکھ میں پال کر چند لمحے زندگی کا کفارہ ادا  کر گئے۔ اُس کے کانوں سے خاموشیوں نے ساری آوازیں چھین لیں۔اُس کی چیخوں کی لہروں کو خاموشی کے گہرے سمندر کے طوفان غرق کر دیتے۔آسمان زمین کی گود میں اُتر کر زرے زرے کو گوندھ کر مٹی کی مورتیں بناتا ۔پھر توڑ کر مٹی بنا دیتا۔وہ خاموشی سے زروں سے مورتی بنتی تو لمحوں میں پھر زروں میں ڈھل جاتی۔جہاں اُس کے آدھے کمرے میں ہوا روشنی سے اُلجھ جاتی۔   تو وہ سہم کر کھلے آنگن میں یوں اُترتی جیسے دکھ کے گرم بدن پہ ٹھنڈی ہوا اُترتی ہے۔مگر وہاں روشنی بن سائے کے آس پاس سے گزر جاتی۔وہ انتظار کے دیپ جلا کر دکھوں کی بستی میں درد دل کے مسیحاؤں کو آنکھوں کی روشنی پانے کے لئے تکتی رہی۔ مگر جنہیں آنا تھا وہ نہیں آئے۔صنم روٹھ جائے تو آنکھیں آنسوؤں سے بھر جاتی ہیں۔ جب دل ٹوٹ جائے تو  آنکھوں سے روشنی روٹھ جاتی ہے۔ 
نہ جانے کتنی ہی آنکھیں دل میں اُمید کے دیپ جلا کر  گھپ اندھیرے میں انتظار کر رہی ہوں۔ جو صبح کے انتظار میں پھڑ پھڑا رہی ہوں۔ آخر کب تک انسانی صحیفوں کے انتظار میں آنکھیں پتھرائی جاتی رہیں گی۔جب تک کنارے سامنے نظر آتے ہوں ہاتھ دینے والے نظروں سے اوجھل رہتے ہیں۔ جب کنارے اوجھل ہو جائیں تو تنکے بھی سہارے بن جاتے ہیں۔
بے سکونی اور تنہائی کے آسیب اتنے طاقتور ہو جاتے ہیں کہ انسانی بستیاں آسیبوں کی آماجگاہ معلوم ہوتی ہیں۔ جہاں بے اعتباری کے بھوت دن میں سوتے تو راتوں کو جگاتے ہیں۔مٹی کی جزبیت افکار وشعور کی تتلیوں کو بوند بوند نہلا کر بے رنگ کرنے کے درپے رہتی ہے۔پانی آگ سے تپش محسوس کرتی ہے تو آگ پانی سے ٹھنڈک کا احساس پانے سے ڈرتی ہے۔ آب آب میں رہ کر آب رہتا ہے مگر آگ آگ سے مل کر صرف خاک رہ جاتی ہے۔اُداسیوں کے محل برباد سے سیدھا نا اُمیدی کی قبر میں نہیں اُترا جا سکتا۔    بادل نے برس کر گزر جانا ہے اگر وہ ٹھہر جائے تو اسے نچوڑا نہیں جا سکتا۔جب تک قبر کھودی جاتی رہتی ہے خالی پیٹ ماتم ہوتے رہتے ہیں۔ جب مٹی بھر دی جاتی ہے ماتم روک کر پیٹ بھرے جاتے ہیں۔زندگی کی سچائیاں مٹی سے مل کر پائی جاتی ہیں ۔ مٹی میں گھل کر نہیں۔بادل زمین پر  بوند بونداُترتاہے۔آسمان رنگ بدلتا ہے۔ قوس و قزح کے رنگ۔ رم جھم  ستارےبوند بوند روشنی آنکھوں میں اُترتے ہیں۔ جو سونے کے بعد بھی کالے آسمان پر چمکتے ہیں۔ وہ ہمیشہ چاہ پانے والی نگاہوں کے انتظار میں روشنی کے دیپ جلا کر رکھتی ہیں۔ مگر نگاہیں اندر کے اندھیروں سے گھل مل جاتی ہیں کہ باہر کی روشنی انہیں کسی مزار پر جلتے تیل کے چراغ دکھائی دیتے ہیں۔جنہیں منت مانگنے والوں کی مدد سے روشن رہنے کی  عادت ہو جاتی ہے۔ ان کو زندگی تبھی ملتی ہے جب مایوسی اور محرومی کے شکار ان میں اُمید کے تیل ڈالتے ہیں۔
ایسے چراغِ شب بجھا دو جو نگاہوں کو ستاروں کی محبت سے محروم رکھیں۔


!نوٹ 
میں نے یہ تحریر شاعرہ سارا شگفتہ کو پڑھنے کے بعد لکھی ۔   اس کے الفاظ میری روح میں اُتر گئے ۔میں نے بہت کوشش کی کہ اُس مقام پر کھڑا ہو کر دیکھ پاؤں جہاں سارا شگفتہ نے نظمیں لکھیں۔لیکن میں ڈر کر پیچھے ہٹ گیا۔ کیونکہ اُس کے لفظ کوڑوں کی طرح میری روح پر برس رہے تھے۔میں واہ واہ کی بجائے ہائے ہائے کرتا رہ گیا۔ اُس کے الفاظ میری روح کو تشنگی کی انتہا پر پہنچا کر اکیلا چھوڑ گئے۔ میں نے سونا چاہا تو اُس کے الفاظ مجھے جھنجوڑ جھنجوڑ کر اُٹھا دیتے کہ  تلاوت کے لئے انسانی صحیفہ تلاش کرو۔ میں نے اپنے زمانہ کا سارا علم ٹٹول ڈالا ۔اُس کے الفاظ آنکھیں بن کر مجھ سے سوال کرتے ہیں۔ جن کے جواب میرے پاس نہیں۔اسے تیس سال پہلے کوئی ٹرین کے نیچے آنے سے روک نہ سکا۔امریتا پریتم نے اسے جان کر کتاب لکھ ڈالی اور اسے انسانی صحیفہ کی پہلی آیت قرار دیا۔   مجھے آج تیس سال بعد معلوم ہوا کہ وہ کون تھی۔اُس کے لفظوں کے سامنے میں پانی پانی ہو گیا۔

تنہائیوں کی نوکیں میرے اعضاء میں پیوست کر دی گئی ہیں
پھر بھی کہتے ہو، آؤ باغ کو چلیں
میں اپنی آنکھوں پہ زندہ ہوں
میرے لب پتھر ہو چکے ہیں
اور کسی سنگ تراش نے ان کا مجسمہ
کسی پہاڑ کی چوٹی پر نصب کر دیا ہے
میں لہُو سے بیگانی ہوں
میرے جذبے اپاہج کر دیئے گئے ہیں
میں مکمل گفتگو نہیں کر سکتی
میں مکمل اُدھار ہوں
میری قبر کے چراغوں سے ہاتھ تاپنے والو
ٹھٹھرے وقت پر ایک دن میں بھی کانپی تھی
کاش آنکھیں آواز ہوتیں
زنگ کی دھار میرے لہُو میں رچ رہی ہے
بتاؤ ! تھوڑے پھُول دو گے
تیور زنگ آلود ہو چکے ہیں
میں نے کسی سے شاید وعدہ کر لیا تھا
مُسکراہٹ ہنسے گی تو آنکھیں ہنسیں گی
یہ تو لفظ کھڑکی کا پردہ ہوئے
لیکن دیوار کا پردہ نہ ہو سکے
رفتہ رفتہ پتھر میری گردن تک آ پہنچے ہیں
ڈر ہے کہیں میری آواز پتھر نہ ہو جائے
یہاں تو روز مجھے میری قبر سے اُکھاڑا جاتا ہے
کہ لوگ میری زندگی کے گُناہ گِن سکیں
یہاں تو میرے لہُو کی بوند بوند کو رنگا جا رہا ہے
لوگوں کی پُوریں انگارہ ہو رہی ہیں
میں کس سے ہاتھ مِلاؤں
کہ میری یاد کے ساتھ ہر ہر دل میں
ایک پتھر نصب کر دیا گیا ہے
میں نے نہیں کہا تھا
سُورج ہمیشہ میرے کپڑوں کا رنگ چُرا لے جاتا ہے
میرے قدم مجھے واپس کر دو
یہ اُدھار مہنگا ہے
میری دوکان چھوٹی ہے
جانے کون سی سڑک پہ ہم دوڑے تھے
میں پُوری مٹی میں چھُپ گئی
اور تم مٹی میں پانی چھڑکا کے
سوندھی سوندھی خوشبو اپنے جذبے میں لئے
اپنی زندگی کے دن بڑھا رہے ہو ۔۔۔۔
دیکھ تیرا چاند پتھر پہ لڑھک آیا ہے
اب کون سے چاند کو دیکھ کر
لوگ دعائیں مانگیں گے
میرا کفن زہریلے دھاگوں سے سیا جا رہا ہے
اور تم کہتے ہو
سفید لباس میں تم کتنی اچھی لگتی ہو ۔۔۔۔
در دستک >>

Aug 5, 2014

میں ہوں برگ و بار


ساری دنیا میرے سامنے ہے۔  زرہ زمین سے لیکر ستارہ آسمان تک میں دیکھ سکتا ہوں مگر مجھے میرا اپنا وجود محسوس نہیں ہو پا رہا ۔ ہاتھوں کو مسلتا ہوں پاؤں  رگڑتا ہوں پھر بھی اپنا آپ محسوس نہیں کر پا رہا۔ 
 یہ سوچتے سوچتے میرے دل کی دھڑکن بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ سانس میری روح میں سرایت کرتا جارہا ہے۔
طوفان تو کب کا تھم چکا ہے۔
سانس آج اکھڑا سا کیوں محسوس ہو رہا ہے۔ یہ مجھے اپنے پن کا احساس نہیں دلا پا رہا۔
ایسے لگتا ہے کسی کی کونپل کسی دوسری شاخ میں پیوند کر دی گئی ہو۔ اجبنیوں کو بہت مشکل سے قبول کیا جاتاہے۔
 ہر شاخ اپنا وجود ہی چاہتی ہے۔ آزادی سے جینے کا ڈھنگ اپنے ہی وجود سے پھیل کر خود میں سماتی ہے۔ اسے کسی کا انتظار نہیں۔ بہار ہو تو زمین کو سینچ کر پھول کھلا دیتی ہے۔ خزاں میں انہی پتوں کو پھر لوٹا دیتی ہے۔ نہ احسان اٹھاتی ہے نہ احسان جتاتی ہے۔ جس سے لپٹ کر پروان چڑھتی ہے۔ جدا ہو جائے تو اسی میں فنا ہو جاتی ہے۔ 
عشق کی انتہا ہے۔
پلتی، بڑھتی، کھلتی، مہکتی مگر اپنے محسن سے بیوفائی کا تصور تک نہیں۔ اس کی بہار بہار نہیں خزاں خزاں نہیں۔
 زندگی جینے کا ایک ڈھنگ ہے۔
 جس میں سلیقہ ہے، قرینہ ہے، اپنائیت ہے، جزبیت ہے، وفا ہے، عاجزی ہے۔
 مگر!
 خودسری نہیں۔ جھکتے ہیں تو بوجھ سے نہیں۔ محبت کو ہاتھوں پہ رکھ لیتے ہیں۔
 خوشبو پھیلا دیتے ہیں تاکہ پیاس بجھانے والے بھوک مٹانے والے راستہ نہ بھٹک جائیں۔
چھپاتے نہیں ہیں کھلے دل سے بلاتے ہیں۔ 
مسافروں کا انتظار کرتے کرتے سوکھ جائیں تو پھر لوٹا دیتے ہیں۔
 سخت گرمی ہو تو آنچل بن جاتے ہیں۔ خود جلنے کا ملال نہیں۔
 پناہ دینے میں شاخ شاخ سے بڑھ جانے کی دوڑ میں ہے۔ ہر خوشی کا پل سنبھالنا ہی ان کی معراج ہے۔
 اس خدمت کا کیا صلہ پاتے ہیں؟ جن پہ احسان کرتے ہیں انہیں کے ہاتھوں مرتے ہیں۔ دفنائے نہیں جاتے سجائے جاتے ہیں۔
 خوشیوں میں تو شریک ہیں۔ جان کنی کے عالم میں دکھوں کے نالے ہیں۔
 بہار میں تو جیت گئے۔ 
مگر!
  خزاں میں ہار  گئے  وہ  برگ  و  بار

محمودالحق
در دستک >>

سوشل نیٹ ورک

Flag Counter