ساری دنیا میرے سامنے ہے۔ زرہ زمین سے لیکر ستارہ آسمان تک میں دیکھ سکتا ہوں مگر مجھے میرا اپنا وجود محسوس نہیں ہو پا رہا ۔ ہاتھوں کو مسلتا ہوں پاؤں رگڑتا ہوں پھر بھی اپنا آپ محسوس نہیں کر پا رہا۔
یہ سوچتے سوچتے میرے دل کی دھڑکن بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ سانس میری روح میں سرایت کرتا جارہا ہے۔
طوفان تو کب کا تھم چکا ہے۔
سانس آج اکھڑا سا کیوں محسوس ہو رہا ہے۔ یہ مجھے اپنے پن کا احساس نہیں دلا پا رہا۔
ایسے لگتا ہے کسی کی کونپل کسی دوسری شاخ میں پیوند کر دی گئی ہو۔ اجبنیوں کو بہت مشکل سے قبول کیا جاتاہے۔
ہر شاخ اپنا وجود ہی چاہتی ہے۔ آزادی سے جینے کا ڈھنگ اپنے ہی وجود سے پھیل کر خود میں سماتی ہے۔ اسے کسی کا انتظار نہیں۔ بہار ہو تو زمین کو سینچ کر پھول کھلا دیتی ہے۔ خزاں میں انہی پتوں کو پھر لوٹا دیتی ہے۔ نہ احسان اٹھاتی ہے نہ احسان جتاتی ہے۔ جس سے لپٹ کر پروان چڑھتی ہے۔ جدا ہو جائے تو اسی میں فنا ہو جاتی ہے۔
عشق کی انتہا ہے۔
پلتی، بڑھتی، کھلتی، مہکتی مگر اپنے محسن سے بیوفائی کا تصور تک نہیں۔ اس کی بہار بہار نہیں خزاں خزاں نہیں۔
زندگی جینے کا ایک ڈھنگ ہے۔
جس میں سلیقہ ہے، قرینہ ہے، اپنائیت ہے، جزبیت ہے، وفا ہے، عاجزی ہے۔
مگر!
خودسری نہیں۔ جھکتے ہیں تو بوجھ سے نہیں۔ محبت کو ہاتھوں پہ رکھ لیتے ہیں۔
خوشبو پھیلا دیتے ہیں تاکہ پیاس بجھانے والے بھوک مٹانے والے راستہ نہ بھٹک جائیں۔
چھپاتے نہیں ہیں کھلے دل سے بلاتے ہیں۔
مسافروں کا انتظار کرتے کرتے سوکھ جائیں تو پھر لوٹا دیتے ہیں۔
سخت گرمی ہو تو آنچل بن جاتے ہیں۔ خود جلنے کا ملال نہیں۔
پناہ دینے میں شاخ شاخ سے بڑھ جانے کی دوڑ میں ہے۔ ہر خوشی کا پل سنبھالنا ہی ان کی معراج ہے۔
اس خدمت کا کیا صلہ پاتے ہیں؟ جن پہ احسان کرتے ہیں انہیں کے ہاتھوں مرتے ہیں۔ دفنائے نہیں جاتے سجائے جاتے ہیں۔
خوشیوں میں تو شریک ہیں۔ جان کنی کے عالم میں دکھوں کے نالے ہیں۔
بہار میں تو جیت گئے۔
مگر!
خزاں میں ہار گئے وہ برگ و بار
محمودالحق
0 تبصرے:
Post a Comment