Mar 14, 2024

جستجوئے مقام

موسم کی سختیوں سے بچتے بچاتے دنوں کو پھلانگتے سوچوں کے بستر بچھاتے  زندگی کی تلخیوں سے نبردآزماہوتے دھیرے دھیرے آگے سرکتے ہیں ۔ذمہ داریاں آڑے ہاتھوں لیتی ہیں ارمان تجوریوں میں بند جواہرات کی طرح قید بےبسی میں اندھیروں سے اُلجھتے ہیں ۔زندگی مصور کی تخلیق ہوتی یا شاعر کی معشوق ،قلم سے رنگ بھر دیتے ۔بھیانک خواب کی تعبیر خوبصورت خیال میں نہیں ڈھل پاتی ۔
سالوں بعد بھی درخت چند فٹ اونچائی اختیار کرتے ہیں اور خیال صدیوں کی مسافت طے کر کے بھی حقیقت نہیں بن پاتا۔آسمان نے تو زمین کو آزادی نہ دینے کی قسم کھا رکھی ہے ،انسان اس قید میں کتنا سرشار ہے کہ آسمان پر توجہ نہیں کرتا جو رات میں خواب دکھاتا ہے اور دن میں پریشان حقیقت کے تارے ۔زمین کی سختی سزا سے منسوب ہے جہاں پڑاؤ تفریح و طبع کے لئے نہیں بلکہ حکم عدولی کی سزا ہے۔
پیدائش آدمیت کے لئے پیدائش انسانی نے نقل مکانی کی ،دانش و حکمت کے لئے ظہور عقل کا امتحان لیا ۔جن کے پاس جواب نہیں تھے وہ جھک گئے جس نے عبادت کو علم سے جدا جانا ،تکبر نے اسے نافرمانی کی سولی پرچڑھایا ۔حروف آسان ہوتے تو حروف تہجی امر ہو جاتے، علم ماخذ ہے تو حروف مقدس ۔علم وہ سمندر ہے جو شور میں آگے نہیں بڑھتا بلکہ خاموش رہ کر زمین کی تہہ میں اُبلتے آتش فشاں ٹھنڈے رکھتا ہے۔ جب جینا راستے میں آ جائے تو جان ہلکان ہو جاتی ہے، یہ زندگی ہے جس کا منصب ٹیڑھا ترچھا نہیں صراط مستقیم ہے۔ راستے گر کھلتے نہیں ،تو کیا حالات کا تقاضا ہیں یا سیدھے راستہ پر چلانے کی مشق۔
آج سوال کیے تھے آج ہی جواب دے دئیے ،بچپن سے کہانی شروع کرنی تھی ،انجام کی اطلاع کر دی ۔انسان نے روبوٹ میں آرٹیفیشل انٹیلیجنس کا قصہ شروع کیا جو خود کی کاپی ہے۔ نیا تو وہ تھا جس نے ممنوعہ شجر تک پہنچنے کی سعی کی ۔معافی سزا سے مشروط ہے  ،دوسروں کی دنیا اور اپنی زندگی کا مقابلہ اختیار آدمیت کا محتاج ہے ۔بنانے والے نے کیا کوئی کسر چھوڑی جو نئے رنگوں کی آرائش میں سلیقہ بھول بیٹھے۔ آگے بڑھنے کا حکم ہو تو بیٹھ رہنے میں کیا مصلحت ہے ۔خاموش رہنے میں عافیت ہے اگر آواز ارتعاش میں زرہ برابر اضافہ کر لے تو کانوں کے پردے اس فریکوئنسی کو برداشت کرنے کے قابل نہیں۔ ایک دنیا میں الگ الگ باسی اور تمام جہانوں کا صرف ایک جو آگے بڑھنے پر تھام لیتا ہے اور پیچھے ہٹنے پر جھنجھوڑ دیتا ہے ،چھوڑتا اسے ہے جسے بناتا نہیں جو ڈھل گیا وہ شکنجے میں کس گیا۔
چلنا دستور سے ہے، ملنا مقام سے ہے ،رہنا جواز سے ہے ،جانا حکم سے ہے، آنا مقدر سے ہے ،جینا رضا سے ہے ۔جب اپنا کچھ نہیں تو حساب کیسا ۔ لوٹنا خالی ہاتھ ہو تو چلنے میں سر پر بھاری  گٹھڑی کیسی۔
امانت دار جن کی زمین ہے اسے اوپر لے جانا کیسا !انعامات کی دنیا کرامات کی دنیا سے الگ ہےجو نہ مانگے سے ملتی ہے نہ دینے سے ختم ہوتی ہے ۔شروع ہونے میں تاخیر کہاں ،دیکھنے والی نظر چاہئیے جو ایک پل میں یہاں سے وہاں پہنچا دے۔آنے والے سنبھل کر آتے ہیں ،پانے میں  پھر  بھی مشکل ہے ۔وقت طے کرنے سےمنزل تک مسافت پہنچاتی ہے ،پانے کی جستجو مقام کو سامنے لا کھڑا کرتی ہے ۔پہلادن کوئی نہیں ہوتا ،ہر دن نیا دن ہوتا ہے کیونکہ ایک پیچھے رہ جاتا ہے۔

تحریر!  محمودالحق 
 
در دستک >>

سوشل نیٹ ورک

Flag Counter