May 31, 2010
اندھیروں میں روشنی سے اجالا
ہر نئے سفر میں منظر آنکھوں میں سماتا ہے تو خیال ذہن میں کھلبلی مچاتا ہے ۔اور قلم کاغذ پہ لفظوں سے پھولوں کی ردا بچھاتا ہے ۔سوچ کے نت نئے باب وا ہوتے ہیں ۔جو نہیں کھل پاتے وہ تجسس میں جستجو کی آمیزش رنگ سے امتزاج سے نکھار پاتے ہیں ۔ حیات جاودانی کے جادو تو صدیوں سے چلتے آرہے ہیں ۔ کرشمہ سازی سے شعبدہ بازی تک کے مراحل بآ سانی عبور کر لئے گئے ۔جو ان سے بچ گئے وہ ملمع سازی کی بھینٹ چڑھ گئے ۔فطرت آدمیت تغیر و تبدل کے فطری عوامل سے جلا پانے کی کوشش میں بہک کر بھٹکنے کی صلاحیت سے مالامال ہو گئی ۔لفظوں کی بساط میں ہر لفظ اپنے گھر میں پیادہ سے وزیر تک کے اختیار کے استعمال میں رکاوٹ و بندش تحفظ کا پابند رہتا ہے ۔جانثار تنہا آگے نہیں بڑھتے ۔بلکہ ایک کے بعد ایک راستہ کھلنے کا انتظار کرتے ہیں ۔کہ کہیں منزل تک پہنچنے کی جلدی میں اپنا گھر ہی نہ چھوٹ جائے ۔
آغاز سفر اور انجام سفر تو پل بھر کا ہے ۔ مگردوران سفر ایک طویل دورانیہ کی صبرصعوبت و برداشت کا تسلسل ہے ۔اکیلے منزل تک بڑھنے والے گھر سے دور نکل جائیں تو پہلے تحفظ پھر راستہ کھو دیتے ہیں ۔امید روشنی کی کرن بنی فاصلے کم ہونے کی نوید دیتے ہیں ۔مگر قریب پہنچ نہیں پاتے ۔اتنا دور نکل جاتے ہیں کہ ایک آس اور ایک یاس بن جاتی ہے ۔زندگی کا کھیل آنکھ مچولی نہیں کہ ایک چھپ جائے تو ڈھونڈتے رہو ۔یہ منظر اور نظر کی محبت کا کھیل ہے ۔ نظر جب پانے کی خواہش پالیتی ہے ۔تو منظرمنظورنظر ہو جاتے ہیں اور نظر میں بس جاتے ہیں۔ اوجھل روشنی ہوتی ہے منظر اندھیرے میں بھی روشن رہتے ہیں ۔
زندگی گزارنے کا ڈھنگ تو الگ الگ ہو سکتا ۔مگرجینے کا نہیں ۔ جینا جان سے ہے تو زندگی زمین سے وابستہ ہے ۔آنکھ کا دیکھنا دو طرح سے فوکس کیا جاتا ہے دور و نزدیک۔ نظر کی یہ صفت روح سے ہے ۔جسم جامد ہے تحریک زمین سے لیتا ہے ۔چاند پر روح آزاد تو جسم مشین میں قید رہتا ہے ۔اللہ تعالی نے جسم کو زمین کی قید سے آزادی کے لئے صبر و شکر ، استقامت اور عبادت کا پروانہ تھما دیا ۔زندگی اپنے احسانوں کا بدلہ خود چکا دیتی ہے ۔خوشیاں مہک میں تو غم کانٹوں سے لبریز ہیں ۔
روشنیوں میں راہ پانے والے اندھیروں سے چھپتے ہیں ۔روشنی کے جگنو دن میں خود چلتے تو اندھیرے میں راہ دیکھاتے ہیں ۔ اندھیروں میں رہنے والے خود کو شاہ گلستان سمجھتے ہیں ۔تنہائی میں ہو کا عالم انہیں اپنی کامیابی و کامرانی کے اعلان کا نقارہ سنائی دیتا ہے ۔وہ روشنیوں سے اتنی دور جا چکے ہوتے ہیں کہ اندھیرے انہیں سنگی ساتھی معلوم ہوتے ہیں ۔ہوس و حرص کی آگ میں جل کرشاہ گلستان سمجھنے والے روشنیوں سے چھپے اندھے دکھائی دیتے ہیں ۔
قرآن و سنت اندھیروں میں روشنی سے اجالا لانے کا ذریعہ ہے ۔اب بھی کوئی اندھیرے میں رہنا چاہتا ہے تو ایسی عقل پہ ماتم کے سوا کوئی چارہ نہیں ۔
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
7 تبصرے:
محمودالحق صاحب خونی رشتے بھی کچھ لو اور کچھ دو کے محتاج ہوتے ۔آپکے ایس او ایس سنگلز دور دور تک محسوس تو کئے جاسکتے ہیں مگر آپ کے ان سگنلز کو واقعی میں جنہوں نے محسوس کرنا ہے، آپ خود بھی انسے بہت دور جاتے ہوئے لگ رہے ہیں ۔
واہ صاحب کیا بات ہے
ايک ہوتا ہے علم جس میں کالا علم بھی شامل ہے اور ايک ہوتا ہے علم نافع ۔ ہمارا مسئلہ يہ ہے کہ سب بغير امتياز علم حاصل کرنا چاہتے ہيں
دوسرا مسئلہ يہ ہے کہ لوگ ترقی چاہتے ہيں ايسی جس سے اُن کی انا کو تسکين ہو ۔ روح بے شک مجروح ہو جائے
بہت سارے علوم ایسے بھی ہوتے جنہیں سیکھنے پہ آؤ تو سکھانے والے کہتے ہیں ۔آئی کین گیو یو، کین یو ٹیک اٹ؟
ہیلو۔ہائے۔اےاواے
کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پہ تو سارا معاشرہ ہی توازن رکھتا ہے مگر کچھ دو اور پھر کچھ لو کے متعلق کیا خیال ہے .
افتخار اجمل بھوپال صاحب
علم حاصل کرنا کی تشریع ہمارے ہاں مختلف ہے کامیابی حاصل کرنے کے لئے کالا علم بھی سہارے کے طور پر استعمال میں آتا ہے . دیواروں سے بڑھ کر اب تو ٹی وی پر اشتہارات آ پہنچے ہیں .
شازل صاحب
اصل بات تو محسوس کرنے کی ہے.
کچھ لو اور کچھ دو برابر ہے کچھ دو اور کچھ لو، انکا ایوریج برابر ہے
( کچھ لو جمع کچھ دو ) تقسیم دو برابر ہے ( کچھ دو جمع کچھ لو ) تقسیم دو
اگر کچھ لو برابر ہے کچھ دو تو یہ ہوگیا
دو ضرب ( کچھ لو یا کچھ دو ) تقسیم دو برابر ہے دو ضرب ( کچھ دو یا کچھ لو ) تقسیم دو
اور باقی بچا
کچھ لو یا کچھ دو برابر ہے کچھ دو یا کچھ لو
اب لڑائی کب ہونی ہے، میرا کچھ دو بڑا ہے تمہارے کچھ لو سے ۔
Post a Comment