Jun 2, 2010
کھونے کا خوف یا پانے کی لذت
جب تک خواہشیں جنون نہ بن جائیں زندگی ادھورے پن کا شکار رہتی ہے ۔ارادے تبھی قابل عمل ہوتے ہیں جب شکار کے لئے حالات ساز گار ہوتے ہیں ۔نظر کا نشانہ شکار پہ ہو اور عمل کا تیر عقل دانش کی کمان سے نکلے تو پگڈنڈیوں کی چھپن چھپائی سے منزل گھائل ہونے سے نہیں بچ پاتیں ۔محبتِ مقصد سوچ کے ترازو کی بجائے قلب کے وزنِ باٹ پہ ہو تو انتظار میں ایک عمر بھی شائد بیت جائے مگر حصول کی ضمانت ہمیشہ رہتی ہے ۔
دولت کی خواہش میں محبت کی قربانی دینے سے آسائشیں آسانی سے حاصل کی جا سکتی ہیں ۔ مگر پھر محبت کی صرف خواہش باقی رہ جاتی ہے ۔ جسے سہولت و آسائش سے بدلا جاتا ہے ۔لیکن وہ نعم البدل نہیں ہوتا ۔احساس ندامت پشیمان رکھتا ہے تا وقتکہ اس کا مداوا نہ کیا جائے ۔تخیل ارمان سے جو حاصل کیا جائے وہ مداوا کا محتاج ہوتا ہے مگر جو احساس کے جزبہ سے بےوفائی کا مرتکب ہو وہ لا علاج مرض کی طرح ناقابل علاج رہتا ہے ۔ایسی صورت میں مداوا کی حیثیت ثانوی رہ جاتی ہے ۔
احساس محبت کو پا کر خواہش آسائش سے عارضی طور پر محروم رہا جا سکتا ہے مگر زندگی کے کسی بھی موڑ پہ اگر ایک سے نہ سہی کسی دوسرے کے توسط سے جلد یا بدیر خواہشیں عملی جامہ پہن لیتی ہیں ۔محبت کے رشتے عقل وشعور کی بجائے احساس قلب سے بندھتے ہیں ۔جو کسی بھی بیرونی اثرات کے دباؤ سے لا تعلق ہوتے ہیں ۔اپنی ذات میں وہ مکمل ہوتے ہیں ۔کسی کے پیچھے رہنے سے اپنے راستوں کا تعین نہیں کرتے ۔بلکہ وہ خود منزل تک پہنچنے کے راستوں کو روشن رکھتے ہیں ۔
محبت تو صرف ایک جزبہ ہے جسے حاصل نہیں کیا جا سکتا ۔اور اس میں کمی نہیں ہوتی ۔لیکن مال ودولت ، زیبائش و آرائش حاصل ہونے کے بعد بھی تشنگی بڑھتی رہتی ہے ۔جو شے کبھی بھی کسی وقت کسی سے بھی حاصل کی جا سکے وہ سوچ پہ اتنی بھاری ہو جائے کہ قلب کے محسوسات کو زیر کر لے تو ایسی کامیابی نا مکمل رہتی ہے ۔
ایک وقت کے بعد قلب کی دھڑکنیں یاد کے ساز سے ترنم دیتی ہیں ۔جو احساس ندامت میں گھلنے کا عمل تیز کر دیتی ہیں ۔تنہائیاں اچھی لگتی ہے اور ہنگامہ خیز خوشیاں ہنگامہ بن جاتی ہیں ۔سکون کے لئے کمرے کا کونہ ہی تسکین کا مرکز رہ جاتا ہے ۔جہاں پل دو پل کے لئے ماضی کی یادیں قلب میں احساس کے لمس کو محسوس کرتی ہیں ۔چند پل ہی زندگی پہ بھاری ہو جاتے ہیں ۔زندگی کی ترجیحات تو بدلتی رہتی ہیں مگر قلب کی محبتیں جہاں رک جائیں آگے بڑھنے میں زور کی بجائے صبر و شکر کی محتاج ہو جاتی ہیں ۔جنہیں جب چاہا روک لیا جب چاہا چھوڑ دیا کی آساس پر مرضی و منشاء کے تابع نہیں کیا جا سکتا ۔
مال و دولت کی ہوس میں محبت کی قربانی دینے کا رواج زور پکڑ چکا ہے ۔قلب کے رشتے نفع و نقصان کے ترازو پہ نہیں رکھے جا سکتے ۔قلب جسے چاہتا ہے اور جس سے چاہا جاتا ہے ۔اس تعلق کو بھی عقل کی کسوٹی پہ رکھا جاتا ہے کہ فائدہ کہاں اور کتنا ہے ۔بظاہر ایسے معاملات فائدہ یا نقصان کے تناظر میں دیکھے جاتے ہیں ۔انہیں چھوڑ کر کمزوری چھپائی نہیں جا سکتی ۔طاقت بڑھائی نہیں جا سکتی ۔خود میں خوشیوں کی شہنائیاں محو رقص رہتی ہیں ۔مگر شادیانے زیادہ دیر اپنا جادو نہیں دکھا پاتے ۔سال ہا سال کی پیش بندیاں پل بھر میں ریت کے گھروندے کی مثل اپنا گھر بناتی اور گرا دیتی ہیں ۔ایسی کامیابیاں خشک ریت کی مانند مٹھی میں تو چلی آتی ہیں مگر گرفت بڑھانے سے پھسلتی چلی جاتی ہیں ۔ اور ہاتھ خالی کا خالی رہتا ہے ۔
نفع و نقصان یا جزا و سزا کی بنیاد پر جو راستہ اختیار کیا جاتا ہے ۔وہ ہر وقت خوف میں مبتلا رکھتا ہے ۔ جو محبت کی بنیاد پہ اختیار کیا جائے وہ تسکین و چاہت کا مرکب ہوتا ہے ۔جو سکون کی تلاش میں سرگرداں نہیں بلکہ اس کا مرکز ہوتا ہے ۔قلب ِمحبت تکلیف کےاحساس کو کم کرتا ہے ۔ دنیاوی محبت کمی آنے پہ اس احساس کو بڑھاتی ہے ۔
ایک حقیقت سو افسانے تو کئی بار لکھے جا چکے ہیں ۔جو کردار میں افسانوی حیثیت اختیار کئے رکھتے ہیں ۔کبھی وہ جیت جاتے ہیں تو کبھی بازی ہار جاتے ہیں ۔
ایک محبت میں سو بہانے بھی ہوں مگر کردار حقیقت کا رنگ بھرے ہوتے ہیں ۔محبت کرنا جب کھونے کی آساس پہ ہو تو پانا ملزوم ہو جاتا ہے ۔محبت کو سمجھنے میں کمی اس لئے ہے کہ عشق حقیقی ہو یا محبت مجازی پڑھنے کا انداز افسانوی رہتا ہے ۔عقل کی کسوٹی پہ سوچ کے ترازو سے اسےگھٹایا بڑھایا جا تا ہے ۔ پا لیا یا کھو دیا پہ انجام رکھ دیا جاتا ہے ۔جس کا اختتام لازم ہے ۔
جس محبت کا نقطہ آغاز یہ جہاں ہو اور اختتام وہ جہاں ۔ وہ کھونے کے خوف پہ نہیں پانے کی لذت سے ہمکنار رہتا ہے ۔
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
0 تبصرے:
Post a Comment