Sep 26, 2014

کرب واذیت کے کھونٹے

اردو کی ٹیچر نے دوسری جماعت کے طالب علم کو دونوں ہاتھ سامنے پھیلانے کا حکم صادر فرمایا ۔  حکم کی بجاآوری کے ساتھ  ہی اس نے اپنے بیگ میں سے کالے رنگ کا ایک ڈیڈھ  فٹ لمبا ڈنڈانکالا۔پانچ پانچ دونوں ہاتھوں پر کھانے کے بعد سوجے ہاتھوں نےتختی کبھی  گھربھول نہ آنے کی قسم کھانے کے ساتھ ساتھ مولا بخش سے ملاقات کا یہ شرف کبھی  نہ  بھلایا۔زندگی میں پہلا سبق اسے بھولنے کی وجہ سے بھگتنا پڑا ۔اس کے بعد وہ ہر سبق کی طرح ساتھ رکھنے والی چیزوں کو گن گن کر روزانہ بیگ میں سنبھالتا۔بھولنے کی ایک معمولی غلطی کی سزا کو اس نے دو ہفتوں تک اپنی نرم ہتھیلیوں پر محسوس کیا تھا۔جیسے ہر رات اس کی ہتھیلیوں پر کوئی آنگارے رکھ رہا ہو۔جسم بڑے ہو جاتے ہیں مگر سزا کے اثرات وہیں رہ جاتے ہیں۔کرب واذیت کے یہ کھونٹے بچپن میں ہونے والی زیادتیوں ، نا انصافیوں  کےسنگل سے چھٹکارہ پانے کی اُمید جوانی سے بڑھاپے کی طرف پہنچا کر بھی پوری نہیں ہونے دیتے۔انسان قدموں سے میلوں کا سفر اور سوچ میں صدیوں کا سفر طے کر لینے  کے باوجود ان کھونٹوں سے چھٹکارہ نہیں پا تا۔
ہمدردی کرنے والے انہیں فریب دکھائی دیتے ہیں۔کھونٹے سے کھولنے والے انہیں ظالم نظر آتے ہیں۔سمجھتے ہیں کہ انہیں کسی دوسرے کھونٹے سے باندھنے کے لئے لے جایا جا رہا ہے۔جنہیں اعتماد سے ٹھیس پہنچتی ہے وہ اعتبار سے ڈرتے ہیں،جھوٹ سے ڈسنے والے سچ سے خوفزدہ رہتے ہیں۔بھولنے کی سزا پانے والے یاد کرنے سے ڈرتے ہیں۔خوف کا ایک عفریت روح میں سما کر اتنا طاقتور ہو جاتا ہے جس کے سامنے ایک توانا وجود بھی دوسری جماعت کے طالبعلم کی نازک ہتھیلیوں سے بڑھ کر نہیں ہوتا۔
گھر کی دہلیز اور سکول کی عمارت کے اندر سوچ کی آزادی کو باندھنے کے چھوٹے بڑے کھونٹے صدیوں سے معاشرے کے باڑوں میں سختی سے زمین میں گاڑے ہوتے ہیں۔خوش قسمتی سے اگر کوئی ان سے چھٹکارہ پا بھی لے تو بھول جانے کی سزا یاد نہ رکھنے کی عادت سے نکلنے نہیں دیتی۔اس کے بعد تلاش کے لا متناہی سلسلے پہاڑوں کی چوٹیوں کی طرح زمین پر اکڑ کر کھڑے ہو جاتے ہیں۔کوئی علم کے قلم پر سوار لفظوں کے سمندر میں اُتر جاتا ہے تو کوئی عقل سے ستاروں کی روشنیوں میں کھو کر منزل پانے کی نوید سننے میں بیتاب ہو جاتا ہے۔سفر میں آگے بڑھ جانے والے اگر آنکھیں موندھ لیں تو  بعض اوقات منزل پیچھے رہ جاتی ہے۔تلاش  کے بعد منزل پاناہمیشہ خمار میں مبتلا رکھتی ہےلیکن جب مقصد نہ رہے تو سفر باقی رہ جاتا ہے منزل کہیں کھو جاتی ہے۔جسے مشکل سے ڈھونڈا جاتا ہے اسے آسانی سے کھودیاجاتا ہے۔جسے پا کر کھو دیا جائے وہ منزل اپنے نشان بھی مٹاتی جاتی ہے۔ یہ بھول بھلیوں کا ایسا پزل ہے جس میں آسانی سے داخل ہو کر مشکل سے نکلا جاتا ہے ۔ ہر بار نیا راستہ بنتا ہے تو نیا راستہ ہی نکلتا ہے۔جس میں سے ایک بار گزر کر پچھلے راستے خودبخود بند ہوتے چلے جاتے ہیں۔جیسے امتحانات میں ایک ہی کتاب سے سوالات ہر امتحان میں بدل جاتے ہیں۔جوابات چاہے کتنے ہی ازبر کیوں نہ ہوں ، ایک بار یادداشت کے پردے پر بے ہنگم ڈھول کی دھمک سنائی دیتی ہے۔ایک وقت کے بعد اگر کورس ہی تبدیل ہو جائے تو پھر پہلے جوابات ختم ہو جاتے ہیں اور نئے سوالات جنم لیتے ہیں۔جن کے حل کے لئے تلاش کا سلسلہ پھر سے شروع ہو جاتا ہے۔
سوچ و افکار کی لینڈ سلائیڈنگ سے راستے مسدود ہو جاتے ہیں۔پھر دو ہی صورتیں باقی بچتی ہیں پلٹ جاؤ یا کسی دوسرے طویل راستہ سے منزل مقصود تک پہنچنے کی کوشش شروع کر و۔کیونکہ  بعض اوقات ساری توانائی خرچ کر کے بھی بھاری پتھر اُٹھانے سے بھی راستے صاف نہیں ہوتے۔

محمودالحق
در دستک >>

Sep 19, 2014

کیفیتِ اظہار

کینوس پر رنگ بکھیرتا مصور دو آنکھوں کو وہ دکھانا چاہتا ہے جو ستاروں سے چھپ کر اسی کی روشنی سے چرایا ہو۔پھول کی نازک پتیوں سے جیسے خوشبو کو پایا ہو۔آسمان سے نچھاور ہوتے سفید روئی جیسے گالوں کو پیاسی دھرتی نے حدت کو چھپا کر ٹھہرایا ہو۔گرم ہواؤں کو سرد نم بادل  نےگڑگڑاتی بجلی سے دور بھگایا ہو۔کوئل نےکھلی چونچ سے سُر کا جادو جگایا ہو۔
پینٹنگ دیکھنے والا مبہوت ہو جائے ۔شاہکار کینوس سے نکل کر اُس کی روح میں جذب لہو بن دوڑنے لگے۔ایک کے بعد ایک مریض عشق بوجھل قدموں سے باہر جانے کے راستے سے اپنی سواری کا مقام ریگستان میں بھٹکے اونٹ کی طرح کبھی دائیں تو کبھی بائیں جانے کے لئے پریشانی کا شکار ہو جائے۔
تو پھر وہ مصور بھول جاتے ہیں تصویر کشش کھو دیتی ہے۔ ایک ہلکی مسکراہٹ مونا لیزا بن کر ذہن پر سوار ہو جاتی ہے۔جس کے چرچے صدیاں گزرنے پر مندمل نہیں ہو پاتے۔وہ احساس کسی شمار میں نہیں لایا جا سکتا۔کیونکہ وہ اعداد نہیں جو تعداد سے کیفیت اظہار کو بڑھا چڑھا کر کھونے اور پانے کے ترازو پر تل سکے۔
گھر کے دروازے آنگن میں ہی کھلتے ہیں اور کھڑکیاں گلیوں میں ،جہاں آنے جانے والے صرف تانک جھانک کر سکتے ہیں۔ لوہے کی ان سلاخوں میں سے گملوں میں کھلایا گیا ایک پھول اور چورن کی پڑیا پر لکھا ایک شعر باآسانی گزر سکتا ہے مگر کھانسنے والے  کے لئے دوائی اور بلکتے بچوں کے لئے چنگیر پر چند لقمے نہیں  جوانہیں ایک نظر نہیں بھاتے۔
حقیقت جتنی تلخ ہوتی ہے اس کے احساس کی تلخی کوبرا سانپ کے زہر سے بھی زیادہ شدت سے رگوں میں جوگی کی بین پر مستی میں محو رقص رہتی ہے۔دور رہ کر تماشا دیکھنے والے ایک ایک قدم پیچھے ہٹتے لطف اندوزی کی کیفیت سے سرشاری میں مبتلا رہتے ہیں۔ اعداد کی گنتی اور ستاروں کی چالوں کا کھیل نہیں کہ آگے بڑھنے پر سکو ربننے لگیں اور پیچھے ہٹنے پر وقت بڑھ جائے۔
قلب دھک دھک سے جو وجود کو دستک دیتا ہے پیٹنے پر آ جائے تو قیامت برپا کر دیتا ہےاورخاموش ہو جائےتو سکوت طاری کر دیتا ہے۔خود سے کھیلنے والوں کو گنتی بھلا دیتا ہے۔ جو آسمانوں کی سیر کرتے ہیں انہیں منٹوں میں زمین  چٹوا دیتا ہے۔
دھرتی کی پانی سے محبت کی کہانی آدم کی پیدائش سے بہت پہلے سے ہے مگر اس کا انجام آدم کے اختتام پر ہو گا جب پہاڑ روئی کے گالوں کی طرح ہواؤں میں بکھر جائیں گے اورزمین سیدھی بچھا دی جائے گی۔ پھر نہ ہی دھرتی پیاسی رہے گی اور نہ ہی بادل اسے بجھانے آئے گا۔یہ کہانی تب تک چلے گی جب تک کینوس پر مصور کے رنگ بکھرتے رہیں گے۔ مسکراہٹوں کے جادو سر چڑھ کر بولتے رہیں گے۔
جن کی پختگیء خیال یقین کی ڈوریوں سے بندھی ہے وہ حقیقت شناسی کی گانٹھوں سے آگے بڑھنے کے لئے کوشاں رہتے ہیں۔
شاخوں پہ کھلتے پھول  ایک وقت کے بعد مرجھا کر حسنِ آرزو سے تعلق کھو دیتے ہیں۔ آسمان سے گرتی نرم روئی جیسی برف دھرتی کی حدت بڑھنے  پر پگھل جاتی ہے۔وہ اتنی ہی دیر ساتھ نبھاتی ہے جتنی دیر تک وہ اسے جذب کرنے کے قابل رہے ۔اور پانی اپنا راستہ بناتے ہوئے اپنے اصل کی طرف رواں دواں ہو جاتاہے۔
دو آنکھیں پھر ایک لمبے سفر پہ کسی نئے کینوس پر مصور کے پھیلائے رنگوں سے مسکراہٹ پانے کے انتظار میں ہر پڑاؤ پر رک جاتی ہیں۔جہاں ہزاروں آنکھیں ایک دوسرے میں جھانک کر پھر آگے بڑھ جاتی ہیں۔ناآشنائی کے نا ختم ہونے والے کھیل کی طرف جو ایک پزل کے حل ہونے پر اگلے قدرے مشکل پزل میں داخل کر دیتا ہے۔امتحان کے یہ کڑے وقت آزمائش کی مضبوط گرفت ڈھیلی نہیں ہونے دیتے۔  ساحل سمندر پر بنائے ریت کے گھروندے بار بار پانی میں بہہ جانے کے بعد بھی ویسے ہی بار بار بنائے جا سکتے ہیں۔ کیونکہ وہ نہ تو تخلیق ہیں اور نہ ہی شاہکار، جو دو آنکھوں سے جزب سے سرشار ہو کر مصور کا تصور مٹا سکیں۔ مگر گہرے پانیوں میں اُترنے والی کشتی ایک ہی بار تکمیل وپختگی کے بعد لہروں کے سپرد کی جاتی ہے۔کیونکہ ایک معمولی سوراخ اسے دوبارہ ابھرنے کی مہلت نہیں دیتا۔

محمودالحق
              
در دستک >>

Sep 4, 2014

قیدِ بے اختیاری

چھوٹی چڑیا چھوٹے سے پنجرے میں قید بڑی بے چینی سے جھولے سے نیچے پھر جھولے پہ اُڑ اُڑ جاتی۔بس اتنا سمجھ کر چہچہاتی کہ ایک دن یہاں سے آزادی پا کر اس سے بڑی اُڑان بھروں گی۔اور ایک دن اچانک پنجرہ کی چھوٹی سی کھڑکی کھلا پا کر اُڑان بھر جاتی۔ مگر جسے وہ آزادی سمجھ کر اونچی پرواز سے لطف لینے لگی کچھ توقف کے بعد وہی کمرہ اس بے چاری چڑیا کے لئے بڑے پنجرے میں بدل گیا۔آزادی کے جس دیپ کو وہ جلا کر مدھم ہوتی قید ِ روشنی کو سہارا دیئے ہوئے تھی۔وہ ایک بار پھر اس کے لئے نا اُمیدی اور مایوسی کے اندھیروں سے خوف میں مبتلا ہونے لگتی ہے۔بچوں کی چھیڑ چھاڑ سے عاجز اب وہ خونخوار بلیوں کے پنجوں کی زد میں چلی گئی۔جہاں اسے خود کے بچاؤ کے لئے اپنے پروں کی طاقت سے زیادہ اندھیرے میں چمکتی آنکھوں سے اوجھل رہنے میں زندہ رہنے کی گارنٹی ملتی ہے۔
سفاری پارک میں ہاتھیوں کو جنگل جیسی مستی کی اجازت نہیں۔شیروں کو چنگھاڑنے کی اتنی اجازت ہوتی ہے وہ بدن کو انگڑائی سے تازہ دم رکھ سکیں۔اُچھل کود کرتے کنگرو ، کانوں سے چوکنا رہنے والےہرن تماشائیوں کے لئے تفریع طبع کا سامان بن کر رہ جاتے ہیں۔جس نے جہاں آنکھ کھولی وہیں وہ اس کا قیدی ہے۔ایک پنجرہ سے دوسرے  بڑےپنجرہ میں منتقلی ہی اسے آزادی کے نشہ میں مبتلا کر دیتی ہے۔پنجرے بدلتے چلے جاتے ہیں یہاں تک کہ روئے زمین کی قید میں چلا جاتا ہے۔دنیا کا ہر بڑا ملک اس کی دسترس میں آ جاتا ہے۔فاصلے سوچوں سے نکل کر گھڑی کی سوئی سے منسلک ہو جاتے ہیں۔
آزادی پا کر مطمئن نہ ہونا اسے اگلی منزل کی قید میں پہنچا دیتا ہے۔انسان کا سفر کبھی ختم نہیں ہوتا اور نہ ہی قید ختم ہوتی ہے۔جہاں رہ کر وہ آزادی سے مسرور ہوتا ہے وہیں کسی اگلی منزل کے قیدی کو وہ قیدی ہی نظر آتا ہے۔قید کے یہ سلسلے پہاڑوں کے سلسلہ جیسے ہیں ایک پہاڑ کی چوٹی پر دوسرے پہاڑ کا نقطہ آغاز۔
زندگی کی حقیقتوں کو کہانیوں سے تشبیہ دینے والے تو بہت مل جائیں گے۔محبوب کو لفظوں کے ترازو میں تول کر بیش قیمت بنا دیں گے۔محبت کو جگر سے خون لے کر قلب کی روانی میں بہا دیں گے۔جس سراب کے وہ قیدی ہوتے ہیں زمانہ بھی اسی کا قیدی بنا دیتے ہیں۔آبشاروں چشموں سے اُبلتا صاف شفاف پانی پیاس بجھاتا ، سیراب کرتا ہوا،شور مچاتا ندی نالوں سے ہوتا ہوا دریاؤں سے گزر کر پھر سمند ر میں گر کر مٹھاس کھو کر پھر اپنی باری پہ بخارات بن کر پہاڑوں میدانوں میں بادل بن کر برسنے کے لئے بیتاب رہتا ہے۔
چھوٹی چڑیا پنجرہ کی رہائی سے کمرے کا قیدی ہونے پر فخر سے سینہ نہیں تان سکتی۔قید کے یہ سلسلے ایک پنجرہ سے دوسرے تک بڑھتے چلے جاتے ہیں۔حتی کہ روئے زمین کی قید تک بات چلی جاتی ہے۔ان میں سے بعض ایک قدم آگے بڑھ کر کائنات کی چکاچوند روشنیوں کے قیدی بن جاتے ہیں اور انہیں زمین ان کی تھکن سے بھی چھوٹی نظر آتی ہے۔
جنہیں سچی محبت کی تلاش ہوتی ہے وہ صرف محبوب کے طرز تکلم سے مطمئن ہو جاتے ہیں۔حالانکہ یہ قید کے سلسلے ایک سے بڑھ کر ایک کی تلاش کے بعد بھی منطقی انجام تک نہیں پہنچ پاتے۔یہ میٹھے رس بھرے آڑو کی مانند ایک وقت کے بعد اپنے ہی وجود سے پیدا ہونے والی سونڈی کا شکار ہو جاتے ہیں۔جن کا اس خوبصورت چیز سے کوئی تعلق بھی نہیں ہوتا۔جس طرح روزمرہ کے معمولات زندگی دھیرے دھیرے زہر گھولتے ہیں۔آہستہ آہستہ سارا وجود اس کے کرب سے تکلیف کا شکار ہو جاتا ہے۔
غم دکھ درد وجود کو ایسا قیدی بنا کر رکھتا ہے کہ وہ سمجھتا ہے کہ آنکھیں بند کرنے سے درد کا احساس کم ہو جائے گا۔جان چھوٹ جانے کو درد چھوٹ جانے کا مداوہ سمجھتے ہیں۔انسان جتنا دل پھینک محبت میں ہوتا ہے خواہشات میں نہیں ہوتا۔ماں باپ کی محبت ،بہن بھائیوں کی محبت، اولاد کی محبت اور محبوب کی محبت۔قید کے یہ سلسلے بھی دل کا چین اور راتوں کا سکون چھین لیتے ہیں۔مریض کبھی لاعلاج نہیں ہوتا مرض لا علاج ہو جاتا ہے۔درد کا علاج دکھ سے ممکن نہیں ہوتا۔مجبوری لاچاری میں ضرورت سے دور رہتی ہے۔دکھ کی بھٹی سے نکل کر انسانوں سے نیک اعمال خود بخود سرزد نہیں ہونے لگتے۔
جینے کے لئے سر دھڑ کی بازی لگانی پڑتی ہے اور پانے کے لئےآگے بڑھنے کی ہمت پیدا کرنی پڑتی ہے۔جو چند لفظوں کے اظہار کی قربانی دے کرہزاروں لفظوں کے نیچے دب جاتے ہیں۔وہ سمجھ ہی نہیں پاتے کہ جس طرح خیرات میں ملی روٹی اور بخشش میں ملی زندگی سے صرف زندہ رہا جا سکتا ہے۔اُدھار کے الفاظ لاکھوں بھی ہوں تو ایک مسکراہٹ کے سامنے ہیچ ہو جاتے ہیں۔ 
پنجرے میں قیدیوں کے لئے یہ تخیل ہے ۔مگر جو ان سے آزادی پا لیتے ہیں ان کے لئے یہ ایک حقیقت ہے۔

تحریر:  محمودالحق
در دستک >>

سوشل نیٹ ورک

Flag Counter