Sep 4, 2014

قیدِ بے اختیاری

چھوٹی چڑیا چھوٹے سے پنجرے میں قید بڑی بے چینی سے جھولے سے نیچے پھر جھولے پہ اُڑ اُڑ جاتی۔بس اتنا سمجھ کر چہچہاتی کہ ایک دن یہاں سے آزادی پا کر اس سے بڑی اُڑان بھروں گی۔اور ایک دن اچانک پنجرہ کی چھوٹی سی کھڑکی کھلا پا کر اُڑان بھر جاتی۔ مگر جسے وہ آزادی سمجھ کر اونچی پرواز سے لطف لینے لگی کچھ توقف کے بعد وہی کمرہ اس بے چاری چڑیا کے لئے بڑے پنجرے میں بدل گیا۔آزادی کے جس دیپ کو وہ جلا کر مدھم ہوتی قید ِ روشنی کو سہارا دیئے ہوئے تھی۔وہ ایک بار پھر اس کے لئے نا اُمیدی اور مایوسی کے اندھیروں سے خوف میں مبتلا ہونے لگتی ہے۔بچوں کی چھیڑ چھاڑ سے عاجز اب وہ خونخوار بلیوں کے پنجوں کی زد میں چلی گئی۔جہاں اسے خود کے بچاؤ کے لئے اپنے پروں کی طاقت سے زیادہ اندھیرے میں چمکتی آنکھوں سے اوجھل رہنے میں زندہ رہنے کی گارنٹی ملتی ہے۔
سفاری پارک میں ہاتھیوں کو جنگل جیسی مستی کی اجازت نہیں۔شیروں کو چنگھاڑنے کی اتنی اجازت ہوتی ہے وہ بدن کو انگڑائی سے تازہ دم رکھ سکیں۔اُچھل کود کرتے کنگرو ، کانوں سے چوکنا رہنے والےہرن تماشائیوں کے لئے تفریع طبع کا سامان بن کر رہ جاتے ہیں۔جس نے جہاں آنکھ کھولی وہیں وہ اس کا قیدی ہے۔ایک پنجرہ سے دوسرے  بڑےپنجرہ میں منتقلی ہی اسے آزادی کے نشہ میں مبتلا کر دیتی ہے۔پنجرے بدلتے چلے جاتے ہیں یہاں تک کہ روئے زمین کی قید میں چلا جاتا ہے۔دنیا کا ہر بڑا ملک اس کی دسترس میں آ جاتا ہے۔فاصلے سوچوں سے نکل کر گھڑی کی سوئی سے منسلک ہو جاتے ہیں۔
آزادی پا کر مطمئن نہ ہونا اسے اگلی منزل کی قید میں پہنچا دیتا ہے۔انسان کا سفر کبھی ختم نہیں ہوتا اور نہ ہی قید ختم ہوتی ہے۔جہاں رہ کر وہ آزادی سے مسرور ہوتا ہے وہیں کسی اگلی منزل کے قیدی کو وہ قیدی ہی نظر آتا ہے۔قید کے یہ سلسلے پہاڑوں کے سلسلہ جیسے ہیں ایک پہاڑ کی چوٹی پر دوسرے پہاڑ کا نقطہ آغاز۔
زندگی کی حقیقتوں کو کہانیوں سے تشبیہ دینے والے تو بہت مل جائیں گے۔محبوب کو لفظوں کے ترازو میں تول کر بیش قیمت بنا دیں گے۔محبت کو جگر سے خون لے کر قلب کی روانی میں بہا دیں گے۔جس سراب کے وہ قیدی ہوتے ہیں زمانہ بھی اسی کا قیدی بنا دیتے ہیں۔آبشاروں چشموں سے اُبلتا صاف شفاف پانی پیاس بجھاتا ، سیراب کرتا ہوا،شور مچاتا ندی نالوں سے ہوتا ہوا دریاؤں سے گزر کر پھر سمند ر میں گر کر مٹھاس کھو کر پھر اپنی باری پہ بخارات بن کر پہاڑوں میدانوں میں بادل بن کر برسنے کے لئے بیتاب رہتا ہے۔
چھوٹی چڑیا پنجرہ کی رہائی سے کمرے کا قیدی ہونے پر فخر سے سینہ نہیں تان سکتی۔قید کے یہ سلسلے ایک پنجرہ سے دوسرے تک بڑھتے چلے جاتے ہیں۔حتی کہ روئے زمین کی قید تک بات چلی جاتی ہے۔ان میں سے بعض ایک قدم آگے بڑھ کر کائنات کی چکاچوند روشنیوں کے قیدی بن جاتے ہیں اور انہیں زمین ان کی تھکن سے بھی چھوٹی نظر آتی ہے۔
جنہیں سچی محبت کی تلاش ہوتی ہے وہ صرف محبوب کے طرز تکلم سے مطمئن ہو جاتے ہیں۔حالانکہ یہ قید کے سلسلے ایک سے بڑھ کر ایک کی تلاش کے بعد بھی منطقی انجام تک نہیں پہنچ پاتے۔یہ میٹھے رس بھرے آڑو کی مانند ایک وقت کے بعد اپنے ہی وجود سے پیدا ہونے والی سونڈی کا شکار ہو جاتے ہیں۔جن کا اس خوبصورت چیز سے کوئی تعلق بھی نہیں ہوتا۔جس طرح روزمرہ کے معمولات زندگی دھیرے دھیرے زہر گھولتے ہیں۔آہستہ آہستہ سارا وجود اس کے کرب سے تکلیف کا شکار ہو جاتا ہے۔
غم دکھ درد وجود کو ایسا قیدی بنا کر رکھتا ہے کہ وہ سمجھتا ہے کہ آنکھیں بند کرنے سے درد کا احساس کم ہو جائے گا۔جان چھوٹ جانے کو درد چھوٹ جانے کا مداوہ سمجھتے ہیں۔انسان جتنا دل پھینک محبت میں ہوتا ہے خواہشات میں نہیں ہوتا۔ماں باپ کی محبت ،بہن بھائیوں کی محبت، اولاد کی محبت اور محبوب کی محبت۔قید کے یہ سلسلے بھی دل کا چین اور راتوں کا سکون چھین لیتے ہیں۔مریض کبھی لاعلاج نہیں ہوتا مرض لا علاج ہو جاتا ہے۔درد کا علاج دکھ سے ممکن نہیں ہوتا۔مجبوری لاچاری میں ضرورت سے دور رہتی ہے۔دکھ کی بھٹی سے نکل کر انسانوں سے نیک اعمال خود بخود سرزد نہیں ہونے لگتے۔
جینے کے لئے سر دھڑ کی بازی لگانی پڑتی ہے اور پانے کے لئےآگے بڑھنے کی ہمت پیدا کرنی پڑتی ہے۔جو چند لفظوں کے اظہار کی قربانی دے کرہزاروں لفظوں کے نیچے دب جاتے ہیں۔وہ سمجھ ہی نہیں پاتے کہ جس طرح خیرات میں ملی روٹی اور بخشش میں ملی زندگی سے صرف زندہ رہا جا سکتا ہے۔اُدھار کے الفاظ لاکھوں بھی ہوں تو ایک مسکراہٹ کے سامنے ہیچ ہو جاتے ہیں۔ 
پنجرے میں قیدیوں کے لئے یہ تخیل ہے ۔مگر جو ان سے آزادی پا لیتے ہیں ان کے لئے یہ ایک حقیقت ہے۔

تحریر:  محمودالحق

2 تبصرے:

کائناتِ تخیل said...

بجا فرمایا جناب محمودالحق صاحب , تحریر کا ہر لفظ سوچ کے در وا کرتا ہے۔
بس اتنا کہوں گی کہ
جو حق پر ایمان رکھتے ہیں ان کے تخیل اور حقیقت میں کوئی دوئی نہیں ہوتی۔ زندگی کو نادر اور نایاب سکے کی طرح سنبھال کر رکھنے اور برتنے والے اس سکے کے دونوں رخ بھی پہچانتے ہیں۔ اور انجان محض ایک ہی رخ دیکھ کر سکے کی مالیت کا اندازہ بلکہ یقین کا تعین بھی کر لیتے ہیں۔

کوثر بیگ said...


بہت عمدہ سوچ اور تحریر ہے ، آپ کا آخری جملہ مضمون کی جان ہے۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ قید میں بھی ہم اپنے زندگی کے مقصد کو نہ بھولے تو ہم خود کو کامیاب کرسکے گے۔کتنے آزادی کے متوالے قیدخانے میں بھی آزادی کی آواز اٹھاتے رہے ۔حصرت یوسف علیہ السلم نے تبلیغ کا کام قید میں بھی جاری رکھا ۔دیکھا جائے تو ماں کی گود کی قید ،سانسوں کی قید ، باپ کے حصار کی قید ،شادی کی قید ،سماج کے بندھن کی قید ،ملکوں کی بندش اور اللہ کی اطاعت و فرضیت تک سب ہی پابندیوں میں مقید ہیں ۔ مگر دیکھا جائے تو یہ ہی قید ہمارے لئے فائدہ مند

Post a Comment

سوشل نیٹ ورک

Flag Counter