Jan 21, 2014

محبت میں جو رنگ آئے تیرا ہی خزینہ ہو


محبت میں جو رنگ آئے تیرا ہی خزینہ ہو
زندگی کا ڈھنگ سکھایا تیرا ہی قرینہ ہو

آنسو تو چھپتے نہیں چلمن پلک سے رواں
قلبِ کثرت سے جو بہتا قلب پسینہ ہو

زندگی باطل تو موت حق سے نہیں رہتی جدا
طلسماتی دنیا ہے اُڑتا بادل تو برستہ مینہ ہو

خوف سے دبکتا کھلی آنکھ کا راز پنہاں
ہاتھ میں آبِ کوثر کا جام خواب دیرینہ ہو

زندگی کا عشق ہی عاشق بناتا دیوانہ ہے
مال و زر کھوجتا سوچتا ایسی ہی حسینہ ہو

آبی گزرگاہوں میں خشکی مسافر بردار ہوں
چمکتا چہرہ امبر تو روتی کیوں سکینہ ہو

ساحل سخت پتھریلا نیلا گہرا سمندر ہے
خوشیوں کو نظر لگتی دل میں جب کینہ ہو

اُڑتا پنچھی ہوا کا دانہ پانی زمیں میں
کوئلہ کان میں رہتا محمود وہی نگینہ ہو

خیال رست   /محمودالحق

۔۔۔٭۔۔۔


در دستک >>

Jan 10, 2014

فیصلے یہی خدا کے مہر ثبتِ تقدیر ہیں


فیصلے یہی خدا کے مہر ثبتِ تقدیر ہیں
وعدہ ہے اس کا کیوں پریشاں فکرِ تصویر ہیں

روشنیوں کا ہجوم ہے تاریکیوں کی تنہائی میں
خود سے ہیں جو جلتے ستارہء آسماں بے نظیر ہیں

تفریح طبع میں جنہیں قیام جیتے زندگیء ایام
پھول میں نہیں ارمان مہک بنتے اکثیر ہیں

چاہے دیواریں ہی اُٹھا دو یا پردے ہی گرا دو
چھپ نہیں پاتے باندھے نفسِ زنجیر ہیں

لٹتے اپنے ہی ہاتھوں بندگی زیست بیگانی ہے
مقام ان کے محمود ہیں نبھاتے جو حکمِ نذیر ہیں

بھروسہء جزا کے رکھتے جو توکل میں ایمان
مشرق ہو یا مغرب عمل ہی ان کے دستگیر ہیں

لگتے کہیں تو پکتے کہیں توشہء مخبون ہیں
قلب پہ ہیں جو رکھتے کلام لہنِ دلگیر ہیں

خدا سے جو جدا ہے زندگی ہی وہ خطا ہے
لکھا نہیں جاتا بےکار ترجمہ بھی تحریر ہیں

خدا نے جو آنکھیں دیں نظارہ پلکِ تصویر ہیں
قلبِ مکان میں یہ سب جہاں تو راہ گیر ہیں

جہاں وہ جاتے ہیں وہاں سے آتے نہیں
پھر کیوں ہیں رکھتے الگ الگ تدبیر ہیں

مغرب میں ہیں جو جاتے مشرق سے ہیں وہ آتے
پھر کیوں ہی یہ پلٹتے جمِ غفیر ہیں

خیال رست   /محمودالحق


۔۔۔٭۔۔۔
در دستک >>

سوشل نیٹ ورک

Flag Counter