فیصلے یہی خدا کے مہر ثبتِ
تقدیر ہیں
وعدہ ہے اس کا کیوں پریشاں فکرِ
تصویر ہیں
روشنیوں کا ہجوم ہے تاریکیوں کی
تنہائی میں
خود سے ہیں جو جلتے ستارہء
آسماں بے نظیر ہیں
تفریح طبع میں جنہیں قیام جیتے
زندگیء ایام
پھول میں نہیں ارمان مہک بنتے
اکثیر ہیں
چاہے دیواریں ہی اُٹھا دو یا
پردے ہی گرا دو
چھپ نہیں پاتے باندھے نفسِ
زنجیر ہیں
لٹتے اپنے ہی ہاتھوں بندگی زیست
بیگانی ہے
مقام ان کے محمود ہیں نبھاتے جو
حکمِ نذیر ہیں
بھروسہء جزا کے رکھتے جو توکل
میں ایمان
مشرق ہو یا مغرب عمل ہی ان کے
دستگیر ہیں
لگتے کہیں تو پکتے کہیں توشہء
مخبون ہیں
قلب پہ ہیں جو رکھتے کلام لہنِ
دلگیر ہیں
خدا سے جو جدا ہے زندگی ہی وہ
خطا ہے
لکھا نہیں جاتا بےکار ترجمہ بھی
تحریر ہیں
خدا نے جو آنکھیں دیں نظارہ
پلکِ تصویر ہیں
قلبِ مکان میں یہ سب جہاں تو
راہ گیر ہیں
جہاں وہ جاتے ہیں وہاں سے آتے
نہیں
پھر کیوں ہیں رکھتے الگ الگ
تدبیر ہیں
مغرب میں ہیں جو جاتے مشرق سے
ہیں وہ آتے
پھر کیوں ہی یہ پلٹتے جمِ غفیر
ہیں
خیال
رست /محمودالحق
۔۔۔٭۔۔۔
0 تبصرے:
Post a Comment