Apr 29, 2013

السلام علیکم

میڈیکل سٹور کا دروازہ کھولتے ہی کام کرنے والے تمام افراد پر ایک سرسری نظر ڈال کر میں نے بلند آواز سے السلام علیکم کہا اور سیدھا کاؤنٹر پر جا پہنچا۔ جہاں ایک با ریش نوجوان کمپیوٹر پر نگاہیں جمائے کھڑا تھا۔کچھ دیر اس کا چہرہ تکتارہا۔اس نے سر اُٹھا کر دیکھنے کی زحمت گوارا نہ کی اور نہ ہی سلام کا جواب دیا۔میں نے پلٹ کر دوسرے ملازمین سے توجہ طلب نگاہوں سے مدد چاہی تو ایک نے احسان عظیم کیا اور اپنے پاس آنے کی دعوت دی۔میں آگے بڑھا اور اس غم گسار کے سامنے مایوسی کے گہرے سائے کو روندتے ہوئے اس کے سامنے جا کھڑا ہوا۔ جو انتہائی لاپرواہی سے میرے  منہ سے کسی کڑوی دوائی کا نام سننے کے انتظار میں تھا۔لیکن آج میں ان کا جنرل نالج آزمانے گیا تھا۔تاکہ وہ میرے گھر کے قریب ترین ایسی جگہ  کا پتہ بتا دیں جہاں سے میں اپنی دس سالہ بیٹی کے دائیں ٹانگ پر چڑھائے گئے پلسترکی وجہ سے چلنے پھرنے کے لئے بیساکھی کا انتظام کر پاؤں۔
میرے لئے بیساکھی کا ٹھکانہ معلوم کرنے سے زیادہ یہ جاننا بہت ضروری ہو چکا تھاکہ میڈیکل سٹور میں موجود پانچ ملازمین میں سے کسی نے بھی میرے سلام کا جواب  کیوں نہیں دیا ۔ میں نے انتہائی لا پرواہی اور کسی قدر غصہ میں ان سب سے یہ سوال کیا کہ  جس ملک میں ہم رہتے ہیں کیا اسے  ابھی تک اسلامی جمہوریہ پاکستان ہی کہا جاتا ہے اور یہاں بسنے والے مسلمان کہلاتے ہیں تو انہوں نے بیک زبان کہا کہ جی بالکل!
میں نے ان سے استفسار کیا کہ پھر انہیں میرے سلام کے جواب میں   وعلیکم السلام کہنے میں کیا عذر تھا۔ جس کا ان کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔ حالانکہ وہ السلام علیکم کا مطلب بخوبی جانتے تھے۔انہوں نے معذرت خواہانہ انداز اپنایا۔ جو ان کے چہروں سے عیاں تھا۔انہوں نے منزل تک پہنچنے کی میری رہنمائی کی۔ ان کا شکریہ ادا کر کے میں نئی منزل کی طرف گامزن تھا۔ مجھے رہ رہ کر امریکہ میں گزارے صبح دوپہر شام اور رات میں کہےجانے والے کلمات یاد آنے لگے۔ گڈ مارننگ کے جواب میں گڈ مارننگ ، گڈ ایوننگ کے جواب میں گڈ ایوننگ، ہیو اے نائس ڈے کے جواب میں یو ٹو،تھینک یو کے جواب میں یو آر ویلکم ضرور کہا جاتا تھا۔اگر کسی سے پوچھیں آپ کیسے ہیں جواب میں اچھا کہہ کر آپ کا احوال ضرور پوچھتا۔مگر مجھے اپنوں سے ہمیشہ شکایت رہتی ہے کہ وہ سلام کا جواب دینے میں تامل کرتے ہیں۔ حال احوال پوچھنے پر اجنبی نظروں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔فون کی گھنٹی بجنے پر ہیلو سے جواب دیا جاتا ہے۔ فون کرنے والا بھی ہیلو سے اپنا تعارف کراتا ہے۔ 
ہر واقف و ناواقف مسلمان کو سلام کہنا سنت ہے۔سلام کا جواب دینا واجب ہے کیونکہ اس کا حکم قرآن میں ہے سورۃ النساء آیت نمبر 86 میں یوں آیا ہے:
اور جب تمھیں کوئی کسی لفظ سے سلام کرے تو اس سے بہتر لفظ جواب میں کہو یا وہی کہہ دو۔
سلام کے لغوی معنی ہیں طاعت و فرمانبرداری کے لیے جھکنا، عیوب و نقائص سے پاک اور بری ہونا، کسی عیب یا آفت سے نجات پانا۔ سلام اسماء الحسنی یعنی اللہ تعالٰی کے صفاتی ناموں میں سے بھی ہے ۔ شریعت کی اصطلاح میں اس سے مراد دو یا دو سے زیادہ مسلمانوں کی آپس میں ملاقات کے وقت کی دعا یعنی السلام علیکم کہنا ہے۔ جواب کے لیے وعلیکم السلام کے الفاظ ہیں۔
ہمارے بزرگ بات کرنے کا سلیقہ اور بڑے بزگوں کے ساتھ پیش آنے کا طریقہ سکھاتے تھے۔ جسے جدید دنیا کے والدین نے نئے انداز سے بدل دیا ہے۔بچوں کو سبق یاد کروائے جاتے ہیں مگر آداب نہیں سکھلائے جاتے۔ہر شخص اپنے کام سے کام رکھتا ہے۔اپنے ارد گرد نظر نہیں رکھتا۔معاشرے میں اجنبیت کا رحجان فروغ پا رہا ہے۔اگر یقین نہیں آتا تو  میری طرح اپنے گھر ، علاقہ سے    چھ آٹھ سال کے لئے دور رہ کر واپس لوٹیں گے تو احساس ہو گا کہ کہیں نہ کہیں ہم سے کچھ چھوٹ رہا ہے جیسے بلندی سے گرتے ہوئے ایک ہاتھ دوسرے ہاتھ سے چھوٹنے کے لئے پھسلتا ہے۔
ہم اپنی رائے کو دوسروں پر تھوپنے کی کوشش کرتے ہیں۔ دوسروں کے نظریات کو غلط ثابت کرنا فرض سمجھتے ہیں۔آخر کہیں تو کچھ ایسا ہو رہا جو تبدیلی کے مراحل خاموشی سے طے کر رہا ہے۔جس گاڑی کی بریک نہ ہو اس کے لئے انتہائی سپیڈ اور موٹر وے جیسی سڑک بھی بلا ضرورت ہے۔جس انسان میں اپنی خواہشوں کو روکنے کی حد نہ ہو اس کے لئے کامیابی شتر بے مہار کی مانند ہے۔ جیسے ڈھلوان کی بلندی سے  قلابازیاں کھا کر نیچے تک پہنچا جائے۔
دوسروں کی خوشیوں میں ماشااللہ کہہ کر شامل ہوا جاسکتا ہے۔انشااللہ کہہ کر خود آگے بڑھا جاسکتا ہے۔جزاک اللہ کہہ کر دوسروں میں ہمت و حوصلہ بڑھایا جاسکتا ہے۔اچھے وقت کا صبر سے انتظار کیا جاسکتا ہے۔سورۃ بقرہ میں ارشاد باری تعالی ہے ۔اے ایمان والو ! تم صبر اور نماز سے مدد مانگو۔بیشک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔
کینہ، حسد، لالچ سے بچ گئے تو محبت،قربت،شکر کے پھل سے فیضیاب ہوں گے۔نفرت، حقارت،گھمنڈ،ضد،غرور سے چھٹکارا مل گیا توقرب،اپنائیت،عجز و انکساری سے دامن بھرتے جائیں گے۔
سورج کو مشرق سے طلوع ہوتے روز دیکھتے ہیں۔خود کو مشرق میں غروب ہونے کا منظر آنکھوں میں سجاؤ تو گردش زمین آشکار ہوتی ہے۔جیسےپھل پر چھری چلا کراوپر سے نیچےتہہ تک کاٹتے ہیں ایسے ہی تہہ سے اوپر تک پھل کے مکمل ہونے کو نظروں میں بساؤ توقدرت اپنی طاقت کا لوہا منوانے پر اُتر آئے گی۔
ظاہر کی نفی سے باطن کی آگہی زمین سے تعلق اور قطع تعلق کے درمیانی فاصلوں کو بڑھاتی جائے گی۔قربت کے فاصلے عشق و محبت سے سمٹتے جائیں گے۔
وجود اپنے نہ ہونے اور عدم اپنے ہونے سے قیاس و حقیقت کے رشتے کو بندش و آزادی کے جہان اُلفت میں دیوانگی و جنون سے ایک کو گھٹاتا تو دوسرے کو بڑھاتا جائے گا۔
لیکن یہ تبھی ممکن ہو گا جب  دوسرے سے اختلاف سے پہلے خود کے تضاد کو عمل کی کسوٹی پر پرکھ کر یک اتفاقی  میں پرویا جائے  تو نا اتفاقی کی گانٹھیں خود بخود ڈھیلی ہونا شروع ہو جائیں گی۔
 جو اپنی ذات کو منوا لیتے ہیں وہ اپنی بات بھی منوا لیتے ہیں۔جو اپنی بات منوانے میں عمر گنوادیتے ہیں وہ اپنی ذات بھی گنوا لیتے ہیں۔
جو پانے کے لئے مضطرب رہتے ہیں وہ کھونے پہ بےچین ہو جاتے ہیں۔
 جن کا حاصل ان کا مقصود نہ ہو، ان کا مقصد لا حاصل رہتا ہے۔
جو   برترسے حسد کرتا ہے وہ  کم تر سے تکبر کرتاہے۔
جو خالق سے محبت کرتا ہے وہ مخلوق سے نفرت نہیں  کر تا۔
سچ کو ماننے والا سچ کو جاننے والا ہے۔
جو بدلہ لینے کی طاقت رکھتا ہے وہ معاف کرنے کی ہمت رکھتا ہے۔
جسے اختیار کا یقین ہے اسے بے اختیاری کی پرواہ نہیں۔
جسے ملنے کا یقین نہیں اس میں پانے کی شدتِ خواہش نہیں۔
قرآن سے جس کا لگاؤ نہیں اللہ کی طرف اس کا جھکاؤ نہیں۔

تحریر!   محمودالحق


در دستک >>

Apr 28, 2013

خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا

قانون ساز ادارے عوام کی بہتری اور بھلائی کے لئے قانون سازی کے بل پیش کرتے ہیں۔جنہیں باری باری دونوں ایوانوں میں پیش کیا جاتا ہے ۔ جہاں بحث و تمحیص کے بعد دو تہائی اکثریت سے منظوری کی آزمائش سے گزرنا ہوتاہے۔ اخبارات الگ سے ان  کے قابل عمل ہونے یا نہ ہونے پر مناظرے کراتے ہیں۔جہاں علم و دانش رکھنے والے اپنی اپنی عقل کے مطابق اس کے حق یا مخالفت میں رائے زنی کرتے ہیں۔۱۹۷۳ کے آئین پاکستان میں کی گئی  ترامیم کا عوام کو کیا فائدہ پہنچا ۔ یہ عوام کی بگڑتی معاشی و اقتصادی اور معاشرتی و سماجی  صورتحال سے عیاں ہے۔قانون ساز ادارے حکومتی اختیارات میں کبھی اضافہ تو کبھی کمی  سے بغلیں بجاتے رہے۔مگر عوام بچوں کی طرح منہ میں خالی چوسنی لئے دودھ بھرے فیڈر کے انتظار میں کبھی ایک کا منہ دیکھتے تو کبھی دوسرے کا۔آخر میں لالی پوپ ہی سے گزارا کرنے کی عادت نے انہیں صبر و شکر کی بجائے برداشت کرنے کا خوگر بنا دیا۔جس کی زندہ جاوید اور تازہ مثال ماضی قریب کی پارلیمنٹ کے اجلت میں پاس کئے گئے قوانین کی مثال ہیں۔جس میں سرفہرست  سپیکر صاحبہ کا اپنے لئے حاصل کی گئی تاحیات مراعات ہیں جو عوام کے خون پسینہ سے کمائی گئی کمائی سے ہمیشہ ادا کی جاتی رہیں گی۔۷۷ کروڑ کے قرضہ  کی معافی تو کسی کھاتے میں ہی نہیں۔اپنے ہاتھوں سے اپنی دولت لٹانے والی ایسی زندہ دل قوم شائد کسی اور ملک کے نصیب میں نہیں۔ جس نے لوٹنے والوں کو بار بار دعوت یلغار دی ہو۔
کابل کے حکمران ظہیرالدین بابر نے ۱۵۲۶ میں جب ابراہیم لودھی کو شکست دی تو ہندوستان کے خزانے سے کابل کے ہر فرد کو ایک ایک اشرفی  بانٹی گئی تھی۔ مگر آج کا حکمران کتنا خودغرض ہے کہ وہ لوٹے گئے مال سے ایک روپیہ بانٹنا بھی گناہ سمجھتا ہےیا وہ پاکستان کے عوام کو کابل کے عوام سے زیادہ خوددار جانتا ہے کہ وہ ورلڈ بینک سے خیرات تو لے لیں گے مگرلوٹے ہوئے مال کو اپنے لئے حرام سمجھتے ہیں۔اسی لئے وہ لوٹا ہوا ایک ایک روپیہ بحفاظت اپنے کاروبار اور وارثوں میں بانٹ دیتے ہیں۔جن پر قوم بری نظر اُٹھا کر نہیں دیکھتی۔
سیاسی ہمدردوں کی دل آزاری میرا مقصود نہیں بلکہ الیکشن کی آمد آمد ہے تو ایک مضمون جو میری نظر سے گزرا  اس کے چند اقتباس سب کے ساتھ شئیر کرنا چاہتا ہوں۔ 
یہ  ۸ نومبر ۱۸۶۴ کے امریکی انتخابات میں ابرہام لنکن کی کامیابی کا  احوال ہے ۔ جب سیاسی پنڈتوں نے لنکن کی شکست پر مہر ثبت کر دی تھی۔ انتخابات میں حیران کن کامیابی کے بعد صدر لنکن نے ایوان نمائندگان سے 13ویں ترمیم منظور کرانا اپنی زندگی کا مقصد بنا لیا۔امریکہ کی تاریخ کا سنگین ترین بحران مسئلہ غلامی کے باعث پیدا ہوا تھا۔ اب وہ اپنے تمام تر سیاسی تدبر اور تجربے سے یہ مسئلہ ہمیشہ کے لیے ختم کرنا چاہتے تھے۔ تاہم ایوان نمائندگان میں ترمیم منظور کرانا بڑا مشکل تھا کیونکہ حکومت کو دو تہائی اکثریت حاصل نہ تھی۔ صدر لنکن نے بڑی عرق ریزی سے اپنی حکمت عملی تیار کی کیونکہ وہ غلامی کے بل کو پالیمنٹ سے منظور کروا کر ملک کو  ریاستوں کی باہمی جنگ اور سول وار کا خاتمہ کر کے ملک ٹوٹنے سے بچا سکتے تھے۔ انہیں قدرت نے موقع فراہم کیا اور اس نے جیت کر امریکہ کی تاریخ کا  تیرویں ترمیم کا بل پاس کروا لیا جس میں غلامی کو ہمیشہ کے لئے دفن کر دیا گیا۔
ملک بچانے کے لئے اور خانہ جنگی کے خاتمہ کے لئے لنکن کے لئے تیرویں ترمیم کا بل پاس کرانا نہایت ضروری تھاجس کے لئے پہلے اسے مطلوبہ تعداد میں ریاستیں چاہیئے تھیں۔ ریاست نیودا کی یونین میں شمولیت سے آئینی طور پر ریاستوں کی وہ تعداد پوری ہوجاتی جو ترمیم کی منظوری کے لیے درکار تھی۔ جس کے تین ارکان سے اس نے رابطہ کیا ۔دو نے انٹرول ریونیو کلکٹر بننے کی خواہش ظاہر کی۔ تیسرا نیویارک کسٹم ہاؤس میں تقرری چاہتا تھا۔ لنکن نے تینوں کی مانگیں پوری کرکے ان کی حمایت حاصل کرلی۔ جنوری ۱۸۶۵ میں انہیں مزید چودہ ووٹوں کی ضرورت تھی۔چنانچہ لنکن نے غلامی ختم کرنے کی خاطر اپنے ایک مخالف ریاست میسوری کے رکن کے سامنے جھکنے کا فیصلہ کرلیا جو سو غلاموں کا مالک تھا۔ اور غلامی کا مخالف تھا۔ لنکن اس سے ملے اور  بتایا کہ اگر تیرہویں ترمیم منظور نہ ہوئی، تو امریکہ ٹوٹ جائے گا۔ اس نے جذبہ حب الوطنی کے باعث ترمیم کی حمایت کر دی۔ انھیں ترغیب دینے کی خاطر میسوری سے وفاقی جج کی نشست خالی رکھی گئی جو ترمیم کو ووٹ دیتے،انہی کی پسند کا (موزوں) جج تعینات کیا جاتا۔ 13ویں ترمیم منظور کرانے کے لیے صدر لنکن نے سیاسی عنایات و نوازشات کا سلسلہ جاری رکھا ۔ مخالف جماعت ڈیمو کریٹک رکن، موسز اوڈیل نے ترمیم کے حق میں ووٹ ڈالنے کا اعلان کیا،تو لنکن نے اسے ریاست الینائے میں نیول ایجنٹ (سرکاری افسر) بنا دیا۔ ریاست کنکٹکی کا رکن، جارج یمین غلامی کا زبردست حامی تھا۔  لیکن وہ جب 13ویں ترمیم کا حمایتی بنا، اسے ڈنمارک میں امریکی سفیر بنا دیا گیا۔ یوں لنکن نے اپنی بہترین صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر تیرویں ترمیم کا بل دو تہائی اکثریت سے دو ووٹ زیادہ  حاصل کر کے منظور کروا لیا جو امریکہ کی تاریخ کا ایک بڑا کارنامہ تھا ۔ جس نے ابرہام لنکن  کو  ہیرو بنا دیا۔  اگلے دو ماہ میں امریکی خانہ جنگی  کا خاتمہ ہوا۔
 تفصیل دینے کا مقصد یہ تھا کہ لنکن نے بھی مطلوبہ ووٹ حاصل کرنے کے لئے نوازشات کا راستہ اختیار کیا۔ مگر ان نواشات کا براہ راست تعلق مفاد عامہ اور ملکی دفاع تھا۔ ذاتی عناد ، مخالفت ، خودغرضی ، اقربا پروری کا شائبہ نہیں پایا جاتا وہاں۔ خلوص نیت سے کئے گئے تمام اقدامات عوامی تحسین و پزیرائی سے ہمکنار ہوتے ہیں۔
تقریبا ڈیڑھ سو سال پہلے انہوں نے ملک بچانے کا ایک بہترین راستہ چنا۔ جس کی بدولت وہ آج بھی یونائیٹڈ ہیں۔ہمارا ملک روزانہ ایسی دھمکیوں سے گزرتا ہے کہ اب گئے کہ گئے۔مگر آزمائے ہوئے تمام  لیڈر ،حکمران تو کئی بار بنے مگر رہنما نہ بن سکے۔ جو ملک و قوم کو اس دلدل سے نکال سکتے۔ ملک ٹوٹنے کی تلوار آئے روز اخبارات کی شہ سرخیوں پر لٹکی رہتی ہے۔
اتنا لکھنے کا صرف ایک ہی مقصد ہے کہ  تمام پارٹیاں اسمبلی میں بیٹھ کر ہر ایرے غیرے قانون کو بلا چوں چراں جو پاس کرتی ہیں جن کا براہ راست تعلق عوام کی بھلائی سے نہیں ہوتا انہیں ایک نہ ایک دن تو سوجھ بوجھ رکھنے والے محب وطن اکثریتی عوام کے ووٹوں سے  واسطہ پڑے گا جو انہیں  چھٹی کا دودھ یاد دلا دیں گے اور انہیں یہ سبق کبھی نہیں بھولنے دیں گے کہ پارلیمنٹ کا کام عوام اور ملک کی بھلائی کے لئے قانون سازی کرنا ہے نہ کہ سپیکریا ارکان کی گھریلو ملازمین کی تنخواہوں اور گھریلو عیاشیوں کے لئے ہزاروں لٹر پٹرول کی فراہمی  کا بندوبست کرنا۔جہاں کبھی صدر بے اختیار کیا جاتا ہے تو کبھی وزیراعظم۔ اختیارات کبھی ایک محل میں ہوتے ہیں تو کبھی دوسرے محل میں۔جہاں بلدیاتی نظام کبھی ہوتا ہے تو کبھی نہیں ہوتا۔۶۲، ۶۳ پہلے آئین میں تھی اب اخباروں میں ہے۔پہلے کام چھ دن تھا بجلی سارا دن ، اب کام پانچ دن ہے تو بجلی آدھا دن سے بھی کم۔حالانکہ  دو اڈھائی دن سے زیادہ کام کی گنجائش نکلتی نہیں۔ ڈاکٹر اصلی ہیں تو دوائیاں جعلی۔اسمبلی اصلی تھی تو ممبر جعلی ڈگری والے۔کوئلوں میں دلالی ہے تو جہازوں آبدوزوں میں کمیشن۔ بھوکےغریب کے لئے لفظ رشوت  سےذلت ، امیر کے لئے تحفہ تحائف سے عزت۔
پاکستان کی سیاست میں جھوٹ چلتا ہے مگر ملک میں رہنما جھوٹا نہیں چل سکتا۔ کیونکہ ملک جھوٹے  وعدوں کی بیساکھی پر  زیادہ دیرنہیں کھڑا ہو سکتا۔
قیام پاکستان سے قبل قائداعظم کی تقریر پر ایک بوڑھا تالیاں بجا رہا تھا ، قریب کھڑے شخص نے اس سے پوچھا بابا جی آپ کو قائداعظم کی انگریزی تقریر کی سمجھ آتی ہے؟بوڑھے نے کہا نہیں! مجھے انگریزی نہیں آتی مگرمجھےیقین ہےکہ یہ شخص سچ بول رہا ہے۔ایسے ہوتے ہیں سچے لیڈر۔
سب سے پہلے ملک کے رہنماؤں کو یہ ثابت کرنا ہو گا کہ وہ سچ بولتے ہیں۔ اگر نہیں تو پھر ان کے وعدے  پر صرف اتنا ہی کہوں گا۔
خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا
در دستک >>

Apr 26, 2013

فلم کا ٹریلر 11 مئی کو چلے گا

گیارہ مئی کے انتظار میں عوام سانسیں روکے بیٹھی ہے۔ حساب کتاب لگائے جارہے ہیں پہلے شخصیت پھر پارٹی کو تولا جا رہا ہے ۔ کون ہو گا وہ خوش قسمت جس کے سر پر جیت کا ہما بیٹھے گا۔ جو اکیلا وزیراعظم ہو گا پارٹی اس کی وزیر مشیر ، خاندان کے لوگ بھی بہتی گنگا میں کشتی ڈالے ساتھ ہوں گے۔ مال مفت دل بے رحم کا نعرہٗ مستانہ ہو گا۔ الیکشن کسی سیاسی جماعت کے لئے امتحان سے کم نہیں ہوتے۔ مگر کیا کہیئے اس امتحان کے ۔نہ قلم نہ کاغذ ۔ کاروائی صرف وائٹ پیپر۔
اس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خدا
لڑتے ہیں اور ہاتھ میں تلوار بھی نہیں 
سکول میں ایک کلاس میں فیل اور کم از کم نمبر لے کر پاس ہونے والے  اگلی جماعت میں ڈاکٹر انجینیئر یا سی ایس پی  افسر بننے کا خواب نہیں دیکھتے۔ مگر سیاست نام ہی خواب دیکھنے کا ہے۔ ایسی پارٹیاں  جن کے کامیاب امیدوار ہر الیکشن میں چنگ چی میں پورے سما جائیں۔ 18 کروڑ عوام کو جہالت کے اندھیروں سے نکالنے کا عزم رکھتے ہیں۔ ان کےبلند و بانگ دعوے کم از کم میرے جیسے تاریخ کے ایک کمزور طالبعلم کی سوچ سے بہت اونچے رہتے ہیں۔
کیا ایسا ممکن نہیں کہ قوم کا ایک فرد ہونے کے ناطے وطن کے لئے درد دل رکھ کر فیصلہ کریں کہ 65 سال میں جو کھویا اسے آئندہ پانچ سال میں حاصل کر لیں۔ مگر کیسے یہاں جیتنے کے لئے سر دھڑ  کی بازی ہے۔  ایک باری لینے پر بضد ہے تو دوسرا بار بار باری لینے کی دھمکی دیتا ہے۔ عوام 8 گھنٹے پنکھے کی ہوا لیتے ہیں سولہ گھنٹے کوسنے دیتے ہیں۔ جن کے گھروں میں جنریٹرز کھٹ کھٹ چلتے ہیں وہ ابھی کسی نتیجہ پر نہیں پہنچے کہ ملک کے عوام کا کوئی جائز مسئلہ بھی ہے یا اس قوم کو خوامخواہ رونے پیٹنے کی وہی پرانی عادت  جو پچھلے 65 سال سے ساتھ چپکی ہوئی ہے۔
الیکشن کے نتائج کئی لوگوں کے لئے اتنے اہم نہیں ہوں گے کیونکہ ان کےگھروں میں کوئی بھی بھوکا نہیں سوتا۔ کوئی بے روز گار نہیں ہے۔ تعلیمی ادارے کی کوئی شکائت نہیں البتہ ذہانت کو الزام دیا جا سکتا ہے۔ لوڈ شیڈنگ میں اضافہ نا گزیر ہو گیا تو ٹھنڈے ملک  جانے میں کوئی امر مانع نہیں۔ مگر کیا کریں وطن کی گرم ہواؤں نے ہمیں کبھی جلایا نہیں۔ درجن بھر گلاس پانی جسم کے اندر اور بالٹی بھر پانی جسم کو باہر سے تمام بیماریوں سے پاک کرتا رہا۔ ٹھنڈے مشروبات الگ سے توانائی بحال رکھتے رہے۔
سیاست کی گرمی مئی کے مہینہ میں جوبن پر ہو گی۔ تجزیوں تبصروں سے شدت میں اضافہ تو ہو سکتا ہے مگر تسلی و تشفی اور راحت نہیں۔ قوم کو فیصلہ کرنا باقی ہے۔ انہوں نے ملک کا وزیراعظم منتخب کرنا ہے یا ملک کے مسائل کا حل تلاش کرنا ہے یا پھر وہی روائتی مخاصمت ، مخالفت جس کا پاکستان اور اس کے چاہنے والوں کو کبھی بھی فائدہ نہیں ہوا۔
اگر سابقہ حکومت ناکام ریاست کا وجود چھوڑ جائے تو اسے ٹھیک اور بحال کرنے کے لئے اگر امریکہ کے گورے ، سیاہ فام مسلمان کے سیاہ فام بیٹے کو اپنا صدر دوسری بار بھی چن سکتے ہیں تو پھر پاکستان میں بلند مرتبی کا ٹھیکیداری نظام کیوں۔ جہاں سیاسی وراثتی سپوت اور سپوتری بندر بانٹ کے لئے تماشا کرتے ہیں۔
 ہمیں دوسروں کے نظریات یا پارٹی وابستگی جاننے کی بجائے نوشتہ دیوار پڑھنا چاہیئے کیونکہ  ہر پانچ سال بعد لاکھوں نوجوان بے روزگاری اور غربت کا ایندھن بنیں گے۔ جو جھوٹے وعدوں اور دلاسوں سے بہلائے نہیں جا سکیں گے۔ ایک شہر کی فوٹو دکھا دکھا کر ان پر احسان عظیم جتایا نہیں جا سکتا ۔ شخصیت پرست جماعتیں اور نظریات ہمیشہ غالب نہیں رہتیں۔ اکیسویں صدی کا نوجوان کئی صدیوں پہلے نازل فرمان پر تو آنکھیں بند کر کے چل سکتا ہے مگر 65 سال میں ہر پل بدلتی شخصیتوں پر اعتبار کرنا اس کے لئےمشکل ہوتا جا رہا ہے اور وہ بالآخرتعداد میں اتنے ہو جائیں گے کہ تبدیلی کے لئے کسی بھی سچے ایماندار انسان کو اپنا مرکز بنا لیں گے۔ آج کم تر برا جیتے گا تو اس وقت کم تر اچھا ہارے گا۔ فلم شائد دیر میں چلے مگر قوم اس فلم کا ٹریلر 11 مئی کو دیکھ لے گی۔
در دستک >>

سوشل نیٹ ورک

Flag Counter