Jul 30, 2011

لکھنا مجبوری میری، پڑھنا کیوں تیری

لکھنا چاہتا ہوں مگر لکھ نہیں‌پا رہا ۔ سمجھنا چاہتا ہوں سمجھ نہیں پا رہا ۔ نیٹ کے دھاگے کمزور ہوتے جارہے ہیں ۔ یا میری نظر کی کمزوری یہاں بھی حائل ہو چکی ہے ۔ چند روز تک نئے چشمے سے الفاظ صاف دیکھائی دینے لگیں گے ۔ مگر قلب کی صفائی دیکھنے میں ابھی مذید انتظار کرنا ہو گا ۔ سالہا سال کے انتظار کے بعد نہ تو محلے کی گلیاں صاف ہوئیں ۔ ندیاں بھل صفائی کی محتاج ہیں تو نالے کوڑا کرکٹ کی صفائی کے ۔
سیاستدان نرما کی وجہ سے اجلے دیکھائی دیتے ہیں ۔ مگر کردار ابھی صاف نہیں ۔ سیاست کے شیر ہیں یا ترکش میں بھرے تیر ۔ بچے کھچے عوام قطعا بھوکے بٹیر نہیں جو لڑ بھڑ کر بھڑاس نکالیں ۔ البتہ ترم کے پتے استعمال کرنے کی پابندی ہر گز نہیں ہے ۔ اب اسے مڈ ۔ ٹرم پڑھنے والے ایک نئی بحث کا آغاز خود سے کر دیں ۔ تو ہنوز دلی دور است نہ سمجھا جائے ۔ کیونکہ جج جہاں پایا جائے ۔ عدالتی کاروائی کا وہیں اختیار رکھتی ہے ۔ کم از کم ہمیں فیصلے کا اختیار نہیں ۔ کسی بھی دھاگے پر موم چپکا کر آگ جلانے کا اختیار ماچس ہاتھ میں لینے سے شروع ہو گا ۔ ہماری تو آواز بھی اچھی نہیں کہ اپنا راگ ہی آلاپ سکیں ۔ آگ تاپنے کا مزہ موسم سرما میں اچھا ہے ۔ ایسے شدید گرم موسم میں گرمی سردی صحت کے لئے سود مند نہیں ۔ سردا اگر بازار سے میسر نہ ہو تو گرما ابھی چند مزید ماہ دستیابی کا ترانہ گنگاتا رہے گا ۔
ماہ رمضان کی آمد آمد ہے پھل گھر گھر جانے کے لئے بیتاب ہیں ۔ تاکہ روزہ داروں کی افطاری میں غریب سے غریب تر کو بھی بھوک کے نڈھال پن سے نجات دلانے میں اپنا حصہ ڈال سکیں ۔ حصہ تو بقدر جثہ ہر صاحب حیثیت کو بھی بیواؤں یتیموں ، مسکینوں ، بیماروں اور لاچاروں کی مدد کرنے میں ڈالنا چاہیئے ۔ تاکہ وہ بھی شدید گرمی میں غربت کا پسینہ بہہ جانے سے نقاہت کا شکار ہونے سے اپنے آپ کو بچا سکیں ۔ اور ان کے بچے امیر کی عیال سے نفرت پال کر جوانی کی دہلیز تک انتقام کے گھوڑے پر سوار سفر طے نہ کریں ۔ بلکہ ہم سفر ہونے کے اعزاز سے نوازے جائیں ۔ ستارہ امتیاز سے نوازے جانے کی آرزو کہیں کہیں مچلتی دکھائی بھی دے تو گھر میں فوٹو فریم میں لٹکانے سے لٹکے منہ اُٹھائے نہیں جا سکتے ۔ سر اُٹھانے میں ایڑی چوٹی کا زور لگانے میں کوتاہی کی سرکوبی خیال کرنی ضروری ہے ۔
تیس دن جسم کی ضرورتوں کو کھجور اور دودھ سے توانا ئی سے بھرپور غزائیت پہنچانے کے ساتھ ساتھ روحانیت بکثرت عمل صالح سے ندامت ناصح پر ہو تو قلب تر و تازہ پھلوں سے بنایا خون سر پھرے شریانوں میں برابر پہنچ کر مقرب تکبر خاص کو اکڑاؤ کی بجائے نرم خوئی پر رواں دواں کر دے ۔ نا کہ جیو اور جینے دو کے جھنڈے تلے سانس لینے میں بھی محتاجی کا علم تھما دے ۔
کج فہمی میں کی گئی بات رات ڈھلنے کے انتظار میں اتفاق کی بجائے نفاق کے سبب اسباب پیدا کرنے کی صلاحیت سحر ہو جاتی ہے ۔ جو بات بے بات اپنا عمل دوا کی بجائے طبیب کی تشخیص کا اعلان ایجاد بن جاتا ہے ۔ علماء کے اجتہاد سے اسے الگ پڑھا جائے ۔ فتاوی ملنے سے کچھ خوش رہتے ہیں تو کچھ صرف پڑھنے سے ۔ اکثریت نہ پڑھنے میں ہی خوش ہے کیونکہ وہ ان پڑھ ہیں ۔ ملک کی تقریبا ستر فیصد شائد اسی کیٹیگری میں آتے ہیں ۔ بوڑھے طوطے تو اب پڑھنے سے رہے ۔ لیکن فال نکالنے کے لئے ان کے تجربات سے فائدہ نہ اُٹھانا کوئی دانشمندی نہیں ۔
اگر زندگی نے وفا کی تو ہر وفاء بے اختیار کو آقا سراپا کی غلامی میں تیغ زن تیار ہوتا پھر سے پائیں گے ۔
لیکن اگر آج سے بے نیام شمشیریں عقائد کے سر قلمی اعتراضات سے اختلافات کی بجائے پیار اور امن کی عبادات سے بھائی چارے کی ترغیبات کو فروغ دینا شروع کریں تو ایک ماہ ہی شائد سال بھر کی شرکتی بزلہ سنجی کا اثر زائل کرنے کا سبب ہو ۔
آؤ ایک سجدہ کریں عالم مدہوشی میں
لوگ کہتے ہیں کہ ساغر کو خدا یاد نہیں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
محمودالحق
در دستک >>

Jul 26, 2011

رشتے دل کے جو جان پر بن آئے

بات نہایت مختصر بیان کرنے کی جسارت کروں تو سمجھنے سمجھانے میں پل صدیوں میں ڈھل جائیں ۔ سحر آفتاب غروب کے منظر کو مہتاب کر دے ۔ بات آفتاب کی نہیں جو شمش کہلائے تو شمشیر سے گہرا اثر اپنی حدت سے چھوڑ جائے ۔ یہاں ذکر ہے رشتوں کا جو کبھی بندھتے ہیں تو کبھی چھوٹتے ۔ گردش ایام کے پابند رہتے ہیں ۔ گردش کائنات سے سروکار نہیں رکھتے ۔ کیونکہ وہاں سرکار کسی کی نہیں ۔ موج مستی صرف اتنی کہ پاؤں زمین پر تھرک سکیں ۔ جو آنکھ سے اوجھل ہے چاہے پہاڑ کے پار ہو یا پہلے آسمان سے آگے ۔ خواہشوں کی بیڑیاں پہنے طوق غلامی سے جھکتا چلا جائے ۔ پھر بھی رہتا شکوہ اپنے پن سے جو بیگانگی میں اغیار کی پرستش میں مسیحائی کا طالب ہو ۔
در دستک >>

Jul 24, 2011

دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو مَیں

محبت ، خلوص ،رواداری سے اپنا بنانے کے لئے جو بھی عمل کیا جائے وہ انجام خیر سے بے خبر ہوتا ہے ۔ انسان دو آنکھوں سے زمانے بھر کو دیکھتا ہے ۔ کبھی دکھ سکھ میں آنسو تو کبھی غصہ میں آگ کی لالی سے پانی بہتا ہے ۔ لیکن اس سب کے باوجود ایک دو بار ہی آنکھیں دو آنکھوں سے چار ہوتیں ہیں ۔ جو سیدھا نشانہ دل پہ لیتی ہیں ۔ پھر عقل سے نظر کی تمام طنابیں چھوٹ کر دل کی دھڑکن سے جڑ جاتیں ہیں ۔ تمام رشتے ایک نظر کے سامنے ہیچ لگتے ہیں ۔ سوچ عقل کی سٹاک مارکیٹ دلاں دے سودے میں مندے کا شکار ہو جاتی ہے ۔
آسمان پہ چپکے سفید روئی کے گالوں کی طرح برسنا قسمت میں نہیں ، صرف ٹہلنا رہ جاتا ہے ۔ جو نہ تو دھوپ سے بچاتے ہیں اور نہ ہی پیاسی زمین کی پیاس بجھاتے ہیں ۔
آسمان سے باتیں کرتے جنگلی درختوں کی طرح اکڑے ثمرات سے بے فیض ہوتے ہیں ۔ اظہار محبت کے لئے تین لفظوں سے لے کر ایجاب و قبول کے درمیان اٹک جاتے ہیں ۔ زندگی کا یہ مختصر ترین عرصہ صدیوں سے چلتی معاشرتی قدروں کے سامنے بغاوت کا علم بلند کر دیتا ہے ۔ عزت کا جنازہ نکل جانے کا غم نہیں ۔ پانے کی خواہش اتنی شدت اختیار کر لیتی ہے ۔ کہ جیت کے نشہ سے بڑھ کر نشہ کی علت میں مبتلا کر دیتی ہے ۔ بچپن ، لڑکپن کی یادیں احسان فراموشی کی شال اوڑھ لیتی ہیں ۔ میں کی عینک میں منزل مراد وحید ہو جاتی ہے ۔ کھلونوں کے بازار میں کھڑے بچے کی مانند جو صرف اپنی پسند پہ فریفتہ رہ جاتا ہے ۔ اوراگلی بار پھر کسی اور پسند پر ۔ ایک زمانہ کی پسند ایک زمانہ تک رہتی ہے ۔
حسرت کا یہ کوہ پیمائی سلسلہ خواہشوں کے انبار میں قوت خرید کی بنا پر ایک وقت میں ایک خواہش کی تکمیل کی تدپیر نہیں رکھتا ۔
در دستک >>

Jul 22, 2011

بھولنے والے بھول جائیں

اصلاح احوال کریں تو کیسے کریں اتنے ٹی وی چینل خبریں تو ایک جیسی ہیں ۔ مگر انداز بیان الگ الگ ۔ اخبارات شہر شہر نگری نگری کی کہانیاں سمیٹے ہوئے ظلم و نا انصافی کی دہائی دیتے ہوئے مظلوم کے حق میں انصاف کا جھنڈا لہراتے ہوئے عوامی خدمت سر انجام دے رہے ہیں ۔ عوامی نمائندے بھی کسی سے پیچھے نہیں حق رائے دہی کا احترام کرتے ہوئے حق سے محرومی پر سیخ پا نظر ضرور آتے ہیں ۔ عوام کی تکلیف کا احساس حکمران اور ان کے مشیران کو آنسو بہانے پر مجبور کر دیتا ہے ۔
بعض الفاظ اپنا تاریخی پس منظر چھوڑ جاتے ہیں ۔ جیسے سیاسی اداکار کا جملہ فنکاروں کو یہ سوچنے پر مجبور کر گیا ۔ کہ ان کا مستقبل کیا ہو گا ۔ ایک وقت تھا ٹی وی پر ان کے جلوے تھے ۔ تھیٹر ریڈیو سے سفر طے کرتے کرتے ٹی وی تک پہنچنا محال تھا ۔ اور فلمی سفر کی ٹکٹ ملنا تودیوانہ کا خواب تھا ۔
جیسا کہ اب محلے کی ویلفیر سوسائٹی سے کونسلر تک کا سفر طے طے کرتے کرتے اسمبلی تک پہنچنا محال ہے وزارت کا قلمدان سنبھالنا تو دیوانے کا خواب ہے ۔ جوں جوں معاشرہ اخلاقی اقدار کی کاٹ کا شکار ہے ۔ توں توں حکمرانی بندر بانٹ کے فارمولہ پر اتفاق رکھتی ہے ۔ مگر بیوقوفی میں تماشا نہیں بنتی ۔ پکڑے جانے کا ڈر ہو تو بندر کی طرح مٹھی بند نہیں رکھتی کھلے ہاتھ دکھا دیتی ہے ۔ سمجھ دار کے لئے اشارہ ہی کافی ہے ہاتھا پائی سے گریبان پھٹتے تو گالی سے روح تلملا جا تی ہے ۔ مگر کانوں میں جوں رینگنے کا دور گزر چکا ۔ جوں سے سر میں کھجلی کی بجائے ہاتھ کی میل دولت آنے کی امید سے کھجلی پیدا ہوتی ہے ۔ جو شریفوں کے لئے خجل خواری تو ہوس کے پجاریوں کے لئے سرمایہ کاری ہوتی ہے ۔ جس کے اثرات تابکاری جیسے نہیں ہوتے ۔ عوام ایسے معاملات کی جانکاری مانگتے مانگتے تانگے کی سواری کرنے کے قابل رہ جاتے ہیں ۔ رمضان کی آمد آمد ہے غریب گھرانے کئی سو روپے میں افطاری تک اپنے سحر کے اختتام کا سفر طے کریںگے ۔
ڈکشنری میں ہر لفظ کا مطلب نکالا جا سکتا ہے مگر حل نہیں ۔مشنری اور کمشنری کے الفاظ ہم آواز تو ہیں مگر ہم معنی نہیں ۔ متحدہ ہندوستان میں مشنریوں کا جادو سر چڑھ کر بولتا رہا ۔ مگر آج بھی گورا راج کی نشانی کمشنری کا جادو سر سے اتاریں تو پھر چڑھ دوڑنے کے لئے بیتاب رہتا ہے ۔ بچپن میں دوست جادوگروں کی کہانیاں پڑھ کر ایسے شہزادوں کا روپ دھارنے کی کوشش میں رہتے جو خوبصورت شہزادی کو ظالم جادو گر کی قید سے رہائی دلا کر سہرے کی لڑیاں سجانے کے لئے آنکھوں میں طلسماتی خواب بسا لیتے ۔
آج کا جدید دور شہزادیوں کی محبت کا روادار نہیں ۔ موبائل فون اور انٹر نیٹ سے قارون کے خزانے کی جستجو ہے ۔ لاکھوں کروڑوں کے سودے ادھر سے ادھر ہو جاتے ہیں ۔ کمیشن لینے والا اب کمیشن ایجنٹ نہیں کہلاتا ۔ رقم کی منتقلی ارجنٹ مانگتا ہے ۔ ایک زمانہ تھا مانگنے والے کو منگتا بھی کہا جاتا تھا ۔ اب مانگنا شرمساری کا باعث نہیں ۔ جب ملک قرض مانگ کر شرمندہ نہیں ہوتے تو ایسے میں فرد واحد کیوں فخر سے محروم رہے ۔
طعنے کوسنے دینے سے مسائل سے نجات ممکن دکھائی نہیں دیتی ۔ اور اکثر لکھنے والے یہ سمجھ لیتے ہیں کہ وہ جو سوچتے ہیں وہی لکھتے ہیں ۔ حقیقت کا ادراک رکھنے والوں کے لئے کھلی نشانیاں ہیں ۔ حالانکہ نشانی سب کی اپنی اپنی ہے جیسا کہ ۔۔۔۔۔ چلیں چھوڑیں سب ہی جانتے ہیں کہ آج باہمی اختلاف کس بات پر ہے ۔
اصل مسئلہ شائد عدم برداشت کا ہے ۔ میں میرا ، تو تیرا نے رشتوں اور باہمی احترام کی ڈوریاں ڈھیلی کر دی ہیں ۔ ابھی ٹوٹی نہیں ہیں ۔ ڈھیلی پھر بھی کسی جا سکتی ہیں مگر ٹوٹی جڑ نہیں سکتیں ۔ بہت کم لوگ ہوں گے جو خود میں نیوٹرل یعنی غیر جانبداری کا طوق گلے میں پہنے ہوں ۔ اکثریت جو پڑھ لیں یا جو سن لیں اسی پر یقین کی بنیاد کھڑی کر لیتے ہیں ۔ پھر کوئی نظریہ کوئی فلسفہ زبر سے زیر نہیں کر سکتا ۔ اگر کوئی ایسا نہیں ہے تو اپنے مکمل کوائف اور تفصیلات تیار رکھے ۔ کیونکہ ڈگریوں کی طرح انہیں بھی ردی کی ٹوکری انعام میں ملنے کی توقع ہے ۔
ہر انسان کو اپنا کام کرتے جانا چاہیئے ۔ پڑھنے والے پڑھتے جائیں ۔ لکھنے والے لکھتے جائیں ۔ سمجھنے والے سمجھ جائیں ۔ بھولنے والے بھول جائیں ۔ لینے والے لے جائیں کیونکہ مال واسباب تو یہ ہے نہیں لٹنے کا خوف نہیں کھونے کا ڈر نہیں ۔

تحریر ! محمودالحق
در دستک >>

Jul 16, 2011

دل ناداں تجھے ہوا کیا ہے

جدید دنیا نے انسانوں کو جہاں بے پناہ سہولتیں پہنچائی ہیں ۔ وہاں بے شمار مسائل سے بھی دوچار کیا ہے ۔ ہر دور کا انسان جدید ترقی کی منازل آہستہ آہستہ طے کرتا رہا ۔اور ماضی کو پائیدان بنا کر اگلی منزل کی طرف گامزن ہوا ۔ مگر ہر انسان اس سے استفادہ حاصل نہیں کر سکا مگر چند کے سوا ۔ اور اسی طرح چند ممالک ہی اس ترقی کا بھرپور فائدہ اٹھا رہے ہیں ۔
ترقی پزیر اور پسماندہ ممالک کا ذکر ہی کیا ۔ مگر ترقی یافتہ ممالک کا ہر فرد بھی خوش وخرم اور مطمئن زندگی نہیں گزار رہا ۔جہاں امیر امیر تر ہوتا جا رہا ہے ۔ اور غریب اپنی روزمرہ کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے 8 سے 12 گھنٹے روزانہ مشقت کرتا ہے ۔اکیلا وہ بھی بیوی بچوں کے اخراجات پورا کرنے کی طاقت نہیں رکھتا ۔
تاہم عورت مرد کے شانہ بشانہ معاشرے میں اپنے حصے کا کام کرتی ہے ۔ جو ایک ہفتہ میں چالیس گھنٹے یا اس سے زیادہ بھی ہو سکتے ہیں ۔ ملازمتوں سے فارغ ہونا اور کریڈٹ کارڈ کی واجب الاادا رقوم انہیں سخت محنت کا عادی بنا دیتی ہیں ۔
ہر ملک کا میڈیا سب اچھا کی خبر دیتا ہے آج کے بناوٹی دور میں پسماندہ ملک کا میڈیا بھی وہاں کے عوام کی اصل شکل نہیں دکھاتا ۔یہی وجہ ہے کہ عوام الناس میں بھی ایسے پروگرام زیادہ پزیرائی حاصل کرتے ہیں ۔ جن میں لوگ بہت سی دولت چند لمحوں میں حاصل کر لیتے ہیں ۔جیسے کون بنے گا کروڑ پتی اور ڈیل یا نو ڈیل پروگرام ۔ اس کے علاوہ نیوزپیپر اور میگزین کھلاڑیوں کی آمدنی کا تخمینہ لگاتے رہتے ہیں ۔ جو نئی نسل کے ذہنوں میں جلد امیر ہونے کا ایک آسان طریقہ ہوتا ہے ۔ جو لاکھوں میں سے چند ایک کو حاصل ہو تا ہے ۔ کچھ پڑھائی تو پہلے چھوڑ چکے ہوتے ہیں رہی سہی کسر دولت کمانے کے کئی دوسرے طریقے اپنانے میں پوری ہو جاتی ہے ۔چند محنت اور لگن سے اور کچھ غیر قانونی طریقوں سے ترقی پاتے ہیں ۔لوگ امیر ہونے اور دوسروں سے آگے بڑھنے کے عمل میں اپنی اپنی حیثیت میں کوشش کرتے ہیں ۔ ایسے میں ایک ریڑھی بان سے لے کر سیاستدان تک ایک خاص مقصد کے حصول کے جنون میں کوشش کرتے ہیں ۔مگر مقصد ایک ہے دولت مندی اور دوسروں سے برتری ۔
مفادات کی اس جنگ میں آخر کار فتح خود غرضی کی ہوتی ہے ۔
ایک زمانہ تھا لوگ اپنے بزرگوں کا تعارف ان کے اخلاق ، اخلاص اور کردار ، ایمانداری ، اصول پرستی اور ایثار و قربانی کی اساس پر کراتے تھے ۔اور خود پر فخر کرتے ۔ مگر آج کی دنیا اور دولت پرستی کو کیا کہیئے کہ اولادیں والدین کے اصولوں پر فخر کرنے کی بجائے ان پر موقع ملنے پر فائدہ اُٹھا کر انہیں مہنگی اور جدید تعلیم سے آراستہ نہ کرنے اور ان کے نالائق مستقبل کو محفوظ کرنے کا خاطر خواہ انتظام نہ کر سکنے کے الزامات دینے میں تامل نہیں کرتی ۔
جو والدین اپنی اولاد سے توقع کریں کہ وہ اپنی قابلیت کے بل بوتے پر ان کا سر فخر سے بلند کریں۔ انہیں معاشرہ ناکام قرار دینے میں تامل نہیں کرتا ۔
ایسے لوگوں سے مل کر نہایت مایوسی ہوتی ہے جو اپنی رہائشی کالونی کا ذکر فخریہ انداز میں کرتے ہیں ۔ اور اس کی تعریفوں کے پل باندھتے ہیں اور اپنی حیثیت کا وزن بڑھانے کے لئے بیوروکریٹ اور سیاستدانوں کا ہمسایہ ہونے پر سینہ تان لیتے ہیں ۔
کیا دور آ گیا ہے لوگ اپنے آپ کو محترم کرنے کے لئے آباؤاجداد کی بجائے تعلقات کا تزکرہ فخر سے کرتے ہیں ۔
اسے کیا کہا جائے تعلیم کی کمی ،حسد و جلن یا احساس محرومی جو دوسروں پر برتری جتلانے سے ٹھنڈک کا احساس پاتا ہے ۔
خطبہ حجتہ الوداع کے موقع پر آپ صل اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اگر کوئی کسی سے برتر ہے تو وہ تقوی اور پرہیز کے وجہ سے ہے ۔
ہمارا معاشرہ جس سمت چل رہا ہے وہ کسی قانون یا کسی ترمیم سے اپنی اصل پر واپس نہیں آئے گا ۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ قانون بنانے والے اور اس پر تنقید کرنے والے اپنے قول و فعل میں تضاد ختم کریں ۔عوام کے لئے ایک اچھی اور سچی مثال بنیں ۔مگر یہ اس وقت تک ممکن نہیں جب تک عوام اپنے رہنما چنتے وقت دولت کے انبار کی بجائے کردار کو ترجیح دیں گے ۔جھرلو طریقہ انتخاب سے منتخب ہونے والے بھاری مینڈیٹ کے لئے جھاڑو کا سہارا لیتے ہیں ۔ ہر منتخب ہونے والا سیاستدان خود کو تخت شاہی کا حقدار سمجھتا ہے ۔
اس کا جواب تو عوام بہتر طور پر سمجھتے ہیں جو آوے ہی آوے اور جاوے ہی جاوے کے نعروں کا ایندھن بنتے ہیں ۔
ہمارے سیاستدان اور سیاسی علماء کرام کیوں بھول جاتے ہیں کہ لاہور شہر میں سروں پر حکومت کرنے والے ایک قطب بادشاہ کے مزار پر ہو کا عالم اور دلوں پر راج کرنے والے ایک ولی اللہ کے مزار پر زائرین کا جم غفیر ایک سبق آموز حقیقت پیش کرتا ہے ۔ پھر بھی سیاستدان سروں پر حکومت کر کے معاشرہ کی درستگی کا بیڑہ اُٹھانے کا متمنی نظر آتا ہے ۔ حالانکہ قوم جانتی ہے کہ قانون بنانے والوں پر قانون لاگو نہیں ہوتا ۔ قانون کمزوروں کو اور بے کس بنانے میں استعمال ہوتا ہے ۔ طاقتور اور امیر تعلقات اور اثر ورسوخ سے قانون کے شکنجے سے بچ نکلتے ہیں ۔ سیاسی مخالفین کے علاوہ شاید ہی کسی نے طاقتور کو سزا سے فیضیاب ہوتے دیکھا ہو ۔ کروڑوں اربوں کے ٹیکس نا دہندہ جیل کی سلاخوں کے پیچھے نہیں دیکھے گئے ۔ چند سو کے نا دہندہ کے لئے کوئی خاص رعایت نہیں ۔
چند سال پہلے مال روڈ لاہور پر منہ زور ایم پی اے کی کار سے کالے شیشے اتارنے کی جرآت پرٹریفک افسر کی وردی بھی اتری اور جیل کی سلاخوں کے ہار بھی پہنے ۔
پنڈی کا عوامی سپوت کلاشنکوف لہرانے پر پانچ سال کی سزا پر اسلحہ رکھنے سے باز آیا ۔ اور اسلام آباد کے سپوت کو اسی جرم میں بھاری بوٹوں نے تھانے میں ہی مجسٹریٹ کے ہاتھوں رہائی کے پروانے کے ہار پہنائے ۔
جہاں وزیر اعلی خود تھانے جا کر ملزم چھڑا لائے ۔ وہاں قانون صرف ہاتھ ملتا ہی رہ جاتا ہے ۔
مگر افسوس صد افسوس قانون کے ایسے قتل عام پر نہ جلوس نکلا نہ احتجاجی جلسہ ہوا ۔ نہ ہی لانگ مارچ ہوا اور نہ ہی کسی تحریک کا آغاز ہوا ۔ میری نظر میں یہ سب یک نظر ہیں ۔ کیونکہ قانون کی بالادستی کی وجہ سے کبھی نہ کبھی وہ بھی اس کے شکنجے میں کسے جا سکتے ہیں ۔ کیونکہ دامن اتنا صاف شاید ہی کسی کا ہو کہ دوسروں کو دھبہ نظر نہ آئے ۔
قربانی کا بکرا صرف عوام ہی کیوں ۔ عوام کو شاید یہ ان کے عملوں کی سزا ہے جو وہ ہر بار انہی دولت مندوں اور با اختیار لوگوں کو منتخب کرتے ہیں ۔ جن کا سسٹم بھی تابع ہے ۔
عام آدمی تو گھر میں چوری کی رپورٹ درج کروانے کے لئے علاقے کی بااثر شخصیت کی سر پرستی کا محتاج ہے ۔
کیونکہ پہلا شک گھر کے بھیدی پر جاتا ہے ۔

محمودالحق
در دستک >>

سوشل نیٹ ورک

Flag Counter