Jul 22, 2011
بھولنے والے بھول جائیں
بعض الفاظ اپنا تاریخی پس منظر چھوڑ جاتے ہیں ۔ جیسے سیاسی اداکار کا جملہ فنکاروں کو یہ سوچنے پر مجبور کر گیا ۔ کہ ان کا مستقبل کیا ہو گا ۔ ایک وقت تھا ٹی وی پر ان کے جلوے تھے ۔ تھیٹر ریڈیو سے سفر طے کرتے کرتے ٹی وی تک پہنچنا محال تھا ۔ اور فلمی سفر کی ٹکٹ ملنا تودیوانہ کا خواب تھا ۔
جیسا کہ اب محلے کی ویلفیر سوسائٹی سے کونسلر تک کا سفر طے طے کرتے کرتے اسمبلی تک پہنچنا محال ہے وزارت کا قلمدان سنبھالنا تو دیوانے کا خواب ہے ۔ جوں جوں معاشرہ اخلاقی اقدار کی کاٹ کا شکار ہے ۔ توں توں حکمرانی بندر بانٹ کے فارمولہ پر اتفاق رکھتی ہے ۔ مگر بیوقوفی میں تماشا نہیں بنتی ۔ پکڑے جانے کا ڈر ہو تو بندر کی طرح مٹھی بند نہیں رکھتی کھلے ہاتھ دکھا دیتی ہے ۔ سمجھ دار کے لئے اشارہ ہی کافی ہے ہاتھا پائی سے گریبان پھٹتے تو گالی سے روح تلملا جا تی ہے ۔ مگر کانوں میں جوں رینگنے کا دور گزر چکا ۔ جوں سے سر میں کھجلی کی بجائے ہاتھ کی میل دولت آنے کی امید سے کھجلی پیدا ہوتی ہے ۔ جو شریفوں کے لئے خجل خواری تو ہوس کے پجاریوں کے لئے سرمایہ کاری ہوتی ہے ۔ جس کے اثرات تابکاری جیسے نہیں ہوتے ۔ عوام ایسے معاملات کی جانکاری مانگتے مانگتے تانگے کی سواری کرنے کے قابل رہ جاتے ہیں ۔ رمضان کی آمد آمد ہے غریب گھرانے کئی سو روپے میں افطاری تک اپنے سحر کے اختتام کا سفر طے کریںگے ۔
ڈکشنری میں ہر لفظ کا مطلب نکالا جا سکتا ہے مگر حل نہیں ۔مشنری اور کمشنری کے الفاظ ہم آواز تو ہیں مگر ہم معنی نہیں ۔ متحدہ ہندوستان میں مشنریوں کا جادو سر چڑھ کر بولتا رہا ۔ مگر آج بھی گورا راج کی نشانی کمشنری کا جادو سر سے اتاریں تو پھر چڑھ دوڑنے کے لئے بیتاب رہتا ہے ۔ بچپن میں دوست جادوگروں کی کہانیاں پڑھ کر ایسے شہزادوں کا روپ دھارنے کی کوشش میں رہتے جو خوبصورت شہزادی کو ظالم جادو گر کی قید سے رہائی دلا کر سہرے کی لڑیاں سجانے کے لئے آنکھوں میں طلسماتی خواب بسا لیتے ۔
آج کا جدید دور شہزادیوں کی محبت کا روادار نہیں ۔ موبائل فون اور انٹر نیٹ سے قارون کے خزانے کی جستجو ہے ۔ لاکھوں کروڑوں کے سودے ادھر سے ادھر ہو جاتے ہیں ۔ کمیشن لینے والا اب کمیشن ایجنٹ نہیں کہلاتا ۔ رقم کی منتقلی ارجنٹ مانگتا ہے ۔ ایک زمانہ تھا مانگنے والے کو منگتا بھی کہا جاتا تھا ۔ اب مانگنا شرمساری کا باعث نہیں ۔ جب ملک قرض مانگ کر شرمندہ نہیں ہوتے تو ایسے میں فرد واحد کیوں فخر سے محروم رہے ۔
طعنے کوسنے دینے سے مسائل سے نجات ممکن دکھائی نہیں دیتی ۔ اور اکثر لکھنے والے یہ سمجھ لیتے ہیں کہ وہ جو سوچتے ہیں وہی لکھتے ہیں ۔ حقیقت کا ادراک رکھنے والوں کے لئے کھلی نشانیاں ہیں ۔ حالانکہ نشانی سب کی اپنی اپنی ہے جیسا کہ ۔۔۔۔۔ چلیں چھوڑیں سب ہی جانتے ہیں کہ آج باہمی اختلاف کس بات پر ہے ۔
اصل مسئلہ شائد عدم برداشت کا ہے ۔ میں میرا ، تو تیرا نے رشتوں اور باہمی احترام کی ڈوریاں ڈھیلی کر دی ہیں ۔ ابھی ٹوٹی نہیں ہیں ۔ ڈھیلی پھر بھی کسی جا سکتی ہیں مگر ٹوٹی جڑ نہیں سکتیں ۔ بہت کم لوگ ہوں گے جو خود میں نیوٹرل یعنی غیر جانبداری کا طوق گلے میں پہنے ہوں ۔ اکثریت جو پڑھ لیں یا جو سن لیں اسی پر یقین کی بنیاد کھڑی کر لیتے ہیں ۔ پھر کوئی نظریہ کوئی فلسفہ زبر سے زیر نہیں کر سکتا ۔ اگر کوئی ایسا نہیں ہے تو اپنے مکمل کوائف اور تفصیلات تیار رکھے ۔ کیونکہ ڈگریوں کی طرح انہیں بھی ردی کی ٹوکری انعام میں ملنے کی توقع ہے ۔
ہر انسان کو اپنا کام کرتے جانا چاہیئے ۔ پڑھنے والے پڑھتے جائیں ۔ لکھنے والے لکھتے جائیں ۔ سمجھنے والے سمجھ جائیں ۔ بھولنے والے بھول جائیں ۔ لینے والے لے جائیں کیونکہ مال واسباب تو یہ ہے نہیں لٹنے کا خوف نہیں کھونے کا ڈر نہیں ۔
تحریر ! محمودالحق
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
0 تبصرے:
Post a Comment