Jul 24, 2011
دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو مَیں
آسمان پہ چپکے سفید روئی کے گالوں کی طرح برسنا قسمت میں نہیں ، صرف ٹہلنا رہ جاتا ہے ۔ جو نہ تو دھوپ سے بچاتے ہیں اور نہ ہی پیاسی زمین کی پیاس بجھاتے ہیں ۔
آسمان سے باتیں کرتے جنگلی درختوں کی طرح اکڑے ثمرات سے بے فیض ہوتے ہیں ۔ اظہار محبت کے لئے تین لفظوں سے لے کر ایجاب و قبول کے درمیان اٹک جاتے ہیں ۔ زندگی کا یہ مختصر ترین عرصہ صدیوں سے چلتی معاشرتی قدروں کے سامنے بغاوت کا علم بلند کر دیتا ہے ۔ عزت کا جنازہ نکل جانے کا غم نہیں ۔ پانے کی خواہش اتنی شدت اختیار کر لیتی ہے ۔ کہ جیت کے نشہ سے بڑھ کر نشہ کی علت میں مبتلا کر دیتی ہے ۔ بچپن ، لڑکپن کی یادیں احسان فراموشی کی شال اوڑھ لیتی ہیں ۔ میں کی عینک میں منزل مراد وحید ہو جاتی ہے ۔ کھلونوں کے بازار میں کھڑے بچے کی مانند جو صرف اپنی پسند پہ فریفتہ رہ جاتا ہے ۔ اوراگلی بار پھر کسی اور پسند پر ۔ ایک زمانہ کی پسند ایک زمانہ تک رہتی ہے ۔
حسرت کا یہ کوہ پیمائی سلسلہ خواہشوں کے انبار میں قوت خرید کی بنا پر ایک وقت میں ایک خواہش کی تکمیل کی تدپیر نہیں رکھتا ۔
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
0 تبصرے:
Post a Comment