Jul 30, 2011
لکھنا مجبوری میری، پڑھنا کیوں تیری
سیاستدان نرما کی وجہ سے اجلے دیکھائی دیتے ہیں ۔ مگر کردار ابھی صاف نہیں ۔ سیاست کے شیر ہیں یا ترکش میں بھرے تیر ۔ بچے کھچے عوام قطعا بھوکے بٹیر نہیں جو لڑ بھڑ کر بھڑاس نکالیں ۔ البتہ ترم کے پتے استعمال کرنے کی پابندی ہر گز نہیں ہے ۔ اب اسے مڈ ۔ ٹرم پڑھنے والے ایک نئی بحث کا آغاز خود سے کر دیں ۔ تو ہنوز دلی دور است نہ سمجھا جائے ۔ کیونکہ جج جہاں پایا جائے ۔ عدالتی کاروائی کا وہیں اختیار رکھتی ہے ۔ کم از کم ہمیں فیصلے کا اختیار نہیں ۔ کسی بھی دھاگے پر موم چپکا کر آگ جلانے کا اختیار ماچس ہاتھ میں لینے سے شروع ہو گا ۔ ہماری تو آواز بھی اچھی نہیں کہ اپنا راگ ہی آلاپ سکیں ۔ آگ تاپنے کا مزہ موسم سرما میں اچھا ہے ۔ ایسے شدید گرم موسم میں گرمی سردی صحت کے لئے سود مند نہیں ۔ سردا اگر بازار سے میسر نہ ہو تو گرما ابھی چند مزید ماہ دستیابی کا ترانہ گنگاتا رہے گا ۔
ماہ رمضان کی آمد آمد ہے پھل گھر گھر جانے کے لئے بیتاب ہیں ۔ تاکہ روزہ داروں کی افطاری میں غریب سے غریب تر کو بھی بھوک کے نڈھال پن سے نجات دلانے میں اپنا حصہ ڈال سکیں ۔ حصہ تو بقدر جثہ ہر صاحب حیثیت کو بھی بیواؤں یتیموں ، مسکینوں ، بیماروں اور لاچاروں کی مدد کرنے میں ڈالنا چاہیئے ۔ تاکہ وہ بھی شدید گرمی میں غربت کا پسینہ بہہ جانے سے نقاہت کا شکار ہونے سے اپنے آپ کو بچا سکیں ۔ اور ان کے بچے امیر کی عیال سے نفرت پال کر جوانی کی دہلیز تک انتقام کے گھوڑے پر سوار سفر طے نہ کریں ۔ بلکہ ہم سفر ہونے کے اعزاز سے نوازے جائیں ۔ ستارہ امتیاز سے نوازے جانے کی آرزو کہیں کہیں مچلتی دکھائی بھی دے تو گھر میں فوٹو فریم میں لٹکانے سے لٹکے منہ اُٹھائے نہیں جا سکتے ۔ سر اُٹھانے میں ایڑی چوٹی کا زور لگانے میں کوتاہی کی سرکوبی خیال کرنی ضروری ہے ۔
تیس دن جسم کی ضرورتوں کو کھجور اور دودھ سے توانا ئی سے بھرپور غزائیت پہنچانے کے ساتھ ساتھ روحانیت بکثرت عمل صالح سے ندامت ناصح پر ہو تو قلب تر و تازہ پھلوں سے بنایا خون سر پھرے شریانوں میں برابر پہنچ کر مقرب تکبر خاص کو اکڑاؤ کی بجائے نرم خوئی پر رواں دواں کر دے ۔ نا کہ جیو اور جینے دو کے جھنڈے تلے سانس لینے میں بھی محتاجی کا علم تھما دے ۔
کج فہمی میں کی گئی بات رات ڈھلنے کے انتظار میں اتفاق کی بجائے نفاق کے سبب اسباب پیدا کرنے کی صلاحیت سحر ہو جاتی ہے ۔ جو بات بے بات اپنا عمل دوا کی بجائے طبیب کی تشخیص کا اعلان ایجاد بن جاتا ہے ۔ علماء کے اجتہاد سے اسے الگ پڑھا جائے ۔ فتاوی ملنے سے کچھ خوش رہتے ہیں تو کچھ صرف پڑھنے سے ۔ اکثریت نہ پڑھنے میں ہی خوش ہے کیونکہ وہ ان پڑھ ہیں ۔ ملک کی تقریبا ستر فیصد شائد اسی کیٹیگری میں آتے ہیں ۔ بوڑھے طوطے تو اب پڑھنے سے رہے ۔ لیکن فال نکالنے کے لئے ان کے تجربات سے فائدہ نہ اُٹھانا کوئی دانشمندی نہیں ۔
اگر زندگی نے وفا کی تو ہر وفاء بے اختیار کو آقا سراپا کی غلامی میں تیغ زن تیار ہوتا پھر سے پائیں گے ۔
لیکن اگر آج سے بے نیام شمشیریں عقائد کے سر قلمی اعتراضات سے اختلافات کی بجائے پیار اور امن کی عبادات سے بھائی چارے کی ترغیبات کو فروغ دینا شروع کریں تو ایک ماہ ہی شائد سال بھر کی شرکتی بزلہ سنجی کا اثر زائل کرنے کا سبب ہو ۔
آؤ ایک سجدہ کریں عالم مدہوشی میں
لوگ کہتے ہیں کہ ساغر کو خدا یاد نہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
محمودالحق
موضوعات
پاکستان,
زندگی,
سفینہء محمود,
سفینہء محمود،,
محبت,
معاشرہ,
نثری مضامین,
نثری مضامین،
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
0 تبصرے:
Post a Comment