Aug 14, 2011

جشن آزادی مبارک تمہیں ۔۔۔ دیا سے دیا جلاؤ

پاکستان کی آزادی کو آج چونسٹھ سال ہو چکے ۔ ایک قوم نے ایک وطن کی بنیاد رکھی ۔ ایک رہنما نے رہنمائی کی شمع جلائی ۔ قوم کے ہاتھوں میں ایک امید کا دیا تھما دیا ۔ جو دئیے سے دیا جلانے کی کوشش کے انتظار میں خود دیا ٹمٹماتا رہا ۔ بجھانے کی نیت رکھنے والے منہ کی کھاتے رہے ۔ آس ٹوٹی نہ امید ۔ جشن آزادی کی نعمت سے جگمگاتے منور ہو گئے ۔ حقیقی خوشی سے محروم طبقہ عارضی پن سے نعمتوں کا شکر بجا لانے میں کسر نفسی کا شکار رہا ۔ قوم چھتوں پر جھنڈیاں پھیلائے جشن کو آزادی کے ترانوں سے گنگناتی رہی ۔
بہت کچھ کھونے کے بعد بہت کچھ پایا تھا ۔ جو اسلام کا گہوارہ بننے میں بیتاب تھا ۔ اصول سیاست میں رہنما تو اصول معاش میں مساوات کے ترازو کے ہر پلڑے میں انصاف برابر یقین محکم تھا ۔
لیکن آج صبح عجب تھی ایس ایم ایس جو ملا شکایت سے بھرا شکوؤں سے تلا بے بسی سے تلملاتا پیغام آزادی کے رنگ سے ہرا تھا ۔ یہ جھنڈا سفید و سبز رنگ سے لہراتا خون آشوب شام کا سویرا تھا ۔ جو نئے چاند کو پہلو میں دبائے چمکتے ستارے سے روشنی پھیلانے کو بیتابی کا مظہر ہے ۔
اٹھاون کا مارشل لاء، پینسٹھ کی جنگ ۔ 71 کی آدھے وجود سے جدائی کے بعد پے در پے صدمات کا بوجھ کندھوں پر ایسے اٹھاتا چلا گیا جیسے باپ کے کندھوں پر نادان معصوم بچپن سوار ہو کر گہرے پانی سے گزر جاتا ہے ۔
آج ان کندھوں کو توانا اور طاقتور بازوؤں کے سہارے کی ضرورت ہے ۔ تو بازو بغلگیر ہونے سے گھبراہٹ کا شکار ہیں کہیں تنگدستی نے تو کہیں تنگیء داماں نے ہاتھ روک رکھا ہے ۔ خون بہانے سے نئی زندگی کو جلا نہیں ملتی ۔ اور جلانے سے جفا نہیں ملتی ۔ وفا کی سیڑھی محبت کی منزل تک پہنچاتی ہے ۔ اور محبت آسمان پر پھیلے قوس و قزح کے رنگوں تک ۔محبت تو وسیلہ ہے وفا کو منزل تک پہنچانے کی ۔
وطن ہر وقت دینے کا متمنی رہتا ہے ۔ قوم لینے میں بیتاب ۔ لیکن آج وقت نے آنکھوں سے پٹی کھول رکھی ہے ۔ لینے والے آج دینے میں تاءمل کیوں کریں ۔رگوں میں دوڑتے سرخ گرم لہو میں جو جوش زیادہ دیتے ہیں ۔ ان نوجوانوں کے عزم و حوصلہ کو ایک دھاگہ میں پرونے کی ضرورت آن پڑی ہے ۔ جہاں دانہ دانہ سے چپکا دانائی کی لڑی سے جڑا ہے ۔ہوش کے ناخن لینے کی ضرورت نہیں جوش کی گانٹھوں کو وفا کے دھاگوں کی مزید ضرورت ہے ۔
جو کامیاب دکھائی دیتے ہیں وہ دراصل ناکام ہیں ۔ ہوس حرص کی محبت وفا کی چاشنی سے لبریز نہیں ۔
گاڑیوں کی رفتار ہارن کی آواز سونے کی جھنکار زندگی کے ساز نہیں ۔ سازندے ہاتھوں کے جادو سے آنکھوں کو چندھیا نے میں شعبدہ باز تو ہوں گے مگر پاکباز نہیں ۔
کیوں نہ آج یہ عہد کریں محلہ محلہ گلی گلی دھواں پھیلاتی موٹر سائیکل سے موٹر اتار کر دودھ دہی ، برگر ، پیپسی لانے میں دو پیڈل کا سہارا لیں ۔ جو بچت بھی ہے ۔ صحت بھی رکھے اچھی فارغ وقت کا بہترین مصرف بھی ۔ ٹریفک کے شور سے پاک ، انتظار کی کوفت سے دور فاصلوں کے قریب ہونے میں مددگار بھی ہوتی ہے ۔ دئیے سے دیا جلاؤ ۔ دوسروں کے محل دیکھ کر اپنی جھونپڑی مت گراؤ ۔ منزل تک پہنچنے کے لئے رفتار بڑھانے کی بجائے قدم بڑھاؤ ۔ جو قدم سے قدم ملائے گا ۔ ایک مقصد کو پہلےاپنا نصب العین بناؤ ۔ ایک کے بعد ایک رسم ضیاع کو تختہ مشق بناؤ ۔ رئیسی کی طفلانہ حرکت بچگانہ پر صرف مسکراؤ ۔
نہ گھیراؤ نہ ہی کچھ جلاؤ ۔ صرف دیا سے دیا جلاؤ

محمودالحق

1 تبصرے:

Post a Comment

سوشل نیٹ ورک

Flag Counter