Aug 19, 2011
ایک سوال ادھورا جواب
ہم اکثر سنتے ہیں کہ ہم بحیثیت قوم ایسی با کمال خوبیوں کے مالک ہیں کہ علامہ اقبال کو بھی یہ کہنا پڑا کہ زرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی ۔ بلا شبہ مٹی تو زرخیز ہے جسے پانے کے لئے سنٹرل ایشیا سے لے کر یورپ تک کے حکمران ایک دوسرے کو دھول چٹواتے رہے ۔ مگر آخر کار مقامی افراد کو اپنی مٹی کی زرخیزی کو سونا بنانے کا حق مل گیا ۔ سونے کی چڑیا سمجھ کر مغربی حکمران کوہ نور تاج میں سجا کر پلٹ جانے میں ہی عافیت پا گئے ۔ منٹو پارک کے اجلاس نے جو بنیاد رکھی ۔ اقبال پارک بن کر اسے دھرنا اور جلوس سے پورا کیا جاتا رہا ۔
انگریز کی لاٹھی اور گولی کا بدلہ اس کے جانے کے بعد توڑ پھوڑ سے لینے کی کوشش آج تک جاری ہے ۔ حکمران بدل گئے مگر لاٹھی اور گولی کی سرکار نہیں بدلی ۔ بدلے بھی کیسے قانون 1861 کو ہی چند تبدیلیوں کے ساتھ جاری و ساری رکھا جاتا رہا ۔ اگر پوچھا جائے کہ جناب کیسے جاری ہے تو خبر کا حوالہ دینے میں کیا حرج ہے آرڈیننس کے تحت صوبے میں کمشنری نظام، سندھ لوکل گورنمنٹ آرڈیننس 1979ءاور پولیس ایکٹ 1861ءبحال ہوگئے ہیں۔
اگرعلامہ صاحب جانتے کہ بنیادی ڈھانچہ تبدیل کرنے میں چونسٹھ سال بھی کافی نہیں ہوں گے تو زرا نم کی بجائے پوری طرح سیراب کرنے کی بات کرتے ۔ 1930 ، 1933 کی گول میز کانفرنسز کی ناکامی کے بعد دل برداشتہ قائد قوم کو ان مسلمانوں کی دگرگوں حالت زار کا حوالہ دے کر طوفان میں پھنسی کشتی کو نکالنے کے لئے خط نہ لکھتے ۔ کیونکہ مسلم لیگ کا نیا دھڑا سر شفیع کی قیادت میں مسلمانوں کی قیادت کا ترجمان نہیں تھا ۔ مگر کام ہونے کے بعد اب سب ہی ترجمانی کے دعوی دار ہیں ۔
بات تو ہو رہی تھی ٹریفک سگنل پر رکے مسافروں کی ۔ جا پہنچی آزادی کے متوالوں تک ۔ فکر کی کوئی بات نہیں قلمکار کا قلم بھی رکشہ کی طرح اپنے پاؤں پلٹنا جانتا ہے ۔ مارشل لاء کی سرخ بتی پر کئی کئی سال رکا رہتا ہے ۔ جمہوریت کی سبز بتی پر رفتار تیز کر لیتا ہے ۔
قائداعظم نے اتحاد اور نظم و ضبط کا بھی درس دیا تھا ۔ جسے یقین کے ساتھ بھٹو نے ایوب کے خلاف استعمال کیا اور بھٹو کے خلاف خود قومی اتحاد نے ۔ پھر اس کے بعد تو دس سال تک نظم و ضبط کا خوب مظاہرہ ہوا ۔ اور اس کے بعد اب تک صرف برداشت کے مظاہرے ہیں ۔ مظاہرے تو بے شمار ہیں ان کے احوال کے لئے کتاب لکھنا ہو گی ۔ کتاب کے لئے ایک عدد مصنف درکار ہوتا ہے اور چھاپنے کے لئے پبلشر اور ان سب کے لئے رقم کی مدد درکار ہوتی ہے ۔ صرف توڑ پھوڑ کی کہانی پر زر کثیر خرچ کرنا دانائی نہیں ۔ قومی معاملہ پر اس بے اعتناعی کو بزدلی سے محمول نہ کیا جائے ۔ کیونکہ
وہ اور ہوں گے کنارے سے دیکھنے والے
ہماری نہ پوچھ ہم نے تو طوفاں کے ناز اٹھائے ہیں
اس میں کیا شک ہے کہ بعض بے گناہوں نے تو کوڑے بھی کھائے ہیں ۔ اب بے چارے وہ کوڑے کے ڈھیر کے قریب بسیرا رکھتے ہیں ۔ جو اس وقت کچھ کھانے سے محروم رہ گئے تھے اب ان کے کھانے کے دن ہیں ۔
قلم بار بار پتنگ کی طرح ایک ہی طرف کنی کھائے جا رہا ہے ۔ کیا کریں برابر کرنے کے لئے کوئی میرے قائد کا جانشین نہیں ہے ۔ ولی عہد تو بہت ہیں جو تیز ہوتی ہوا میں مزید کنی کھانے کے لئے قوم کی امنگوں کی پتنگ کو مزید ہوا دے رہے ہیں ۔
اتنی لمبی تمہید باندھنے کی ضرورت پیش آنے کی وجہ بھی تو دینی پڑے گی وگرنہ اعتراض باندھنے میں حجت سے کام کیوں نہ لیا جائے گا ۔ کیونکہ نئی بات تو اس میں ایک بھی نہیں ۔ جب قائد ہی بھلا دیا تو صرف تاریخ پڑھا کر کیا سبق یاد کروایا جا سکتا ہے ۔ باد مخالف سے تو عقاب نہیں گھبرایا کرتے مگر الفاظ سیاہی سے ضرور گھبراتے ہیں کیونکہ سیاہی ہر شے کو سیاہی میں ڈبو دیتی ہے ۔ روشنی کے مینار بہت دور دکھائی دیتے ہیں ۔ لیکن جب اندھیرے سے روشنی کے دائرے میں داخل ہو جائیں تو روشنی کے منبع کی طرف دیکھنے کی ضرورت باقی نہیں رہتی ۔
نوٹ ! ایک بار مغرب کی ایک شاہراہ پر سرخ بتی کو بلنک کرتے ہوئے چاروں اطراف دور دور تک پھیلی لمبی ٹریفک کو انسانی ہجوم سے بہتر انداز میں ایثار و رواداری ، نظم و ضبط کی پابندی میں دیکھا تو حیرانی ہوئی جو گاڑی اپنی حدود سے اگے چوک تک پہنچتی تو تمام گاڑیاں اس کے انتظار میں ایسے مودب کھڑے رہتے جیسے ہماری سڑکوں پر حکمرانوں کے قافلے گزرنے پر قوم کو انتظار کی سولی پر مودب کھڑا کیا جاتا ہے ۔
قومیں صرف کھوکھلے نعروں اور دعوؤں سے عظیم نہیں ہوتی بلکہ اپنے عمل و کردار سے اس مقام تک پہنچتی ہیں ۔
تحریر ! محمودالحق
موضوعات
پاکستان,
سفینہء محمود,
سفینہء محمود،,
نثری مضامین,
نثری مضامین،
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
0 تبصرے:
Post a Comment