Oct 23, 2023

اجنبی خیال

راتوں کی طوالت نے دن کے اجالوں کو گھٹا دیا ہے۔ غموں نے خوشیوں کو جا لیا ہے۔ زندگی چلتی کم ہے سستاتی زیادہ ہے۔خوشیوں بھرا بچپن مست جوانی میں ڈھل جاتا ہے۔آنکھ میں نشہ بھر جائے تو قدموں میں اُٹھان اور گردن میں اکڑاؤ آ جاتا ہے۔
ایک عمر پانے کی آرزو میں گزر جاتی ہے۔ملنے پر پلکیں گر جاتی ہیں۔ تلاش کے سفر میں ہم سفر نظروں سے اوجھل رہتے ہیں۔ منزل سامنے پا کر بھی پہنچ نہیں پاتے کیونکہ گمان یہ رہتا ہے کہ منزل ہمیں پانے کے لئے آگے بڑھے گی۔ طوفان میں گھری ہچکولے کھاتی ناؤ لہروں سے پوچھے تباہی تو ہمارے اوپر آئی آپ کیوں ہم سے لپٹ لپٹ کر روئے۔
زندگی کو جاننا جتنا آسان ہے اسے پرکھنا اتنا ہی مشکل۔ پتھروں سے جمے پہاڑ صرف زلزلوں سے تھرکتے ہیں، بارش کے قطروں سے گرتے پڑتے مٹی کے تودوں جیسے نہیں۔ ماں کی محبت کا انداز الگ، باپ کی شفقت کا احساس سایہ جیسا۔
کامیابیوں اور خوشیوں کے حصول کے لئے دعاؤں پر انحصار کیا جاتا ہے۔ جب اپنی دعا پر یقین کم پڑ جائے تو نیک انسانوں سے دعاؤں کے لئے التجا ءو التماس کی جاتی ہے۔ دعاؤں کی قبولیت کا ایک وقت مقرر ہے۔ کامیابی محنت کا ثمر ہے تو ناکامی غلطیوں کا خمیازہ۔
 حالانکہ اچھی یا بری حکمت عملی اور اس کے نتائج احساس و تخیل سے بہت دور ہوتے ہیں۔ جسے جو حاصل ہو جاتا ہے وہ فوری طور پر مارکیٹ میں آنے کے لئے بیتاب ہو جاتا ہے۔خزانوں کے متلاشی دکھاوے اور شہرتِ تمنا سے بچ نہیں پاتے۔ تسکین انا کے لئے جام تحسین و تعریف ساقی سے بھر بھر لیتے ہیں۔طوفان جتنی تیزی سے اُٹھتے ہیں ویسے ہی گزر جاتے ہیں۔جو سنبھال لیتے ہیں وہ پا لیتے ہیں۔ جو خوشبو محسوس کر لیتے ہیں وہ رنگ چھوڑ دیتے ہیں۔
 جو لفظ تراشے جاتے ہیں وہ احساس سے کٹ جاتے ہیں۔اندر کی کیفیت ظاہری خدو خال سے آشنائی پیدا کر لیتی ہے۔لفظ آنکھوں میں جگہ پا لیتے ہیں۔ دل میں اُترنے سے پہلے اجنبی ہو جاتے ہیں۔
 گل گلستان میں دیر تک کھلتا اور مہکتا رہتا ہے۔ گلدستہ میں ڈھل کر رسم بن کر جلد مرجھا جاتا ہے۔

تحریر: محمودالحق

در دستک >>

سوشل نیٹ ورک

Flag Counter