Dec 15, 2020

تصویر کائنات میں رنگ ( کائنات کے سر بستہ راز )

(یہ تحریر الفاظ سے زیادہ رنگوں کی زبان میں ہے جو کہ نیچے تصاویر کی شکل میں اپنا مدعا بیان کریں گی)
کائنات کی خوبصورتی میں  رنگوں کو بنیادی اہمیت حاصل ہے کیونکہ رنگوں کی ترتیب و تشکیل نے بنی آدم کے ارد گرد  ایک ایسا ہالہ تشکیل دے رکھا ہے کہ انسان ان کی جاذبیت سے سحرزدہ دکھائی دیتا ہے۔لباس کی تراش خراش میں رنگوں کو بنیادی اہمیت حاصل ہے ۔ڈریسنگ ٹیبل سے لے کر ڈرائنگ روم تک اور گھر کی کیاری سے باغات تک رنگوں کے خوبصورت امتزاج نے انسانوں کو اپنے سحر میں گرفتار کر رکھا ہے۔خوبصورت چیزیں اسی وقت خوبصورت دکھائی دیتی ہیں جب ان میں ترتیب کا خیال رکھا گیا ہو۔رنگ اسی وقت اپنا حسن ظاہر کرتے ہیں جب ان میں توازن موجود ہو۔ اعداد کے تواز ن کے ساتھ ساتھ حروف کے توازن میں رنگ کس خوبصورتی سے اپنا حسن ظاہر کرتے ہیں۔انہیں  یہاں پیش کیا جا رہا ہے۔اعداد اور حروف کو اپنی سادہ شکل میں دیکھنے سے کوئی خاص تاثر پیدا نہیں ہو گا لیکن جیسے ہی ان میں رنگ بھر دئیے جائیں تو کہکشائیں ابھر کر نظروں میں سما جاتی ہیں۔
کائنات کے سربستہ راز کے نام سے جس سلسلے کو اس تحریر کے زریعے پیش کرنے جا رہا ہوں وہ تسلسل ہے میری اس جستجو و تلاش کا ، جہاں ایک کچھوے کی پشت پر بنے ڈاٹس کی منفرد ترتیب و تشکیل نے اپنے سحر میں ایسے گرفتار کیا کہ بڑے سے بڑے اعداد اور  حروف میرے ذہن کے کسی گمشدہ حصے سے باہر نکلنے کے لئے مچلتے رہتے ہیں۔
اعداد کے لئے یہاں تفصیل دینا ناممکن ہے اس لئے اس کے دو لنک نیچے پیش کر رہا ہوں جو پی ڈی ایف میں سکرپڈ میں اپلوڈ ہیں۔یہ 100x100  اور  300x300  کے  Math Magic  ہیں۔  میرے کمپیوٹر میں 1000x1000  کا جو  Math Magicہے اسے  پھر کبھی شئیر کروں گا۔درج بالا دونوں کو دیکھنے کے بعد اسے سمجھنا اتنا مشکل نہیں رہے گا۔ جس میں اعداد  ایک (1) تا دس لاکھ (1000000)  ایسے استعمال ہوئے ہیں کہ دس لاکھ خانوں میں ایک بھی نمبر دو بار استعمال نہیں ہوا۔ میرا یقین نہیں بلکہ دعوی ہے دنیا میں آج تک اتنا  بڑا مکمل اور جامع اعداد کا کھیل کبھی پیش نہیں کیا گیا  اور یہ صرف اور صرف اللہ سبحان تعالی کی خاص عنایت اور کرم نوازی کی وجہ سے ہے۔ اسے آئندہ کسی وقت کے لئے چھوڑ رکھتا ہوں۔
ہر بار کچھ نیا کرنے کی لگن مجھے نئے راستہ پر ڈال دیتی ہے جہاں پھر کچھ نیا تشکیل پا جاتا ہے۔جیسا کہ درج ذیل میں پیش کی گئی تصاویر میں میں نے انگلش حروف سے Magic Square  تشکیل دئیے ہیں۔جس کی ہر Row  میں حروف   A  سے  Z  تک موجود ہیں لیکن مختلف ترتیب میں۔ اسی طرح ہر  Column  میں حروف  A  سے  Z  تک موجود ہیں  جو چھبیس کی تعداد میں ہیں ۔  اس کے علاوہ Diagonal  میں بھی  A سے  Z  تک حروف  دو رنگوں میں دکھائے گئے ہیں۔
پہلی تصویر میں حروف کس طرح مکمل جامعیت اختیار کئے ہوئے ہیں انہیں دوسری تصویر میں دیکھا جا سکتا ہے۔انہی حروف کو رنگوں سے ایسے مزین کیا گیا ہے کہ ایک ہی رنگ میں A  سے Z تک تمام حروف موجود ہیں۔ رنگوں کا یہ حسین امتزاج حروف کی جامع ترتیب کی وجہ سے ہے۔ کیونکہ ہر رنگ میں پوری اے بی سی موجود ہے۔
صرف اتنا نہیں کہ ان میں صرف حروف کی ترتیب و تشکیل بہت شاندار اور جاندار ہے بلکہ اس میں  PUNJAB لکھا ہوا جگہ جگہ ملے گا اور اس کے علاوہ ROSE  اور SKY  کے الفاظ میں جگہ جگہ پائے جاتے ہیں۔ لیکن ان سب کے باجود تمام حروف کا توازن اور ترتیب بہت جامع ہے۔
 
 

نیچے دی گئی تصاویر میں   حروف   ایک مختلف روپ اختیار کئے ہوئے ہیں ۔اس میں بھی انہی حروف کو رنگوں سے ایسے مزین کیا گیا ہے کہ ایک ہی رنگ میں A  سے Z تک تمام حروف موجود ہیں۔یہاں بھی  رنگوں کا یہ حسین امتزاج حروف کی جامع ترتیب کی وجہ سے ہے۔ کیونکہ ہر رنگ میں مکمل  ABC موجود ہے۔صرف اتنا نہیں کہ ان میں صرف حروف کی ترتیب و تشکیل بہت شاندار اور جاندار ہے بلکہ اس میں  LAHORE لکھا ہوا جگہ جگہ ملے گا اور اس کے علاوہ لاہور کی نسبت سے فضا میں موجود FOG  کے ساتھ ساتھ SKY اور COW کے الفاظ جگہ جگہ ملیں گے لیکن ان سب کے باجود تمام حروف کا توازن اور ترتیب بہت جامع ہے۔






در دستک >>

Nov 28, 2020

غبارِ عشق

زندگی جینے کے ڈھنگ نرالے ہیں کسی کو کہیں کہ آ لوٹ چلیں تو کہتے کہ بیٹھ جاؤ اتنی بھی کیا جلدی کچھ دیر تو ٹھہرو۔ اگر بیٹھ جائیں تو کہتے کہ جانے کا وقت نہیں ہوا ، وقت بھی کبھی کسی کا ہوا ہے۔ جو پوچھ لے اسے پتہ چل جاتا ہے جو نہ سمجھے تو گزر جاتا ہے۔قلب بس سے باہر ، دل میں ایک پیاس جو بہاؤ کی طالب ہے۔ایک جنگ میں مبتلا ہیں جہاں دشمن کوئی نہیں ۔ بس روح کے لئے بدن تنگ ہوجاتا ہے۔ جیسے بچہ بڑا ہوتا ہے تو پرانے کپڑے اسے تنگ ہوتے جاتے ہیں۔ بڑھتے جسم نئے کپڑے میں سماتے ہیں۔ جسم کپڑوں کی مانند چھوٹا ہو جاتا ہے، روح پھیل جاتی ہے۔ قلب اسمیں ایک ایسے پمپ کا کام کر تاہے جو پریشر بڑھاتا ہے۔خود تو ایڈجسٹ کر تا ہے مگر بدن کو سہولت دینے پر راضی نہیں ہوتا۔ اس جنگ کا انجام کیا ہوتا ہے،نہیں جانتے لیکن اتنا ضرور جانتے ہیں کہ اس میں جسم ہارے گا،روح جیتے گی۔جسم ازل سے ہارتا آرہا ہے ابد تک ہارتا رہے گا۔ بہت سالوں تک جنگ لڑتے ہیں رشتوں کی قلبی یا ازلی۔ بہت انتظار کرتے ہیں کہ سفر لمبا ہے مسافت ہمسفروں کی ہمرکابی میں آسانی سے طے ہو گی لیکن آخر اس مقام تک آ پہنچتے ہیں کہ اکیلے چلنے کا وقت ہونے کا احساس پروان چڑھتا جا تا ہے۔ ذات کی نفی کا عمل شروع ہو چکا ہوتومیَں نظر نہیں آتی، انا شکست خوردہ ہو جاتی ہے۔بدن بنجر ایسا ہوتا ہے کہ سمندر بھی ایک بدن کی تشنگی ختم کرنے کے قابل نہیں رہتا۔ قرآن بلا تا ہے تو اللہ اپنی محبت کو سمو دیتاہے۔ ایک ایک آیت اپنی طرف کھینچتی ہے۔ دنیا مجذوب مانگتی ہے ،اللہ مومن چاہتا ہے جو اس کےکلام کو جزب کر کے پھول کی طرح کھل کر ایک وقت کے لئے ہر سو پھیل جائے۔ زندگی سے محبت میں کمی پر شک میں نہیں پڑنا چاہیئے۔اپنی ذات میں جب نہ ہونے کا احساس بڑھ جائے تو ہونے سے کیا تعلق باقی رہ جاتا ہے۔زندگی پانے اور کھونے کے درمیان معلق رہتی ہے۔ خالی غبارے زمین پر پڑے پڑےبے کار ربڑ کی صورت رہتے ہیں۔اگر ان میں ہوا بھرتے جائیں تو وہ اپنے ہم جولیوں میں ایک معمولی اشارے پر اچھلتے کودتے پائے جاتے ہیں۔خالی اور ہوا بھرے غبارے میں صرف ایک ہی فرق ہے۔ خالی غبارے دھول میں ایسے رہتے ہیں کہ پاؤں سے مسلے جاتے ہیں اور پھونکوں سے اپنی جگہ سے ہلتے بھی نہیں ۔ اس کے مقابلے میں ہوا بھرے غبارے اپنی ہمجولی ہوا کے اشارے پر بھاگتے ناچتے نظر آتے ہیں۔بعض روحوں کے لئے وجود بس ایک غبارے کی مانند ہے، اس میں اتنی توانائی پیدا ہو جاتی ہے کہ وہ ایک معمولی اشارے پر اپنی منزل کی طرف محو پرواز ہو جاتی ہے۔جب دنیا کی محبت کے غبارے بڑے ہو جاتے ہیں تو روح میں اتنی طاقت نہیں ہوتی کہ وہ اس میں اتنی ہوا بھر سکے کہ وہ وجود ایک ہلکے اشارے یا حرکت سے روحوں کے اس گھیراؤ میں بلند ہونے لگے۔ غباروں سے آزادی کی جنگ میں روح ہوا کی مانند اتنی ہوا اپنے اندر بھر لیتی ہے ایمان کے پریشر سے کہ وہ اپنے اردگرد اپنے سے زیادہ طاقتور اور بڑی قوت کے مقابلے میں پرواز کر جاتی ہے۔ جو بچھڑ جاتے ہیں انہیں رک کر تلاش نہیں کیا جاتا اور نہ ہی انہیں ساتھ چلنے کا کہا جاتا ہے کیونکہ سورج کا کام ہے روشنی دینا ، فیصلہ زمین نے کرنا ہوتا ہے کہ کس کو کتنی روشنی درکار ہے اور کس کو اندھیرا۔انسان کتابوں سے گائیڈ لائن لینے کے پابند ہیں لیکن جنہوں نے جنگ سے زندگی کا آغاز کیا ہو وہ حرب و ضرب کے قائل ہوتے ہیں کتب کے نہیں۔جب جانے کا وقت ہوتا ہے تو نقارے پر بلاوہ نہیں آتا،پیغام رساں نہیں آتے،احساس آتے ہیں خیال آتے ہیں۔درخت جب پھیلنے پر آتا ہے تو اسے گھاس سے اجازت کی ضرورت نہیں ہوتی۔کیونکہ اس نے پھیلنے پر انہیں سایہ دینا ہوتا ہے جو باہر کی دنیا کی تپش برداشت نہیں کر سکتے۔ قریب رہنے والے دور کب ہوتے ہیں، بس اس درخت کے سائے سے زرا پرے ہٹ جاتے ہیں۔ کیونکہ انہیں روشنی اپنے قریب ہی رکھتی ہے ۔ مغز بھری عقل جب اپنی مرضی کر لیتی ہےتو اس کی چلنے کی معیاد پوری ہو جاتی ہے۔اس کے ہتھیار پھینکنے کا وقت ہو چکا ہو توسوچ فیصلہ کرنے کا اختیار کھو دیتی ہے۔ یہ چاہت میں کھونے پانے کی جنگ نہیں۔ جینا ہے تو جی جان سے جینا ہو گا۔پلٹنے، لوٹنے ، سوچنے اور سمجھنے کا پل نہیں جو کسی مشورے کا پابند ہو گا۔ پابندی نہیں رضامندی ہے جو رضا سے ہے ۔ کوئی پیر نہیں جو ہدایت کا مرشد ہو، کوئی مرید نہیں جو آستانہ کا مجاور ہو۔یہ عشق کی جنگ ہے جو قرآن کے لفظوں سے شروع ہوتی ہے اور اس کے مفہوم پر ختم ہوتی ہے۔جو قیام سے شروع ہو کر قیامت پر ختم ہو گی۔اب فیصلے کا اختیار کسی کے پاس نہیں۔ جس کو جانتے ہو وہ تمہیں جانتا ہے۔ جس کو پڑھتے ہو وہ تمہیں پڑھاتا ہے،سمجھنا چاہتے ہو تو سمجھاتا ہے۔ لفظ نہیں تلوار کی دھار ہیں،عرض نہیں حکم ہے۔کچھ دیکھ چکے باقی دیکھ لیا جائے گا۔ وہ دل نہیں جو خواب سجاتے رہے۔ ترازو ہاتھ میں دیا تو وزن پورا کرنے کے لئے۔حروف تول کر ملے تاکہ وہ گندم کے دانوں کی طرح چکی میں برابر پس سکیں۔ چکی کے دو پانسوں میں رکھنے کو نہیں تھا وہ دانے بن کر رہیں۔پسنے کا وقت دور نہیں ۔ دنیا کے لئے فقط لفظ ہیں جو سیاہی بن کر کاغذ پر چپک جاتے ہیں۔ لیکن لفظ بونے ، اُگانے ، کاٹنے اورسنبھالنے تک دانے ہیں لیکن چکی میں گزر کر اپنااصل ظاہر کرتے ہیں۔ دیکھنے والی اور پڑھنے والی آنکھیں الگ الگ ہوتی ہیں۔ پڑھنے والی آنکھیں خود ہی آ جاتی ہیں اور دیکھنے والی آنکھیں ایک طرف سے نظر ہٹنے پر کسی اور طرف متوجہ ہو جاتی ہیں۔بتانے اور سمجھانے کی منزلیں تمام ہو جائیں توجسم کا روح کے سامنےسرنڈر کرنے کا منظر طلوع آفتاب جیسا ہوتاہے ۔ دن کی روشنی پھیلنے کا آغاز ، جس کی شام نہیں ہوتی۔وجود کہنے سننے کی مشقت سے آزاد ہو چکا ہو تونعمتیں لذت پر انحصار نہیں رکھتیں۔ مسافر منزل نہیں دیکھتے اور نہ سفر کی صعوبت، بس ارادہ کرتے ہیں قوت ارادی وہاں تک خود ہی چھوڑ آتے ہیں۔ بہت ایسے جو افسوس میں ہاتھ ملتے رہ گئے۔ کچھ ایسے جو سمجھنے سے قاصر رہے۔کئی ایسے جو راستوں میں انتظار کے دیپ جلائے بیٹھے رہے۔ہارن بجا بجا کر متوجہ کرنے کا سفر نہیں کہ مسافر سر پر بار اٹھائے کھڑے ہوں گے۔ خالی ہاتھ آئے ہیں تو خالی ہاتھ ہی جانا ہے۔ پھرسفر نعمت ہے لذت نہیں۔ کھلے سمندر میں تیراکی سیکھنے کے لئے نہیں اترا جاتا بلکہ تیراک بن کر اترا جاتا ہے۔جس کے لئے جو حکم ہے اسے پورا کرنا ہے۔نہ مرضی ہے اور نہ ہی اختیار کہ انکار ہو۔انکار صرف ان کا جن کی ڈور ڈھیلی ہو۔ جن کی ڈور پہلے سے کھینچی ہوئی ہوان کا بس ان کے بس میں نہیں،ان میں میَں نہیں۔ ضد انا کے دریا کی کشتی ہے، جسے ڈوبنا ہوتاہے۔سہارے چپوؤں کی آس پر نہیں رکھے جا سکتے۔ لہریں بادبانوں کو ہوا ؤں کی سمت سمجھاتی ہیں۔جلد سمجھ جائیں تو جنگ کا فیصلہ فوری ہو جاتا ہے اگر نہ سمجھیں تو لہریں کشتی کو اپنی مرضی نہیں کرنے دیتیں۔ کسی نے عقیدت میں آنا ہوتاہے اور کسی نے چاہت میں، کسی نے پانے کی لگن میں توکسی نے منزل کی تلاش میں، کسی نے حق کو پانے میں توکسی نے راز کو جاننے میں،کسی نے خوشبو پانے میں تو کسی نے مہکانے میں ،کسی نے دل کے اطمینان میں تو کسی نے سوچ کے غبار میں ۔ زندگی بھی امانت ہے ، بنانے میں نبھانے میں سمجھانے میں ، بس ایک خامی بے اختیاری کے ساتھ۔ یہ کوئی بارات نہیں جو دلہن لینے جائے ڈھول کی تھاپ پہ، یہ فوج ہے جو فتح کے لئے نکلتی ہے۔

 تحریر: محمودالحق
در دستک >>

Nov 14, 2020

کانٹے

کون کہتا ہے مجھے محبت نہیں ہوتی ۔۔۔۔ عشق تو رگ و جاں میں ہے میرے ۔۔۔۔ پھول سمجھتا ہے کہ اس کا حسن مجھے دیوانہ کئے جا رہا ہے ۔۔۔۔ پتے پھول کے کملانے پر اور پھیل جاتے ہیں۔ مگر! وہ نہیں جانتے کہ شاخ سے ٹوٹنے سے پہلے حسن اپنی انتہا تک پہنچتا ہے۔۔۔۔ کانٹے ! جو کسی نظر التفات کا شکار نہیں ہوتے اور انہیں نظر بھر دیکھنا بھی نصیب نہیں ہوتا ۔۔۔۔ پھول اور پتے شاخ سے دور ہوتے ہوئے حسن ، رعنائی و دلربائی کی مثل لگتے ہیں۔۔۔۔ لیکن! شاخ سے بے وفائی میں کمزور پڑتے ہیں اور بالآخر جھڑتے ہیں۔
در دستک >>

Oct 7, 2020

ذکرالانفال

در دستک >>

Sep 28, 2020

The Force of Seclusion and Congregation / قوتِ خلوت و جلوت

در دستک >>

Jul 30, 2020

جوہر افشانی (PDF) اب پڑھنا بہت آسان

الحمداللہ ایک سنگ میل عبور ہوا۔ در دستک بلاگ سے69 منتخب مضامین کو میں نے پی ڈی ایف کتاب کی شکل  میں اس طرح  ترتیب دیا ہے کہ اب پڑھنا بہت آسان ہو گیا ہے۔ فہرست مضامین میں کسی بھی عنوان پر کلک کر نے سےہم تحریرکےصفحہ پر چلے جائیں گے اور مضمون کے آخر میں  "واپس اوپر جائیں" پر کلک کرنے سے دوبارہ فہرست مضامین  پر آجائیں گے۔ حروف کے سائز کو اتنا رکھا گیا ہے کہ سیل فون پر ڈاؤن لوڈ کر کے بھی آسانی سے پڑھا جا سکتا ہے ۔ مضامین کو تسلسل سے 1 تا 405  صفحات کی پوری  کتاب پڑھنے کی بجائے کسی بھی عنوان کو کلک کر کے صرف وہی تحریر پڑھی جا سکتی ہے۔


 سوشل میڈیا نے مضبوطی سے عوام الناس کو اپنے  سحر میں گرفتار کر لیا ہے۔ جہاں کے معیارات مختلف ہیں اور خاص طور پر نوجوان نسل کی ترجیحات اور دلچسپی کا بہت سامان سوشل میڈیا فراہم کر رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پڑھنے کا رحجان کم پڑ رہا ہے اور دیکھنے اور سننے کا رواج بڑھ رہا ہے۔ ان حالات میں بہت سے لکھنے والے بلاگستان سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔ ہم سیکھ سیکھ کر یہاں پہنچے ہیں۔ بلاگرز نے بلاگز بنانے کے لئے دوسروں کے لئے راہیں ہموار کی ہیں۔ جس سے میں نے بہت سیکھا۔ بلاگستان سے میرا تعلق 25 مئی 2009 سے ہے۔ نئی نسل کے وہ لوگ جو کچھ پڑھنا چاہتے ہیں ، سمجھنا چاہتے  ہیں۔ ان کے لئے ہمیں کچھ بچا کر رکھنا چاہیئے۔ آنے والے وقت میں صرف فیس رہ جائیں اور بک ختم نہ ہو جائیں۔اسی بات مد نظر رکھتے ہوئے میں نے اپنے چیدہ چیدہ مضامین کو پی ڈی ایف میں محفوظ رکھنے کی ایک کوشش کی ہے تاکہ  پڑھنے والے کی چوائس بڑھ جائے اور وقت کی بچت بھی ہو۔   
 

در دستک >>

Jun 24, 2020

کبھی آہ دل سے گزرے



(یہ ایک کہانی نہیں ایک سچائی ہے۔
چھبیس سال کی عمر میں تین کمسن بچوں کی ماں جب بیوہ ہو نے پر ایمان و توکل کا تاج پہن لیتی ہے اور اپنے ارد گرد سے نظریں چرا کر نگاہیں آسمان کی طرف کر لیتی ہے تو آہ عرش تک کا سفر لمحوں میں کرتی ہے)
انسان مستقبل میں جینا چاہتا ہے اور ماضی سے جان چھڑوانا  لیکن معمولات زندگی اسے باندھ کر رکھتے ہیں۔ پیچھے جا نہیں سکتا آگے بڑھنے میں مصلحت تو کبھی خوف آڑے آ جاتا ہے۔جینے کے لئے کسی نئے ڈھنگ کی ضرورت نہیں ہوتی ، بس لسی میں پانی بڑھاتے جاؤ تاوقتکہ چٹیائی ختم نہ ہو جائے۔انسان بستیوں میں رہتے تھے مگر معاشرتی بد اعمالیوں کے ساتھ۔ جس نے صحیح راستہ دکھایا اسی کے درپے ہو گئے ، آباؤاجداد کے رسم ورواج اور دین  سے ہٹنے والے نہیں تھے۔ گروہ در گروہ جہالت اور گمراہی کے اندھیروں میں غرق تھے۔نیکی اور اچھائی کی بات نہ سننے اور نہ ہی ماننے کی روش پر قائم معاشرتی اقدار پر جمے ہوئے تھے۔وعدوں اور عہدوں سے مکر جانا جن کا معمول تھا۔ یقین سے خالی اور شکوک سے بھرے ہوئے تھے۔ اپنے مفاد کے لئے دوسروں کا نقصان کر دینے سے بھی گریز نہ کرتے۔ یقین تھا تو صرف اسی بات کا کہ جو ہے جتنا ہے فقط انہی کا ہے۔ اللہ اپنی راہ میں خرچ کرنے کی تلقین بھی کرتا ہے اور حکم بھی دیتا ہے۔پھر اس کے بدلے سات سو گنا لوٹائے جانے کی نوید بھی دیتا ہے۔لیکن انسان نے کبھی اسے سنجیدہ نہیں لیا۔ کیونکہ وہ تو خسارے میں رہنے والا ہے۔
زندگی جنگل کے اندر صدیوں جیسی مسافت کی مانند ہے جہاں راستہ بناتی پگڈنڈیوں  پر چلنا پڑتا ہے۔ بوقت ضرورت راستے سے ہٹ کر کہیں سستا لینے کے لئے پڑاؤ کرنا پڑتا ہے۔ درختوں سے پھل اور میوہ سے بھوک مٹا کر اور بہتے چشمے سے پانی سے سیر ہونے کے بعد پھر سے سفر کے راستہ پر نکلنا پڑتا ہے۔ آہ دل سے اور چشم تر  کیسے گزرتی ہے  ، صرف وہی جان سکتے ہیں جو اس سفر سے گزرے ہوں۔
یہ ایک کہانی نہیں ایک سچائی ہے۔ جب آہ عرش تک کا سفر لمحوں میں کرتی ہے  اور آنسو پلکوں سے بہنے سے پہلے حکم ربی کے سامنے سر نگوں کرنے والا بے آب ماہی کی طرح تڑپنے پر اپنی ہتھیلیوں پر آنسوؤں کی شدت تڑپ کو محسوس کر لیتا ہے۔
چھبیس سال کی عمر میں تین کمسن بچوں کی ماں جب بیوہ ہو نے پر ایمان و توکل کا تاج پہن لیتی ہے اور اپنے ارد گرد سے نظریں چرا کر نگاہیں آسمان کی طرف کر لیتی ہے تو رب جلیل کے حکم پر زمین پر چلتا ایک بدکے ہوئے گھوڑے جیسا انسان  چیونٹی  کی مانند بے بسی کی تصویر بن جاتا ہے۔
وہ  !
اپنے بچوں کے  عید کے نئے کپڑوں کی خریداری کے لئے رقم ان کے ماں کے حوالے کر کے  گاڑی میں مسحور کرنے والے گانوں کے بول سنتا  اپنی زمینوں کی طرف رواں دواں تھا کہ کچھ عرصہ قبل  اس فانی دنیا سے کوچ کر جانے والا اس کا ہمسایہ اور دوست  اس کی آنکھوں کے سامنے اپنی شکل کا تصور چھوڑ جاتا۔  اچھے انسان کا یاد آنا کوئی نئی بات نہیں تھی۔ وہ اکثر مرحوم کا ذکر اچھے الفاظ میں کرتا۔ لیکن آج تصور ایسا تھا جیسے کوئی بے چینی میں اسے جھنجھوڑ رہا ہو۔سارا دن وہ زمینوں میں اِدھر سے اُدھر  بلا وجہ چلتا رہا ۔ بے سکونی نے اسے بری طرح نڈھال کر دیا ۔ ایک ہی چہرہ مسلسل کئی گھنٹوں سے اسے پریشانی کے عالم میں جہاں جہاں اس کی نظر پڑتی  محسوس ہوتا۔
 ایک خیال نے اسے رنجیدہ کر دیا کہ میں نے اپنے بچوں کے لئے  عید کے نئے کپڑوں کا اہتمام کیا اور اس کے ہمسائے میں تین معصوم بچے  عید کے دن کیا نئے کپڑے پہن پائیں گے۔ شام کو گھر واپس لوٹتے ہی اس نے اپنی بیگم کے ہاتھ میں کچھ رقم دے کر کہا کہ ان کے گھر جاؤ اور انہیں کہو کہ وہ بچوں کے لئے   کپڑے خرید لیں۔
جس وقت ایک چہرہ جہاں جہاں وہ رخ کرتا اس کے سامنے اپنے ہونے کا احساس دلا رہا تھا۔ اسی دن مرحوم کی معصوم سی بڑی بیٹی بازار میں اپنی  ماں سے ایک سوٹ خریدنے کی فرمائش کر رہی تھی۔ جسے خریدنے کی ایک بیوہ ماں کی سکت نہیں تھی۔
 معصوم بچی رونے لگی اور ماں دل گرفتہ ہوئی ۔ اپنی مخلوق سے ستر ماؤں سے زیادہ محبت کرنے والےخالق کائنات نےعرش سے ایک خیال کے ذریعے   ذمہ داری  کا احساس پیدا کیا۔    بظاہر بچے ننھیال ددھیال کی آنکھ کا تارا تھے اور حقیقت تو تب آشکار ہوتی اگر اس پر سے پردہ کبھی اٹھا ہوتا۔ چھبیس برس کی عمر میں بیوگی کا لبادہ اوڑھنے والی ایک باوقار ، با حیا اور باکردار عورت نے اپنا حال اللہ کے علاوہ کبھی کسی کو نہ دکھایا۔
اللہ تبارک تعالی نے ایک ایسے انسان کو ان کے لئے بے چین کر دیا جو فالج اور الزائمر کی بیماری میں مبتلا اپنے بوڑھے  باپ  کی خدمت میں ایسے مگن تھا کہ اسے دنیا میں کوئی خاص رغبت نہیں تھی۔ وہ روح اور جسم کے باہمی تعلق کی گتھیاں سلجھانے میں مصروف عمل تھا۔ اپنی ناک کو خاک آلود ہونے سے بچانے کے لئے اور فرمان رب کریم کی طرف سے والدین کی خدمت میں  کسی  کمی،کوتاہی  سے  بچنے کی تگ و دو میں مصروف عمل تھا۔
 تب  اسے اس احساس نے آ گھیرا کہ گھر کی دیوار کے دوسری طرف  یتیم بچوں کے آنسوؤں کا    بوجھ وہ روز قیامت کیسے اٹھائے گا۔ تین بچوں کی بیوہ ماں صرف اللہ تبارک تعالی سے مدد کی طلبگار تھی۔
 نہ جانے  اس کی دعا میں کتنا درد تھا کہ وہ ہمیشہ بے چین ہو جاتا  ، زندگی جینا مشکل ہو جاتا ۔ اپنی شریک حیات سے کہتا کہ انہیں  پوچھو  مسئلہ کیا ہے۔  ہمیشہ  سب اچھا کہہ کر بات ٹالنے کی کوشش ہوتی  لیکن اللہ تبارک تعالی اپنے نیک بندوں کی مدد میں کبھی تاخیر نہیں کرتا۔ سکون کھو جانے اور بے چینی بڑھ جانے پر وہ  کہتا کہ  اگر سب اچھا ہے تو اسے سکون کیوں میسر نہیں۔ آخر کار  وہ مسئلہ حل ہونے کے بعد اسے سکون میسر آتا۔
اللہ تبارک تعالی کی طرف سے ملنے والی مدد کو ایک بیوہ ماں احسان سمجھ کر انا و خودداری کی چادر کو اور مضبوطی سے اوڑھ لیتی۔ زندگی کے شب و روز گزرتے گزرتے بچے جوانی کی دہلیز تک آ پہنچے۔  بچوں کی شادیوں کے موقع پر   انتہائی پریشانی کے عالم میں ایک ماں کی اللہ سے نہ جانے کیسے التجائے دعا ہوتی کہ اُس پر چھائےبے سکونی اور بے چینی کے بادل چھٹنے کا نام ہی نہ لیتے تھے۔  بار بار  پوچھنے پر  سب اچھا ہے ، شادی کی تیاری بھی ٹھیک ہے کہہ کر بات  ختم  کرنے کی کوشش کی جاتی لیکن  اللہ تو سب جانتا ہے جو ظاہر ہے اور جو دلوں میں ہے۔ نہ چین تھا اور نہ ہی سکون اُسے، وہی "سب اچھا ہے" کا جواب اسے مطمئن نہ کرپاتا جب تک کہ پریشانی کا موجب مسئلہ حل نہ ہو جاتا۔ پریشانیاں  باقاعدگی سےآتی رہیں اور اللہ تبارک تعالی کے حکم سے دور ہوتی رہیں۔ وقت کی بے رحم موجوں سے لڑتے لڑتے آج  اس گھر میں خوشیوں سے بھرپور زندگی  ہے۔ لیکن اللہ تبارک تعالی سے ان کا  تعلق آج بھی ویسا ہی ہے۔ جب بھی انہیں کوئی مسئلہ درپیش ہوتا ہے تو اللہ تبارک تعالی کی طرف سے مدد  پہنچ جاتی ہے۔ چند دن سے زیادہ پریشانی میں اللہ کی پاک ذات مبتلا نہیں ہونے دیتی۔
بظاہر یہ ایک تخیل سے بُنی گئی کہانی کا سکرپٹ دکھائی دے گا۔ لیکن اللہ تبارک تعالی اپنے نیک بندوں کا خیال کیسے کرتا ہے اور اُن کی مدد کے لئے کسی انسان کو چن لیتا ہے اور اسے اس کام پر ایسے لگا دیتا ہے کہ  وہ خود حیران رہ جاتے ہیں۔ عام لوگ   قصے کہانیوں کو حقیقت کا رنگ دینے کے اتنے عادی ہوتے ہیں کہ اللہ تبارک تعالی کے قائم کردہ خودکار نظام   کی حقیقت  کو تسلیم کرنے میں حیل و حجت  اور شک و شبہ کے درمیان کہیں اٹک جاتے ہیں۔ وہ ہر بات کا عقلی جواز تلاش کرتے ہیں۔ اس سچی کہانی کو جانچنے اور ماننے کے لئے عقل سے زیادہ توکل کی ضرورت ہے۔  عقل کے بھروسے پر زندگی جینے والے اور توکل پا کر زندگی جینے والے الگ الگ ہوتے ہیں۔ عقل کے ترازو پر ہر بات  رکھنے  والوں کے لئے اس تحریر میں کچھ نہیں ہے کیونکہ یہ کوئی منطق اور جواز فراہم نہیں کرتی۔  بلکہ یقین محکم ہے ایمان والوں کے لئے۔

تحریر: محمودالحق




در دستک >>

Jun 15, 2020

اب اگر راستہ چھوٹ جائے تو شکوہ کیا

اب اگر راستہ چھوٹ جائے تو شکوہ کیا
دنیا سے گر رشتہ ٹوٹ جائے تو شکوہ کیا

آستین میں چھپے ہاتھ کی آگہی بھی بیزاری ہے
دوچار قدم چل کے لوٹ جائے تو شکوہ کیا

جالے بنتی مکڑی کا ہے فریبِ مکاں
قلبِ نور سے نظر عقل مٹ جائے تو شکوہ کیا

شمع خود بھی ہے بجھتی پروانہ بھی جلاتی
مہک گل سے خود لپٹ جائے تو شکوہ کیا

دامنِ آرزو میں رہتی ہوا تو گرد و غبار ہے
حسرتوں سے غمِ بادل چھٹ جائے تو شکوہ کیا

بے بس دست و پا بے راہ مشکل التجا
احسان سے گر مقامِ اَنا مٹ جائے تو شکوہ کیا

تلاش میں ہے جن کی رزقِ اجرِ حنا
جسم روح سے الگ الگ بٹ جائے تو شکوہ کیا

ولی صوفی قلندر کیا نہیں ہیں انساں
متاعِ دنیا راستے سے خود ہٹ جائے تو شکوہ کیا

راستے جدا جدا پہنچے منزل ایک مقام
راستہ ہی میں سارا سفر کٹ جائے تو شکوہ کیا

آسان جن کو نظر آئیں منزلیں دشوار گزار
قدم پڑتے ہی گر نہ پلٹ جائے تو شکوہ کیا

بیتابیء قلب میں سماتی جسم و جان جائے
تہہء عملِ جہاں سے جو سلوٹ جائے تو شکوہ کیا

اب بھی ہے کوئی شکوہ ذاتِ منان سے
غفلت شب میں نیند سے کروٹ جائے تو شکوہ کیا

کلمہء تشکر میں گر ہو مقامِ اولیٰ محمود
پہاڑ کیا چاہے زمین پھٹ جائے تو شکوہ کیا

محمودالحق

در دستک >>

Jun 3, 2020

راہِ ہدایت

پہلے انسانیت سسک رہی تھی اب انسان بلک رہا ہے۔ ایک مذاق تھا جو  سر چڑھ کر بولتا رہا۔ معاشرہ محبت  سے عاری  تو معاشرت میں سیاسی داد گیری ۔ جھوٹ اتنا کہ  دم نکل جائے مگر سچ زبان پر نہ آ سکے۔شہرت کے متلاشی ، دولت کے بھوکے،عزت کے طلبگار صرف خواہشوں کے دم پر۔ نہ کردار کے غازی اور نہ ہی  عہد کے پکے۔پاؤں سر پر رکھ کر بھاگنے سے پاؤں زمین سے تکبر سے اٹھنے تک کے مراحل میں عاجزی اور نہ ہی صبر ، شائستگی سے  محروم  آئینے جو حقیقت کیا دکھاتے جن کا  عکس بھی دھندلا ۔
نظام کائنات میں زرہ برابر بھی فرق نہیں روشنی کا پیچھا کرتے اندھیرے کے غالب آنے تک۔ پیغمبروں کو جھٹلانے والی قومیں کبھی بجلی کی کڑک سے ہلاک ہوئیں تو کبھی آسمان سے برستی آگ سے۔کسی پر پانی چڑھ دوڑا تو کوئی پانی میں خود جا کودا۔راہ ہدایت کو اتنا مقدس جان لیا کہ کھوجنا تو دور کی بات کھولنے سے ہی ہاتھ کھینچ لیا۔ صرف اتنا جاننا چاہتے ہیں جسے سنایا جا سکے، جو عمل کا متقاضی ہے اسے ذاتی اختیار سمجھ کر فیصلہ صادر کر دیتے ہیں۔
کسی نے شملہ اونچا کر لیا تو کسی نے دستار کے پھیلاؤ بڑھا لئے۔اپنے راستے سیدھے نہ کئے ، دوسروں کے سامنے گڑھے ڈھونڈنے میں توانائیاں صرف کرنے میں دن رات ایک کر دئیے۔ دوسروں کے نقائص سے اپنی نجات کا راستہ تلاش کرنے والےطبیب مسیحا ئی  کے دعویدار زمانے کی ہمراہی میں خود ہی عالم روزگار بن گئے۔
اخلاق و اطوار ، کردار و گفتار  کے بغیر ایسی کشتی کی مانند ہے جو چپوؤں کے بغیر کھلے پانیوںمیں اپنی سمت کا تعین کرنے سے قاصر ہوتی ہے ، منزل تک پہنچنا تو بہت دور بات ہے۔یقین کرنے کے لئے ہمیشہ معجزات کے طلبگار، ہدایت یافتہ ہونے کے لئے آسمان سے فرشتے اترنے کے منتظر  ۔
بچے کے ہاتھ میں مغرب سے مشرق  تک پہنچنے والےمعمولی سے تحفہ کی دھوم اور دھاک کئی گھروں کے در ہلا کر رکھ دیتی ہے۔اپنا منہ لال کرنے کے لئے اپنے ہاتھوں سے اپنے منہ کا ماتم کیا جاتا ہے۔قلب پر اترنے والے تحفے  انمول ان کے لئے جنہیں خالص اور نایاب کی قدردانی کا فن جو ہر شناسی حاصل ہوا۔جسے دیکھنے والے زیادہ ہوں وہاں دکھانے والے اپنا اپنا مال بیش قیمت بنانے کے لئے بڑھ بڑھ کر قیمت لگاتے ہیں۔ ذرائع آمدن بڑھانے کے لئے سر دھڑ کی بازی لگ جاتی ہےاورخرچ کے راستے روک لئے جاتے ہیں جو معاشرے میں مسابقت اور حکم سے مطابقت رکھتے ہوں۔
زخم بھر جاتا ہے ، تکلیف جاتی رہتی ہے، تکمیل کا عمل کبھی نہیں رکتا۔چھوٹ جانے کا خوف دنیا میں بے صبری اور ہیجان و بے چینی میں مبتلا رکھتا ہے۔اچھے دنوں کی آس کے سامنے برے دنوں کا خوف اتنا ہیبت ناک ہوتا ہے کہ  عارضی زندگی کے مقابلے میں دائمی زندگی  کے انجن کو پٹڑی سے اتار دیتا ہے۔  جس کے پیچھے اعمال کی بے شمار بوگیاں  منزل تک پہنچنے سے پہلے تباہ حالی کا شکار ہو جاتی ہیں۔اندھوں کے لئے روشنی کا ہونا یا نہ ہونا ایک برابر ہوتا ہے۔ قلب میں جن کے ہوس و حرص ، غرض و مفاد  کا زنگ بھرا ہو وہاں چھینٹوں سے داغ دھلنے زرا مشکل ہوتے ہیں۔فیصلے کی گھڑی ہو یا قیامت کے قرب کی نشانیاں  تیاری کے بغیر امتحان میں بیٹھنے کے لئے مچلنا  کچلنے کے مترادف ہے۔
اوراق مقدس تبھی ہوتے ہیں جب ان پر حروف مقدس لکھے ہوں۔ حروف وہی مقدس ہوتے ہیں جو اس کتاب کے ہوں جس میں کسی قسم  کاکوئی شک نہ ہو،  جس کے حرف حرف پہ سچائی لکھی ہو اور ایمان والوں کے  لئے راہ ہدایت  صرف وہی ہے۔

تحریر : محمودالحق



در دستک >>

Apr 6, 2020

اے خدا تیری رحمتوں کے بندے طلبگار ہیں

در دستک >>

قید میں ضمیر قفس کے ہے ہجوم تنہائی

در دستک >>

Apr 5, 2020

عمرانیات پر کرونا اثرات

تعمیرات کے شعبے کو کھولنے کا فیصلہ کرونا کے اثرات سے نپٹنے کے لئے کیا گیا ہے تاکہ غریب عوام کو روزگار کے حصول میں دشواری کا سامنا نہ کرنا پڑے ۔ کوئی بھی حکومتی اقدام اس وقت تک اچھے نتائج کا حامل نہیں ہو سکتا جب تک کہ پالیسی بنانے والے ڈنگ ٹپاؤ پالیسی کی بجائے قومی معیشت  کو مستقل بنیادوں پر استوار نہیں کرتے۔ 2016 سے ریئل اسٹیٹ انویسٹمنٹ کو برے طریقے سے سبوتاژ کیا گیا۔ بڑے چور تو عدالتوں سے ریلیف پا گئے۔ اور عام لوگ پیچھے بچ گئے جوگہیوں میں گھن کی طرح پس گئے۔ عجیب مارشلائی صورتحال ہے جب چاہا مال کا حساب مانگ لیا جب چاہا آنکھیں بند کر لی۔ دنیا کے کسی ملک میں 12/2 فیصد بینکوں میں شرح سود نہیں ہے ماسوائے پاکستان کے ۔ جو ملک مضبوط معیشت کے حامل ہیں وہاں سسٹم مضبوط ہوتا ہے جبکہ پاکستان میں صرف مافیا ہیں ۔ آٹا مافیا ،چینی مافیا ،پراپرٹی مافیا ،میڈیا مافیا ، ذخیرہ اندوز مافیا، ملاوٹ خور مافیا  اور سیاستدان مافیا کے ساتھ ساتھ ہر طاقتور ادارہ بھی مافیا ہے اور پیچھے بچی صرف عوام جو  اب کرونا کے زیر عتاب ہے۔ حکومت اس خوف سے حرام کو حلال ماننے پر آمادہ دیکھائی دیتی ہے کہ کہیں غریب عوام امیروں کی دوکانوں ، گھروں اور گوداموں پر حملہ آور نہ ہو جائیں۔ سننے میں آتا ہے کہ امریکہ جیسے ملک میں بعض ریاستوں کے شہریوں نے اپنی حفاظت کے پیش نظر اسلحہ خریدنا شروع کر دیا ہے کہ کہیں کرونا کی وجہ سے بھوک سے تنگ عوام چوریاں اور ڈکیتیاں نہ شروع کر دیں۔ حالانکہ حکومت نے بڑے کاروباری اداروں اور عوام کے ریلیف کے لئے دو ہزار ارب ڈالر کی ایک خطیر رقم مختص کی ہے اور پاکستان میں صرف آٹھ ارب ڈالر کی رقم مختص کی گئی جو شائد قرضوں کی قسطوں کی ادائیگی کے لئے آئی ایم ایف سے بطور قرض لی گئی ہے۔ صورتحال انتہائی تشویشناک ہے۔
گنجی نہائے کیا نچوڑے کیا


در دستک >>

Feb 26, 2020

Top 100 Math Blogs for Students and Teachers

اکتوبر 2018 میں پہلی بار میں نمبرز کی دنیا سے روشناس ہوا۔  میرا علم سکول میں حساب کی کتاب تک تھا۔ آج میں ایک خوشگوار حیرت میں مبتلا ہوں کیونکہ Feedspot کی طرف سے مجھے موصول ہونے والی ای میل میں  میرے بلاگ  Math Magic Mystery کو اپنی ویب پر صرف شامل ہی نہیں کیا گیا بلکہ Top 100 Math Blogs  کی فہرست  میں 97 ویں نمبرپر رکھا۔ جو کہ میرے جیسے ریاضی سے نا بلد انسان کے لئے باعث فخر ہے۔ در دستک کی طرح    Math Magic Mystery بھی  صرف اور صرف عطائے رب العزت ہے ۔ 

Hi Rana,

My name is Anuj Agarwal, I'm the Founder of Feedspot.
Thanks for submitting your blog Math Magic Mystery on Feedspot.

I would like to personally congratulate you as your blog Math Magic Mystery has been selected by our panelist as one of the Top 100 Math Blogs on the web.


I personally give you a high-five and want to thank you for your contribution to this world. This is the most comprehensive list of Top 100 Math Blogs on the internet and I'm honored to have you as part of this!

Best,
Anuj





در دستک >>

Feb 19, 2020

سچے کلام کی شدتِ چاہ


بادلوں اور پرندوں کی دسترس سے باہر38 ہزار فٹ کی بلندی پر نیویارک سے لاہور جاتے ہوئے  مسافروں پر اُچٹکتی نگاہ ڈالی تو اپنوں سے ملنے کی خوشی اُن کے چہروں سے عیاں تھی۔ میں ہزاروں ڈالرز کا نقصان اُٹھانے کے بعد اپنی بچی کچھی جمع پونجی کو سمیٹے سرشاری سے بھرپور نشے کی حالت میں تھا۔
"وہ کون سی پاک کتاب ہے جسے خدائے زوالجلال نے جیسے اُتارا وہ آج بھی اسی حالت میں موجود ہے" سوال کرنے والے کے چہرے پر بے چینی و اضطراری کھلی کتاب کے اوراق کی مانند  بے ترتیبی اور الجھن کا اظہار کر رہی تھی۔پیشانی پہ پڑیں گہری سلوٹیں دنیا سے اُس کی بیزاری کی چغلی کر رہی تھیں۔ میرےچہرے پر ایک لمحے کے لئے حیرانگی نے ایک تاثر ابھارا  ۔ اس کی بیوی کے بقول (جو میرے گیس سٹیشن و سٹور پر ملازم تھی) وہ  توایک نفسیاتی مریض تھا جسے ڈاکٹر کی تجویز کردہ میڈیسن نے شانت رکھا ہوا ہے ۔
سوال پوچھنے والے گورے نوجوان کو میں نے بتایا کہ وہ قرآن پاک ہےجو نازل ہونے کے بعد سے اب تک خالق کائنات کی عظمت کی گواہی دیتا ہے اور وہ حرف بہ حرف اپنی اصل حالت میں ہے۔ اتنا سن کر وہ خاموشی سے  سٹور سےباہر نکل گیا۔ ایک ہفتہ بعد وہی گورا نوجوان پٹرول ڈلوانے کے بعد ایک بار پھر اندر آیا اور  پھروہی سوال دہرایا !
اسے ایسی کتاب کی تلاش کیوں جس کے ایک ایک لفظ سے سچائی چھلکتی ہو۔ وہ اپنے باپ سے سوال کرتا کہ میں کون ہوں، کیا ہوں۔تو وہ دوسری بیوی اور اس کے پہلے بچوں کے معاملات میں الجھنے کی وجہ سے اسے اپنی پہلی غلطی کی سزا نظر آتا۔نوجوان گورے کی پہلی بیوی دوسرے شوہر کے ساتھ رہنے لگی تو پہلی بچی بھی ساتھ لے گئی اور اس کی دوسری بیوی اپنی بچی پر صرف اپنا حق سمجھتی۔ہمسائے اس سے نالاں ، دوست اس سے کنارہ کرتے۔پادریوں سے سوال کرتا تو وہ اسے ذہنی مریض سمجھ کر بے اعتناعی برتتے۔مذہب میں اسے پناہ نہ ملتی۔ وہ الجھتا چلا گیا۔نشہ کی بجائے وہ دوا کے سہارے کا محتاج ہو گیا۔ جس سے خیالات کچھ دیر کے لئے سستا لیتے۔جیسے ہی دوا کا اثر ختم ہوتا بے رحم سوال اسے اپنی گرفت سے نکلنے نہ دیتے۔
انسان جواز کا طالب ہے اور وجود اس کا مطلوب۔منزل پر اس کی نظر ہے ، کوشش پر یقین نہیں۔سچ جانتا ہے لیکن حق کا طالب نہیں۔قرآن کو  الہامی مانتا ہے ، سچ کو جانتا ہے  لیکن جزب سے محروم رہتا ہے۔اللہ تبارک تعالی اپنی چاہ رکھنے والے  کو ناقابل یقین کرامت دکھاتا ہے۔ جس پر گزری ہو اور جس کی آنکھوں نے وہ منظر دیکھا ہو وہ کیونکر رحمتوں سے انکاری ہوں۔  اللہ تبارک تعالی ان کے لئے راستے بنا دیتا ہے جو اُس کی راہ تکتے ہیں۔
گورے عیسائی نوجوان کو میں نے فطرت کا حسن کائنات کے جلوے سے سمجھایا کہ  اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ اُس کی تخلیق  اور نشانیوں پر غور کیوں نہیں کرتے۔ سمجھ والے ، علم والے اور ایمان والے کہہ کر انہیں درجہ بندی میں شمار کرتا ہے۔ دنیا کی چاہ جتنا بڑھے گی محبت جاہ اتنی ہی شدت سے مٹی کے انسان سے تکبر کا نشان بنا دیتی ہے۔پھل پھول اشجار کے ایک ہی قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں۔ مٹی سے پنپ کر مہک خوشبو اور لذت سے لبریز حسن بے مثال ہوتے ہیں لیکن مٹی کا ذائقہ نہیں رکھتے۔
فطرت کا حسن الفاظ میں ڈھل کر اس  کی رگوں میں لہو بن کر دوڑنے لگا تھا۔ میں ایک لمحے کے لئے سہم گیا  جب  اُس نے کہا کہ رب زوالجلال کا ذکر سننے سے اُس کے اندر کچھ ایسا ہو رہا ہے جیسے خون کی گردش میں کچھ شامل ہو گیا ہو۔وہ مسرور تھا کیونکہ اسے اچھا محسوس ہو رہا تھا۔
اللہ اپنی طرف آنے والوں کی طرف ایسے رجوع کرتا ہے  ۔ میں خاموشی سے طالب چاہ کو دیکھ رہا تھا اور عالم جاہ وجلال تھا۔ اطمینان اور سکون کی ٹھنڈک اس کے جلتے وجود  پر قطرہ قطرہ خون میں شامل ہو کر پھولوں کی طرح نکھررہی تھی۔ وہ مہک رہا تھا۔آنکھوں کی چمک قلب کے حاوی ہونے کا سندیشہ دے رہی تھی۔دو  گھنٹے کی نشست میں عشق کی ایسی انتہا دیکھی جس کا میرا قلم احاطہ کرنے کے قابل نہیں۔ وہ میری زندگی کے ایسے لمحات تھے جب میرا وجود  مٹی کے ایک زرہ سے بھی کمتر حیثیت کا حامل تھا۔ شان زوالجلال عظمتوں کے میناروں پر کھڑی تھی اور میں لفظوں میں سجدہ ریز تھا۔ ایسا لمحہ جب پوسٹ مین عاشق کو محبوب کا خط سنا رہا تھا۔
آن لائن انگلش قرآن کے بارے میں اسے گائیڈ کرنے کے بعد میں کئی دن بھرپور نشے میں مبتلا رہا۔ مگر پندرہ روز بعد جو منظر میری آنکھوں نے دیکھا  اسے بیان کرنا میرے بس سے باہر ہے۔ شاعروں نے چودھویں کے چاند پر زمین و آسمان کے قلابے ملائے  لیکن دیکھنے میں جو نشہ ہے پڑھنے سے ممکن نہیں۔
میرا ہاتھ پکڑ کر تھینک یو کہہ کر اپنے چہرے کی طرف غور کرنے کا کہا۔ یہ تو وہ شخص ہی نہیں تھا جو پندرہ روز پہلے مجھے ملا تھا ۔ پریشان چہرہ، عجیب سی نظریں  اور پیشانی پر بے شمار سلوٹیں۔ چودھویں کے چاند کی مانند چمکتا دمکتا چہرہ  اور سلوٹوں سے پاک۔ میں کھلی آنکھوں سے بس اسے تک رہا تھا اور وہ بولے جا رہا تھا۔ قرآن کا مفہوم چند دنوں میں اس کی روح کو سیراب کر گیا۔اللہ تبارک تعالی سے قرب کی داستان تھی جو وہ سنا رہا تھا کہ بیس سال سے اس کی پیشانی پر سلوٹیں دو ہفتوں میں مکمل طور پر ختم ہو چکی تھیں جیسے کبھی تھی ہی نہیں۔ روشن چہرہ اطمینان قلب سے  بھرا ہشاش بشاش ایک عیسائی گورا نوجوان جو خدا کی سچی کتاب کی تلاش میں نکلا تو سچ حقیقت بن کر اس میں سما گیا۔ اس نئے انسان کے بدلے ہوئے رویئے اور کردار نے اس کی بیوی اور محلے داروں کو حیران و پریشان کر دیا۔اس کا ایک محلے دار جومیرے پاس کام کرتا تھا ، ایک دن کہنے لگا کہ اسے کوئی اچھا ڈاکٹر مل گیا ہے اور اس کی دوائی سے اسے بہت فرق پڑا ہے۔ بہت خوش اخلاقی اور خندہ پیشانی سے تمام لوگوں سے ملتا ہے۔ نسخہ تو اسے ایسا شاندار ملا تھا جس میں اس کے درد کی دوا تھی اور پریشانیوں کا مداوا۔
چند سال بعد میرے دوست کے بیٹے نے (جن کا گیس سٹیشن میرے قریب ہی تھا ) مجھے بتایا   کہ  آپ کے جانے کے بعد  وہ ہمارے پاس آیا اور  آپ کے بارے میں پوچھا تو میں نے اسے بتا یا کہ آپ پاکستان واپس چلے گئے ہیں اور اس کی خواہش پر قرآن پاک انگلش ٹرانسلیشن کے ساتھ منگوا کر اسے دے دیا تھا۔ اللہ تبارک تعالی کے سچے کلام کی شدت چاہ جتنی اس گورے نوجوان میں دیکھی، ابھی تک کسی اور میں نہیں دیکھی میں نے۔

محمودالحق


در دستک >>

Jan 25, 2020

پانی پر عکس چاند


زمین ہموار ہو، نظریں راستے پر  اور قدم برابر تو سفر کٹ جاتا ہے۔بس اتنا ہی بس میں ہے۔ جہاں اختیار  نہ ہو وہاں چاہت انتہا کر دیتی ہے۔جو پاس ہو وہ اپنا اختیار بھی چھین لیتا ہے۔زندگی نے جو چاہا وہ لے لیا اورہم نے جو مانگا وہ پانی پر عکس چاند ہو گیا ۔لہروں کی مستی نے وہ منظر بھی دھندلا کر دیا۔ بادل برس کر ہوا ہو جاتا ہے۔ تو قوس  وقزح آسمانوں پر پھیل جاتی ہے۔
جو ہمیں زندگی دیتا ہے وہی جینے کا ہنر دیتا ہے۔جنہیں خواہشیں مقدم ہوتی ہیں، انہیں زندگی محترم ہوتی ہے۔ آبادیوں میں انسان بستے ہیں جنگلوں میں جانور رہتے ہیں۔ جنہیں انسان بس میں کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔کمزور پرندے اور جانور چڑیا گھروں میں جتنے بھی مزے میں اور محفوظ کیوں نہ  ہوں پھر بھی وہ قیدی ہیں۔آج ہر انسان آسائش و آرام کی ہر سہولت سے استفادہ حاصل کرتا ہے۔ ترقی ایک ایسا چڑیا گھر ہے جہاں ہر سہولت آسائش پانی پر چاند کے عکس کی مانند اسے حاصل ہے۔ پیکج ختم ہونے یا نیٹ بند ہونے پہ ہاتھوں پہ ہاتھ دھرے رہ جاتے ہیں۔ جو جب چاہتا ہے اور جتنا چاہتا ہے کھڑکی کھولتا ہے اور جب چاہے گا اسے بند کر سکے گا۔بس میں تو کچھ بھی نہیں بس خریدار ہیں۔جب تک نوٹ دکھاتے رہیں گے تماشا ہوتا رہے گا۔انسانی معاشرے میں جگہ جگہ کڑکیاں لگی ہوئی ہیں نیٹ فون ٹی وی کی۔اسی میں انسانوں کی ایک بڑی تعداد بستی ہے۔ایسے ہی جیسے جنگلوں میں چڑیا گھروں کا جال پھیلا دیا جائے۔پرندے اور جانور خود قید ہونے کے لئے بیتاب ہو جائیں اور اپنے اپنے پنجرے پر فخر کریں۔کوئی جھولے پر فخر کرے تو کوئی خوراک پہ۔
پانے کی جلدی میں کھونے کے ڈر سے محروم ہو گئے۔ڈر ہے تو صرف رک جانے کا۔تیل ڈلتا رہے ، بجلی چلتی رہے تو گزر بسر بھی ہوتی رہتی ہے۔ایک ماہ کے لئے نیٹ فون ٹی وی بند کر دیں تو معلوم ہو گا کہ نشئیوں کی تعداد میں کتنا اضافہ ہو چکا ہے۔نشہ صرف ڈرگ کے استعمال کا نام نہیں بلکہ ہر وہ شے جو اپنے ارد گرد کے ماحول سے بے اعتنائی ، لاپرواہی اور لاتعلقی پیدا کرنے کا سبب بن جائے ،وہ معاشرہ ایک مہذب ترقی نامی بیماری کا شکار ہو جاتا ہے۔ جہاں تعلق صرف غرض و مفاد کا رہ جاتا ہے۔متواز ن شخصیت رکھنے والے ہی ایک مثالی معاشرے کی بنیاد رکھتے ہیں۔جس معاشرے میں عوام کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر، عوام کا ہجوم اورعوام کا جم غفیر جیسی ٹرم مقبول زبان زد عام ہوں۔ وہاں شائستگی ، تہذیب کی بجائے ہاسپٹل دوکانوں اور گاڑیوں کی توڑ پھوڑ کا لائسنس گاڑیوں موٹر سائیکلوں کی نمبر پلیٹس کے ساتھ لکھا ہوتا ہے۔جب نظام تعلیم شعور کی بجائے معاش کی فکر لاحق کرے تو عدم برداشت اور انتقام کا زہر شریانوں میں خون بن دوڑتا ہے۔ریوڑ پر امن ہوتے ہیں ہجوم بپھرے ہوئے۔

محمودالحق   
در دستک >>

Most Perfect Math Magic with ZERO Sum (کائنات کے سربستہ راز)


در دستک >>

سوشل نیٹ ورک

Flag Counter