Feb 28, 2011

بوڑھے کی لاٹھی - 1

 باپ بیٹے کی ایک سچی کہانی
باپ کے بڑھاپے کی جوان بیٹا جب لاٹھی بنا۔

حصہ اول!
ہرروز کی طرح آج بھی وہ اپنے باپ کے ساتھ ایسے بات کر رہا تھا جیسے خود ہی سے مخاطب ہو ۔
ابا جی ماں اپنے بچے کو دو چار سال تک سنبھالتی ہے۔ پھر اللہ کی ذات ماں کو وہ مقام دے دیتا ہے کہ جنت قدموں کے نیچے رکھ دیتا ہے۔
ابا جی میں تو دس سال سے آپ کی دیکھ بھال کر رہا ہوں ۔
کھلاتا ہوں، نہلاتا ہوں ،صفائی کرتا ہوں، زخموں پر مرہم رکھتا ہوں پھر تو میرا درجہ بھی ماں کا ہوا۔
"تیری مہربانی ہے "کے الفاظ جو اس کے کانوں میں پڑے تو بھونچکا رہ گیا۔ جلد ی میں اس نے صفائی کا کام مکمل کیا۔ ابا جی کو دونوں ہاتھوں میں اٹھایا اور پلنگ پر لٹا کر ڈریسنگ کی کٹ نکال کر پہلے کمر پھر پاؤں میں گہرے زخموں کو صاف کیا اور مرہم لگانے کے بعد بند کر دیا ۔
سامان سمیٹنے میں ایسے جلدی کر رہا تھا جیسے بہت ارجنٹ میٹنگ کا بلاوہ آیا ہو۔
وہ جلد سے جلد وہاں سے نکل جانا چاہتا تھا اباجی کے کمرے سے نکل کر سگریٹ ہاتھ میں لئے باہر صحن میں چلا گیا ۔
بیوی آوازیں دیتی رہ گئی۔
جی سنئے !
کھانا لگا دوں کیا ۔
مگر آج اسے کوئی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی ۔ صرف ایک آواز کے سوا " تیری مہربانی ہے "
وہ سگریٹ کو سلگا کے گہرے گہرے کش ایسے لے رہا تھا جیسے کوئی دو دن کا بھوکا کھانے پر ٹوٹ پڑتا ہے۔
وہ بار بار اپنے آپ کو کوس رہا تھا کہ تجھے روز ایسے ہی ابا جی سے باتیں کرنے کی عادت ہے۔ یہ سوچ کر کہ وہ کب سمجھتے ہیں ان باتوں کو۔ الزائیمر کی بیماری نے ان کا سارا اعصابی نظام ہی مفلوج کر کے رکھ دیا تھا۔
آنکھوں میں روشنی باقی تھی یا صرف کھانے پینے کا نظام انہضام کام کر رہا تھا ۔اس کے علاوہ تو پورا وجود ایک گوشت پوست کے لوتھڑے سے زیادہ دکھائی نہیں دیتا تھا ۔
وہ سوچ رہا تھا کہ مجھ سے گناہ ہوا ۔ اباجی تو ایک سال سے ایک لفظ نہیں بولے۔ اتنی بڑی بات" تیری مہربانی ہے" کے الفاظ اس پر اتنے بھاری ہو چکے تھے کہ وہ اپنے قدموں کواٹھانا چاہتا مگر وہ ساتھ نہیں دے رہے تھے ۔
باپ کا بیٹے کو کہہ دینا کہ" تیری مہربانی ہے " بیٹے کی خدا کے حکم سے سراسر روگردانی کے مترادف ہے۔
وہ سوچتا ابھی تک تو میں اپنے اباجی کا حق ہی نہیں ادا کر پایا ۔ پھر میری مہربانی کیسی !
گہرے خیالوں میں کتاب ماضی سے ورق الٹ الٹ کر اس کی نظروں کے سامنے آرہے تھے۔
کہ اباجی نے اسے کیسےمحبت سے پال پوس کر بڑا کیا ۔
جب کبھی دوستوں کی محفل رات گئے جاری رہتی۔ تو باون سال عمر میں بڑا اس کا باپ رات بھر ٹہلتا رہتا۔ ماں سے کہتا تیری ہی دی گئی ڈھیل ہے جو وہ دیر تک گھر سے بھی باہر رہنے لگا ہے۔
جب وہ گھر کے دروازے پر دبے پاؤں پہنچتا ۔ تو ابا جی کی آواز آتی بیٹا خیریت تھی اتنی دیر لگا دی۔
پہلے سے تیار ایک نیا بہانہ سنا کر جلد کچن تک جاتا۔ ماں بھی پیچھے پیچھے وہیں آجاتی۔ سالن گرم کرتی اور ساتھ ہی کلاس شروع ہو جاتی۔ تیرے اباجی بہت غصے میں تھے ۔
مگر ماں مجھے تو کچھ نہیں کہا!
یہی تو ان کا مسئلہ ہے۔ مجھ ہی کو سناتے رہتے ہیں کہ میرے لاڈ پیار نے بگاڑ رکھا ہےخود بھی تو کبھی کچھ نہیں کہا ۔
لیکن ماں گھر میں اکیلا کیا کروں !
قصور اس کا بھی نہیں تھا۔اس کا بڑا بھائی جو اس کا دوست بھی تھا ۔ اب اس دنیا میں نہیں رہا تھا ۔
تب سے اس کے بوڑھے ماں باپ تنہائی میں یاس کے چراغ جلاکر زندگی گزار رہے تھے ۔
محلے میں بھی اس کا ہم عمر دوست کوئی نہیں تھا۔ 8،6 سال عمر میں بڑے بھائیوں کے دوستوں سے گپ شپ کرتا ۔ اب تو ان میں سے بھی زیادہ تراپنے اپنے کام کاج میں مصروف ہو چکے تھے اور چند ایک محلے سے ہی جا چکے تھے ۔
جب ہمارا دم نکل جائے گا لوگ ہی اطلاع کریں گے تمہیں !
تنہائی کی ماری ماں کھانا اگے رکھتے ہوئے غصے سے بولی!
وہ بھی بیچاری سچی تھی۔ ایک بار تو باتھ روم گئی اور کمزوری سے چکر کھا کر وہی گر کر بیہوش ہو چکی تھی۔ کافی دیر کے بعد اسے ہوش آیا تو اپنی بیٹی کو فون کیا اور رو پڑی ۔
وہ گھرانہ اتنی اولاد اور شہر کی گہما گہمی کے باوجود بھی ایک ایسی منزل کے مسافر تھے ۔جہاں دو بوڑھے اپنی آنکھوں کی کم ہوتی روشنی کو ایک نو عمر چراغ سے وابستہ کئے ہوئے تھے۔
کھانے سے فارغ ہو کر اس نے اپنے کمرے کی راہ لی۔ گولڈلیف کے پیکٹ سے ایک سگریٹ نکال کرسلگایا اور گہرے کش لیتے ہوئے فیصلہ کیا کہ کل سے دیر سے گھر آنے کی عادت کو ترک کرنا ہو گا۔
اس نے اس کا حل بھی تلاش کر لیا دوستوں کو اپنے گھر ہی بلایا جائے۔ کیونکہ اس کا کمرہ گھر سے الگ تھلگ باہر کی طرف تھا۔ وہاں سے قہقہوں اور شور کی آوازیں بھی باہر نہیں جا سکتی تھی۔
دس کمرے،تین باتھ روم، ڈرائنگ روم، دو اطراف میں برامدے اور سو سو فٹ لمبائی کے دونوں اطراف صحن پر مشتمل گھر دو کنال پر پھیلا ہوا تھا۔
جتنا بڑا گھر تھا تنہائیاں اس گھر میں اس سے بھی زیادہ پھیلی ہو ئی تھی۔
دن ہفتوں میں مہینے سالوں میں بیتے جارہے تھے ۔
اس گھر کی یہی معمولات زندگی رہی!
کبھی کبھار وہ سوچتا! میرے ابا جی مجھ سے بہت پیار کرتے ہیں۔
مگر یہ خیال ذہن سے جھٹک دیتا کہ وہ کبھی اباجی کے قریب نہیں رہا ہمیشہ کسی انجانے خوف کی وجہ سے دور دور رہتا۔
عمر میں باون سال کا فرق بھی دوری کا سبب تھا کیونکہ دوسری شادی سے آخری نمبر تھا اس کا ۔
سب سے زیادہ پیار تو انہیں اس سے بڑے سے تھا ۔ سولہ سال کی عمر میں وہ اس فانی دنیا سے کوچ کر گیا ۔ پینسٹھ سال کے باپ کے کندھوں پر سولہ سال کے جوان بیٹے کا جنازہ ہو تو اسے جینا کب یاد رہ جاتا ہے ۔
خوف اور جدائی کا آسیب ہر دم اسے تنہائی میں ڈراتا ہو گا ۔
سب سے عزیز بیٹا دنیا سے چلا گیا۔ ان سے بڑے بیٹےاچھے مستقبل کی تلاش میں گھر سے دور اور چند ملک سے ہی دور جا چکے تھے ۔
اب صرف یہی ایک رہ گیا تھا ۔ شائد یہی ایک خوف ہمیشہ اس کے باپ کو رہتا ہوگا کہ کہیں یہ بھی اچھے مستقبل کا خواب آنکھوں میں نہ بسا لے۔ نہ ڈانٹنے کی وجہ تو یہی معلوم ہوتی تھی۔
جیسے ہی ماضی کے خیالات کا سلسلہ ٹوٹا توکچھ دیر ٹہلنے کےبعد وہ واپس لوٹ آیا ۔اب وہ کافی حد تک مطمئن تھا اور تہیہ کر چکا تھا آئندہ کوئی بھی ایسی بات زبان پر نہیں لائے گا۔
مگر اس کی زندگی کا سفر یونہی گزر تا تھا ۔ صبح 6 بجے، دوپہر 2 اور رات 10 بجے وہ جہاں بھی ہوتا اپنے گھر واپس لوٹ جاتا۔
پہلے تو مشکل زیادہ تھی جب سے اس نے اپنے ابا جی کوپیمپر لگانا شروع کیا بستر بھیگنے سے بچ جاتے تھے۔
جاب، بزنس، بیوی بچے اور مہمان داری سبھی کام اکٹھے چل رہے تھے ۔ایسی زندگی گزارنے کی اسے عادت ہو گئی تھی ۔ مہمان آتے مہمان بن کر رہتے اور چلے جاتے ۔چار دن ہنسی مذاق کے بعد پھر وہی روز کے معمولات واپس آجاتے۔
جب بھی اس کےموبائل کی گھنٹی بجتی وہ چونک جاتا ۔ یہ وہ زمانہ تھا جب موبائل فون آسائش تھی، سہولت نہیں ۔ اس کے کسی بھی دوست کے پاس موبائل فون نہیں تھا ۔ اباجی کی وجہ سے اس نے کنکشن لیا تھا تاکہ ہر وقت گھر رابطہ رہ سکے۔
ایک روز دوستوں کی محفل میں خوش گبیوں میں مشغول تھا کہ فون کی گھنٹی بجی ۔فون کان سے لگاتے ہی وہ گھر کی طرف دوڑ پڑا ۔
اس کے ابا جی کو اکثر دماغ کی شریانوں میں خون صحیح نہ پہنچنے پر ایسا دورہ پڑتا کہ منہ سے جھاگ بہتی ،جسم جھٹکے لیتا۔ پھر تو دو دن تک اس کے ابا جی بالکل ڈھیلے ہو جاتے۔ کھانا پینا بہت کم ہو جاتا۔ پھر آہستہ آہستہ جسم صرف خوراک لینے کی حد تک نارمل ہو جاتا۔ لیکن آج کا دورہ بہت شدید تھا مسلسل سر اور گردن کے پٹھوں کی مالش سے فرق نہیں پڑ رہا تھا جھاگ منہ سے بہے جا رہی تھی۔
ڈاکٹر بھی ایسے مریض پر زیادہ توجہ نہیں دیتے جو زندگی کی نو دہائیوں سے اوپر جی چکا ہو اور بستر پر لیٹے لیٹے اس مریض کو چھ برس گزر چکے ہوں ۔
تیمارداری کے لئے گھر آنے والے سبھی سنیاسی نسخہ چھوڑ کر جاتے ۔مفت مشورہ دینے کے چکر میں ایک بار اس کے ابا جی نے فزیکل تھراپسٹ کے ہاتھوں بہت تکلیف اٹھائی تھی۔ بازو فزیکل تھیراپی سے ایسے پھولے کہ پھر وہ فزیکل تھراپسٹ گھر کا راستہ بھول گیا ۔
ا ب تو مشورہ دینے والے بھی خاموشی اختیار کر چکے تھے ۔عزیز رشتہ دار ہمدردی کا اظہار کرتے اور حوصلہ بندھاتے اور گھروں کو لوٹ جاتے۔
اکثروہ صحن میں تنہا سگریٹ سے دھواں چھوڑتے ہوئے ماضی میں کھو جاتا۔
بیس سال پہلے کی دوستوں کی آوازیں اس کے کانوں میں گونجتی۔
یار! تو تو خوش نصیب ہے۔ جب چاہے ملک سے باہر بھائیوں کے پاس جا سکتا ہے۔ ہمیں تو ویزہ دلانے والا کوئی نہیں۔ ہر بار سٹوڈنٹ ویزہ سے ان کو انکار ہو جاتا ۔ وہ تمام دوست اس کی قسمت پر رشک کرتے مگر وہ سوچتا کہ مجھے ایسی خواہش کیوں نہیں --------------------------- جاری ہے

تحریر ! محمودالحق
در دستک >>

Feb 20, 2011

کچھ کھٹی کچھ میٹھی باتیں

بتیس فلموں کے گانے لکھنے والے مشہور نعت خواں اور نعت گو شاعر مظفر وارثی اب ہم میں نہیں رہے ۔میں انہیں ایک نعت گو شاعر کی حیثیت سے ہی جانتا تھا ۔ مگر ٹی وی پر ان کی فلمی شاعری کے نمونہ کلام سننے پر احساس ہوا کہ اچھا ہے کہ انہوں نے آج کے دور میں فلمی گانے نہیں لکھے ۔
ورنہ آج ڈنڈا ، پنڈا ، آم ، منجی اور گڈی جیسے الفاظ استعمال میں زو معنی ہو جاتے یا پھر سارا شہر ہی بلو کی طرح کسی نیلی کے گھر کی طرف لائن میں کھڑے ہونے والوں کو کوستا ۔ جیسے ہندوستانی فلمیں سننے میں تو اعتراضات کی زد میں کم ہیں مگر دیکھنے میں اپنے بس سے باہر ہیں ۔ دوسری طرف ہماری فلمیں اور سٹیج ڈرامے دیکھنے میں اعتراضات کی زد میں کم ہیں ۔ مگر سننے میں اپنے بس سے باہر ہیں ۔ایسی ایسی شاعری کا نمونہ کلام اور مکالمہ بازی پیش کی جاتی ہے کہ کہنے کو دل چاہتا ہے کہ علموں بس کریں او یار !
گڈی وگوں آج مینوں سجنا اُڑائی جا کی بجائے فٹ بال وگوں مینوں سجنا میدان وچ پھجائی جا ہوتا مزا دوبالا ہونے کا چانس تھا ۔کیونکہ گڑی سے ہمارا پرانہ رشتہ ہے ۔ گڈی یعنی پتنگ اُڑانے کا شوق بچپن سے تھا ۔ سب سے پہلے خوبصورت رنگوں کا انتخاب ہوتا ۔پھر اس کی بناوٹ اور آخر میں کاریگر کے ہاتھ کی صفائی کے بعد صرف ہماری کاریگری کی محتاج رہ جاتی وہ گڈی ۔جس کے کندھوں اور کمر پر ڈور باندھنا یعنی تلاویں ڈالنا کسی فن سے کم نہیں ہوتا ۔
اچھا پتنگ باز ہوا کی رفتار کے مطابق گڑی کے اگے پیچھے گانٹھیں انتہائی مہارت سے لگاتا ۔ تیز ہوا میں اگلی گانٹھیں زیادہ باندھی جاتیں تاکہ ہوا کے زیادہ زور سے گڈی ٹوٹ یا پھٹ نہ جائے ۔اگلی اور پچھلی گانٹھوں میں کمی بیشی کا دارومدار ہوا کی رفتار سے بہت گہرا ہوتا ہے ۔
زندگی بھر یہ سنتے آئے ہیں کہ شوہر بیوی گاڑی کے دو پہیوں جیسے ہوتے ہیں ۔جن کا برابر میں رہنا ضروری ہوتا ہے ۔مگر مجھے یہ دونوں گڈی میں لگائی گئی گانٹھیں محسوس ہوتی ہیں ۔جہاں حالات کے مطابق کبھی گانٹھیں آگے زیادہ تو کبھی پیچھے زیادہ لگائی جاتی ہیں ۔ تاکہ زمانے کی رفتار اور حالات کی تیزی میں تبدیلی کے عمل سے اپنا توازن برقرار رکھ سکیں ۔
ہماری معاشرتی زندگیاں کچھ ایسے ہی ہوا کی مانند کبھی اونچی اڑان میں تو کبھی زمین پر چپکی رہتی ہیں ۔جہاں بوقت ضروت شوہر بیوی ایک دوسرے سے رویوں میں گانٹھیں لگانے سے ایڈجسٹ کرتے ہیں ۔ تاکہ مشکل حالات میں اپنا توازن برقرار رکھ سکیں ۔اونچی اُڑان میں پھٹ جانے اور زمین پر گرنے سے تو بہتر ہے کہ رویوں کی گانٹھیں لگنے سے کچھ دیر ہوا کے سنبھلنے کے انتظار میں نیچی اڑان ہی برقرار رکھ سکیں ۔کیونکہ ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی ضد خوشیوں سے دور لے جاتی ہے ۔
رہتے ہم اکیسویں صدی میں ہیں ۔ اصول معاشرت کی علمبرداری انیسویں صدی کے طبقاتی نظام پر کھڑی ہے ۔جہاں عمر کی قید ، گھر کی آرائش ، حسن کی زیبائش اور دولت کی نمائش خواہشوں کی فرمائش پر رہتی ہے ۔
پھولوں کے کھلنے اور مہکنے کا ایک مخصوص موسم اور وقت ہوتا ہے ۔ پھلوں کے لگنے اور پکنے کے بھی موسم طے شدہ ہیں ۔وہ بھی آب و ہوا سے جدا نہیں ہیں ۔مٹی سے مانوسیت درجہ اول پر ہے ۔ صرف ایک بارش کا نہ برسنا ہی ان کے ساتھ ساتھ پرند چرند کو بھی سوچوں میں متغرق کر دیتا ہے ۔جو آج بھی صدیوں پہلے گزرے انسانوں کی طرح صرف پانی اور موسم کی تبدیلی سے ہجرت کرتے ہیں ۔
بات کہاں سے شروع کی اور کہاں جا پہنچی ۔ پڑھنے والے کہیں یہ نہ سمجھیں کہ باتوں کا کھٹا کھاتا ہوں ۔یہاں کھٹے سے مراد ترش نہیں بلکہ منافع ہے ۔اور منافع خوری ہمیں آتی نہیں ۔اس میں تو کوئی شک نہیں کہ آج کے دور میں لفظوں کی تجارت اپنے عروج پر ہے ۔اگر تجارت لکھنا اچھا نہ ہو ۔ تو پھر خود ہی انصاف کریں کہ ڈھیروں کے حساب سے اخبارات اور ٹی وی چینل کیا ہیں ۔
چارلی چپلن کی گونگی فلموں کا دور تو رہا نہیں ۔جب کم کم سننا بہرہ پن کی شکائت نہیں رکھتا تھا ۔اب تو اونچی آواز میں ڈیک پر گانے اور ٹی وی پر شادیانے نماز کی خشوع و خضوع میں بھی رکاوٹ نہیں رہے ۔دیکھنے میں آتا ہے کہ اگر خاوند حاجی ہو تو بیوی ضرور نمازی ہوتی ہے ۔لیکن اگر بیوی یہ دعوی جگہ جگہ کرتی پھرے کہ دیکھو شوہر نامدار کیسا نمازی بنایا تو خشوع و خضوع کی گارنٹی خود اس کے پاس نہیں ۔
ایسے شوہر رات دیر سے تھیٹر یا فلم دیکھ کو گھر لوٹنے پرنا گہانی آفت سے بچنے کے لئے کسی صوفی بزرگ کے مزار کی حاضری اور خصوصی دعا کا بہانہ تراش لیتے ہیں ۔ ان کی روحیں تو شائد پہلے ہی بعض وراثتی گدی نشینوں کے اعمال صالح کی بدولت ہدف تنقید رہنے پر پریشان رہتی ہیں ۔
ایسے چراغ جلیں گے تو روشنی ہو گی ۔تعلیم کی نئی روشنی نہ ہونے سے علم پہلے ہی ضعیف الاعتقادی کی بیساکھی پر کھڑا ہے ۔اور کوئی ہٹ دھرمی کے ستون پر ۔
مصر اور تیونس کی طرح سنا ہے کہ اب ہمارا ملک بھی انقلاب کے دھانے پر کھڑا ہے ۔ لیکن تاریخ تو بتاتی ہے کہ ملک کئی بار معاشی اور سیاسی انقلابات سے بحسن رضا گزر چکا ہے ۔اگر یقین نہیں تو معاشی انقلاب کی بدولت معرض وجود میں آئی سٹیل مل اب وبال جان ہے ۔ جان تو پی آئی اے کی بھی خطرے میں ہے ۔
جان کنی کا عالم ہو یا نہ ہو مگر گورکن تیار ہیں ۔
ان کی حالت زار تو "میں تو کمبل کو چھوڑتا ہوں مگر کمبل مجھے نہیں چھوڑتا "جیسی ہے ۔
در دستک >>

Feb 15, 2011

آپ ﷺجزاب ہو راہِ صواب ہو

آپ ﷺجزاب ہو راہِ صواب ہو
زرِ ناب ہو خندہ آفتاب ہو

اللہ اللہ یا رسول اللہ
اللہ اللہ یا محبوب اللہ

آپ ﷺرشاد محبوبِ رب العباد ہو
پرِ سرخاب ہو تَسخیرِ ماہتاب ہو

اللہ اللہ یا رسول اللہ
اللہ اللہ یا محبوب اللہ

آپ ﷺ اِتساہ باصفا اذعان ہو
باغِ رضوان ہو توقیر الوہاب ہو

اللہ اللہ یا رسول اللہ
اللہ اللہ یا محبوب اللہ

آپ ﷺ روشن سواد دل نہاد ہو
رشادی روشن جہان ِ تاب ہو

اللہ اللہ یا رسول اللہ
اللہ اللہ یا محبوب اللہ

آپ ﷺ چمن دلبہار اشہر نجم اطہر ہو
ہم صادق الاعتقاد کو امید ِ حسن الماب ہو

اللہ اللہ یا رسول اللہ
اللہ اللہ یا محبوب اللہ

میرے دلِ چاک کو آپ ﷺ فرحت ناک ہو
میں گوہر بے آب ہوں آپ ﷺگوہر خوش آب ہو

اللہ اللہ یا رسول اللہ
اللہ اللہ یا محبوب اللہ

میں مشت خاک ہوں آپ ﷺمصحف پاک ہو
میں نقش بر آب ہوں آپ ﷺنگہت مآب ہو

اللہ اللہ یا رسول اللہ
اللہ اللہ یا محبوب اللہ


برگِ بار / در دستک
محمودالحق
در دستک >>

Feb 1, 2011

کھلتا جو گلاب ہے

کھلتا جو گلاب ہے جلتاپھر یہ زمان کیوں
گزرا ہر نشیدہ پل بہکاتا نیا شیطان کیوں

تجھے آنا مشکل نہیں جانا ہی پھر امتحان کیوں
جگر کا گرم لہو قلب ہی پھر ارمان کیوں

چبھتا نہیں خار بھی ، پھول پھر پشیمان کیوں
ڈرتا تاریکی سے چاندنی مجھ پہ مہربان کیوں

کٹتا رہا قلب تنہا ، میرا تن نادان کیوں
بیتابیء جاناں میں پٹخنا سر ہی آسان کیوں

چاہتے شب وروز مسیحائی کم پھر انسان کیوں
لکھتا لوح قلم پہ ، پڑھتے نہیں پھر قرآن کیوں


محمودالحق
خیال رست / در دستک
در دستک >>

اُٹھ نہیں پاتا جہاں میں بھاری لہو کیوں ہے

اُٹھ نہیں پاتا جہاں میں بھاری لہو کیوں ہے
جوسمجھ ہی نہیں پاتا ایسی جستجو کیوں ہے

دشت ہو یا صحرا ، گلزار ہو یا ہو گلستان
بہلانے میں نہیں رنگ پھر ماہ نو کیوں ہے

دست میں رکھا دم ، پا سرِ خم کر دیا
قلب عشقِ امتحان ،عقل جامِ سبو کیوں ہے

بیان جو میرا نہیں مفہوم بھی تو تیرا نہیں
ڈستے مجھے اندھیرے پھیلایا آفتاب صبو کیوں ہے

اصلاحِ احوال نہیں رہتے جو دامان اِستاد ہو
پلک جھپکتی روشِ روشن قلب کسو کیوں ہے

زلفِ نار سے جھولتے ، مے خراب سے مستی نہیں
محبتوں کے رنگ ہیں تیرا فراق ہجو کیوں ہے

آسان نہیں سمجھنا لعاب ریشم کی دھار ِ کنار کو
قیام جہان میں تنہا ،سجدہ میں روبرو کیوں ہے


محمودالحق
خیال رستاں / در دستک
در دستک >>

سوشل نیٹ ورک

Flag Counter