اب اگر راستہ چھوٹ جائے تو
شکوہ کیا
دنیا سے گر رشتہ ٹوٹ جائے تو
شکوہ کیا
آستین میں چھپے ہاتھ کی آگہی
بھی بیزاری ہے
دوچار قدم چل کے لوٹ جائے تو
شکوہ کیا
جالے بنتی مکڑی کا ہے فریبِ
مکاں
قلبِ نور سے نظر عقل مٹ جائے
تو شکوہ کیا
شمع خود بھی ہے بجھتی پروانہ
بھی جلاتی
مہک گل سے خود لپٹ جائے تو
شکوہ کیا
دامنِ آرزو میں رہتی ہوا تو
گرد و غبار ہے
حسرتوں سے غمِ بادل چھٹ جائے
تو شکوہ کیا
بے بس دست و پا بے راہ مشکل
التجا
احسان سے گر مقامِ اَنا مٹ
جائے تو شکوہ کیا
تلاش میں ہے جن کی رزقِ اجرِ
حنا
جسم روح سے الگ الگ بٹ جائے تو
شکوہ کیا
ولی صوفی قلندر کیا نہیں ہیں
انساں
متاعِ دنیا راستے سے خود ہٹ
جائے تو شکوہ کیا
راستے جدا جدا پہنچے منزل ایک
مقام
راستہ ہی میں سارا سفر کٹ جائے
تو شکوہ کیا
آسان جن کو نظر آئیں منزلیں
دشوار گزار
قدم پڑتے ہی گر نہ پلٹ جائے تو
شکوہ کیا
بیتابیء قلب میں سماتی جسم و
جان جائے
تہہء عملِ جہاں سے جو سلوٹ
جائے تو شکوہ کیا
اب بھی ہے کوئی شکوہ ذاتِ منان
سے
غفلت شب میں نیند سے کروٹ جائے
تو شکوہ کیا
کلمہء تشکر میں گر ہو مقامِ
اولیٰ محمود
پہاڑ کیا چاہے زمین پھٹ جائے
تو شکوہ کیا
محمودالحق
0 تبصرے:
Post a Comment