زندگی میں بہت سی باتیں سمجھ آنے کے باوجود سمجھ سے بالا تر ہوتی ہیں ۔ارد گرد کے ماحول اور حالات ہمیں مستقبل کی پیش بندی کی تحریک پیدا کرتے ہیں ۔ ایسا مستقبل جو سنہرے خواب کی مانند ہوتا ہے ۔ مگر تعبیر ضروری نہیں کہ سنہری ہو ۔ہر دن کا آغاز ایسی ہی سوچوں کی بنیاد سے ہوتا ہے ۔جو سورج ڈھلنے کے ساتھ اپنے منطقی انجام تک پہنچ جاتا ہے ۔اور ہررات کا آغاز ویسا ہی پر سکون ہوتا ہے ۔ جیسا نیند کی آغوش میں جانے سے پہلے بستر پر دن بھر کا کسا بدن ڈھیلا ہوتے ہی سوچوں کے سمندر سے غوطے کھانے کے بعد تکیے کے سہارے پر ختم ہوتا ہے ۔
ایک زندگی ایک ہی کام سے جس انجام کا سامنا کرتی ہے ۔دوسرے کو ویسے ہی کام کے آغاز کی ترغیب دیتی ہے ۔زندگی جینے اورزندگی گزارنے میں وہی فرق ہے جو جاگتے اور سوتے ہوئے انسان میں ہے ۔ سونے کو جاگنے سے کسی بھی صورت فوقیت اور اہمیت حاصل نہیں ۔جاگتے ہوئے سوچ میں تغیر و تبدل بس میں ہے مگر سوتے میں بس سے باہر ۔ بلکہ بعض اوقات ایسے حیرت انگیز اورناقابل یقین خواب چلے آتے ہیں ۔جن کی یاد دن بھر کے جاگنے پر بھاری ہو جاتی ہے ۔اورحقیقی زندگی میں خوابی کیفیت ہیبت کا باعث ہوتی ہے ۔
کامیابی کا زینہ ہمیشہ اوپر کی طرف رخ رکھتا ہے ۔جہاں توانائی کا استعمال قدرے زیادہ اور خطرات بھی کم نہیں ہوتے ۔ جنہیں منزل پر پہنچ کر سستاتے ہوئے پریشان ہوتے ہیں ۔وہ خطرات سے بچتے رینگتے ہوئے یہاں تک پہنچے ہوتے ہیں ۔ کھلے بادبانوں اور بہتے پانیوں کے رخ پہ چلتے ہوئے ۔
جنہیں زندگی میں جینا ہوتا ہے ۔ وہ تھپیڑوں کی پرواہ نہیں کرتے ۔ ہواؤں کا رخ کوئی بھی ہو ۔پانی کا بہاؤ اور ٹھہراؤ سے گھبراتے نہیں ۔طاقت کے زور پہ زندگی کی ناؤ چلاتے ہیں ۔
ارد گرد پھیلے کھلے حالات و واقعات انسانی سوچ میں طلاطم پیدا کرتے ہیں ۔اور جنگلی گھوڑے کی طرح سرکشی بھی ۔جسے لگام ڈال کر تابع کیا جاتا ہے ۔سرکش مزاج وفاداری میں بدل جاتا ہے ۔انسانی تخیل سے نکلتے افکار اظہار رائے کا شاہکار تو ہو سکتے ہیں۔ مگر زندگی کی سچائی نہیں ۔جہاں تابعداری تو ہے مگر وفا شعاری نہیں ۔
بلندیاں چھونے کے لئے پستیوں سے سفر کا آغاز کرنا ہوتا ہے ۔جہاں صعوبتوں کا سامنا بھی رہتا ہے ۔ شاہ و گدا پر مبنی معاشرتی کہانیاں صدیوں سے لکھی،پڑھی اور سنائی جا رہیں ہیں ۔مگرسوچ بن کر وہی زندہ رہتے ہیں ۔ جو ناکامی کو قسمت کا کھیل سمجھ کر ہتھیار نہیں ڈالتے ۔بلکہ بار بار کی کوشش سے آگے بڑھنے پر یقین رکھتے ہیں ۔ ایمان کا تعلق فتح اور شکست سے ہمکنار ہونے میں نہیں ۔بلکہ بار بار کوشش سے آگے بڑھنے میں ہے ۔جو دل برداشتہ ہو کر رک جائیں تو رکنا تقدیر نہیں ۔بلکہ فیصلہ حق میں یا مخالف ہوناہے ۔
رک جانے کو جو زندگی کا تسلسل جانتے ہیں ۔جہد مسلسل سے نظریں چراتے ہیں ۔ خوش نصیب ہیں وہ جن تک اللہ کی رضا کامیابی کی صورت میں پہنچی ۔ کم عقل ہیں وہ جو بار بار کوشش سے بھی رزق میں ایک حد سے آگے نہ بڑھ سکے ۔ مگر خواہشوں کو لگام نہ دے سکے ۔ جنہیں دیکھایا جاتا ہے انہیں سمجھایا جاتا ہے ۔جنہیں دیکھایا نہیں جاتا انہیں بہکایا بھی نہیں جاتا ۔رزق کی تلاش میں سرگرداں رہنے کا وقت ہوتا ہے ۔اور اسے وہیں تلاش کیا جاتا ہے جہاں سے ملنے کی امید ہوتی ہے ۔غروب آفتاب کے بعدتو سب چھپا دیا جاتا ہے ۔
منزلیں وہیں ٹھہرائی جاتی ہیں جہاں لنگر گرائے جاتے ہیں ۔فیصلوں کے وہ محتاج ہوتے ہیں جو فکر و شعور سے عاری ہوتے ہیں ۔
محمودالحق
4 تبصرے:
اچھے خیالات ہیں
يہ سب تو کوشش کا ذکر ہو گيا قسمت بھی تو ہے
اقتباس : پھپھے کٹنی
"يہ سب تو کوشش کا ذکر ہو گيا قسمت بھی تو ہے"
[اسی میں یہاں قسمت کا کچھ یوں ذکر کیا تھا} .
" ایمان کا تعلق فتح اور شکست سے ہمکنار ہونے میں نہیں ۔بلکہ بار بار کوشش سے آگے بڑھنے میں ہے ۔جو دل برداشتہ ہو کر رک جائیں تو رکنا تقدیر نہیں ۔بلکہ فیصلہ حق میں یا مخالف ہوناہے " ۔
آپ کا شکریہ شازل صاحب
Post a Comment