دماغ کے گرم تنور پہ اختلاف کے پیڑے سے تسلی کی روٹی بنانے کی کوشش میں ہوں۔ اگر گول مٹول کی بجائے چپٹی بن جائے تو مردِ انجان سے کھری کھری سننے کی نوبت نہیں آئے گی مگر امور خانہ داری نبھانے والوں سے جان بچانی مشکل ہو جائے گی۔ جنہیں بھوک نے ستا رکھا ہو ظاہری خدو خال کی پیچیدگیوں سے آنکھیں چرائے رکھتے ہیں۔نخرہ تو تب کیا جاتا ہے جب پیٹ بھرا ہو۔ خالی پیٹ تو آنکھ اوجھل پہاڑ اوجھل ہوتا ہے۔
والدین بچوں کے گریڈ کم آنے پر دہائی دیتے ہیں۔ بچے ٹیچروں کے نہ پڑھانے کی دہائی دیتے ہیں۔ حکومتیں قانون قانون کی دہائی دیتی ہیں۔ عوام امن کی دہائی دیتے ہیں۔غریب مہنگائی کی دہائی دیتے ہیں۔امیر ائیر کنڈیشنڈ کمرے میں بے سکونی کی دہائی دیتے ہیں۔لڑکے محبت محبت کی دہائی دیتے ہیں۔ لڑکیاں بے وفائی کی دہائی دیتی ہیں۔مظلوم ظلم ظلم کی دہائی دیتا ہے ۔ ظالم نا انصافی کی دہائی دیتا ہے۔ اورشاعر وزن بحر کی دہائی دیتا ہے توادیب نارسائی کی دہائی دیتا ہے۔ جن کی پانچ گھی میں ہوں وہ نیند میں خواب کے مزے لیتا ہے۔ جن کی ایک کے بعد ایک ٹیڑھی ہونے کے باوجود گھی نہ نکلے انہیں دوسروں کی سیدھی بری لگتی ہے۔سب اصول و ضوابط حضرت انسان کے اپنی ذات انجمن کے طے کردہ ہیں۔لندن اور امریکہ میں نظام ٹریفک ایسے ہے کہ ایک کو دوسرے کی ٹریفک ون وے کی خلاف ورزی کر تی نظر آتی ہے۔کیونکہ لندن لیفٹ ہینڈ ٹریفک چلتی ہے تو امریکہ میں رائٹ ہینڈ ۔
قانون فطرت نہیں بدلتا ، مذہب کی تشریح بدل جاتی ہے۔ سرحدیں آسانی سے نہیں بدلتیں کیونکہ طاقتور سے سامنا کرنا پڑتا ہےمگر قانون بدل جاتے ہیں کیونکہ وہ کمزور پر لاگو ہوتے ہیں۔ جن ملکوں میں نظام تعلیم پرائیویٹ سکولوں کے ٹھیکیداری نظام پر چلتا ہو ۔ استاد ٹیوشن سے گھر کا چولہا جلانے پر مجبور ہو۔ جہاں پیسے کے زور پر علم سیکھا جاتا ہو۔ وہاں شعر و ادب کے رکھوالے صدیوں کی روایات کو نشاۃ ثانیہ قرار دے کر دبستان لکھنو کی تحریک کے روح رواں بنے نظر آتے ہیں۔وہ حق بجانب ہیں کیونکہ ادب کی ان اصناف کو ماننے والے مسلمانوں سے زیادہ ہیں۔وہ اس لئے کہ مسلمان عشق حقیقی کو ماننے والا ہے مگر یہاں تو عشق مجازی کے پرستار لاکھوں کی تعداد میں جلتی شمع کے گرد پروانوں کی طرح مٹنے کے لئے تیار رہتے ہیں۔ جن کے لئے میری ذات ذرہ بے نشان صرف ڈرامے کی حد تک ہوتی ہے۔قرآن و سنت نے جو طے کر دیا باتوں سے پورا کر لیا جاتا ہے۔اولاد بننے سے لے کر فرد بننے تک اپنے فائدے کے حقوق مرضی کے فرائض ادا کر دئیے جاتے ہیں۔
اللہ کرے زور قلم اور زیادہ ۔یہ وہ دعا ہے جو لکھنے والوں کو دی جاتی ہے۔
اللہ کرے زور جذب اور زیادہ ۔ یہ دعا پڑھنے والوں کو دی جانی چاہیئے۔
لاہور کی سخت گرمی اور حبس میں لوڈ شیڈنگ سے بھری سحری اور افطاری کے بعد ان سے دور آ کر ٹھنڈی ہواؤں نےان سے غافل نہیں کیا جو گرمی اور حبس میں اللہ کے شکر گزار بندے بن کر رہتے ہیں۔
پانچ انگلیوں سے لکھتے لکھتے پانچ سال ہو گئے۔ پانچ ملنے مشکل ہیں ۔لکھنا قلم سے ہوتا تو قلمی دوستیاں رکھتا۔مگر قلب مستی کرتا ہے۔اسی مستی میں ٹی وی پر آنے والے ایک فقیر سے ملاقات کا وقت مانگ لیا تو سیکرٹری نے دو گھنٹے انتظار کے بعد دو منٹ دینے پر رضا مندی ظاہر کی۔اتنے کم تو ہم بھی نہیں کہ دو منٹ میں حال دل بیان کر دیتے۔ سالہا سال سےعشق حقیقی میں مبتلا ہیں۔دو منٹ میں تو دھڑکن سنائی نہیں دے گی۔ ایک اور صاحب کے معتقد نے خود ہی مایوسی سے بھانڈا پھوڑ دیا کہ آدھے گھنٹہ کی ملاقات کا بیس ہزار اورپندرہ منٹ کے فون کا پانچ ہزار لیتے ہیں۔ ٹی وی پر آنے کا معاوضہ تو ایسے ہی ہوتا ہے۔ جتنا گڑ ڈالو اتنا میٹھا ہو گا۔ اب وہ زمانہ نہیں کہ ایک ہاتھ سے خیرات کرو تو دوسرے ہاتھ کو پتہ نہ چلے۔ کیمرہ ٹی وی کا نہ بھی ہو اپنا ساتھ ضرور رکھو۔ نیکی کا ثبوت مانگا جا سکتا ہے۔اب نیکی کر دریا میں ڈال والا دور نہیں۔ کھوٹا کھرے سے زیادہ چلتا ہےاور جھوٹ سچ سے۔زبان قینچی کی طرح چلتی ہے تو قلم خنجر کی طرح۔
0 تبصرے:
Post a Comment