Jul 12, 2014

نشانیاں


گرمی سے ستائے لوگ نہر میں الٹی قلابازیاں لگاتے کود رہے تھے۔ چند ایک پانی کو گندہ جان کر صرف پاؤں کو ٹھنڈک پہنچانے تک ہی استفادہ حاصل کر رہے تھے۔ وہاں گاڑیوں سے گزرنے والے بے اعتنائی سےکچھ بھی سوچنے کی مشقت سے لا پرواہی برتتے ہوئے افطاری میں مدعو کئے مہمانوں کی آؤ بھگت کے لئے جیب میں ڈالی لسٹ پر بار بار اچٹکتی نگاہ ڈالتے کہ کہیں گھر پہنچنے پر حافظہ کی کمزوری کا طعنہ سننے میں نہ آجائے۔کسی کو جانے کی جلدی تھی تو کسی کو واپس آنے کی۔دھوپ 43, 45  ڈگری سے جسم کی حرارت بڑھا رہی تھی تو دماغ ڈبل سپیڈ سے خیالات کو ہوا کے گھوڑے پر بٹھا رہا تھا۔غرض بندہ بشر کچھ سن رہا تھا کچھ سنا رہا تھا۔جو سبق ابھی یاد کیا اسے بھلا رہا تھا۔ رات کا چین کھو رہا تھا تو دن کا سکون بھی ہاتھ سے جا رہا تھا۔
نظر اُٹھا کر جب درختوں کو میں نے دیکھا تو وہ مسکرا رہے تھے۔ ٹہنی سے ٹہنی ملائے پتے سے پتہ ٹکرائے   تونشہ میں جھولتے ہوئے جھوم جھوم جاتے۔ میں زیر لب بڑبڑایا کہ تجھے اٹھکھیلیاں سوجی ہیں ہم بیزار بیٹھے ہیں۔ چلنے کونہیں ہم تیار بیٹھے ہیں۔چاہے صدیاں گزر جائیں کر کے انکار بیٹھے ہیں۔ اور ان میں سے کسی نے  خود کوپھل کے زیور سے آراستہ کر رکھا ہے  اور جھک جھک کر آداب بجا لا رہا ہے۔ کوئی  خود پھیل کر چھاؤں پھیلا کر  احسان جتانے پر بضد ہے۔ 
بیشک اللہ بیج اور گٹھلی کو چیرنے والا ہے)۔الانعام 95۔) 
زمین کی ہمواری سے لے کر آبیاری تک بیج کو پے در پے مواقع حاصل ہوتے ہیں۔ جن کی موسم سےنسبت طے کر دی جاتی ہے۔جو پہلے رنگ پاتے ہیں پھر خوشبو پھیلاتے ہیں۔بیج زمین سے ایسے نکلتے ہیں جیسے تاریکی چاک کر کے صبح  نکلتی ہے۔رات تو چین کا باعث ہے ۔ دن اور رات کی نسبت سورج اور چاند سے طے  کر دی جاتی ہے۔جو حساب کے سا دہ اصول پر جمع تفریق میں مصروف عمل رہتا ہے۔ اور دن کی تھکاوٹ کا حساب رات کو چکتا کر دیتے ہیں۔
یہ سادہ اور زبردست ہے جاننے والے کا )۔ الانعام 96۔ )
سورج اور چاند سے ہٹ کر تارے آسمان پر ٹمٹماتے  انگلیوں سے گنتی میں نہیں آتے۔ نہ ہی سکون آور ہیں نہ ہی چین کھونے والے مگر  خشکی اور تری کے اندھیروں میں  مسافروں کو راہ دکھلاتے ہیں۔تاکہ وہ بھٹک نہ جائیں اپنی سمت کو درست رکھ پائیں۔ اور منزل تک پہنچ کر اگلے سفر کی تیاری کا قصد کر لیں۔ان کے انتظار میں رہنے والے سورج اور چاند کی گردش سے جانے آنے کے فاصلوں کو دن رات میں باندھ لیں۔بے شک یہ نشانیاں علم والوں کے لئے ہیں۔
ہم نے نشانیاں مفصل بیان کر دیں علم والوں کے لئے) الانعام 97)
اللہ تبارک تعالی نے  سب سے پہلے آدم کی تخلیق   کی جسے  جاننے کاعلم عطا کیا گیا۔  پھر اسی جان سے اس کی بیوی پیدا کی گئی ۔پھر ان سے بہت سے مرد اور عورتیں پیدا کی گئیں۔ انسانی جان سے زندگی کے ایک مسلسل تسلسل کو جاری و ساری رکھنا حکمت خداوندی ٹھہرا ۔جہاں کوکھ  سےقبر میں ٹھہرانے اور امانت میں رکھنے کو منشاء و رضائے الہی ماننا بلا شک و شبہ  قرار پایا ۔جس کو علم کی طرح جاننے کی بجائے سمجھنا ضروری ہے کہ    حکم ربی ہے کیا۔زندہ کو مردہ سے اور مردہ کو زندہ سے نکالنے والا ہے ۔چاہے وہ بیج اور گٹھلی ہو یا ایک جان سے پیدا کیا گیا انسان ۔ ایک میں مفصل بیان کی گئی نشانیاں علم والوں کےلئے ہیں اور ایک میں سمجھ والوں کے لئے۔ انسان قبل از پیدائش سے  موت اور بعد از موت رکھے جانے کو احکامات پروردگار سے جستجو و تلاش کے راستے سے سمجھنے کی کوشش میں اللہ کا قرب پانے کےقریب ہو جاتا ہے۔ جہاں اس پر رحمتیں نچھاور ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔قبل از موت کئے گئے فیصلے بعد از موت محفوظ رکھے جاتے ہیں تاآنکہ فیصلہ کا دن آن پہنچے گا۔ انسان نشو ونما کی بجائے پرورش سے پروان چڑھتا ہے۔تربیت کے مختلف ادوار میں آگہی کی سوجھ بوجھ سے بعداز موت کے مناظر کو پہلے ہی کینوس پر  مختلف رنگوں کے حسین امتزاج   سےمنتقل کیا جانا بہتر رہتا ہے۔ 
بیشک ہم نے مفصل آیتیں بیان کر دیں سمجھ والے کے لئے)  الانعام 98)
اللہ تبارک تعالی نے مخلوق کو زندگی کی لذتوں سے مستفید رکھا ۔ آسمان سے پانی اتارا جس نے مردہ زمین کو زندہ کیا پھر وہاں سے ہر اُگنے والی چیز پیدا کی۔ تاکہ آدم اپنی ضرورت کے مطابق  سبزیوں اور پھلوں کو اپنے استعمال میں لا سکے۔ صرف زندگی عطا نہیں کی بلکہ اس کے بھرپور لوازمات بھی عطا کئے۔ایسی سبزی جس کے دانے ایک دوسرے پر چڑھے ہوئے اور کھجور کے گچھے انگور کے باغ اور زیتون اور انار کسی بات میں ایک دوسرے ملتے اور کسی بات پہ دیکھنے میں الگ ۔ ایسے پھل جو  پھلنے سے پکنے تک ٹوٹنے اور بچنے کی قدرتی حصار میں پروئے رہتے ہیں۔  تا آنکہ وہ پک کر اپنےوجود کو ذائقہ اور تسکین سے  بھر لیں۔آدم ان نعمتوں کو انعام و اکرام  مان کر رب کائنات کی شکر گزار بندگی میں چلا جائے۔
بیشک اس میں نشانیاں ہیں ایمان والوں کے لئے) الانعام 99)

تحریر ! محمودالحق


1 تبصرے:

Anonymous said...

very well written

Post a Comment

سوشل نیٹ ورک

Flag Counter