Feb 13, 2021

روح کی آبیاری

زندگی جسم اور روح کا مرکب ہے۔ زمین پر ان دونوں کی موجودگی اسباب سے منسلک ہے ۔ جو کہ ہوا پانی روشنی سے وابستہ ہےجس کے لئے صبح اٹھتے ہیں اور رات گئے سوتے ہیں۔ روح جب تک جسم سے تشنگی لیتی ہے تو زمین سے جڑی رہتی ہے۔ جب وہ اسے قید محسوس کرے تو پھر وہ پرواز کرتی ہے۔ اس کی پرواز ہے کیا۔ سوچنے سمجھنے کے لئے وہ علم کے روائتی فلسفہ کی بجائےحقیقت شناسی کے راستے پر گامزن ہو جاتی ہے۔ سائنس کہتی ہے کہ زمین سورج کے گرد 365.25 دنوں میں چکر مکمل کرتی ہے۔ چارموسم ہیں، ہر موسم کا الگ الگ پھل ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ آم گرمیوں میں صرف تیار نہیں ہوتا بلکہ سورج کے ایک مخصوص حصے میں پہنچنے پر پکتا ہے اور یہی حال دوسرے پھلوں اور چاول گندم کا بھی ہے۔ صرف سوچنے کا انداز تبدیل ہوتا ہےکیونکہ ہم اس جگہ موجود تو نہیں ہوتے ۔ لیکن ہم احساس سے جڑ جاتے ہیں۔ جب روح فطرت سے جڑ نے لگتی ہے تو زمین سےوابستگی کمزور پڑنے لگتی ہے۔ معجزات اور کرامات اسی وابستگی سے وقوع پزیر ہوتے ہیں۔ اگر آسان انداز میں زمین پر رہتے ہوئےتجربہ کرنا چاہئیں تو بھی ممکن ہے۔ کسی بھی پھل کی دوکان سے سیب، آم، کیلا،امرود، ناشپاتی، انگور وغیرہ پانچ دس کلو  خرید کرگھر میں چھری کانٹے سے پلیٹ میں کاٹ کر کھائیں۔ پھر ان پھلوں کو باغات میں توڑ کر کھائیں۔ درخت سے توڑ کر کھایا جانے والاایک سیب دوکان سے ٹوکری بھرے سیب سے مختلف کیوں محسوس ہوتا ہے۔ صرف اس وجہ سے کہ  باغات میں لٹکے پھل ہمیں فطرت کے قریب لے کر جاتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں یوں کہا جا سکتا ہے کہ روح کی تشنگی فطرت سے مٹتی ہے۔ اور فطرت ایک سسٹم کا نام ہے۔ اللہ سبحان تعالی فرماتے ہیں کہ تم دیکھتے نہیں کہ بادل کیسے ہوائیں لے کرجاتی ہیں اور مردہ زمین کو زندگی عطاکرتی ہیں۔ وہی بارش کا پانی ایک مخصوص درجہ حرارت پر برف باری میں بدل جاتا ہے۔ لیکن سورج کے ایک مخصوص حصہ میں زمین کے پہنچنے پر ایسا ہونا ممکن ہوتا ہے۔ روح جب دنیاوی بدنی ضرورتوں سے بے پرواہ ہو جائے، نظام حیات سے نظام کائنات سے منسلک ہو جائے تو خالق سے ایک رشتے میں جڑ جاتی ہے۔ اسی ناطے سے اللہ سبحان تعالی فرماتے ہیں کہ اس کا کان بن جاتاہوں جس سے وہ سنتاہے اور میں اس کی آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے اور اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے اورقدم بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے ۔

دنیا بھر میں ایک ہی دن پیدا ہونے والے ہر رنگ و نسل کے بچوں کو ایک ہی چھت تلے اکٹھا کریں تو ان سب میں کوئی فرق نہیں ہو گا۔ ان کے مسکرانے میں چہرے پر معصومیت ایک جیسی ہو گی۔جوں جوں بڑے ہوتے ہیں شعور، تربیت اور راہنمائی سےپروان چڑھتا ہے۔ اس وقت جو ہم سب ایک ہی رنگ و نسل سے موجود ہیں ہمارے مزاج، رویے ، افکار وسوچ ایک جیسے نہیں رہے۔ تو اس میں روح کا کیاعمل دخل ہے ۔ ہماری سوچ میں نظریات اور فلسفہء حیات کا بہت عمل دخل ہوتا ہے کیونکہ معاشرت ہمیں گائیڈ کرتی ہے۔

مذہب ہمیں نفس کے متعلق آگاہی دیتا ہے کہ اس سے جنگ کرو کیونکہ یہ ہمارے سسٹم میں بلٹ ان نہیں ہوتا۔ بلکہ اسے ہم ڈاؤن لوڈ کرتے ہیں اپنے ارد گرد سے جس کے نتیجے میں ہمارے اندر وائرس بھی داخل ہو جاتے ہیں۔ دین بنیادی طور پر ہمارےوجود میں اینٹی وائرس کا کردار ادا کرتا ہے جو کسی بھی غیر متعلقہ خیال اور فکر  کواندر گھس کر بیٹھنے کی اجازت نہیں دیتا۔

روح کو سمجھنے کے لئے ہمیں سب سے پہلے اپنے نظام کو سمجھنا پڑے گا جو ہمیں درست سمت میں سفر کرنے کا پابند بناتا ہے۔چھوٹی سی مثال ہے کہ ہمارے گھروں اور کھیتوں میں سبزی پھل پھول اگائے جاتے ہیں اور کھیت ، کیاریوں میں گھاس پھونس تلف کی جاتی ہے جڑی بوٹیاں ختم کی جاتی ہیں۔ خالص روح پانے کے لئے سب سے پہلے اپنے وجود کو  خیال کی ان جنگلی  جڑی بوٹیوں سے محفوظ کرنا پڑے گا۔خیالات کی پنیری بار بار اگنے کی اہلیت رکھتی ہے کیونکہ اس کی جڑیں بہت اوپر یعنی سوچ تک محدود ہوتی ہیں اور چھوٹی چھوٹی جڑ کرتنآور ہو جاتی ہیں۔ 


تحریر: محمودالحق

0 تبصرے:

Post a Comment

سوشل نیٹ ورک

Flag Counter