Feb 27, 2021

قوس و قزح

قوس و قزح

سورج کی شعائیں جب آسمان پر موجود پانی کے قطروں سے گزرتی ہیں تو منعکس ہو کر ست رنگی رنگوں میں ڈھل جاتی ہیں۔ ایسا ہونا تبھی ممکن ہوتا ہے اگر بادل برس کر جا چکے ہوں یا سورج کی شعاؤں کو اند ر آنے کا راستہ دے چکے ہوں۔ ریاضی دانوں نے  Mathematical derivationسے اس کی حقیقت بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔  جس میں روشنی ،پانی کے قطروں میں ایک مخصوص angle  سے گزر کر شعاؤں کے منعکس  ہونے کے عمل سے  دھنک کے رنگ تشکیل پاتے ہیں۔

نظام کائنات کی یہی خوبی ہے کہ اس میں داخل ہونے والی روشنی اور خارج ہونے والی انرجی اپنا توازن برقرار رکھتی ہے۔ آکسیجن اگر جانداروں کی زندگی کی علامت ہے تو کاربن ڈائی اکسائیڈ درختوں کی خوراک۔ توازن بگڑ جائے تو او ۔زون میں سوراخ پیدا ہو جانے سے گرمی کی شدت میں اضافہ اور گلیشئیرز کے پگھلنے سے زمین کا درجہ حرارت بڑھنے کے امکانات  روشن دکھائی دیتے ہیں۔

یہ باتیں چار انچ کے سیل فون کی سکرین پر قوس و قزح لکھنے سے  ہی حاصل ہو جاتے ہیں۔  تو اس کی تحقیق و جستجو سے لا حاصل بحث سے اصلاح معاشرہ یا فلاح آدمیت  کے لئے کچھ نیا جاننے کا عمل رک بھی جائے تو  کوئی فرق نہیں پڑنے والا۔ ہماری زندگیوں میں لفظ مقرر مقرر کے نعرہ مستانہء  سے ایسے آشنا ہو جاتے ہیں کہ رنگوں کی برسات اپنی تجوریوں اور قلعوں میں محفوظ دکھائی دیتی ہیں۔ زندگی کو سمجھنے کے لئے جتنا دنیا کی ہستی میں بے حال ہوتے رہیں گے، حالات کی رسی میں جکڑے رہنے کے امکانات بھی بڑھتے رہیں گے۔انسان دنیا میں پیدا ہونے کے لئے اپنی مرضی و اختیار کا مالک نہیں ہوتا۔ نہ ہی زبان و بیان پر عبور عطائے رب العزت کی بدولت ہوتی ہے۔ زمانہ کا عجب دستور ہے کہ   ترقی کی رفتار سے حدود وقیود کی حدیں بھی پار کرنے کی ایسی لت کا شکار ہونے میں فکر حیات سے بیگانہ ہو چلے تھے، تب ہی ایک وائرس نے انسانی زندگیوں کو ایسے  جکڑ بند لگایا کہ ہاتھ منہ لپیٹ کر کھانسنے سے ڈر میں مبتلا ہو گئے۔ انسانی بستیوں میں  داخل ہونے والا ایک وائرس دنیا کی تاریخ سے نکل نہیں پاتا۔ صدیوں بعد بھی اس سے لڑنے اور شکست دینے کے بلند و بانگ دعوے دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں۔

روزگار میں کمی کا رونا دھونا زیادہ سننے میں رہتا ہے۔اللہ سبحان تعالی اپنے بندوں کو فلاح کی طرف بلاتا ہے پانچ وقت روزانہ۔ نماز کے ساتھ صبر کی تلقین کرتا ہے۔ مدد کرتا ہے اپنی رحمت اور فضل سے۔ لیکن شکر نظر آنا انتہائی دشوار گزار پہاڑی سلسلوں میں راستہ تلاش کرنے جیسا ہوتا ہے۔ اللہ سبحان تعالی  سےمحبت و عقیدت کا تقاضا یہ ہے کہ آزمائش آنے پر امتحان کے پر خطر راستے پر چلنے سے   صبر و شکر کا دامن ہاتھ سے نہ چھوٹنے پائے۔ اللہ سبحان تعالی فرماتے ہیں کہ

ذٰلِكَ الْكِتَابُ لَا رَيْبَ ۖ فِيْهِ ۚ هُدًى لِّلْمُتَّقِيْنَ             

"یہ وہ کتاب ہے جس میں کوئی بھی شک نہیں، پرہیز گارو ں کے لیے ہدایت ہے"۔

جس میں پرہیز گاروں کے لئے ہدایت ہے  تو گناہگاروں کے قلب پر قفل لگ جاتے ہیں۔ قفل بند قلب ہماری زندگیوں کے فیصلے صادر کرتے ہیں۔ انہیں اپنے راہنما بناتے ہیں۔ انہی کے نقش قدم پر چلنے کو باعث فخر سمجھتے ہیں۔ قرآن ہماری زندگیوں کے لئے راہ ہدایت ہے۔ حکم رب العزت مالک دوجہاں  خالق کل کائنات عظیم المرتبت  ارض وسماں  نے بار بار کہا کہ میں ہوں اور میں ہی ہوں جو فریاد سننے والا ہے ، رزق دینے والا ہے، عزت دینے والا ہے، گناہوں کو معاف کرنے والا ہے، زندگی کی حفاظت کرنے والا ہے، موت دینے والا ہے۔ کسی بشر کے  لئےممکن نہیں کہ وہ اللہ سبحان تعالی کے حکم کے بغیر مر جائے۔ 

وَ لِلّٰہِ مُلۡکُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ ۚ وَ اِلَی اللّٰہِ الۡمَصِیۡرُ﴿۴۲

"اور آسمانوں اور زمین کی بادشاہی اللہ ہی کے لیے ہے اور اللہ ہی کی طرف پلٹ کر جانا ہے"۔

انسان بنیادی طور پر خسارے میں رہنے والا ہے۔ اپنے لئے انہیں منزل راہ بناتا ہے جن کی منزل دنیا  کی زندگی  میں ہر آسائش و آرام  کےمقصود تک ہو۔  لیکن اللہ سبحان تعالی  سورۃ المائدہ میں فرماتے ہیں!

يَـهْدِىْ بِهِ اللّـٰهُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوَانَهٝ سُبُلَ السَّلَامِ وَيُخْرِجُهُـمْ مِّنَ الظُّلُمَاتِ اِلَى النُّوْرِ بِاِذْنِهٖ وَيَـهْدِيْـهِـمْ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيْـمٍ (16)

"اللہ سلامتی کی راہیں دکھاتا ہے اسے جو اس کی رضا کا تابع ہو، اور ایسے لوگوں کو اپنے حکم سے اندھیروں سے روشنی کی طرف نکالتا ہے، اور انہیں سیدھی راہ پر چلاتا ہے"۔

اندھیروں سے روشنی کی طرف نکالنے کا اختیار صرف پاک پروردگار کو ہے جو اس کی رضا کے طالب ہوتے ہیں اور زندگیاں ان کی حکم اللہ کے سامنے سجدہ ریز ہوتی ہیں۔  اس آیت میں ہمارے لئے روشنی کی راہیں تلاش کرنے کا راستہ بتایا گیا ہے۔ لیکن اس کے لئے دیکھنے والی آنکھ چاہیئے  اور وہ آنکھ اس روشنی کی طالب ہو اور رضا کی تابع ہو۔

قوس و قزح کو انسانی آنکھ صدیوں سے دیکھتی آ رہی ہے اور صدیاں دیکھتی رہے گی۔ اگر روشنی پانی کو آسمان پر اپنا عکس دیتی ہے تو انسان زمین پر رہ کر مٹی کی محبت سے روشنی کی طلب رکھنے کی  جستجوئے تلاش میں مٹی کے کھلونوں  سے کھیلنا اور اس کے کاروبار سے منافع حاصل کرنے کی روش شتر بے مہار  کا شکار رہتا ہے۔

رات سونے سے پہلے قرآنی آیات کا ورد اور آیت الکرسی کے پڑھنے سے اپنی خواب آور زندگی کو اللہ شان زوالجلال کی رحمتوں کے سائے میں دیا جائے تو دنیا اور آخرت میں اپنے لئے بخشش کی راہیں کھولنے کے اسباب پیدا ہوتے ہیں۔ لیکن دن کی روشنی میں گرد و غبار بن کر شعاؤں سے مڑ بھیڑ کر کے  قوس و قزح کے رنگ نہیں پائے جا سکتے۔ قوس و قزح کے رنگ پانے کے لئے بادل بن کر ایک سفر طے کر کے  زمین کی پیاس بجھا کر بچے کچھے قطروں سے رنگ جمائے جاتے ہیں۔ جس کے لئے رضا کی طلب اور تابع ہونا ضروری ہوتا ہے۔ قلب پر ہاتھ رکھ کر قرآن کھول کر جس آیت پر بھی انگلی رکھیں گے وہ اللہ سبحان تعالی کی حاکمیت اور بادشاہت کے اعلان میں اپنے قاری کو سجدہ ریزی کا حکم دیتی محسوس ہو گی۔ اللہ سبحان تعالی کا فرمان قرآن ہے جو ضابطہ حیات ہے جس میں دائرہ کار سے دائرہ اختیار تک ہر  موضوع پر تفصیل سے روشنی ڈالی گئی ہے۔

قرآن کھلے گا تو کائنات بھی کھلے گی کیونکہ اللہ سبحان تعالی سورۃ الطلاق میں فرماتے ہیں !

اَللَّـهُ الَّـذِىْ خَلَقَ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ وَّّمِنَ الْاَرْضِ مِثْلَـهُنَّۖ يَتَنَزَّلُ الْاَمْرُ بَيْنَـهُنَّ لِتَعْلَمُوٓا اَنَّ اللّـٰهَ عَلٰى كُلِّ شَىْءٍ قَدِيْرٌۙ وَّاَنَّ اللّـٰهَ قَدْ اَحَاطَ بِكُلِّ شَىْءٍ عِلْمًا (12)

اللہ ہی ہے جس نے سات آسمان پیدا کیے اور زمینیں بھی اتنی ہی، ان میں حکم نازل ہوا کرتا ہے تاکہ تم جان لو کہ اللہ ہر چیز پر قادر ہے، اور اللہ نے ہر چیز کو علم سے احاطہ کر رکھا ہے۔

 

محمودالحق

0 تبصرے:

Post a Comment

سوشل نیٹ ورک

Flag Counter