Feb 7, 2021

رانجھا رانجھا کر دی میں آپے رانجھا ہوئی

قرآن میرا مرشد اور قرآن ہی میری رہنمائی ۔ قرآن ہی میرا راستہ  اور قرآن ہی  بخشش کا ذریعہ۔ قرآن ہی میرا مقصد  اور قرآن ہی میرا مطلوب۔قرآن ہی میری نظر  اور قرآن ہی میری عنایت۔ قرآن ہی میری دنیا  اور قرآن ہی میری آخرت۔قرآن ہی میری رضا اور قرآن ہی میری جزا۔

جب آنکھیں بند کر کے سر جھکا دیا مالک کے حکم پر تو زندگی سے کیا اب بھیک مانگیں۔دنیا کے پاس دینے کے لئے  کیا،کتابوں سے اُٹھتا ہوا دُھواں جو خواہشات سے جلتا ہے۔ آنکھیں بند کر کے دل کی طرف رجوع کر کے اللہ کو پکاریں تودل ذکر سے منور ہو۔  جنہوں نے عمل سے رضا پائی ہو، وہ رجوع سے طالب دعائے مرشد رہتے ہیں۔تلوار کمر پہ باندھنے سے جنگ جیتی نہیں جا سکتی۔ جنگ کے بھی دستور و روایت اور کچھ اصول و ضوابط ہیں۔حیرانگی کی انتہا ہے جب فجر سے عشاء تک پانچ بار دنیا کے کونے کونے سے حی الصلاح حی الفلاح پکارا جاتا ہے۔ تو آٹے میں نمک کے برابر مسلمان اپنی صفیں درست رکھتے ہیں اورقیام کرتے ہیں۔معاشرے میں پائے جانے والے عیبوں کی فہرست اتنی طویل ہے کہ  اللہ سے مدد کے طلبگار ہیں۔ اللہ سبحان و تعالی سیدھے راستہ پر چلنے کے لئے انعام و اکرام کی خوش خبری دیتا ہے۔ لیکن ایک شرط ہے کہ اپنے عمل  سےاس انعام کے لئے طالبِ سفر ہوں۔

اپنا راستہ سیدھا رکھنے کی بجائے  اپنی خواہشیں پوری کرتے ہیں۔ بے ایمانی اور دھوکہ سے رزق کے حصول کی کوشش میں اگر کوئی اللہ کے حکم سے روگردانی کرے۔ اسے ہنس کر بڑا سمارٹ ہے کہہ کر سزا و جزا سے بری الذمہ قرار دے دیا جاتا ہے۔قرآن میں کافر اور منافقین  سے مسلمانوں کو  خود  کومحفوظ رکھنے اور ایمان پر قائم رہنے پر زور دیا گیا ہے۔ نیند کی گہری آغوش میں جانے  اور بیدار ہونے کے درمیان بستر پر پڑے رہنے کے ہم مسلمان ہیں۔ کیونکہ جاگنے کے بعد صرف انسان رہ جاتے ہیں۔عدل و انصاف کے بغیر کوئی بھی معاشرہ مساوی حقوق کا علمبردار نہیں ہو سکتا۔ جس معاشرے میں طاقتور مافیا کہلائے ، پیسہ بٹورنا پیسہ کمانے سے زیادہ معتبر ہو جائے تو  وہاں انسان عمل سے نہیں اپنے علم سے جانے جاتے ہیں،  کردار سے نہیں گفتار سے پہچانے جاتے ہیں۔ ہزاروں لاکھوں میں پیسہ بنانے والے قابل تقلید مانے جاتے ہیں لیکن اس کے مقابلے میں کروڑوں کو دھتکار کر اللہ کے حضور شرمندگی سے بچنے کے لئے ایک مثال بننے  کی بجائے بیوقوف و احمق ٹھہرائے جاتے ہیں۔ 

جب قرآن ہاتھوں میں کھلنے کی بجائے صرف چوم کر غلاف میں محفوظ رکھنے اور ثواب کی نیت مقصود ہو تو انسان کی تربیت کے عمل سے پہلو تہی کا جواز  فراہم کرنے کا سبب ہو جاتا ہے۔قرآن کو پاک غلاف میں لپیٹ کر رکھنا جنت میں اعلی مقام کے حصول کی گارنٹی نہیں دیتا۔ جنت کے دروازہ سے گزرنے کے لئے عمل کی کنجی سے  تالہ کو کھولنا پڑتا ہے اور اس کے لئے ایمان کو فرمان کے ترازو میں گناہوں کے پلڑے کے مقابلے میں بھاری کرنے کی ضرورت پیش آتی ہے۔قرآن کی ابتدائی آیت میں اللہ فرماتے ہیں :

  ذٰلِكَ الْكِتَابُ لَا رَيْبَ  فِيْهِ  هُدًى لِّلْمُتَّقِيْنَ  ( یہ کتاب ہے جس میں کوئی بھی شک نہیں، پرہیز گاروں کے لئے ہدایت ہے) 

جنہوں نے گناہوں کو زندگی کا اوڑھنا بچھونا بنایا ،  ان کے لئے تو کھلی چھوٹ ہے کہ وہ  اپنے کئے کے جواب دہ ہوں گے قیامت کے دن۔قرآن ہدایت ہے جو پرہیز گار ہیں اور اپنے عمل و کردار سے صراط مستقیم پر چلنے والے ہیں۔ وہ جو حکم رب ذوالجلال  پر اپنا سر خم تسلیم کر دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم حاضر ہیں  اے اللہ ہم حاضر ہیں۔ اللہ انہیں اپنی رحمت کے سائے میں گھیر لیتا ہے۔ پھر ان کی زبان سے نکلے حرفِ دعا کو قبولیت کے شرف سے سرفراز کر دیتا ہے۔ انسان گھاٹے کا سودا  کر کے نقصان اٹھانے والا ہے۔ اللہ کی رحمت  کو کسی ترازو میں تولا نہیں جا سکتا اور نہ ہی وہ کسی گنتی میں آتی ہے۔ اللہ سبحان و تعالی کی رحمتیں بخشش اور عنایات کے سمندر میں طلب کی کشتی پر سوار رہتی ہیں۔ اللہ سے مانگنے کا طریقہ اس کے حکم پر سر جھکانے سے سیکھا جا سکتا ہے۔ 

جب قرآن پر ہمارا یقین کامل ایسا ہو کہ اللہ ہے اور صرف اللہ ہی ہے ۔ زرہ کائنات سے لے کر سات آسمانوں تک ہر شے اسی کی تخلیق ہے اور اسی کی ثناء بیان کرتی ہے تو  یہ یقین کامل اس راستے پہ انسان کو ڈال دیتا ہے جہاں کن فیکون کے دائرے میں انسان داخل ہو جاتا ہے۔ اللہ کی رحمت میں پناہ پانے کے لئے عمل کارگر ہونا ضروری ہے اور عمل کی راست روی کے لئے قرآن کو ہدایت اور سیدھا راستہ دکھانے والا ماننا  ضروری ہے اور اس پر  علمدرآمد ایسے کرنا ضروری ہے کہ اللہ  ہر عمل سے ایسے آگاہ  ہو کہ وہ اپنے بندے کی نیت کو شرف قبولیت  بخشنے کے لئے فرشتوں کے پروں کا سایہ کر دے۔ 

اللہ سبحان  وتعالی اپنی تلاش میں آنے والوں کو ایسے خوش آمدید کہتا ہے کہ  عقل دنگ ہی نہیں رہ جاتی بلکہ غفور و رحیم کی اپنے بندے پر رحمت نزول کی کہکشاہوں کی برسات کا منظر دلکشا ہوتا ہے۔   اوکلوہاما امریکہ کے ایک چھوٹے سے شہر کویٹا میں ایک عیسائی نوجوان جب اللہ سبحان و تعالی کی سچی کتاب کی تلاش میں میرے  پاس آیا   تو  اس کی تلاش کے اس سفر میں میرا ایمان پہلے سے زیادہ مستحکم ہوا اور اللہ کے نام نے جس طرح اس گورے کو اپنی طرف رجوع کیا کسی طلسماتی کہانی   سے کم نہیں۔

 (سچے کلام کی شدتِ چاہ میں ایک منظر جو میری آنکھوں نے قلبِ کیفیت میں دیکھا دانستہ بیان کرنے سے رہ گیا تھا، نور ایمان کی گورے نوجوان کی قلبی کیفیت کو مزید جاننے کی خواہش پر اس تحریر میں قلمبند کر رہا ہوں) 

اللہ کی سچی ذات  اور اس کے سچے کلام کی تلاش میں مارا مارا پھرنے والا  عیسائی گورا  نوجوان پادریوں سے چرچ میں سوال کرتا کہ  خدا کا  سچا کلام کون سا ہے کیونکہ بقول اس کے بائبل بارہ کی تعداد میں ہیں اور ان میں سے اصل کون سی ہے۔ پادری اس نوجوان کو اس سوال کا جواب دینے سے قاصر تھے۔ قرآن کے بارے میں جب اس نے  مجھ سےجانا کہ وہ اپنی اصل حالت میں آج تک محفوظ ہے اور اس کی حفاظت کی ذمہ داری اللہ سبحان و تعالی نے خود اٹھا رکھی ہے۔ اس کے لئے اتنا معلوم ہو جانا کافی تھی۔  مجھے اس کی بے چینی اور بیتابی پر بہت ملال ہوا کہ جو اللہ کے اصل پیغام تک پہنچنا چاہتا ہے اور اسے کہیں سے جواب نہیں مل رہا۔ وہ بار بار اپنے سینے پر ہاتھ رکھتا تو مجھے اس کے قلب کے اندر بے چین روح کی تڑپ کا اندازہ ہوا۔میں نے دل ہی دل میں اپنے پاک پروردگار کو پکارا اور اللہ ۔۔۔اللہ۔۔۔ اللہ کہتے ہوئے اس کے دل پر ہاتھ رکھ دیا۔ بس یہ ہی وہ گھڑی تھی جس کا اسے انتظار تھا۔ وہ تڑپ اٹھا دونوں بازو میرے سامنے پھیلا کر کہنے لگا کہ میرے بدن میں خون کے ساتھ  رگوں میں کچھ دوڑ رہا ہے۔ مجھے بہت اچھا لگ رہا ہے اور سکون محسوس ہو رہا ہے۔ وہ ایسا نشہ تھا کہ جسے لفظوں میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔ اسے اللہ کی پہچان مل رہی تھی اور مجھے ایمان کی طاقت۔ ایک ہی وقت اللہ سبحان و تعالی  اپنے دو بندوں کو جو دو طرح سے اللہ سبحان و تعالی تک پہنچنے کی تگ و دو میں مصروف عمل تھے، اپنی کرامت سے  مختار کل ہونے کے اپنے مقام رب العالمین کا مفہوم سمجھا رہا تھا۔ یہ وہ لمحہ تھا جب  ایک انسان اللہ کی ایک کتاب بائبل سے قرآن تک آنے کے سفر سے گزر رہا تھا اور دوسرا مسلمان سے ایمان کی طاقت سے نئے سفر پر روانہ ہوا۔ اس دن کے بعد زمین پر بسنے والے زورآور اور طاقتور نہایت حقیر اور خاک کے زرے محسوس ہونے لگے۔   اللہ کا کلام صرف ہدایت نہیں زندگیوں پر نافذ فرمان  ہے جس کو مضبوطی سے پکڑ لینے سے انسان دنیاوی خواہشات و آرزوؤں  کی گرفت سے آزادی پا لیتا ہے۔  اللہ سبحان و تعالی جب یہ جان لیتا ہے کہ میرا بندہ جھکنے کے لئے صرف میرا در چاہتا ہے اور عمل کے لئے میری ہدایت تو وہ ہدایت  دے دیتا ہے اور عمل کی توفیق بھی دیتا ہے۔ اللہ جنہیں محبوب بنا لیتا ہے انہیں مشعل راہ بنا دیتا ہے۔ 

تحریر: محمودالحق


0 تبصرے:

Post a Comment

سوشل نیٹ ورک

Flag Counter