Oct 31, 2021

ادھوری عشق کہانی

دل تو ہمیشہ چاہا کہ وہ بات کروں جو دل پہ اثر رکھے ، دل سے نکلے لفظ روح تک پہنچیں۔ آج صرف اپنے لئے لکھ رہا ہوں  کیونکہ جو سفر اکیلے طے کیا ہو اس کی داستان سناتے سناتے ایک دہائی سے اوپر ہو گیا   اور مسافر کی عمر پانچ دہائیوں سے اوپر۔سولہ سائز کے کالر میں تیرہ سائز پہن کر بدن و گردن پر ایک مضبوط گرفت کے احساس سے نکلنے میں ایک لمحہ درکار ہوتا ہے۔ کہنے سننے کا وقت گزر جائے تو  تلاش رک جاتی ہے ۔ جاننے کی جستجو نہ رہے تو منزل رک جاتی ہے۔
جنہیں زندگی سے عشق  ہوتا ہے وہ آسائش و آرام کی گنتی کرتے ہیں ۔ آزمائشوں کے ذکر  صبر و تحمل سے بیگانہ ہوتے ہیں۔  چھوٹی گاڑیوں میں اپناسر چھت سے لگےتو پچھلی سواری کے گھٹنے کے لئے جگہ تنگ ہو جاتی ہے۔ کیونکہ  آگے پھیلتے ہیں اور پیچھے سکڑتے ہیں۔ زندگی اپنے چاہنے والوں کو مایوس نہیں کرتی، گنجائش پیدا کر دیتی ہے۔ انسان جب پھیلتا ہے تو دوسروں کو سکڑنے اور پیچھے ہٹنے پر مجبور کر دیتا ہے۔ چاہ کر بھی سیکھنے والے نہیں ملتے، صرف وہ ملتے ہیں جو صرف پانے کی چاہت رکھتے ہیں اور وہ  بھی اتنا کہ چند لمحات میں وہ اپنا اثر زائل کر دے ۔ زندگی جتنی مختصر ہے خواہشات کی زندگی بھی اتنی ہی محدود۔
گردش خون کی نالیاں جلد پر ابھر جاتی ہیں ،سخت زمین پر سونے سے بھی دل تک خون پہنچنے کی راہ میں رکاوٹ نہیں بن سکتیں کیونکہ قلب صرف اپنا خیال نہیں  رکھتا بلکہ پورے وجود کو فعال رکھنے کے لئے  متحرک رہتا ہے۔ جس کا کہا مانا جاتا ہے وہ دو تہائی مشقت سے چور ہو جاتا ہے اور  ایک تہائی وقت زندگی بھر استعمال کرتا ہے۔ پھر بھی تکبر کا مادہ پیدا کرنے سے باز نہیں رہتا۔  انسان اس کے زیر اثر اپنے زندگی بھر کے تجربات کی روشنی میں اندھیروں کی گہرائیوں میں جا اترتا ہے۔
فن پارہ ہو یا بت عاشق نامراد اپنے تخیل سے کینوس پر رنگ بکھیر دیتا ہے  لیکن اس میں احساس کی خوشبو سے محروم رکھتا ہے۔ خالق اپنی مخلوق کو تخلیق کے حسن سے احساس کی دعوت دیتا ہے۔لیکن انسان چولہے پر جلے  اور مشین پر ڈھلے لباس سے اپنی بقائے حیات کی جنگ لڑتا ہے۔ وہیں رہ کر دستارِ وفا کی منزلت و کبریائی چاہتا ہے۔
بوڑھے کی لاٹھی مضبوط ہو تو بڑھاپے سنبھل جاتے ہیں۔ کمر پر بوجھ بڑھ بھی جائے تو کمزور رگوں سے قلب خون کھینچ لیتا ہے ۔ بڑھاپے سپردِ لحد ہونے پر لاٹھی ٹوٹ نہیں جاتی بلکہ زمین پر ڈال دینے سے ہر مشکل اور کڑی آزمائش میں رکنے، ٹوٹنے، جھکنے اور گرنے سے بچائے رکھتی ہے۔ اپنے اپنے سفر کی کہانی ہے ، اپنی اپنی منزل کی راہ ہے، اپنے اپنے عمل کی جزاہے، جسے جو جاننا ہے وہ خود کو کریدے ، جسے جو پانا ہے وہ خود سے چاہے۔ جب سفر ایک نہیں تو نتیجہ ایک کیسے ہو گا۔ اپنی اپنی راہ ہے اپنا اپنا سفر۔ سوچ کے دھارے میں نفع و نقصان تولے جاتے ہیں۔ قلب کے استعارے خالق و مخلوق کے درمیان جزا  و رضا سے جڑے ہیں۔ راہوں سے راہیں جدا ہیں، سوچ سے سوچ بیگانہ ہے، خواہش  کے انتخاب سے آزمائش کی برداشت  حاصل اور لا حاصل کی  جنگ ِافکار ہے۔
پانے کے لئے بھاگ دوڑ ہے جینے کے لئے عیش و آرام ہے۔ کمپیوٹر کی یاد داشت کروڑوں اربوں انسانوں سے بڑھ کر ہے لیکن ایک مچھر کے پر کے برابر اس میں احساس  نہیں ہے۔ ایک سبق ہے زندگی کی دوڑ میں آگے بڑھنے کا جب دوسرے پیچھے رہ جاتے ہیں۔ کامیابی و کامرانی کے لئے ایک نسل دوسری نسل سے بہتر پلاننگ کر کے آگے بڑھ جاتی ہے۔ کامیابی و ترقی کا یہ سفر زمین کے لپیٹ دئیے جانے تک جاری رہے گا۔ اور انسان کفن میں لپٹے خالی ہاتھوں کو سپردِ لحد کرتے رہیں گے کیونکہ زندگی کی اصل حقیقت یہی ہے۔
تخلیق اپنے راستے خود اختیار کرتی ہے مخلوق سے اجازت کی طالب نہیں ہوتی۔ خشکی، تری اور ہوا میں رہنے والے اپنی جنس کا توازن برقرار رکھتے ہیں۔ رہتے ہیں ملتے ہیں پالتے ہیں پھر رخت سفر باندھ کر آنے والوں کو یہی موقع فراہم کرتے ہیں۔  انسان اپنے ہاں اولاد پیدا کرنے ، لڑکا یا لڑکی کی صورت بنانے کی اہلیت و اختیار سے محروم ہے۔ پھر دعوی ترقی و عروج کا کیا رہ جاتا ہے۔  پیچھے بچ جانے والے کس نئے نظام کی اصلاح و فلاح کے لئے کمربستہ رہتے ہیں؟
نیا نظام کچھ نہیں ، صرف ایک نظام ہے خالق کا تخلیق کردہ ، جس کی حقانیت قرآن سے ثابت ہے، جو سچ ہے، حقیقتِ عالم ہےجو وجود کائنات کے دائرہ اختیار پر مکمل کنٹرول رکھتا ہے۔ یقین کے ساتھ جینے میں  صبر و تحمل اور سیر و شکر کی جو رضا ہے  وہ  مٹی سے پیدا ہوئی ہر شے کو خون میں ڈھالنے جیسی ہے۔ کیونکہ زمین میں خون نہیں بنتا اور بدن میں خوشبو نہیں پیدا ہوتی۔ جس ہستی کے بدن کے بہتے پسینے میں خوشبو و مہک کا جلوہ تھا وہ خالقِ کائنات ربِ زوالجلال مالکِ دو جہان نے اپنے محبوب رسول مقبول محمد مصطفی ؑ رحمتہ للعالین کی صورت میں اس زمین پر پھیلایا۔ جن کی بدولت آج ہم اللہ سبحان و تعالی کے فرمان کی  حکم عدولی اور نافرمانی کے باوجود  اس امید کے ساتھ زندہ رہتے ہیں کہ ہم امت محمد صلی اللہ علیہ والیہ وسلم ہیں جو ہماری بخشش کے لیے ایک زریعہ ہے۔
ارشاد باری تعالی ہے
ترجمہ:
"آسمانوں اور زمین  اور ان کے درمیان سلطنت اللہ کی ہے"۔ سورۃ المائدہ ۔آیت 18
"اور اس سے بہتر کس کا قول جو بلائے اللہ کی طرف اور اچھے عمل کرے اور وہ کہے بیشک میں مسلمانوں میں سے ہوں"۔ سورۃ فصلت ۔آیت 33
 
تحریر: محمودالحق

0 تبصرے:

Post a Comment

سوشل نیٹ ورک

Flag Counter