Mar 14, 2023

سفر در سفر کہانی

آج پھر ایک سفر پر گامزن ہوں۔ زندگی کبھی رکتی تو کبھی چلتی ہے،خیالات سستانے کے لئے بے اعتنائی کی دوا چاہتے ہیں۔حالات جستجو و تمنا کی تحریک میں مبتلائے عشق ہوتے ہیں۔زندگی ایک عجب تماشا ہے جنہیں ڈھونڈتے ہیں انہیں دیکھتے نہیں ،جنہیں ملتےہیں انہیں جانتے نہیں۔
امرود کے باغات زیادہ توجہ مانگتے ہیں۔عدم توجہ سے کیڑے اپنا راستہ اختیار کر لیتے ہیں۔قلب احساس کی جگہ ہے،آنکھیں تلاش گمشدہ کےپیچھے لگی رہتی ہے۔باڑیں لگا دینے سے فصل محفوظ ہو جاتی ہےلیکن پھل پانے کے لئے جڑوں میں پانی دینا ہوتا ہے۔پودوں کے قریب رہ کرپھول سے پھل بننے تک کے عمل کی نگرانی کی جاتی ہے، تب کہیں جا کرذائقہ و رنگ حاصل ہوتا ہے۔
جب دستک دے دی جاتی ہے تو قفل لگے دروازے کھل جاتے ہیں۔اندر داخل نہ بھی ہوں ملاقات سے شرف یاب ہو جاتے ہیں۔مشکل باتیں سمجھناآسان نہیں ہو سکتا۔زندگی مٹی کی مانند تو نہیں جسے گوندھ کربھٹی میں اینٹ بنا لیا جائے، یہ پہاڑ کا پتھر ہے جسے تراشا جاتا ہےپھر کہیں مورت بنتی ہے۔قدم جب آگے بڑھتے ہیں تو نئی زمین پر پاؤںرکھتے ہیں،پیچھے رہ جانے والی زمین آگے نہیں بڑھتی۔
کھونٹے پہ بندھے جانور چارہ شوق سے کھاتے ہیں لیکن انسان قید      میں بہترین کھانے کے شوق سے محروم رہتا ہے۔
درخت کا سایہ کتنا ہی گھنا کیوں نہ ہو بانسوں پر چھپر ڈال کر ہی بارش سےبچا جا سکتا ہے۔پکی سڑک پر تیز رفتار سوار جلد منزل تک پہنچ جاتے ہیں۔پگڈنڈیوں سے راہ پانے والے قدموں کے بل پر گھر سےکھیتوں تک ہی پہنچ پاتے ہیں۔
درخت اپنی نظر نہیں اتارتے پھر بھی پھل دیتے ہیں کیونکہ نگران کی نظر نہیں چوکتی۔پھل دار نئے پودے اپنے چاروں اطراف مخصوص فاصلے اور ترتیب کو ملحوظ خاطر رکھتے ہیں۔
آج کا بیان  پیچیدگی سے بھرا ہے لیکن معنوی لحاظ سے ہدف آسان ہے۔کہنے سننے کا دور گزر جائے عمل پیرا ہونے کا وقت دامان ہے۔
جنہوں نے چلنا ہے وہ کمر کس لیں، سوچنے کا وقت نہیں،سنبھل کررہنے کا مقام ہے۔ڈاکٹر جب دل کا آپریشن  شروع کر دے تو مکمل کئے بنانہیں چھوڑتا۔
 
 تحریر! محمودالحق

0 تبصرے:

Post a Comment

سوشل نیٹ ورک

Flag Counter