فلاحی ریاست اپنے شہریوں کو ہاتھ پھیلانے سے باز رکھنے کے لئے بلا امتیاز مدد فراہم کرتی ہے۔ بچوں کی تعلیم اور صحت کا خصوصی بندوبست کرتی ہےتو بوڑھوں کے علاج معالجہ و خوراک کا خیال رکھتی ہے۔قابل اور ذہین نوجوان سفارش کی سیڑھی کے بغیر بلندیاں چھونے کے قابل بنائے جاتے ہیں۔رٹے لگانے سے رٹے رٹائے نتائج حاصل نہیں کئے جاتے بلکہ خودانحصاری کی تعلیم دی جاتی ہے۔ خودکفالت کے سبق میں عزت و احترام آدمیت کا مقام پیدا کیا جاتا ہے۔کھیل کے میدان آباد رکھے جاتے ہیں۔آگے بڑھنے کے لئے تنگ گلیوں سے گزرا جاتا ہے۔راستہ دینے پر شکریہ ادا کیا جاتا ہے۔پیدل چلنے والوں کو روندا نہیں جاتا۔پاؤں سے چلنے والے پاؤں سے تیز رفتاری سے چلانے والوں سے زیادہ اہم سمجھے جاتے ہیں۔سامنے سے آنے والوں کے لئے راستہ چھوڑا جاتا ہے تو پیچھے آنے والوں کے لئے دروازہ کھول کر رکھا جاتا ہے۔ معمولی کام پر شکریہ کہہ کر حوصلہ بڑھایا جاتا ہے۔مہنگے دام ارزاں سے بہتر بھی ہوتے ہیں پائیدار بھی۔
دسمبر 1903 میں رائٹ برادرز نے سائیکل بنانے کے ساتھ ساتھ جہاز کی اُڑان بھر کر دنیا کو ایک نئی جہت سے روشناس کرایا۔ جس کی وجہ سے آج لاکھوں افراد چند گھنٹوں میں ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچ جاتے ہیں بلکہ روبوٹ مریخ تک جا پہنچے۔ کردار سازی، نفسیات، تجارت ، تعلیم،حقوق انسانیت، سائنس ، فکشن ،تاریخ، ڈرامہ اور فلسفہ پر کتابیں لائبریریوں میں بھری پڑی ہیں۔
چودہ سو سال پہلے جہالت کے اندھیرے جس انداز میں ختم ہوئے۔مساوات، حقوق انسانی، فلاح آدمیت کا ایسا دستور پیش ہوا کہ دنیا نے پہلی بار فلاح اور اصلاح کا عملی نمونہ دیکھا۔ علم و فضل میں افضل سمجھنے والوں کے لئے چیلنج کیا گیا ۔
اور اگر تمہیں اس (کلام ) میں شک ہو جو ہم نے اپنے بندہ پر اُتاراتو اس جیسی ایک سورۃ لے آؤ : سورۃ البقرۃ آیت ۲۳
دنیا کا پہلا دستور حیات جو ریاست، فرد اور اقتدار کے درمیان حقوق و فرائض کی حدیں مقرر کرتا ہے۔جس نے مسلمانوں میں ایسے لوگ پیدا کئے جو علم و فضل میں یکتا تھے۔ علم ریاضی ہو یا علم فلکیات، کیمسٹری ہو یا حکمت ، اقتدار ہو یا معاشرہ، سائنس ہو یا تاریخ بے شمار پردے اُٹھا ئے گئے۔ مگر اقتدار کے نشہ نے مسلمان حکمرانوں کو جہالت کے اندھیروں میں ڈبو دیا۔کربلا کی زمین پر پھیلائی گئی سرخی آج بھی آسمان پر نظر آتی ہے۔ ظالم جابر کے سامنے صبر سیسہ پلائی دیوار بن کر ہمیشہ کے لئے کھڑا ہو گیا۔ انسانی تاریخ میں محسن انسانیت کے چشم و چراغ ایسے نہیں بجھائے گئے کبھی جیسے میدان کربلا میں ظلم ڈھائے گئے۔
صدیوں کی حکمرانی میں روز افزوں ترقی کی بجائے دن بدن انتشار و زوال نے معاشرے میں اتنے طبقات پیدا کر دیئے کہ ڈیڈھ اینٹ کی مسجد جیسی ضرب المثل روزمرہ جملوں میں استعمال ہونے لگی۔
وہ دستور حیات جوانسانیت کی میراث ہے اسے چند گروہوں نے اپنا ورثہ بنا لیا۔ قوم لوک ورثہ بن کر دھمال ڈال کر خوش ہے۔امتحان استاد اور سلیبس کا محتاج ہوتا ہے۔ ادارے قاعدے و قانون کی پاسداری کے۔
زندگی جو یقین کامل ، ایمان،دعا اور صبر و جزا سے لپٹی فرش و عرش سے جڑی انتظار کی کوفت سے پاک منزل کی جانب نہایت خاموشی سے رواں دواں رہتی ہے۔
مسلمان نے خود کو حلقہ ارباب ذوق اور حلقہ ارباب اختیار تک محدود کر لیا۔ برصغیر پاک و ہند کے مسلمان حکمرانوں کی بیش بہا خدمات میں باغات، قلعے،شیش محل ،بارہ دریاں اور آخری مغل حکمران بہادر شاہ ظفر کے دربار میں منعقد محافل مشاعرہ کی داستانیں زبان زد عام ہیں۔اقبالیات اور غالبیات کے علاوہ کچھ بھی نہیں دنیا کو دکھانے کے لئے کیونکہ یہی ہماری لائبریری ہیں اور لیبارٹری بھی۔
محبت کے ایک شعر پر فدا ہونے والے ہزاروں کی تعداد میں شعر و سخن کے دلدادہ واہ واہ کے ترانے آلاپتے ہیں تو دوسری طرف سیاسی دانشور جھوٹ کو سچ باور کروانے والے عقل کن قبریں کھودے بیٹھے ہیں گورکن کی طرح۔
پھلوں کو سکرین کے ٹیکے سے میٹھا کرنے اور کیمیکل سے دودھ بنانے والے سائنسدان بھی کسی سے الگ نہیں۔بیماری سے مرنے والی مرغیوں کی کھالیں اُتار کر مرغ کڑاہی بنانے والوں کے ساتھ ساتھ گدھے اور کتے کا گوشت بیچنے والے بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے میں دو ہاتھ آگے ہیں۔
لوٹ مار ، اقربا پروری، رشوت ستانی اور بےایمانی نے نظام ڈھیلا اور معاشرہ کس رکھا ہے۔ اتنا علم نہیں بچا جتنے عالم ہیں۔نسوانی پوسٹ پر حاضری لگوانے والوں کی عمر کی کوئی قید نہیں۔ تصویر شئیر ہونے پر تو صدقے واری تک چلے جاتے ہیں۔
تعجب بالکل نہیں ہوتا کیونکہ سینکڑوں سالوں میں جو بیج بویا جاتا رہا۔ تنآور درخت بننے پر اُسے کاٹنے میں تردد کیسا۔
ایمان والے ہدایت پانے والوں میں سے ہیں اور نافرمان گمراہ کئے جانے والوں میں سے۔
تحریر: محمودالحق
0 تبصرے:
Post a Comment